نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابو حنیفہؒ: جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے، قاضی کوفہ، فقیہِ وقت، امامِ مجتہد حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ کی نظر میں


 امام اعظم ابو حنیفہؒ: جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے  پوتے، قاضی کوفہ، فقیہِ وقت، امامِ مجتہد حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ کی نظر میں


جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے  پوتے، قاضی کوفہ، فقیہِ وقت، امامِ مجتہد حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، وہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی رفعت، شخصی جلالت اور دینی افادیت پر ایک ناقابلِ تردید تاریخی شہادت ہے۔

حضرت قاسم بن معنؒ وہ شخصیت ہیں جنہیں ائمہ حدیث نے متفقہ طور پر "ثقہ"، "صدوق"، "فاضل"، "نبیل"، اور "عادل" تسلیم کیا۔ امام ابو داود، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، ابن حبان، امام ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ اجمعین — سب ان کے علم و دیانت پر متفق ہیں۔ وہ قاسم بن معن امام ابو حنیفہ کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں آئیے جانتے ہیں - 

نا عبد الوارث بن سفيان نا قاسم بن اصبغ نا أحمد بن زهير نا سليمان بن أبي شيخ قال نا حجر بن عبد الجبار قال قيل للقاسم ابن معن أنت ابن عبد الله بن مسعود ترضى أن تكون من غلمان أبي حنيفة فقال ما جلس الناس إلى أحد انفع مجالسة من أبي حنيفة وقال له القاسم تعال معي اليه فجاء فلما جلس اليه لزمه وقال ما رأيت مثل هذا قال سليمان وكان أبو حنيفة حليما ورعا سخيا. 

حجر بن عبد الجبار روایت کرتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ سے کہا: "کیا آپ، جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی نسل سے ہیں، اس بات پر راضی ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے شخص کے شاگردوں میں شامل ہوں؟" اس پر قاسم بن معنؒ نے نہایت جلال کے ساتھ فرمایا: "لوگوں نے کسی کی مجلس کو امام ابو حنیفہؒ کی مجلس سے زیادہ نفع بخش نہیں پایا۔"

پھر وہ خود اس شخص کو امام ابو حنیفہؒ کے پاس لے گئے، اور جب انہوں نے چند نشستیں کیں، تو وہ امام ابو حنیفہؒ سے ایسا متأثر ہوئے کہ مستقل ان کے ساتھ جُڑ گئے۔ انہوں نے برملا کہا: "میں نے ابو حنیفہؒ جیسا کوئی نہیں دیکھا!" راوی سلیمان بن ابی شیخ فرماتے ہیں: "امام ابو حنیفہؒ نہایت بردبار، متقی اور بے حد سخی تھے۔"

(الانتقاء 134/1 ، اسنادہ حسن)


فائدہ - حضرت قاسم بن معن جیسے بلند نسب، فقیہِ کوفہ اور جلیل المرتبت عالم کا امام ابو حنیفہؒ کی شاگردی کو باعثِ فخر سمجھنا، اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ امام اعظم کا مقام نسب یا شہرت سے کہیں بالا تھا۔ اس کے علاوہ امام ابو حنیفہ کی شہرت صرف فقہی اعتبار سے نہیں بلکہ حدیثی اعتبار سے بھی کافی بلند تھی. 

امام ذہبیؒ (سیر أعلام النبلاء 8/191) لکھتے ہیں:

"قاسم بن معن نہایت پاکدامن اور اصول پر قائم شخصیت تھے، اور امام ابو حنیفہؒ کے اکابر تلامذہ میں شمار ہوتے تھے۔"

حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ، جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے خاندان سے تھے، جن کا علمی مقام پوری امت میں مسلم ہے، وہ خود امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ واضح دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مقام اہل علم میں غیر معمولی تسلیم شدہ تھا۔

قاسم بن معنؒ کا یہ قول کہ "ابو حنیفہؒ کی مجلس سے زیادہ کسی مجلس نے فائدہ نہ دیا"  ، اور میں نے ان کی مثل کسی کو نہیں دیکھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ روایت حدیث اور فقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سچے اور مستحق علمی وارث ہیں. 

حضرت قاسم بن معن کا مستقل امام ابو حنیفہؒ کی صحبت اختیار کرنا، ان کی شخصیت، علم اور دیانت کی عملی توثیق ہے۔



فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے

جب بھی امام ابو حنیفہؒ  کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا  واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت  کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین  امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ 

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...