نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

یزید بن ہارونؒ اور ابو عاصم النبیلؒ جیسے ثقہ اور متقن محدثین کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کا مقام


یزید بن ہارونؒ اور ابو عاصم النبیلؒ جیسے ثقہ اور متقن محدثین کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کا مقام


 حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني أبو بكر محمد بن جعفر بن أعين قال : حدثني يعقوب بن شيبة قال : حدثني يعقوب بن أحمد قال : سمعت الحسن بن علي الحلواني قال : سمعت يزيد بن هارون يقول وسأله إنسان فقال : يا أبا خالد من أفقه من رأيت ؟ قال : أبو حنيفة .

قال الحسن : ولقد قلت لأبي عاصم النبيل : أبو حنيفة أفقه أو سفيان ؟ قال : أبو حنيفة عندي أفقه من سفيان 

 ( فضائل أبي حنيفة ص 83 ، سند 'لا باس به' ) 


حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني أبو بشر الدولابي قال : ثنا محمد بن إسماعيل الصائغ قال : سمعت الحسن بن علي الحلواني قال : قلت لأبي عاصم مثله

( فضائل أبي حنيفة ص 83 ، سند صحیح )


حسن بن علی حلوانی بیان کرتے ہیں: میں نے یزید بن ہارون سے سوال کیا: "اے ابو خالد! آپ نے اپنی زندگی میں سب سے بڑا فقیہ کسے پایا؟" انہوں نے جواب دیا: "ابو حنیفہ۔" (راوی حسن بن علی مزید کہتے ہیں:) پھر میں نے ابو عاصم النبیل سے پوچھا: "آپ کے نزدیک ابو حنیفہ فقیہ تھے یا سفیان (ثوری)؟" تو ابو عاصم نے جواب دیا: "میرے نزدیک ابو حنیفہ، سفیان سے زیادہ فقیہ تھے۔"


فائدہ : یزید بن ہارون (ثقہ، ثبت، حافظِ حدیث) جیسے جلیل القدر محدث کا امام ابو حنیفہ کو "سب سے بڑا فقیہ" کہنا، امام اعظم  کے فہمِ دین، بصیرت اور اجتہادی قوت کا اعلٰی ترین اعتراف ہے۔ مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 30 : امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) صدوق اور متقن ہیں۔

جبکہ تلمیذ امام اعظم ، ابو عاصم النبیل، جو خود ثقہ، متقن اور حدیث میں سخت گیر تھے، انہوں نے سفیان ثوری جیسے بڑے محدث و فقیہ کے مقابلے میں امام ابو حنیفہ کو افقہ (زیادہ فقیہ) قرار دیا — یہ گویا فقہ اسلامی کی تاریخ میں امام ابو حنیفہ کی امامت کی مہرِ تصدیق ہے۔

ابو عاصم النبیل رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری کے درمیان فقہی موازنہ صرف فقہ میں برتری کا بیان نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ کی ثقاہت فی الحدیث پر بھی ایک مضبوط دلالت ہے۔ کیونکہ: ❝ جو شخص حدیث کو صحیح نہ جانتا ہو، اس کا فقہی اجتہاد معتبر نہیں ہو سکتا۔ ❞ ابو عاصم النبیل جیسے جلیل القدر محدث ہیں، اگر وہ امام ابو حنیفہ کو فقہ میں سفیان ثوری جیسے فقیہ اور محدث پر ترجیح دے رہے ہیں، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ:

حدیث کی معرفت رکھتے تھے،

احادیث کو سمجھنے اور اس سے احکام اخذ کرنے کی اہلیت میں ماہر تھے،

اور ثقہ، متقن اور قابل اعتماد محدث تھے۔

کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص حدیث سے جاہل ہو یا ناقص الفہم ہو، اور پھر بھی اس کو "سفیان ثوری سے زیادہ فقیہ" قرار دیا جائے — خصوصاً ابو عاصم النبیل جیسے امام کی زبان سے۔

لہٰذا اس قول میں امام اعظم کی فقہی برتری کے ساتھ ساتھ ان کی ثقاہت اور حدیث فہمی پر بھی ایک ضمنی مگر قوی ترین شہادت موجود ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نہ صرف فقیہ، بلکہ فنِ حدیث کے بھی اہل اور معتبر شخصیت تھے۔



فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے

جب بھی امام ابو حنیفہؒ  کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا  واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت  کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین  امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ 

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...