اعتراض نمبر 49: کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ میرا زمانہ پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری اکثر باتوں کو اختیار کر لیتے ، نیز ابو حنیفہ کے سامنے حدیث پیش کی جاتی تو وہ اس کی مخالفت کرتے.
اعتراض نمبر 49: کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ میرا زمانہ پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری اکثر باتوں کو اختیار کر لیتے ، نیز ابو حنیفہ کے سامنے حدیث پیش کی جاتی تو وہ اس کی مخالفت کرتے.
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أحمد بن جعفر بن سلم، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا إبراهيم بن سعيد، حدثنا محبوب بن موسى قال: سمعت يوسف ابن أسباط يقول: قال أبو حنيفة: لو أدركني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأدركته لأخذ بكثير من قولي.
قال: وسمعت أبا إسحاق يقول: كان أبو حنيفة يجيئه الشئ عن النبي صلى الله عليه وسلم فيخالفه إلى غيره.
الجواب : میں کہتا ہوں کہ اس افسانہ میں انتہائی عصبیت اور گڑ بڑ دونوں باتیں جمع ہیں۔
اور ہم نے پہلے ابن رزق اور ابن سلمہ اور الآبار کا کئی بار تذکرہ کیا ہے۔[1]
اور ابراہیم بن سعید الجوھری اس حال میں تعلیم حاصل کرتا تھا کہ اس پر نیند طاری ہوتی تھی[2]۔
جیسا کہ الحافظ حجاج بن الشاعر نے کہا ہے اور حجاج بن الشاعر سے مسلم نے اپنی صحیح میں بکثرت روایات لی ہیں۔ پس ذہبی نے اس کے حق میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے آدمی کی طرح جس کے دل میں کوئی حاجت ہوتی ہے۔ ورنہ تو حجاج ان لوگوں میں سے ہے جس کی جرح مندمل نہیں ہو سکتی۔ (یعنی اس کی جرح پختہ ہے) ۔
اور اس کا راوی محبوب بن موسیٰ جو ہے وہ ابو صالح الفراء ہے اور بیشک اس کے بارہ میں ابوداؤد نے کہا کہ اس کی حکایات کی طرف اس وقت تک کوئی توجہ نہ کی جائے جب تک وہ کتاب سے دیکھ کر نہ بیان کرے[3]
اور یوسف بن اسباط الزاہد کے بارہ میں ابو حاتم نے کہا لا يحتج به کہ اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بخاری نے کہا کہ اس کی کتابیں دفن کر دی گئی تمھیں پھر وہ اپنی تسلی کے مطابق حدیث بیان نہیں کر سکتا تھا[4]۔
اور تاریخ بغداد کے ہندوستانی مطبوعہ نسخہ میں اور دار الکتب المصریہ میں جو قلمی نسخہ ہے اس میں ایک اور سند کے ساتھ خبر ہے کہ خطیب نے کہا
اخبرني علی بن احمد الرزاز عن علی بن محمد بن سعيد الموصلى عن الحسن بن الوضاح المودب عن المسيب بن واضح عن يوسف بن اسباط الی آخرہ
اور یہ الرزاز وہی راوی ہے جو اپنے مسودہ سے روایت کرتا تھا اور اس کے بیٹے نے تازہ سنی سنائی بھی اس میں شامل کر دی تھیں جیسا کہ خطیب نے اس کا ذکر کیا ہے[5]۔
اور الموصلی جس کا المیزان میں ذکر کرتے وقت درمیان سے اس کے باپ محمد کا نام ساقط کر کے نسبت دادا کی طرف کر دی گئی ہے۔
تو یہ غلطی ہے۔ اور اس کے بارہ میں ابو نعیم نے کہا کہ وہ کذاب ہے اور ابن الفرات نے کہا کہ
وہ اختلاط کا شکار تھا اور کوئی قابل تعریف آدمی نہ تھا۔ الخ[6]
اور بے شک خطیب نے عیسیٰ بن فیروز کے ترجمہ میں اس الموصلی کے بارہ میں کہا کہ وہ ثقہ نہ تھا[7] ۔ اور ابو حاتم نے المسیب بن واضح کے بارہ میں کہا کہ وہ تھا تو سچا مگر بہت زیادہ غلطیاں کر جاتا تھا۔ تو جب اس کو ان غلطیوں پر آگاہ کیا جاتا تو وہ ان کو قبول بھی نہ کرتا تھا۔ الخ اور اس جیسا آدمی تو مردود الروایہ ہوتا ہے۔ اور اس کو دار قطنی اور ابن الجوزی نے ضعیف کہا ہے۔[8]
اور یوسف بن اسباط تو اس لائق تھا کہ جیسے اس کی کتابوں کو دفن کر دیا گیا تھا اس کو بھی دفن کر دیا جاتا۔ (روایت کی حالت تو یہ ہے ) مگر افسوس کہ خطیب کے ہاں اس جیسی روایت محفوظ ہوتی ہے۔ نیز دار الکتب المصریہ میں جو محفوظ مسودہ ہے جس کا نمبر 40 ہے اس میں علامہ الفقیہ محمد بن محمود الجزائری کے جو کہ گزشتہ صدی کے وسط میں الاسکندریہ کے مفتی تھے ان کے خط سے لکھا ہے کہ یوسف بن اسباط ضعیف سیٸ الحفظ تھا
" اس بارہ میں اصل روایت "
اس بارہ میں اصل روایت اس طرح تھی
《 لَو ادرَكَنِي الْبَتى لَاخَذَ بِكَثِيرٍ من قولى 》
کہ اگر (عثمان) البتی مجھے پائیں یا میں ان کو پالوں تو وہ میری بہت سی باتوں کو قبول کر لیں گے۔
تو راوی نے البتی کو بدل کر النبی کر دیا۔ پھر روایت بالمعنی کرتے ہوئے بہت ہی غلطی کر دی۔
یہ بات محمد بن محمود الجزائری نے لکھی ہے۔ یعنی اس راویت میں اصل البتی تھا مگر اس کو بدل کر النبی کر دیا گیا۔ پھر روایت بالمعنی کرتے ہوئے اس کو بدل کر رسول اللہ کر دیا۔ اور پھر اس میں ﷺ کا اضافہ کر دیا۔ اور البتی سے مراد بصرہ کے عالم امام عثمان بن مسلم البتی ہیں جن کی وفات 143ھ میں ہوئی۔ اور پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ اس جیسی تصحیف بعض راویوں سے پائی جاتی ہے جس کا ذکر خود خطیب نے ج 2 ص 80 کیا ہے[9]۔
بلکہ محدثین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات میں جا پڑتے ہیں مثلا ایک سند یوں بیان کی عن الله عن رجل (جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ نے اپنے استاد سے روایت لے کر بیان کی نعوذ اللہ من ذالک) تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہے جس سے اللہ تعالی روایت لے کر بیان کرتا ہے؟
اللہ تعالی کی ذات تو اس سے بہت بلند ہے کہ اس کا کوئی استاد ہو تو اس محدث نے اس میں تبدیلی کر کے عن رجل کی بجائے عز وجل کر دیا [10]۔ (حالانکہ اعتراض بدستور باقی ہے کہ نبی اور فرشتہ کے علاوہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے براہ راست بات لے کر بیان کرے۔)
پھر وہ الفاظ جو ابو حنیفہ سے یہاں روایت کیے گئے ہیں اگر ان کو بالفرض مان بھی لیا
جائے کہ ان سے یہ ثابت ہیں تو اس کا مطلب یوں ہو گا کہ اس میں مفعول محذوف ہے۔ جیسا کہ یہی مناسب ہے تو اصل عبارت یوں ہوگی
《لاخذني بكثير من قولی》
تو اس صورت میں معنی بالکل ٹھیک بنتا ہے کہ
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پالیتے یا میں آپ کو پالیتا تو آپ بہت سی باتوں میں میرا مواخذہ فرماتے اور جو عیب ہے وہ دور ہو جاتا۔
پس اس قول کے ساتھ ابو حنیفہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی تمام آراء میں مصیب (راہ راست پر) نہیں ہیں۔ بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی بعض آراء ایسی پائی جاتی ہوں جن کی وجہ سے نبی کریم ﷺ عتاب فرماتے۔
اگر بالفرض یہ قول امام صاحب سے ثابت ہو جائے تو اس معنی کی صورت میں یہ قول ان کے انتہائی ورع اور پرہیز گاری پر دلالت کرتا ہے۔
اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر بات میں مصیب نہیں ہیں۔ (جیسا کہ شیعہ حضرات کا اپنے اماموں کے بارہ میں نظریہ ہے)۔ لیکن چونکہ ان کے نزدیک ان کی وہ آراء متعین نہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نا پسند فرماتے اس لیے وہ مسائل کے احکام میں ان آراء کی پیروی کرنے میں مجبور ہیں۔ ان دلائل کی وجہ سے جو ان کے سامنے ظاہر ہوئے۔
اور آگے اس کی بحث آئے گی۔ اور دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں
《لو ادرکنی البتی او ادرکتہ》
" کہ اگر (عثمان) البتی مجھے پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری بہت سی باتوں کو لے لیتے۔"
اور مجتہد کا کسی صحیح حدیث کی مخالفت کرنا صرف اس جیسا مجتہد ہی پہچان سکتا ہے جو اخبار کے مراتب اور ان کی دلالت کے وجوہ کو جانتا ہو۔
وہ راوی نہیں پہچان سکتا جو اخبار کی تصحیح میں متساہل ہو اور معانی کی گہرائی میں غور و فکر کرنے والا نہ ہو جیسا کہ ابو اسحاق الفراری ہے، تو ایسے آدمی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 2 اور 4۔
اعتراض نمبر 2: امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے۔
[2]۔ أَخْبَرَنَا أبو نعيم بن عدي، حَدَّثَنَا عَبْد الرحمن بْن يُوسُف قَالَ: سمعت حجاج بْن الشاعر يقول: رأيت إِبْرَاهِيم بْن سعيد الجوهريّ عن أَبِي نعيم، وأبو نعيم يقرأ وَهُوَ نائم، وكَانَ الحجاج يقع فِيهِ.
(تاريخ بغداد وذيوله - ط العلميه الجزء : 6 صفحة : 91)
[3]۔محبوب بن موسى الأنطاكي
أبو دواد السجستاني :
ثقة لا يلتفت إلي حكاياته إلا من كتاب
(سوالات ابی عبید الآجری 2/258)
[4]۔يُوْسُفُ بنُ أَسْبَاطٍ الزَّاهِدُ
وَقَالَ أبي حَاتِمٍ: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ.
وَقَالَ البُخَارِيُّ: دَفَنَ كُتُبَهُ، فَكَانَ حَدِيْثُهُ لاَ يجيء كما ينبغي.
(میزان الاعتدال 4/462)
[5]۔علي بْن أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن داود بْن مُوسَى بْن بيان أَبُو الحسن المعروف بابن طيب الرزاز
حَدَّثَنِي بعض أصحابنا، قَالَ: دفع إِلَى علي بْن أَحْمَد الرزاز بعد أن كف بصره جزءا بخط أبيه فيه أمالي عَن بعض الشيوخ، وفي بعضها سماعه بخط أبيه العتيق، والباقي فيه تسميع له بخط طري.
فقال: أنظر سماعي العتيق فاقرأه عليَّ، وما كان فيه تسميع بخط طري، فاضرب عليه، فإني كان لي ابن يعبث بكتبي، ويسمع لي فيما لم أسمعه، أو كما قَالَ.
حَدَّثَنِي الخلال، قَالَ: أخرج إِلَى الرزاز شيئا من " مسند " مسدد، فرأيت سماعه فيه بخط جديد، فرددته عليه.
قلت: وقد شاهدت أنا جزءا من أصول الرزاز بخط أبيه فيه أمالي عَن ابن السماك، وفي بعضها سماعه بالخط العتيق، ثم رأيته قد غير فيه بعد وقت، وفيه إلحاق بخط جديد
(تاريخ بغداد ت بشار جلد : 13 صفحه : 234)
[6]۔على بن محمد بن سعيد الموصلي. شيخ أبي نعيم الحافظ.
قال أبو نعيم: كذاب.
وقال ابن الفرات: مخلط غير محمود.
(دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - ط 1 , ج 3 ص 154)
[7]۔ عيسى بن فيروز، أبو موسى الأنباري.
حدث علي بن محمد بن سعيد الموصلي عنه، عن عبد الأعلى بن حماد، وأحمد بن حنبل، والموصلي ليس بثقة.
(تاریخ بغداد ت بشار 12/503)
[8]۔ ابن سرحان الإمام المحدث العالم المسيب بن واضح أبو محمد السلمي التلمنسي
قال أبو حاتم : صدوق يخطئ كثيرا ، فإذا قيل له ، لم يقبل
قال السلمي : سألت الدارقطني ، عن المسيب بن واضح ، فقال : ضعيف .
وقال الدارقطني في مواضع من " سننه " : فيه ضعف
(سیر اعلام النبلاء 11/404)
[9]۔ دیکھیں ترجمہ 458 محمد بن أبان بن وزير، أبو بكر البلخي
[10]۔ قال الدارقطني: وحدثني محمد بن يحيى الصولي قال: حدثنا أبو العيناء قال: حضرت مجلس بعض المحدثين المغفلين فأسند حديثاً عن النبي صلى الله عليه وسلم عن جبرائيل عن الله عن رجل، فقلت: من هذا الذي يصلح أن يكون شيخ الله؟ فإذا هو قد صحفه، وإذ هو عز وجل. وقد نبأنا بهذه الحكاية أبو عبد الله الحسين بن محمد البارع قال: سمعت القاضي أبا بكر بن أحمد بن كامل يقول: حضرت بعض المشايخ المغفلين فقال: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عن جبريل عن الله عن وجل. فقلت: من هذا الذي يصلح أن يكون شيخ الله، فإذا هو عز وجل وقد صحفه
( أخبار الحمقى والمغفلين ص 84 - ابن الجوزي )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں