نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں

 


امام اعظم  ابوحنیفہ ؒ  ۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

الاجماع کے پچھلے شمارے میں صحیح اسناد سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ امام اعظم ابوحنیفہ ۰ ۱۵؁ھ) امام الجرح والتعدیل یحی بن معین ؒ ۲۳۳؁ھ) کے نزدیک ثقہ ،صدوق ہیں ۔

اب یہاں پر امام ابوحنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ) کے بارے میں معتبر اسناد کے ساتھ امام سفیان بن عیینہ ؒ ۱۹۸؁ھ) کی رائے ملاحظہ فرمائیں :

۱)           امام ابو المؤید موفق بن احمد المکی ؒ(م ۵۶۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              اخبرنی الحافظ ابوالخیر عبدالرحیم بن محمد بن احمد فیما کتب الی من اصبہان انا ابو الفرج سعید بن ابی الرجا ء الصیرفی باصبہان اذنا انا ابوالحسین محمد بن احمد الاسکاف انا ابو عبداللہ محمد بن اسحق بن مندہ انا الامام ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی انا سلیمان بن داؤد المہری سمعت ابا یعقوب المروزی سمعت ابن عیینہ یقول لم یکن فی زمان ابی حنیفۃ بالکوفۃ رجل افضل منہ واورع ولا افقہ منہ ۔

امام سفیان بن عیینہ ؒ(م ۱۹۸؁ھ)کہتے ہیں کہ کوفہ میں امام ابو حنیفہ ؒ کے زمانے میں ان سے افضل کوئی نہ تھا اور نہ ان سے زیادہ تقوی والا کوئی تھا اور نہ ان سے بڑا فقیہ کوئی تھا ۔(مناقب امام اعظم ابو حنیفہ للمکی ص:۱۸۸،واسنادہ حسن)[1]

اسکین :


دیکھئے !      

امام سفیان بن عیینہ ؒ  کہہ رہے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ سے افضل شہر کوفہ میں کوئی نہ تھا بالفاظ دیگر امام ابوحنیفہ ؒ جیسا کوفہ میں کوئی نہ تھا ۔اسی طرح ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور ان سے بڑا فقیہ بھی کوئی نہ تھا ۔

کسی راوی کے بارے میں کہنا کہ ان جیسا کوئی نہیں ہے یا اس کی کوئی مثال نہیں،یا اس سے بہتر اور افضل کوئی نہیں،یہ تمام الفاظ ’’افعل ‘‘کے صیغے اور ’’لا اعرف لہ نظیرا ً‘‘ (میں اس کا مثل نہیں جاتنا ہوں ) کہ ہم معنی ہونیکی وجہ سے، (محدثین کے نزدیک )توثیق کے اعلی درجے کے الفاظ ہیں ۔(فتح المغیث ج :۲ص:۱۱۴)[2]

معلوم ہوا کہ امام سفیان بن عیینہ ؒ   (م۱۹۸؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) ثقہ اور ثبت سے بھی اعلیٰ ہیں۔

 (۲)         حافظ المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

              انبأنا محمد بن احمد بن رزق ،قال :حدثنا محمد بن عمر الجعابی قال: حدثنی ابوبکر ابراہیم بن محمد بن داؤد بن سلیمان القطان قال: حدثنا اسحق بن البہلول قال: سمعت ابن عیینۃ یقول : ما مقلت عینی مثل ابی حنیفۃ۔

امام سفیان بن عیینہ ؒ (جنہوں نے امام مالک ؒ ،اما م سفیان ثوریؒ ،امام لیث بن سعد ؒ ،امام اوزاعی ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کو دیکھا ہے لیکن وہ ) کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ جیسا نہیں دیکھا ۔ ( تاریخ بغداد ج:۱۵ص:۴۵۹، تحقیق بشار عواد معروف،مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص: ۱۶۳)[3]

اسکین :  تاریخ بغداد


 

اور غیر مقلدین کے محدث ،ڈاکٹر بشار العواد معروف نے اسکی سند کوصحیح کہا ہے ۔(تاریخ بغداد ج: ۵ ۱ص: ۴۵۹)

نیزحافظ ابن حجرؒ اور ان کے شاگرد حافظ سخاوی ؒ اور غیر مقلد عالم وغیر ہ کے حوالے سے گزر چکا کہ ’’ما مقلت عینی مثل ابی حنیفۃ ‘‘ کے الفاظ کا تعلق تعدیل کے اعلی درجے سے ہے ،جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ۔ (دیکھئے،ص: ۶۵)

تومعلوم ہوا کہ امام سفیا ن بن عیینہ ؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہ ؒ انتہائی ثقہ اور مضبوط راوی ہیں ۔

۳)          امام سفیان بن عیینہؒ ۱۹۸؁ھ) نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے ۔( مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۲۰۸،۲۰۹، جامع المسانید ج:۱ص:۴۷۱،مسند امام ابوحنیفہ بروایت حارثی ج : ۱ ص:۱۲۴،ص:۷۸۷)

اور امام ابن عیینہ ؒ اپنے نزدیک صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں ،جیسا کہ غیرمقلد اہل حدیث عالم شیخ ابوالحسن مصطفی بن اسماعیل السلیمانی کا کہنا ہے ،جو کہ شیخ البانی اور شیخ  مقبل کے شاگرد ہیں ۔ (اتحاف النبیل ج:۲ص:۹۶)

اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ ۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ کے نزدیک ثقہ ہیں۔

نیز امام سفیان بن عیینہ ؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں اور بھی تعریف منقول ہے۔ مثلاً:

۴)      حافظ المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق قال: سمعت ابانصر واخبرنا الحسن بن ابی بکر قال: اخبرنا ابو نصر احمد بن نصر بن محمد بن اسکاف البخاری ،قال سمعت ابا اسحق ابراہیم بن محمد بن سفیان ،یقول :سمعت علی بن سلمۃ یقول :سمعت سفیان بن عیینۃ یقول رحم اللہ ابا حنیفۃ ،کان من المصلین اعنی :انہ کان کثیر الصلاۃ ۔

علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ ابوحنیفہ ؒ پر رحم کرے وہ کثر ت سے نماز پڑھنے والے تھے ۔علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ اس سےمراد یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے ۔(تاریخ بغداد ج:۱۵ص:۴۸۲،شیخ بشار عواد معروف اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں )

اسکین : 


۵)          حافظ المشرق ،امام خطیب البغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

اخبرنی ابراہیم بن مخلد المعدل قال: حدثنا القاضی ابوبکر احمد بن کامل املاء قال : حدثنا محمد بن اسمعیل السلمی قال:حدثنا عبداللہ بن الزبیر الحمیدی قال:سمعت سفیان بن عیینۃ یقول : شیئان ماظننت انہما یجاوز ان قنطرۃ الکوفۃ وقد بلغا الافاق قراء ۃ حمزۃ ورأی ابی حنیفۃ ۔

سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے باریمیں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قراء ت اور دوسرے ابوحنیفہ ؒ کے اجتہادات ۔ (تاریخ بغداد ج:۱۵ ص:۴۷۵،شیخ بشار عواد معروف  اسکی سند کو بھی صحیح کہتے ہیں )

اسکین : 


اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

اول         امام صاحبؒ کا اجتہاد پوری دنیا میں پھیل گیا اگر امام کی فقہ گندی تھی یا ان کی رائے دینے کے قابل نہ تھی یا اس سے اسلام کو نقصان پہنچاتھا تو اس کے پھیلنے سے تعجب ہے اور اسے تسلیم کرنے والوں پر بھی ۔

ثانی         یہاں پر لفظ اجتہاد استعمال ہوا ہے جو اشارہ کررہاہے کہ امام مجتہد تھے ۔

الغرض اس پوری تحقیق سے معلوم ہواکہ امام سفیان بن عیینہؒ سے نزدیک امام ابوحنیفہؒ  ثقہ مضبوط اور سچے مجتہد ہیں


[1]  راویوں کی تحقیق ملاحظہ فرمائیے :

۱)               امام ابو المؤید موفق بن احمد المکی ؒ(م ۵۶۸؁ھ) صدوق ہیں جس کی تفصیل ص :۷۰ پر موجود ہے۔

۲)              حافظ ابو الخیر عبدالرحیم بن محمد بن احمد الاصبہانی ؒ (م ۵۶۸؁ھ) بھی صدوق ہیں ۔

حافظ ذہبی ؒ کہتے ہیں کہ الامام ،الحافظ ،العالم الکبیر ،اور الحافظ المتقن بھی کہتے ہیں ۔حافظ ابو محمدبن الاخضر ؒ ۶۱۱؁ھ) نے آپ کی تعریف کی ہے اور حافظ ابن نجّار ؒ ۶۴۳؁ھ) نے کہا کہ آپ حفاظ حد یث میں سے ہیں اور فضل اور حدیث کی معرفت والے ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء ج:۲۰ ص : ۵۷۳ ، تذکرۃ الحفاظ ج:۴ص:۷۸،تاریخ الاسلام ج:۱۲ ص:۳۹۵)

۳)             ابوالفرج سعید بن ابی رجاء ؒ(م ۵۳۲؁ھ) بھی ثقہ اور نیک تھے ۔(العبر ج:۲ص:۴۴۲،تاریخ الاسلام ج:۱۱ص:۵۷۰)

۴)             ابوالحسین احمد بن محمد الاسکافی ؒ بھی صدوق درجے کے راوی ہیں ۔ان کو ابن قیسرانیؒ ۵۰۷؁ھ) نے المقری المحدث کہا ہے ۔(المؤتلف والمختلف لابن القیسرانی ص:۱۵۶)

۵)             امام ابوعبداللہ محمد بن اسحق بن مندہؒ ۳۹۵؁ھ) مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔( کتاب الثقات ج:۸ص: ۱۷۷، تاریخ الاسلام ج:۸ص:۷۵۵)

۶)              امام ابومحمد عبداللہ بن محمد الحارثی ؒ ۳۴۰؁ھ) کی توثیق دوماہی مجلہ شمارہ نمبر:۲ص:۸۹پر موجود ہے۔

نیز امام ابومحمد الحارثی ؒ اسمیں منفرد بھی نہیں ہیں ۔بلکہ ان کے متابع میں امام حافظ ابوبکر ابن الجعابیؒ ۳۵۵؁ھ) [ثقہ]موجود ہیں ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔

معلوم ہواکہ امام حارثی ؒ صدوق اور ثقہ ہیں ۔

۷)             سلیمان بن داؤد الہروی ؒ  جو کہ امام حارثی ؒ کے استاذ ہیں ،ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے :

ان کا پورا نام ابوسعید سلیمان بن داؤد الہروی ؒ ہے۔(مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت حارثی ص:۲۲) اور خطیب البغدادیؒ نے ان کے لقب میں’ المہری ‘کا بھی ذکر کیا ہے ،چنانچہ خطیب کے الفاظ یہ ہیں ’’ ابوسعید المستملی سلیمان بن داؤد المہری ‘‘۔ ( الکفایہ للخطیب ص:۲۷۴،مشیخۃ قاضی المارستان ج:۳ ص : ۱۳۲۹)

ابوسعید سلیمان بن داؤد المہری الہروی کا تعین کرتے ہوئے ،الکفایہ للخطیب ،مطبوعہ المکتبہ العلمیہ المدینۃ المنورۃ کے دو محقق شیخ ابو عبداللہ السورقی اور شیخ ابراہیم حمدی المدنی کہتے ہیں کہ :

                  کذا فی الاصلین وظاہرہ ان ابا سعید المستملی ہو سلیمان بن داؤد المہری ۔وفی التہذیب سلیمان بن داؤد ابن حمادبن سعد المہوی ابوالربیع ۔۔۔واللہ اعلم ۔

اسی طرح دونوں اصل (مخطوطے ) میں ہیں اور ظاہر ہے کہ ابو سعید المستملی سے مراد سلیمان بن داؤد المہری ہیں ۔(جیسا کہ خطیب البغدادی ؒ نے اوپر ذکر کیا ہے ) اور تہذیب میں (ایک راوی موجود ) ہیں (جن کا نام ) سلیمان بن داؤد بن حماد بن سعد المہری ،ابو رابعی ہے ۔۔۔۔واللہ اعلم ۔(ص: ۲۷۶)

نوٹ :

ایک راوی کے دو ، دو کنیت ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے، کیونکہ اسماء الرجال کے سیکڑوں رُوات ہیں، جن کی ایک سے زیادہ کنیت موجود ہے، تفصیل کے لئے تہذیب التہذیب اور تقریب التہذیب کا مطالعہ کریں ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں اس ( مناقب للموفق المکی ) والی روایت میں ابو سعید سلیمان بن داؤد الہروی المہری سے مراد ،سلیمان بن داؤد بن محمد الہروی ہی ہے جو کہ ثقہ راوی ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۵۵۱)

۸)             ابو یعقوب المروزی ؒ جن کا نام اسحق بن ابی اسرائیل ؒ ۲۴۵؁ھ) بھی ثقہ ،حافظ ہیں ۔( الکاشف رقم :۲۸۳)

۹)              امام سفیان بن عیینہ ؒ ۱۹۸؁ھ) مشہور ثقہ ،امام ،فقیہ اور حجت ہیں۔(تقریب رقم:۲۴۵۱)

معلوم ہوا کہ یہ سند حسن درجے کی ہے ۔

[2]  حافظ سخاویؒ کے الفاظ یہ ہیں:

                  ’’ارفع مراتب (التعدیل) ما أتی، کما قال شیخنا، بصیغۃ أفعل، کأن یقال: أوثق الناس، أو أثبت الناس، أو نحوھما، مثل قول ھشام بن حسان،حدثنی أصدق من ادرکت من البشر محمد بن سیرین، لما تدل علیہ ھذہٖ الصیغۃ من الزیادۃ۔

          والحق بھا شیخنا: ’’الیہ المنتھی فی التثبت‘‘ وھل یلتحق بھا مثل قول الشافعي في ابن مھدي، لا أعرف لہ نظیراً فی الدنیا؟ متحمل۔‘‘   (فتح المغیث: ج۲،ص۱۱۴)

نیز غیرمقلد ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری نے بھی یہی بات کہی ہے۔ (الجرح والتعدیل: ص۲۲۳)

[3]  اس روایت کے راویوں کی تفصیل حاضر ہے:

۱)               حافظ المغرب امام خطیب البغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔(کتاب الثقا ت للقاسم ج:۱ص:۴۱۸)

۲)              ان کے استاذ محمد بن احمد بن رزق المعروف بن رزقاوی ؒ ۴۱۲؁ھ) بھی ثقہ ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص:۱۲۵)

۳)             حافظ ابوبکر محمد بن عمر الجعابیؒ ۳۵۵؁ھ) بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔تفصیل کے دیکھئے دوماہی مجلہ الاجماع ج:۲ص:۲۱۔

اور پھر ان سے یہ روایت امام ابو نعیم ؒ ۴۳۰؁ھ) نے بھی بیان کیا ہے ۔( مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت ابونعیم ص:۲۱) نیز دیکھئے (مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۱۶۳)

۴)             ابوبکر ابراہیم بن محمد بن داؤد القطان ؒ کا ترجمہ تاریخ بغداد ج:۷ص: ۹۹پر موجود ہے ،جن کو دیکھنے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ثقات کے موافق روایت والے تھے ۔اور غیر مقلد محدث ،بشار عواد معروف نے انہیں ثقہ مانتے ہیں ۔(تاریخ بغداد ج : ۱۵ ص : ۵۹ ۴) لہذا یہ بھی ثقہ ہیں ۔

۵)             اسحٰق بن بہلول ؒ (م ۲۵۲؁ھ) بھی ثقہ اور صدوق ہیں ۔( تاریخ بغداد ج:۷ص:۳۹۰)

۶)              اسحق بن ابی اسرائیل ؒ ۲۴۵؁ھ) اور

۷)             امام سفیان بن عیینہ ؒ ۱۹۸؁ھ) کی توثیق گزر چکی ۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...