یہ مضمون مہدی رستم صاحب کے عربی رسالہ کا ترجمہ ہے ، جس میں معمولی رد و بدل کیا گیا ہے ، اصل رسالہ ہمارے النعمان سوشل میڈیا سروسز کے ٹیلیگرام چینل پر موجود ہے۔
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على أشرف الأنبیاء والمرسلین، سیدنا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعهم بإحسان إلى یوم الدین۔ أما بعد؛
نوجوانانِ کم علم، جنہیں اپنے عجز کا شعور نہیں، اور وہ خود کو عقلِ کل سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ باتیں عام کر رہے ہیں جو امام فقہ، امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بارے میں کہی گئیں، جن سے زمانے نے ہمیں راحت دی تھی۔
ان (کم علموں) کا لب و لہجہ گویا یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مخاطب ہونے کے لائق بھی نہیں۔ اگر ان کے باطل خیالات سے کسی کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم ان کے جواب کے لیے حرکت بھی نہ کرتے۔
یہ مضمون امام احمد بن حنبلؒ کے امام ابو حنیفہؒ پر اعتراضات کے اسباب پر مشتمل ہے، جیسا کہ عنوان ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، میں اس موضوع کو روایتی انداز میں 《يُطوى ولا يُروى》 یعنی (ان کو رکھ دینا اور آگے نقل نہ کرنا) کہہ کر ختم نہیں کروں گا کیونکہ یہ اعتراضات بیان ہو چکے ہیں۔ بلکہ ان اعتراضات کے اسباب کا جائزہ لوں گا تاکہ قارئین فیصلہ کر سکیں کہ کیا یہ اعتراضات علمی قدر رکھتے ہیں یا بے بنیاد ہیں؟
واللہ الموفق۔
اور یہ مضمون صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اعتراضات تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر معروف شخصیات کے اعتراضات پر بھی روشنی ڈالتا ہے، اگرچہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ ان اعتراضات کے تمام اسباب ایک جیسے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی ایک انسان تھے، جن کے فیصلے کبھی درست اور کبھی خطا پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ ان کے علمی مقام و مرتبے، جو انہوں نے حدیث اور فقہ میں حاصل کیا، انہیں کسی صورت عصمت عطا نہیں کرتا(جیسے کہ انبیاء کو حاصل ہے)۔
اس لیے جب ہم ان کے اقوال کا جائزہ لیتے ہیں، خصوصاً امام اعظم کے بارے میں، تو ہمیں ان کی ذاتی اور علمی حیثیت کو بھول کر ایک غیر جذباتی ماحول میں ان باتوں کا تجزیہ کرنا چاہیے۔
ہمیں ان کے اقوال کو غیر متزلزل حقائق کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بھی اہم ہے کہ ان اقوال کو امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے، عبد اللہ، نے نقل کیا ہے، جو امام اہل سنت کے سخت ترین ناقدین میں شامل تھے اور ان سے شدید عداوت رکھتے تھے، جیسا کہ مشہور ہے۔ اس لیے ان کے نقل کردہ اعتراضات، جیسا کہ امام محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ نے فرمایا، قابل اعتماد نہیں ہیں۔
امام کوثری فرماتے ہیں:
"عبد اللہ بن احمد نے وہ طامات کتاب ’السنة‘ میں جمع کی ہیں"، اور یہ کتاب آج ہر کسی کے لیے بآسانی دستیاب ہے۔ جو کوئی اس کتاب میں درج باتوں کو صحیح مانتا ہے اور ان کی تبلیغ کرتا ہے، اس کی گواہی امام ابو حنیفہ کے بارے میں قابل قبول نہیں ہو سکتی، اگرچہ کچھ لوگ اس سے متاثر ہو جائیں"
تاہم عبد اللہ واحد نہیں تھے جنہوں نے یہ طامات نقل کیں، بلکہ دیگر لوگوں نے بھی انہی باتوں کو بیان کیا۔ اس لیے، اپنی تحقیق میں ہم عبد اللہ کی نقل کو صحیح مان کر چلتے ہیں اور ان کے ساتھ دوسروں کی روایتوں کو بھی شامل کرتے ہیں، اور پھر یہ سوال اٹھاتے ہیں:
کیا یہ اعتراضات معتبر ہیں؟
کیا ان اعتراضات کی کوئی علمی حیثیت ہے، جو امام اعظم کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دے سکیں؟
ان سوالات کے جواب کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے اسباب جاننا ضروری ہے۔
میں(مہدی رستم) نے اپنے مطالعے سے تین بنیادی اسباب اخذ کیے ہیں:
نمبر 1. عقیدے میں اختلاف:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ کے درمیان بعض عقائدی مسائل پر اختلاف پایا جاتا تھا۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ قاری کے منہ سے نکلنے والے حروف اور الفاظ مخلوق ہیں، جبکہ امام احمد بن حنبل اس بات کو صریح بدعت مانتے تھے۔ یہی اختلاف امام احمد اور کرابیسی رحمھم اللہ کے درمیان تنازع کا باعث بھی بنا، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ(جو خود حنبلی مکتب فکر کے قریب ہیں) نے سیر اعلام النبلاء میں کرابیسی کی سوانح میں تسلیم کیا کہ حق کرابیسی کے ساتھ تھا۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا عقیدہ یہ تھا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہے اور ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔
یہ عقیدہ امام احمد اور ان کے بہت سے ہم عصر علماء رحمھم اللہ کیلئے کافی تھا کہ امام ابو حنیفہ کو بدعتی یا کم از کم اجتناب کے قابل شخص قرار دے دیں۔
جب ہم عبد اللہ بن احمد کی کتاب ’السنة‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر یہ عقائدی اختلاف ان کے بیانات میں نظر آتا ہے۔
عبد اللہ نے امام احمد سے سوال کیا:
"ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو کہتا ہے کہ تلاوت مخلوق ہے اور ہمارے قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں، لیکن قرآن اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے؟ کیا آپ اسے بدعتی مانتے ہیں اور اس سے دور رہنے کا حکم دیتے ہیں؟" امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"یہ بدعتی ہے اور اس سے اجتناب کیا جائے۔ یہ جہمیت کا قول ہے"۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک، کسی شخص کے جہمی ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ الفاظ قرآن کو مخلوق قرار دے، حالانکہ یہی اہلِ سنت کا عقیدہ ہے (الفاظ مخلوق ہیں) اور ان کے پیشوا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، جنہوں نے فرمایا:
’’الفاظ قرآن مخلوق ہیں، اس کی کتابت مخلوق ہے، اس کی قرأت مخلوق ہے، اور خود قرآن غیر مخلوق ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ عبد اللہ اپنے والد سے امام ابو حنیفہ اور ان کے عقائد کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس عقیدے کو بدعت اور جہمیت سمجھتے تھے، تو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ان کے انحراف اور تنقید میں کوئی تعجب نہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ سے ناپسندیدگی کی ایک وجہ یہی عقیدے کا اختلاف تھا۔
نمبر 2 : تدوین فقہ
دوسری وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہ نے فقہ کے باریک مسائل میں غور و فکر کیا اور اپنی آراء کو قلمبند کیا، چاہے وہ املا کے ذریعے ہی کیوں نہ ہوں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس طرز کو پسند نہیں کرتے تھے اور سائلین کو اس سے دور رکھتے تھے، چاہے یہ کتب ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے علاوہ کسی نے لکھی ہوں۔ اگر ہم ان کے اس حوالے سے اقوال کا جائزہ لیں، تو دیکھیں گے کہ وہ ان کتابوں سے اجتناب کی تلقین کرتے تھے جو فقہاء کی آراء کو جمع کرنے کے لئے لکھی گئیں اور لوگوں کو صرف حدیث پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’مجھے کسی بھی کتاب کے وضع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور جو کوئی ایسی کتاب لکھے، وہ بدعتی ہے۔‘‘ نیز، انہوں نے کہا: ’’مالک اور شافعی کی کتب آپ کو پسند ہیں یا ابو حنیفہ اور ابو یوسف کی؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’شافعی مجھے زیادہ پسند ہیں، کیونکہ وہ حدیث سے فتویٰ دیتے ہیں، جب کہ یہ لوگ(امام مالک، طرفین رحمھم اللہ) رائے سے فتویٰ دیتے ہیں۔‘‘
اسی طرح، انہوں نے کہا: ’’رائے پر مبنی کتب کو نہ دیکھو اور نہ ان کے ساتھ مجالست اختیار کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ’’ہر وہ کتاب جو بدعت کے طور پر لکھی گئی ہو، وہ بدعت ہی ہے۔‘‘
ابن الجوزی نے امام احمد کے مناقب میں ایک باب باندھا ہے اور ان کا قول نقل کیا:
’’وہ ایسی کتب کو ناپسند کرتے تھے جو تفریع اور رائے پر مشتمل ہوں، اور اثر پر کاربند رہنے کو پسند کرتے تھے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا:
"کیا میں رائے والی کتابیں لکھ سکتا ہوں؟" تو انہوں نے جواب دیا: "نہیں۔" آدمی نے کہا: "لیکن ابن مبارک نے یہ کتابیں لکھی ہیں!" اس پر احمد بن حنبلؒ نے کہا: "ابن مبارک آسمان سے نہیں اترے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ علم اوپر سے لیں۔"
(ایسی مزید روایات اس رسالہ کے عربی متن میں ہیں)
یہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر فقہ کی کتابیں لکھنے کے حق میں نہیں تھے، خاص طور پر وہ جو حدیث سے ہٹ کر ہوں۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے ساتھیوں نے فقہ اور تفریعات پر مبنی کتابیں لکھنے کی ابتدا کی تھی، جو امام احمد بن حنبلؒ کی ان سے عمومی مخالفت اور امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں خاص طور پر اختلاف کا ایک سبب بنا۔
نمبر 3:
ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی اصولوں کی بنیاد پر بعض ایسی احادیث کو چھوڑ دیا جنہیں امام احمد بن حنبلؒ صحیح سمجھتے تھے اور ان پر عمل لازم قرار دیتے تھے۔
یہی سبب تھا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے امام ابو حنیفہؒ پر تنقید کی اور انہیں ترکِ احادیثِ صحاح کا الزام دیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک رائے پر مبنی فتویٰ قابلِ قبول نہیں تھا، بلکہ وہ حدیث کی بنیاد پر فتویٰ دینے کو ترجیح دیتے تھے۔
اس بارے میں ان کے شاگرد اسحاق بن ابراہیم نیشاپوریؒ کا قول مشہور ہے کہ انہوں نے امام احمد سے پوچھا: "کیا آپ کو امام مالکؒ اور شافعیؒ کی کتابیں زیادہ پسند ہیں یا ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ کی؟" تو انہوں نے جواب دیا: "شافعیؒ مجھے زیادہ پسند ہیں، کیونکہ وہ حدیث کی بنیاد پر فتویٰ دیتے ہیں، جبکہ یہ لوگ (مالک ، ابو حنیفہؒ اور ان کے ساتھی) رائے پر مبنی فتویٰ دیتے ہیں۔"
یہ تمام نکات اس بات کی دلیل ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کی تنقید میں تین بنیادی وجوہات کارفرما تھیں:
1. عقائد کے بعض مسائل میں اختلاف۔
2. رائے اور اجتہاد پر مبنی فقہ کی کتابوں کا لکھا جانا۔
3. امام ابو حنیفہؒ کی جانب سے بعض ایسی احادیث کو چھوڑ دینا جو امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک صحیح تھیں۔
یہ وجوہات اپنی جگہ، مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امام ابو حنیفہؒ جیسے عظیم امام پر تنقید کے لیے کافی ہیں؟
امام سرخسیؒ کے بقول، جرح کی دو اقسام ہیں: مبہم اور مفسر۔
اور مفسر جرح میں بھی کچھ ایسی ہوتی ہے جو ناقابلِ قبول، اور کچھ معتبر ہوتی ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ کی تنقید، اگرچہ مفسر جرح کے زمرے میں آتی ہے، لیکن اس کی حیثیت پر غور کرنا ضروری ہے۔
پہلی وجہ، یعنی عقائد کے فروعی اختلافات، معتبر نہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کے نظریات مضبوط دلائل پر مبنی ہیں اور ان کے شاگردوں نے اس پر جامع دلائل فراہم کیے ہیں۔
دوسری وجہ، یعنی فقہ کی کتابوں کا لکھا جانا، بھی کمزور ہے، کیونکہ فقہ کی تدوین ضروری تھی تاکہ احادیث کو سمجھا جا سکے۔ تیسری وجہ، یعنی بعض احادیث کو ترک کرنا، امام ابو حنیفہؒ کے اصولِ حدیث پر مبنی تھا اور یہ بھی ایک اجتہادی معاملہ ہے۔
نیز حروف و الفاظ کے مسئلے میں بھی، اگر ہم امام ابو حنیفہ کے دلائل کو مکمل نقل کریں تو مضمون طویل ہو کر قارئین کے لیے بوجھل ہو جائے گا۔ تاہم، میں حافظ ذہبی کے اس اعتراف کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ کرابِیسی نے جو مسئلہ تلفظ میں بدعت متعارف کروائی اور اسے مخلوق قرار دیا، وہ حق ہے۔"
ہم حافظ ذہبی کے اس بیان سے متفق ہیں کہ کرابِیسی کا قول حق ہے، لیکن ہم اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مسئلہ کرابِیسی کی ایجاد ہے، کیونکہ امام اعظم نے اس مسئلے پر کرابِیسی سے پہلے گفتگو کی تھی، جیسا کہ "فقہ اکبر" میں مذکور ہے۔
یہ بات واضح ہوگئی کہ پہلا اعتراض امام ابو حنیفہ پر تنقید کے لیے معتبر نہیں ہے۔ اگر بالفرض اسے معتبر مان بھی لیا جائے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اعتبار علماء کے درمیان متفق علیہ ہے؟
اور اس کا جواب بلاشبہ یہ ہوگا: "نہیں۔" لیکن اس سوال کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ اعتراض بنیادی طور پر معتبر نہیں۔ بلکہ حق امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے۔
اور اسی طرح دوسرا سبب ہرگز طعن کے قابل نہیں ہو سکتا۔ یہ تو احمد بن حنبل رح جیسے شخص سے عجیب بات ہے۔ آخر کس طرح وہ (فقہی) کتابوں کو برا سمجھ سکتے ہیں؟ اور ان کے نزدیک ہر کتاب بدعت کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہ کی تدوین حدیث کی تدوین سے زیادہ ضروری ہے، کیونکہ فقہ کے ذریعے ہی حدیث کو سمجھا جاتا ہے(جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے فقہاء حدیث کے معانی بہتر جانتے ہیں۔ جامع ترمذی 1/118)۔
اور قاری نے دیکھا کہ احمد بن حنبل نے لوگوں کو امام مالک، امام سفیان، امام ابو ثور، یہاں تک کہ اپنے دوست امام اسحاق بن راہویہ رحمھم اللہ کی کتابوں سے بھی روکا، اور کہا کہ شافعی رحمہ اللہ ان کے نزدیک بہتر ہیں، کیونکہ وہ حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں، جبکہ امام مالک، ابو حنیفہ، اور ابو یوسف رحمھم اللہ رائے سے فتوی دیتے ہیں۔
سبحان اللہ! ان کے بارے میں یہ گمان کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ بلا وجہ حدیث کو ترک کر کے اپنی رائے سے فتوی دیتے ہیں؟!
گویا قاری یہ سوال کرتا ہے: اگر امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی رائے سے فتوی دیا جیسا کہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں، تو ان پر کیوں طعن نہیں کیا؟ اس کا جواب امام ذہبی نے یوں ذکر کیا ہے:
" امام احمد بن حنبل نے امام ابو حنیفہ پر رائے کی وجہ سے اعتراض کیا ، تو میں (نصیر) نے کہا: "یہ تو امام مالک رحمہ اللہ بھی کرتے تھے۔" انہوں نے جواب دیا: "لیکن ابو حنیفہ نے اپنی رائے کو کتابوں میں زیادہ محفوظ کر لیا۔" تو میں نے کہا: " امام مالک کا فقہ بھی محفوظ ہوا۔" امام احمد نے کہا: "ابو حنیفہ نے زیادہ رائے دی۔" میں نے کہا: "تو دونوں پر ان کے حصے کے مطابق بات کیوں نہیں کرتے؟" اس پر وہ خاموش ہو گئے۔
(سیر اعلام النبلاء 12/82)
اور اگر کوئی مجتہد اجتہاد نہ کرے اور اپنی رائے پیش نہ کرے تو پھر مجتہد کی حیثیت کیا رہی؟ اور وہ کیا چیز ہے جو اسے مجتہد بناتی ہے؟
اور کیسے ممکن ہے کہ صاحبِ رائے و اجتہاد وہ فتویٰ دے جس کا اس نے کبھی سماع نہ کیا ہو؟ اس حدیث کی تشریح کے مطابق: "جو فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ جری ہے، وہی آگ پر جانے میں سب سے زیادہ جری ہے۔" پس یہ مجتہد کا منصب ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور ان مسائل پر اپنی رائے قائم کرے جن میں کوئی صریح نص وارد نہ ہوئی ہو۔ کیونکہ نصوص محدود ہیں اور مسائل اور نوازل کا تسلسل لامحدود ہے۔
اور ان مسائل میں جو نصوص کے بغیر ہیں، شریعت کا حکم کون واضح کرے گا؟
یقیناً یہ ذمہ داری مجتہد پر عائد ہوتی ہے۔
اگر فقہ کی کتاب مرتب کرنا تنقید کا سبب ہوتا تو کوئی فقیہ طعن و تشنیع کی تلوار سے بچ نہ پاتا۔ اور فقہائے حنابلہ کو ان کے فقہائے دیگر مذاہب سے پہلے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔
ابن الجوزی کا امام احمد کے کلام کی یہ توجیہ کرنا کہ انہوں نے لوگوں کو حدیث کی طرف مائل کرنے کے لیے ایسا کہا، نہایت عجیب ہے۔ اور کس نے کہا کہ تفریع اور رائے میں مشغول ہونا انسان کو حدیث اور اثر سے دور کر دیتا ہے؟ کیا احادیث فقہ کی تفہیم کے لیے نہیں ہیں؟
کیا ابراہیم نخعی، امام مالک، امام سفیان، امام شافعی اور دیگر جلیل القدر فقہاء احادیث سے اس لیے دور ہو گئے تھے کہ وہ تفریع اور فقہ میں مصروف تھے؟
کیا امام احمد بن حنبل نے خود محمد بن حسن اور امام شافعی کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا؟
کیا وہ حدیث سے دور ہو گئے؟
اور اسحاق بن راہویہ کا کیا حال تھا جو امام شافعی کی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کرتے تھے؟
اور امام طحاوی کا کیا مقام ہے جنہوں نے فقہ اور حدیث کو "فقہ الحدیث" میں یکجا کیا؟
امام سرخسی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
"فقہی مسائل کی تفریع کو زیادہ کرنا طعن کا سبب نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ اجتہاد اور ذہانت کی دلیل ہے، اور یہ حسنِ ضبط و اتقان پر دلالت کرتا ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ یہ طعن کا موجب ہو؟"
امام احمد بن حنبل اور ان کے بعض معاصرین نے اہل الرائے پر طعن کیا، جیسے کہ تاریخ خطیب، مغنی الذہبی اور ہدی الساری لابن حجر میں آیا ہے۔ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں ان کتب سے نقل کرتا تاکہ قارئین دیکھ سکیں کہ طعن کا شکار ہونے والوں میں سنن اور صحیح کے رجال بھی شامل ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ وجہ دین کے ائمہ، جیسے امام اعظم، پر طعن کے لیے ہرگز معتبر نہیں۔
جہاں تک تیسری وجہ، یعنی یہ دعویٰ کہ اہل الرائے احادیث کے مخالف تھے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے کوئی حدیث ترک نہیں کی، سوائے اس کے کہ ان کے اصولوں کی روشنی میں اس کے ترک کرنے کا جواز موجود تھا۔
اگر یہ احادیث کے خلاف عناد ہوتا، تو پھر ہر وہ شخص جو احادیث کے قبول یا رد کے لیے شرائط مقرر کرے، معاند کہلائے گا، جیسا کہ امام دار الہجرہ، امام مالک، جنہوں نے اہل مدینہ کے عمل کو بنیاد بنا کر بعض صحیح احادیث کو چھوڑ دیا۔
لہٰذا، یہ کہنا درست نہیں کہ اہل الرائے احادیث کے ترک یا ضعف کی وجہ سے مطعون ہیں، جب تک کہ ان کے اصول اور قواعد کو سمجھے بغیر ان پر طعن نہ کیا جائے۔
اہل حدیث کی عادت ہے کہ وہ اہل الرائے اور فقہاء پر طعن کرتے ہیں۔ اس بارے میں امام ابو الیسر البزدوی فرماتے ہیں:
"اگر بعض محدثین کسی شخص کو ضعیف یا مطعون قرار دیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی حدیث رد کر دی جائے، جب تک کہ طعن کی وجہ واضح نہ ہو۔ کیونکہ محدثین کی عادت ہے کہ وہ ایک دوسرے اور فقہاء پر طعن کرتے ہیں، اور ان کے نزدیک فقہاء احادیث کو رد کرتے ہیں۔"
حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے کوئی حدیث رد نہیں کی، سوائے ان اصولوں کی بنیاد پر جو قبول و رد کے سب سے مضبوط اور مستحکم اصول ہیں۔ میں اہل الرائے کی کتب سے مثالیں پیش کر سکتا ہوں، مگر میں یہاں امام احمد کے ایک معزز ہم مسلک، عبد القوی الطوفی کا حوالہ دینا پسند کروں گا، جو فرماتے ہیں: "امام ابو حنیفہ نے قطعی طور پر کبھی سنت کی مخالفت عناداً نہیں کی، بلکہ وہ اجتہاداً ایسی رائے اپناتے تھے، جن کی دلائل نہایت مضبوط اور واضح تھیں، اور ان کے مخالفین ان دلائل کے سامنے کم ہی ٹھہر سکے۔"
جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: "وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا" [یوسف: ۲۶]۔ خلاصہ یہ کہ فقیہ ملت پر طعن کا کوئی معتبر سبب یا جواز نہیں، اور وہ ہر اس الزام سے بری ہیں جو ان پر لگائے گئے۔
مقالے کے اختتام سے پہلے، میں ایک سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں: کیا امام احمد نے امام اعظم کے بارے میں اپنے قول سے رجوع کیا؟
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ امام احمد نے رجوع کیا، جیسا کہ منقول ہے کہ جب امام احمد کو قید کے دنوں میں کوڑے مارے جا رہے تھے، تو انہیں امام ابو حنیفہ کا ذکر کیا گیا کہ انہیں بھی قضاء پر کوڑے مارے گئے تھے۔ اس پر امام احمد رو پڑے اور امام اعظم کے لیے دعا کی، جیسا کہ تاریخ خطیب میں آیا ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ انہوں نے رجوع کیا ہو، لیکن میرے پاس ایسی کوئی قوی دلیل نہیں جو ان کے رجوع کو ثابت کرے۔ اللہ بہتر جانتا اور عظیم تر ہے۔
آخر میں، عبد القوی الطوفی الحنبلی کا قول پیش کرتا ہوں، جو امام ابو حنیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں: "اللہ نے انہیں ان الزامات سے محفوظ رکھا، اور ان سے منسوب ہر عیب سے پاک رکھا۔"
والحمد للہ الذی بنعمته تتم الصالحات۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
《النعمان سوشل میڈیا سروسز》---------------------------------------------------------------------------------------------
---------------------------------------------------------------------------------------------
---------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں