ثقة ثبت حافظ، شيخ الإسلام إمام الأعمش کی نظر میں امام ابو حنیفہ کا مقام :-
١٥١ حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني أحمد بن محمد بن سلامة قال : ثنا محمد بن العباس بن الربيع وإبراهيم بن أبي داود وعلي بن عبد الرحمن بن المغيرة قالوا : ثنا علي بن معبد بن شداد قال : ثنا عبيد الله بن عمرو قال : كنا عند الأعمش وعنده أبو حنيفة فسئل الأعمش عن مسألة ، فقال لأبي حنيفة : أفته يا نعمان ، فأفتاه أبو حنيفة ، فقال له الأعمش : من أين قلت هذا ؟ قال : لحديث حدثتناه أنت ، ثم ذكر الحديث ، فقال له الأعمش : أنتم الأطباء ونحن الصيادلة
عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ ہم امام اعمش کے پاس بیٹھے تھے اور ان کے پاس امام ابو حنیفہ بھی موجود تھے۔
اعمش سے ایک مسئلہ پوچھا گیا، تو انہوں نے ابو حنیفہ سے کہا: "اے نعمان! تم اس کا فتویٰ دو۔" چنانچہ امام ابو حنیفہ نے اس پر فتویٰ دیا۔
اعمش نے ان سے پوچھا: "یہ بات تم نے کہاں سے کہی؟"
ابو حنیفہ نے کہا: "یہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جو آپ ہی نے ہمیں روایت کی تھی۔"
پھر انہوں نے وہ حدیث ذکر کر دی۔
اس پر اعمش نے ( خوشی اور حیران کن انداز میں ) کہا: " تم لوگ طبیب (ماہرِ علم، اور مسائل اخذ کرنے والے ) ہو، اور ہم صرف دوا فروش ( احادیث کے ناقل ) ہیں!"
( فضائل ابی حنیفہ رقم ١٥١ ، اسنادہ صحیح )
فائدہ - امام اعمش جیسے جلیل القدر ثقہ ثبت محدث کا باوجود استاد ہونے کے اپنے شاگرد امام ابو حنیفہ کو فتویٰ دینے کے لئے کہنا — ظاہر کرتا ہے کہ امام اعمش کو امام ابو حنیفہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی مقام کا نہ صرف معلوم تھا بلکہ اعتماد بھی تھا ، امام ابو حنیفہ کا فتوے کی بنیاد میں خود انہی کی روایت کردہ حدیث پیش کرنا — یہ بتاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نہ صرف احادیث کے حافظ تھے بلکہ ان پر تدبر، فہم اور تطبیق کا کامل ملکہ رکھتے تھے۔ امام صاحب حدیث سے استدلال کرنے میں کمال مہارت رکھتے تھے تبھی امام اعمش کا اعتراف میں یہ جملہ صادر ہوا کہ : "تم طبیب ہو، ہم صیادلہ" — اس جملے میں فقہ اور حدیث کی نسبت سے امام ابو حنیفہ کی اجتہادی قوت اور دینی بصیرت کی صریح توثیق ہے۔صیادلہ (دوا فروش / پنساری) صرف حدیث نقل کرتے ہیں، مگر طبیب (امام ابو حنیفہ جیسے فقیہ) تشخیص کرکے اس سے شریعت کے احکام نکالتے ہیں۔
یہ واقعہ خود حدیث اور فقہ کی تقسیمِ کار کی نمائندگی کرتا ہے — اور اس میں امام ابو حنیفہ کا مقام "مجتہد مطلق" اور "مفسرِ احکام" کے طور پر نمایاں ہو رہا ہے۔
امام اعمش کا امام ابو حنیفہ کو حدیث بیان کرنا ، پھر امام اعظم کا اسی حدیث سے فقہی مسئلے کا استنباط کرنا ، یہ دراصل اس حدیث شریف کا مصداق ہے جو کئی کتابوں میں آئی ہے ۔
حدیث نمبر: 3660
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثني عمر بن سليمان من ولد عمر بن الخطاب، عن عبد الرحمن بن ابان، عن ابيه، عن زيد بن ثابت، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" نضر الله امرا سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه، فرب حامل فقه إلى من هو افقه منه، ورب حامل فقه ليس بفقيه".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ( علم حاصل کرنے والے ) ایسے ہیں جو فقہ ( علم ) کو اپنے سے زیادہ فقیہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 7 (2656)، (تحفة الأشراف: 3694)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 18 (1230)، مسند احمد (1/437، 5/183)، سنن الدارمی/المقدمة 24(235) (صحیح)»
فائدہ - اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگ ( محدثین ) ایسے ہوتے ہیں جو حدیث کے حافظ تو ہوتے ہیں لیکن ان سے فقہی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ جب وہ دوسرے ( فقیہ ) تک ان احادیث کو پہنچا دیتے ہیں تو وہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے ان میں سے مختلف مسائل کا حل نکال لیتے ہیں. یعنی حافظ حدیث سے زیادہ فقیہ اسکا مطلب اور مفہوم زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہے.
معلوم ہوا کہ امام اعمش نے حدیث کو یاد کر کے آگے پہنچایا جبکہ امام اعظم نے اسی حدیث سے استدلال کر کے فقہی مسئلہ حل کیا اور حدیث نبوی پر عمل کر کے دکھایا کہ بسا اوقات پہنچانے والے سے کہیں زیادہ ذی علم اور عقلمند وہ شخص ہو سکتا ہے جس تک علم دین پہنچایا جا رہا ہے ۔
فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے
جب بھی امام ابو حنیفہؒ کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔
حاصل کلام :
یہ روایت امام ابو حنیفہؒ کی نہ صرف فقہی مہارت بلکہ حدیث فہمی اور ان پر عملی اجتہاد کی اعلیٰ ترین سطح پر دسترس کی روشن شہادت ہے، جو محدثین کے زبانی ان کے فقہ و حدیث میں اعلی مقام کی صراحتا توثیق ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں