الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ علی بن صالح بن حييؒ کی نظر میں امام ابو حنیفہ کا مقام :
الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ علی بن صالح بن حييؒ کی نظر میں امام ابو حنیفہ کا مقام :
امام علی بن صالح بن حييؒ ہیں، جنہیں محدثین کے ہاں "الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ " جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے۔ ان کی ثقاہت پر امام احمد بن حنبلؒ، امام نسائیؒ، امام ذہبیؒ، ابن حجر عسقلانیؒ، یحییٰ بن معینؒ، محمد بن سعد اور دیگر محدثین کا اجماع ہے۔
یہی امام علی بن صالح بن حييؒ جب امام ابو حنیفہؒ کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو گہرے دکھ اور عظیم اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں:
حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : وحدثني محمد بن أحمد قال : حدثني محمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد قال : سمعت أبا نعيم يقول : سمعت علي بن صالح بن حيي . لما مات أبو حنيفة يقول : ذهب مفتي العراق ، ذهب فقيه أهل العراق
( فضائل أبي حنيفة ص 81 ، سند حسن )
یعنی "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا۔"
یہ جملہ معمولی نہیں۔ یہ اس وقت کے علمی مرکز عراق کے فقیہِ اعظم کے حق میں ایک ثقہ امام کی زبان سے نکلنے والی علمی شہادت ہے۔ گویا امام ابو حنیفہؒ کا مقام محض عوامی نہیں، بلکہ اہل علم کے نزدیک بھی اجتہاد، فقاہت اور استنباط کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا۔امام ذہبیؒ اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء میں امام علی بن صالح کے ترجمہ میں ان کی ثقاہت کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وثقه الجماعة، وكان رأسا في العلم"
"جماعت محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا، اور وہ علم میں بلند مرتبہ پیشوا تھے۔"
ایسے شخص کا امام ابو حنیفہؒ کے لیے "فقیہ اہلِ عراق" کہنا، گویا اُس دور کی علمی عدالت کا فیصلہ ہے — کہ فقہ میں اگر کوئی امام تھا، تو وہ ابو حنیفہؒ تھے۔ جب ہم علی بن صالح بن حييؒ جیسے ثقہ، زاہد، اور جلیل القدر امام کی زبان سے سنتے ہیں کہ "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا" — تو ہمیں اس قول کی عظمت کا اندازہ صرف امام ابو حنیفہؒ کی تعظیم سے نہیں، بلکہ کہنے والے کی علمی و روحانی حیثیت سے بھی ہوتا ہے۔
یہ اس دور کے علم و تقویٰ کے معیار پر پورے اترنے والے جلیل القدر اہلِ علم کی متفقہ شہادت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ علم و فقہ کے امام تھے، اور اگر ایسے عظیم محدث کسی شخصیت کی مدح کریں، تو وہ مدح بذاتِ خود اس شخصیت کی امامت و سیادت کی دلیل بن جاتی ہے۔
یقیناً، امام ابو حنیفہؒ نہ صرف عراق کے مفتی تھے، بلکہ وہ امتِ مسلمہ کے امام، فقہاء کے مقتدا، اور علم کے ستون تھے۔
فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے
جب بھی امام ابو حنیفہؒ کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں