الحافظ، المجود، محدث البصرة ريحانة البصرة یزید بن زُریعؒ کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کا مقام
اسلامی تاریخ کے عظیم محدثین میں سے ایک جلیل القدر نام یزید بن زُریعؒ کا ہے، جنہیں نہ صرف اپنے دور میں بلکہ بعد کے ادوار میں بھی علمِ حدیث اور تقویٰ کا ستون سمجھا گیا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں "الحافظ، المجود، محدث البصرة" کے عظیم القابات سے یاد کیا ہے، جو ان کی علمی گہرائی، حدیث میں مہارت، اور بصری محدثین میں ان کے ممتاز مقام کی علامت ہیں۔
یہ سب اقوال مل کر یزید بن زریعؒ کے علمی مرتبے، اخلاص، تقویٰ، اور حدیث میں مہارت کو واضح کرتے ہیں۔ ان جیسی ہستی جب کسی کے بارے میں رائے دیتی ہے تو وہ معمولی بات نہیں ہوتی، بلکہ اس کی گواہی خود ایک سند اور شرف کا درجہ رکھتی ہے۔
یزید بن زریعؒ کی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں عظیم الشان گواہی
یہ صرف ایک ادبی جملہ نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہؒ اور فقہِ حنفی کی علمی وسعت، غیر معمولی قبولیت، اور عالمگیر اثر پذیری کا نہایت بلیغ، فصیح اور دل نشین اظہار ہے۔ واہ! ان کے فتوے اتنے مشہور و مقبول ہوئے کہ گویا وہ سفید خچروں (یعنی اُس دور کی شاہی اور تیز ترین سواریوں) پر سوار ہو کر ہر سمت دلوں کو فتح کرتے ہوئے پھیل گئے۔
هَيهَات! طَارَت بِفَتْوَاهُ البِغَالُ الشُّهْبُ
یزید بن زریعؒ کا یہ قول امام ابو حنیفہؒ کے علمی مقام اور ان کے فتاویٰ کی عالمگیر شہرت کی بھرپور تصویر کشی کرتا ہے۔ اس میں "طارت" کا لفظ امام کے علم کی برق رفتاری، وسعتِ اثر اور دور دراز علاقوں تک رسائی کو ظاہر کرتا ہے۔ "بِفَتْوَاه" ان کے فتاویٰ میں موجود گہرائی، دقتِ نظر اور اجتہادی فہم کی علامت ہے، جو ہر مسئلے میں بصیرت و حکمت کی اعلیٰ مثال تھے۔ جبکہ "البِغَالُ الشُّهْبُ" یعنی سفید خچر، عرب تہذیب میں تیز رفتار، معزز اور شاہی سواری کا استعارہ ہیں، جو امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی عظمت، شان اور تیزی سے اشاعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ محاورہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ امام کے فتاویٰ صرف محدود علمی مجالس تک محدود نہ رہے، بلکہ مشرق و مغرب میں پھیل کر دنیا کو منور کرتے چلے گئے۔ یزید بن زریعؒ جیسے محدثِ وقت کی زبان سے یہ جملہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ فقہ حنفی صرف ایک مقامی یا وقتی فقہ نہ تھی، بلکہ ایک ایسی علمی تحریک تھی جو حدود و قیود سے آزاد ہو کر علم و عمل کی دنیا میں بلند مقام حاصل کر گئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں