امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸ھ) کی نظر میں
مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
الاجماع کے پچھلے شمارے
میں صحیح اسناد سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ امام اعظم ابوحنیفہ (م۰ ۱۵ھ) امام
الجرح والتعدیل یحی بن معین ؒ (م۲۳۳ھ)
کے نزدیک ثقہ ،صدوق ہیں ۔
اب یہاں پر امام ابوحنیفہ
ؒ (م ۱۵۰ھ)
کے بارے میں معتبر اسناد کے ساتھ امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸ھ)
کی رائے ملاحظہ فرمائیں :
۱) امام
ابو المؤید موفق بن احمد المکی ؒ(م ۵۶۸ھ)
فرماتے ہیں کہ:
اخبرنی
الحافظ ابوالخیر عبدالرحیم بن محمد بن احمد فیما کتب الی من اصبہان انا ابو الفرج
سعید بن ابی الرجا ء الصیرفی باصبہان اذنا انا ابوالحسین محمد بن احمد الاسکاف انا
ابو عبداللہ محمد بن اسحق بن مندہ انا الامام ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب
الحارثی انا سلیمان بن داؤد المہری سمعت ابا یعقوب المروزی سمعت ابن عیینہ یقول
لم یکن فی زمان ابی حنیفۃ بالکوفۃ رجل افضل منہ واورع ولا افقہ منہ ۔
امام سفیان بن عیینہ ؒ(م
۱۹۸ھ)کہتے
ہیں کہ کوفہ میں امام ابو حنیفہ ؒ کے زمانے میں ان سے افضل کوئی نہ تھا اور نہ ان
سے زیادہ تقوی والا کوئی تھا اور نہ ان سے بڑا فقیہ کوئی تھا ۔(مناقب
امام اعظم ابو حنیفہ للمکی ص:۱۸۸،واسنادہ
حسن)[1]
اسکین :
دیکھئے !
امام سفیان بن عیینہ
ؒ کہہ رہے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ سے افضل
شہر کوفہ میں کوئی نہ تھا بالفاظ دیگر امام ابوحنیفہ ؒ جیسا کوفہ میں کوئی نہ تھا
۔اسی طرح ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور ان سے بڑا فقیہ بھی کوئی نہ تھا ۔
کسی راوی کے بارے میں
کہنا کہ ان جیسا کوئی نہیں ہے یا اس کی کوئی مثال نہیں،یا اس سے بہتر اور افضل
کوئی نہیں،یہ تمام الفاظ ’’افعل ‘‘کے صیغے اور ’’لا
اعرف لہ نظیرا ً‘‘ (میں اس کا مثل نہیں جاتنا ہوں ) کہ
ہم معنی ہونیکی وجہ سے، (محدثین کے نزدیک )توثیق کے اعلی درجے کے الفاظ ہیں ۔(فتح
المغیث ج :۲ص:۱۱۴)[2]
معلوم
ہوا کہ امام سفیان بن عیینہ ؒ (م۱۹۸ھ)
کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ) ثقہ اور ثبت سے بھی اعلیٰ ہیں۔
(۲) حافظ
المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ (م ۴۶۳ھ)
کہتے ہیں کہ :
انبأنا
محمد بن احمد بن رزق ،قال
:حدثنا محمد بن عمر الجعابی قال: حدثنی ابوبکر ابراہیم بن محمد بن داؤد بن سلیمان
القطان قال: حدثنا اسحق بن البہلول قال: سمعت ابن عیینۃ یقول : ما مقلت عینی مثل
ابی حنیفۃ۔
امام سفیان بن عیینہ ؒ
(جنہوں نے امام مالک ؒ ،اما م سفیان ثوریؒ ،امام لیث بن سعد ؒ ،امام اوزاعی ؒ ،
امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کو دیکھا ہے لیکن وہ ) کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے
امام ابو حنیفہ ؒ جیسا نہیں دیکھا ۔ ( تاریخ بغداد ج:۱۵ص:۴۵۹، تحقیق بشار عواد معروف،مسند
امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:
۱۶۳)[3]
اسکین : تاریخ
بغداد
اور غیر مقلدین کے محدث
،ڈاکٹر بشار العواد معروف نے اسکی سند کوصحیح کہا
ہے ۔(تاریخ بغداد ج: ۵ ۱ص:
۴۵۹)
نیزحافظ ابن حجرؒ اور ان
کے شاگرد حافظ سخاوی ؒ اور غیر مقلد عالم وغیر ہ کے حوالے سے گزر چکا کہ ’’ما
مقلت عینی مثل ابی حنیفۃ ‘‘ کے
الفاظ کا تعلق تعدیل کے اعلی درجے سے ہے ،جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ۔ (دیکھئے،ص:
۶۵)
تومعلوم ہوا کہ امام سفیا
ن بن عیینہ ؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہ ؒ انتہائی ثقہ اور مضبوط راوی ہیں ۔
۳) امام
سفیان بن عیینہؒ (م ۱۹۸ھ)
نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے ۔( مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۲۰۸،۲۰۹، جامع المسانید
ج:۱ص:۴۷۱،مسند امام ابوحنیفہ
بروایت حارثی ج : ۱
ص:۱۲۴،ص:۷۸۷)
اور امام ابن عیینہ ؒ
اپنے نزدیک صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں ،جیسا کہ غیرمقلد اہل حدیث عالم شیخ
ابوالحسن مصطفی بن اسماعیل السلیمانی کا کہنا ہے ،جو کہ شیخ البانی اور شیخ مقبل کے شاگرد ہیں ۔ (اتحاف النبیل ج:۲ص:۹۶)
اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتا
ہے کہ امام ابوحنیفہؒ (م ۱۵۰ھ)
امام سفیان بن عیینہ ؒ کے نزدیک ثقہ ہیں۔
نیز امام سفیان بن عیینہ
ؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں اور بھی تعریف منقول ہے۔ مثلاً:
۴) حافظ
المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ (م ۴۶۳ھ)
کہتے ہیں کہ :
أخبرنا محمد بن أحمد
بن رزق قال: سمعت ابانصر واخبرنا الحسن بن ابی بکر قال: اخبرنا ابو نصر احمد بن
نصر بن محمد بن اسکاف البخاری ،قال سمعت ابا اسحق ابراہیم بن محمد بن سفیان ،یقول
:سمعت علی بن سلمۃ یقول :سمعت سفیان بن عیینۃ یقول رحم اللہ ابا حنیفۃ ،کان من
المصلین اعنی :انہ کان کثیر الصلاۃ ۔
علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ
میں نے سفیان بن عیینہ ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ ابوحنیفہ ؒ پر رحم کرے وہ کثر ت
سے نماز پڑھنے والے تھے ۔علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ اس سےمراد یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ
نماز پڑھا کرتے تھے ۔(تاریخ بغداد ج:۱۵ص:۴۸۲،شیخ
بشار عواد معروف اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں )
اسکین :
۵) حافظ
المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ (م ۴۶۳ھ)
کہتے ہیں کہ :
اخبرنی ابراہیم بن مخلد
المعدل قال: حدثنا القاضی ابوبکر احمد بن کامل املاء قال : حدثنا محمد بن اسمعیل
السلمی قال:حدثنا عبداللہ بن الزبیر الحمیدی قال:سمعت سفیان بن عیینۃ یقول : شیئان
ماظننت انہما یجاوز ان قنطرۃ الکوفۃ وقد بلغا الافاق قراء ۃ حمزۃ ورأی ابی حنیفۃ
۔
سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں
کہ دوچیزوں کے باریمیں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں کریں گی لیکن
وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قراء ت اور دوسرے ابوحنیفہ ؒ کے
اجتہادات ۔ (تاریخ بغداد ج:۱۵
ص:۴۷۵،شیخ
بشار عواد معروف اسکی سند کو بھی صحیح
کہتے ہیں )
اسکین :
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
اول امام صاحبؒ کا اجتہاد پوری دنیا میں پھیل
گیا اگر امام کی فقہ گندی تھی یا ان کی رائے دینے کے قابل نہ تھی یا اس سے اسلام
کو نقصان پہنچاتھا تو اس کے پھیلنے سے تعجب ہے اور اسے تسلیم کرنے والوں پر بھی ۔
ثانی یہاں پر لفظ اجتہاد استعمال ہوا ہے جو
اشارہ کررہاہے کہ امام مجتہد تھے ۔
[1] راویوں
کی تحقیق ملاحظہ فرمائیے :
۱)
امام ابو المؤید موفق بن احمد المکی ؒ(م ۵۶۸ھ) صدوق
ہیں جس کی تفصیل ص :۷۰ پر موجود ہے۔
۲) حافظ
ابو الخیر عبدالرحیم بن محمد بن احمد الاصبہانی ؒ (م ۵۶۸ھ) بھی
صدوق ہیں ۔
حافظ ذہبی ؒ کہتے ہیں کہ الامام
،الحافظ ،العالم الکبیر ،اور
الحافظ المتقن بھی کہتے ہیں ۔حافظ ابو محمدبن
الاخضر ؒ (م۶۱۱ھ)
نے آپ کی تعریف کی ہے اور حافظ ابن نجّار ؒ (م ۶۴۳ھ)
نے کہا کہ آپ حفاظ حد یث میں سے ہیں اور فضل اور حدیث کی معرفت والے ہیں ۔(سیر
اعلام النبلاء ج:۲۰
ص : ۵۷۳
، تذکرۃ الحفاظ ج:۴ص:۷۸،تاریخ الاسلام ج:۱۲ ص:۳۹۵)
۳) ابوالفرج
سعید بن ابی رجاء ؒ(م ۵۳۲ھ)
بھی ثقہ اور نیک تھے ۔(العبر ج:۲ص:۴۴۲،تاریخ الاسلام ج:۱۱ص:۵۷۰)
۴) ابوالحسین
احمد بن محمد الاسکافی ؒ بھی صدوق درجے کے راوی ہیں ۔ان کو ابن قیسرانیؒ (م ۵۰۷ھ)
نے المقری المحدث کہا
ہے ۔(المؤتلف والمختلف لابن القیسرانی ص:۱۵۶)
۵) امام
ابوعبداللہ محمد بن اسحق بن مندہؒ (م ۳۹۵ھ) مشہور
ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔( کتاب الثقات ج:۸ص: ۱۷۷، تاریخ الاسلام ج:۸ص:۷۵۵)
۶) امام
ابومحمد عبداللہ بن محمد الحارثی ؒ (م ۳۴۰ھ)
کی توثیق دوماہی مجلہ شمارہ نمبر:۲ص:۸۹پر موجود ہے۔
نیز امام ابومحمد الحارثی
ؒ اسمیں منفرد بھی نہیں ہیں ۔بلکہ ان کے متابع میں امام حافظ ابوبکر ابن الجعابیؒ (م
۳۵۵ھ)
[ثقہ]موجود ہیں ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
معلوم ہواکہ امام حارثی ؒ
صدوق اور ثقہ ہیں ۔
۷) سلیمان
بن داؤد الہروی
ؒ جو کہ امام حارثی ؒ کے استاذ ہیں ،ان کے
بارے میں تفصیل یہ ہے :
ان کا پورا نام ابوسعید
سلیمان بن داؤد الہروی
ؒ ہے۔(مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت حارثی ص:۲۲) اور خطیب البغدادیؒ نے ان
کے لقب میں’ المہری ‘کا
بھی ذکر کیا ہے ،چنانچہ خطیب کے الفاظ یہ ہیں ’’
ابوسعید المستملی سلیمان بن داؤد المہری
‘‘۔ ( الکفایہ للخطیب ص:۲۷۴،مشیخۃ
قاضی المارستان ج:۳
ص : ۱۳۲۹)
ابوسعید سلیمان بن داؤد المہری
الہروی کا تعین کرتے ہوئے ،الکفایہ
للخطیب ،مطبوعہ
المکتبہ العلمیہ المدینۃ المنورۃ کے دو محقق شیخ ابو
عبداللہ السورقی اور شیخ ابراہیم حمدی المدنی کہتے ہیں کہ :
کذا
فی الاصلین وظاہرہ ان ابا سعید المستملی ہو سلیمان بن داؤد المہری ۔وفی التہذیب
سلیمان بن داؤد ابن حمادبن سعد المہوی ابوالربیع ۔۔۔واللہ اعلم ۔
اسی طرح دونوں اصل (مخطوطے
) میں ہیں اور ظاہر ہے کہ ابو سعید المستملی سے مراد سلیمان بن داؤد المہری
ہیں ۔(جیسا کہ خطیب البغدادی ؒ نے اوپر ذکر کیا ہے ) اور تہذیب میں (ایک راوی
موجود ) ہیں (جن کا نام ) سلیمان بن داؤد بن حماد بن سعد المہری ،ابو رابعی ہے
۔۔۔۔واللہ اعلم ۔(ص: ۲۷۶)
نوٹ :
ایک راوی کے دو ، دو کنیت
ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے، کیونکہ اسماء الرجال کے سیکڑوں رُوات ہیں، جن کی ایک
سے زیادہ کنیت موجود ہے، تفصیل کے لئے تہذیب التہذیب اور تقریب التہذیب کا مطالعہ
کریں ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ
یہاں اس ( مناقب للموفق المکی ) والی روایت میں ابو سعید سلیمان بن داؤد الہروی
المہری سے مراد ،سلیمان
بن داؤد بن محمد الہروی ہی ہے جو کہ ثقہ راوی ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۵۵۱)
۸) ابو
یعقوب المروزی ؒ جن کا نام اسحق بن ابی اسرائیل ؒ (م ۲۴۵ھ)
بھی ثقہ ،حافظ ہیں ۔( الکاشف رقم :۲۸۳)
۹) امام
سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸ھ)
مشہور ثقہ ،امام ،فقیہ اور حجت ہیں۔(تقریب رقم:۲۴۵۱)
معلوم ہوا کہ یہ سند حسن درجے کی ہے ۔
[2] حافظ
سخاویؒ کے الفاظ یہ ہیں:
’’ارفع
مراتب (التعدیل) ما أتی، کما قال شیخنا، بصیغۃ أفعل، کأن یقال: أوثق الناس،
أو أثبت الناس، أو نحوھما، مثل قول ھشام بن حسان،حدثنی أصدق من ادرکت من البشر
محمد بن سیرین، لما تدل علیہ ھذہٖ الصیغۃ من الزیادۃ۔
والحق
بھا شیخنا: ’’الیہ المنتھی فی التثبت‘‘ وھل یلتحق بھا مثل قول الشافعي في ابن
مھدي، لا أعرف لہ نظیراً فی الدنیا؟ متحمل۔‘‘ (فتح
المغیث: ج۲،ص۱۱۴)
نیز غیرمقلد ڈاکٹر اقبال
احمد بسکوہری نے بھی یہی بات کہی ہے۔ (الجرح والتعدیل: ص۲۲۳)
[3] اس روایت کے راویوں کی
تفصیل حاضر ہے:
۱) حافظ
المغرب امام خطیب البغدادیؒ (م ۴۶۳ھ)
مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔(کتاب الثقا ت للقاسم ج:۱ص:۴۱۸)
۲) ان
کے استاذ محمد بن احمد بن رزق المعروف بن رزقاوی ؒ (م ۴۱۲ھ)
بھی ثقہ ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص:۱۲۵)
۳) حافظ
ابوبکر محمد بن عمر الجعابیؒ (م ۳۵۵ھ) بھی
جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔تفصیل کے دیکھئے دوماہی مجلہ الاجماع ج:۲ص:۲۱۔
اور پھر ان سے یہ روایت
امام ابو نعیم ؒ (م ۴۳۰ھ)
نے بھی بیان کیا ہے ۔( مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت ابونعیم ص:۲۱)
نیز دیکھئے (مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۱۶۳)
۴) ابوبکر
ابراہیم بن محمد بن داؤد القطان ؒ کا ترجمہ تاریخ بغداد ج:۷ص: ۹۹پر موجود ہے ،جن کو
دیکھنے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ثقات کے موافق روایت والے تھے ۔اور غیر مقلد محدث
،بشار عواد معروف نے انہیں ثقہ مانتے ہیں ۔(تاریخ بغداد ج : ۱۵ ص : ۵۹ ۴) لہذا
یہ بھی ثقہ ہیں ۔
۵) اسحٰق
بن بہلول ؒ (م ۲۵۲ھ)
بھی ثقہ اور صدوق ہیں ۔( تاریخ بغداد ج:۷ص:۳۹۰)
۶) اسحق
بن ابی اسرائیل ؒ (م ۲۴۵ھ)
اور
۷) امام
سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸ھ)
کی توثیق گزر چکی ۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں