نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ : حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے استدلال پر ایک اعتراض اور اس کا جواب : (آذان میں ترجیع کا مسئلہ )

 

حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے استدلال پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :   (آذان میں ترجیع  کا مسئلہ )


               شیخ البانی ؒنےمذہبی تعصب کا طعنہ  دے کر(الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۲۰۷- ۲۰۸) اور امن پوری صاحب نے تعجب خیز دلیل کہہ کر،(ضرب حق : ش ۱۱: ص ۲۹-۳۰) یہ اعتراض کیا ہے کہ

 احناف ، حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے آدھا حصہ لیتے ہیں ، اور آدھاحصہ چھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ ان کی حدیث میں مذکور اذان ،۱۹ کلمات پرمشتمل یعنی مع ترجیع ہے ، اسکو تو نہیں لیتے ، البتہ انکی  اقامت جو ۱۷ کلمات پر مشتمل ہے، اس کو لے لیتے ہیں ، یعنی ایک ہی حدیث کے آدھے حصہ کو لیتے ہیں اور آدھے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔

 جواب :

 (اول)     اس میں اصل غلطی یاتجاہل عارفانہ مسلکِ احناف کوسمجھنے میں ہے:

اذان واقامت کے باب میں احناف کی اصل دلیل’ملَک نازل من السماء ‘کی اذان واقامت کی حدیث(یعنی عبداللہ بن زید ؓ کی روایت) ہے۔حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۳؁)  فرماتے ہیں  ’’قلت: والأجود عندي ما عبر به صاحب الهداية : أن حجتنا أذان الملك النازل من السماء وإقامته۔‘‘میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک صاحب ہدایہؒ کی تعبیر بہترین ہے کہ ہماری  دلیل ،آسمان سے اترنے والے فرشتہ کی اذان واقامت ہے۔ (فیض الباری: جلد۲ : صفحہ ۲۰۴)

(دوم)     علماء احناف ترجیع کو ناجائز ، کلماتِ اذان میں اضافہ اور بدعت نہیں سمجھتے ، بلکہ مع ترجیع اذان بھی جائز ہے ، دلیل جوازِ ترجیع ابو محذورہؓ  کی حدیث ہے ،البتہ افضل بلاترجیع اذان ہے ،جوکہ ملَک نازل من السماء کی اذان ہے۔

-            حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے بھی تحریر فرمائی ہے : ’’وحاصل الكلام: أن بلالا رضي الله عنه لم يثبت عنه الترجيع في الأذان، وكذلك الملك النازل من السماء، نعم ثبت في أذان أبي محذورة، فلا بد أن يقر بالأمرين، أي الترجيع وعدمه، ويجري الكلام في الاختيار فقط ‘‘۔ (فیض الباری : جلد۲ : صفحہ ۲۰۷، حدیث ۶۰۸)

-            شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی  صاحب بارک اللہ فی علمہ وعمرہ فرماتے ہیں :

’’حنابلہ اور حنفیہ کے ہاں اذان کے کلمات پندرہ ہیں ، جس میں ترجیع نہیں ہے، اور اذان کے شروع میں تکبیر چار مرتبہ ہے، لیکن یہ اختلاف محض افضلیت  میں ہے، چنانچہ حنفیہ کے نزدیک بھی ترجیع جائز ہے، اور امام سرخسیؒ  اور بعض دوسرے فقہاء حنفیہ نے ترجیع کو جو مکروہ لکھا ہے اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہےاور لفظِ مکروہ  بعض  اوقات خلافِ اولیٰ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ صومِ عاشوراء کو تنہا رکھنا بعض فقہاء نے مکروہ کہا ہے، لیکن اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہے۔‘‘ (درسِ ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۴۵۳)

شامی میں ہے :

قال فی الدر: (ولا ترجيع) فإنه مكروه ملتقى ۔

قال ابن عابدینؒ :  (قوله: فإنه مكروه ملتقى) ومثله في القهستاني، خلافا لما في البحر من أن ظاهر كلامهم أنه مباح لا سنة ولا مكروه. قال في النهر: ويظهر أنه خلاف الأولى. وأما الترجيع بمعنى التغني فلا يحل فيه اهـ وحينئذ فالكراهة المذكورة تنزيهية۔ (الدر المختارمع رد المحتار  : جلد۱: صفحہ ۳۸۶)

-       حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

اور عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت جو بابِ اذان میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے وہ بغیر ترجیع کے ہے، لہذا عدم ترجیع راجح ہے، البتہ ترجیع کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے۔ (انعام الباری : جلد۳ : صفحہ ۳۹۹)

-       مفتی احمد ابراہیم بیمات صاحب رحمہ اللہ فتاویٰ فلاحیہ میں فرماتے ہیں:

احناف کے نزدیک ترجیع نہ کرے ، لیکن یہ صرف اولیٰ وغیر اولیٰ کا اختلاف ہے ۔ (فتاویٰ فلاحیہ : ج۲ : ص ۲۳۶)

-       سلفی عالم ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد الطیارصاحب نے بھی یہی بات احناف کی طرف منسوب کی ہے:

حكمه: اختلف الفقهاء في حكم الترجيع على ثلاثة أقوال:

القول الأول: يكره تنزيهًا. وهو رأي عند الحنفية ، وقيل بأنه الراجح عندهم. واحتجوا لذلك بأن بلالًا لم يكن يرجع في أذانه. ولأنه ليس في أذان الملك النازل من السماء.

القول الثاني: أن الترجيع سنة وهو قول عند المالكية ، وهو الصحيح عند الشافعية ورواية عند الحنابلة.

القول الثالث: أنه مباح فليس بسنة وليس بمكروه. وهو قول الحنفية والصحيح عند الحنابلة۔ (الفقہ المیسر : جلد۱ : صفحہ ۱۷۰)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں بھی احناف کا یہی موقف نقل کیاگیا ہے ۔[1]

غور فرمائیں :

ان عبارتوں  سے واضح ہورہا ہے کہ احناف نے حضرت ابو محذورہؓ کی حدیث کی ترجیع  والی بات کو بالکل ترک کردیا ہو، ایسا نہیں ہے ، بلکہ حدیث ابی محذورہ ؓ کی وجہ سے علماء احناف بھی ترجیع کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ اسے خلافِ اولیٰ سمجھتے ہیں ۔

لہذا شیخ البانیؒ  اور دیگرکا علماء احناف کو مذہبی تعصب کا طعنہ دینا درست نہیں ہے۔

(سوم)     ترجیع سے متعلق احناف کا جو موقف (جائز ،مگر خلاف اولیٰ) ہے، یہی موقف،سلفی علماء کرام  کا بھی ہے:

(۱)         سعودیہ کے بڑے علماء میں سے ایک بڑے عالم، شیخ عبد اللہ البسامؒ تحریر فرماتے ہیں :

’’الأفضل ترك الترجيع‘‘

افضل ترک ترجیع ہے۔  (تو ضیح الاحکام من بلوغ المرام : جلد۱ : صفحہ ۵۱۲، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۶)  اور حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے مستفاد باتوں کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’۵ - مشروعية الترجيع‘‘  (ترجیع کی مشروعیت[جواز])۔ (تو ضیح الاحکام من بلوغ المرام : جلد۱ : صفحہ ۵۱۵، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۵)

غور فرمائیے!

شیخ بسام ؒ حضرت ابو محذورۃؓکی حدیث سے ترجیع کی ’’مشروعیت‘‘ اخذ کر رہے ہیں ،’’ سنّیت‘‘ نہیں، نیزیہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افضل ترک ترجیع ہے۔

(۲)          اسی طرح سعودیہ کے بڑے علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد العزیز راجحی لکھتے ہیں :

               ’’ وأما أذان بلال فليس فيه ترجيع، وأذان بلال أفضل؛ لأنه كان هو الذي يؤذن به بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، وإذا عمل بأذان أبي محذورة فلا حرج ‘‘

بلالؓ کی اذان میں ترجیع نہیں ، بلال ؓ کی اذان افضل ہے ، چونکہ نبی کریم ﷺ کے سامنے وہی اذان دیا کرتے تھے، البتہ اگر ابو محذورہؓ کی اذان پر عمل کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ (فتاویٰ متنوعہ : ۱۳/۸)

(۳)         اسی طرح سعودیہ کبارِ علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد اللہ بن جبرین تحریر فرماتے ہیں :

’’ونحن نقول: لا بأس بذلك، ولكن أذان بلال الذي ليس فيه ترجيع أصح، فإنه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم ولم يأمره بالترجيع‘‘

 ہم کہتے ہیں اس (یعنی ترجیع) میں کوئی حرج نہیں ، لیکن بلال رضی اللہ عنہ کی اذان جس میں ترجیع نہیں ہے، زیادہ صحیح ہے، اس لئے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، لیکن آپ ﷺ نے ان کو ترجیع کا حکم نہیں فرمایا ۔   (شرح عمدۃ الاحکام لابن جبرین : ۱۰/۴)

(۴)        سابق مفتی مملکہ، شیخ عبد العزیزابن باز ؒ اپنے فتوی میں تحریر فرماتے ہیں :

’’هذا يقال له: الترجيع وهذا علمه النبي صلى الله عليه وسلم أبا محذورة رضي الله عنه وكان يؤذن به في مكة رضي الله عنه، فمن فعله فلا بأس، فهو نوع من أنواع الأذان الشرعي، ولكن الأفضل هو أذان بلال رضي الله عنه الذي كان يؤذن به بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام، كان بلال رضي الله عنه يؤذن بدون ترجيع بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام في المدينة حتى توفاه الله، وكلا النوعين بحمد الله مشروع إلا أن الأفضل هو ما كان يفعل بين يديه عليه الصلاة والسلام وهو عدم الترجيع، ومن رجع فلا بأس‘‘

۔۔۔۔۔۔ اس کو ترجیع کہتے ہیں ، یہ نبی کریم ﷺ نے ابو محذورہ ؓ کو سکھلائی تھی، آپؓ اس طرح مکہ میں اذان دیا کرتے تھے، پس جو ایسے (ترجیع کے ساتھ) اذان دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی شرعی اذان کی قسموں میں کی ایک قسم ہے، لیکن افضل بلال ؓ کی اذان ہے، جو اذان وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے دیا کرتے تھے، بلال ؓ مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺکے روبرو بدون ترجیع اذان دیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ، الحمد للہ (اذان کی ) دونوں قسمیں (مع ترجیع و بدون ترجیع) مشروع ہیں ، لیکن افضل وہ ہےجو نبی کریم ﷺکے روبرو کیا جاتا تھا اور وہ عدم ترجیع ہے، اور اگر کوئی ترجیع کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔  (فتاویٰ نور علی الدرب : ۶/۳۱۷)

ان تمام سلفی کبارِ علماء کے فتاویٰ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ ابو محذورہ ؓ کی ترجیع والی اذان کے مقابلہ میں ، حضرت بلال ؓ کی اذان ، جو بغیر ترجیع کے تھی ، افضل ہے ، یہی بات علماء احناف بھی کہتے ہیں ۔

(چہارم)    علماء احناف حضرت ابو محذورہؓ کی حدیث سے ترجیع کی سنّیت اخذ کرنے کے بجائے ،جواز اخذ کرنے کی، جووجہ ذکر کرتے ہیں ، وہی وجہ سلفی علماء بھی ذکر کرتے ہیں :

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے : ’’یہ ترجیع ہے،  جو حنفیہ کے نزدیک  اذان میں سنت نہیں ہے، یہ ابو محذورہ ؓ کی حدیث میں وارد ہے، ان کو آنحضرت ﷺنےبغرضِ تعلیم شہادتین کے اعادہ کا حکم فرمایا تھا، اور حضرت بلالؓ کی اذان اور ملکِ نازل من السماء کی اذان میں ترجیع نہ تھی ، اس پر حنفیہ کا عمل ہے‘‘۔ (فتاویٰ دار العلوم : جلداول : صفحہ ۷۴)

یہی بات سلفی عالم شیخ محمدعریفی حفظہ اللہ تحریر کرتے ہیں :

سوال - أيهما أفضل في الأذان الترجيع أم عدمه؟

ج: الأفضل عدم الترجيع،وذلك لأنه لم يذكر إلاّ في حديث محتمل وهو حديث أبي محذورة وفيه «أنّ النبي صلى الله عليه وسلم علّمه الأذان وذكر له الترجيع فيه» ولكن الذي نرى أنّ النبي صلى الله عليه وسلم ذكر له الترجيع تلقينا له بالشهادة لأنه كان حديث عهد بإسلام فأراد أن تستقرّ الشهادتان في قلبه۔(المفید فی تقریب أحکام الاذان  : ۱/۳۴)

(سوال)     اذان میں کیا افضل ہے ترجیع یا عدم ترجیع ؟

جواب :     افضل عدم ترجیع ہے ، اسلئے کہ ترجیع کا تذکرہ صرف ایک محتمل حدیث میں ہے،  وہ حدیث ابی محذورہؓ ہے،

اس میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اذان کی تعلیم دی اور اس میں ترجیع کا ذکر کیا، لیکن ہمارا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے  ان کے سامنے ترجیع کا تذکرہ شہادت کی تلقین کی غرض سے کیا ، اسلئے کہ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ شہادتین ان کے دل میں راسخ ہوجائیں ۔

معلوم ہوا:

بالترجیع اذان کے، خلاف اولیٰ ہونے کے قائل، صرف علماء احناف نہیں  بلکہ بڑے بڑے سلفی علماء کرام بھی ہیں ، اور حدیث ابی محذورہ ؓ کا جو محمل احناف بیان کرتے ہیں ، وہی محمل سلفی علماء نے بھی بیان کیا ، لیکن شیخ البانیؒ نے ہدفِ ملامت صرف احناف اور شوافع کو بنایا۔

حضرت شیخ البانیؒ  اور امن پوری صاحب کو – جو ترجیع کی سنیت کے قائل ہیں – چاہیے تھا کہ وہ پہلے سلفی کبارِ علماء پر رد فرماتے ،پھر احناف و شوافع کو مذہبی تعصب کا طعنہ دیتے،بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ شیخ البانیؒ ، حکومتِ سعودیہ سے درخواست فرماتے  کہ جس طرح نبی کریمﷺکے زمانہ میں  مکہ مکرمہ میں ترجیع کے ساتھ،  اورمدینہ منورہ میں بغیر ترجیع کے اذان  ہوتی تھی اب بھی اسی پر عمل کرکے ایک مہجور سنت کو زندہ کیا جائے۔

امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہؒ کی عبارت اور اس کا جواب :

ظہیر صاحب ایک قول امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہؒ  کا  ذکر کیا کہ :

’’نبی کریمﷺسے اذان واقامت دو ہی طرح ثابت ہے،  بغیر ترجیع اذان کے ساتھ اکہری اقامت اور  مع ترجیع اذان کے ساتھ  دوہری اقامت ، لیکن بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کا حکم کرنا ،  نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘۔(خلاصہ)   (ضرب حق : ش۱۱ : ص ۳۰)

اس کے جوابات درجِ ذیل ہیں :

(الف )    اس قول کا سلف صالحین اور فقہاء امصار میں سے کوئی  قائل نہیں :

               شافعیہ اور مالکیہ اذان میں ترجیع کی سنیت اور اکہری اقامت کے قائل ہیں، جبکہ  حنفیہ ، حنابلہ اور خود سلفی علماء ، اذان میں ترجیع وعدم ترجیع ، اور اکہر ی ودوہری اقامت تمام کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ علماء حنفیہ اور سلفی علماء میں صرف اتنا فرق ہے کہ حنفیہ دوہری اقامت افضل سمجھتے ہیں جبکہ سلفی علماء اکہر ی اقامت ۔

یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں  ’’وقيل لم يقل بهذا التفصيل أحد قبله‘‘ کہا گیا ہے کہ امام ابن خزیمہ ؒ سے پہلے یہ بات کسی نے نہیں کہی(یعنی سلف میں سے کوئی اس کا قائل نہیں )۔(فتح الباری :۲/۸۴)

البتہ غیرمقلدین  کی شذوذپسندی ، اوربغضِ احناف نے انہیں اس قول کو اختیار کرنے پر مجبور کیا۔  اس سے  غیرمقلدین کے دعوائے سلفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

(ب)      حدیثی ناحیہ سے اسکا جواب ،ہم خود دینے کی بجائے غیرمقلدین کے محدث العصر سے  ہی نقل کر دیتے ہیں :

قلت: وفيما قاله ابن خزيمة نظر لأن الحديث الثاني - وهو حديث عبد الله ابن زيد الأنصاري في الرؤيا - فيه تثنية الإقامة وليس فيه الترجيع اتفاقا ۔۔۔۔۔۔۔ فكيف يقال: إن تثنية الأذان بلا ترجيع مع تثنية الإقامة لم تثبت عنه صلى الله عليه وسلم؟ مع أن ابن خزيمة ممن روى ذلك كما سبق في الأذان۔

’’امام ابن خزیمہ ؒ کا یہ قول محل ِ نظر ہے ، اس لئے کہ یہ خود ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے، (ان کے اس قول کےمحل نظر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ) حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی روایت میں اذان بالاتفاق بلا ترجیع  ہے اوراسکے ساتھ اقامت دوہری منقول ہے، لہذا یہ کہنا کہ’’ بلا ترجیع اذان کے ساتھ دوہری اقامت ،نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘ محلِ نظر ہے۔ (الثمر المستطاب : ج۱: ص ۲۰۹)

اخیراً :

یہ مسئلہ حلال وحرام  یا جائز وناجائز کا نہیں تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ اولیٰ و خلاف اولیٰ کا  تھا ،  مگر غیرمقلدین کے مشہور محدث ، شیخ زبیر علی زئی صاحب کے شاگرد غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب نے حق وخلاف حق،  اور اہل حق و بعض الناس کا مسئلہ بناکر اسے پیش کیا ،علامہ ابن تیمیہ ؒ  کے چند جملہ لکھ کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں :

۔۔۔۔۔۔۔ فالصواب مذهب أهل الحديث، ومن وافقهم، وهو تسويغ كل ما ثبت في ذلك عن النبي - صلى الله عليه وسلم -. لا يكرهون شيئا من ذلك، إذ تنوع صفة الأذان والإقامة، كتنوع صفة القراءات والتشهدات، ونحو ذلك، وليس لأحد أن يكره ما سنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم – لأمته۔ وأما من بلغ به الحال إلى الاختلاف والتفرق حتى يوالي ويعادي ويقاتل على مثل هذا ونحوه مما سوغه الله تعالى، كما يفعله بعض أهل المشرق، فهؤلاء من الذين فرقوا دينهم، وكانوا شيعا۔

۔۔۔۔ پس  صحیح مذہب اہل حدیث اور ان کے موافقین کا ہے ، اور وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ سے جو کچھ ثابت ہے، تمام کی گنجائش ہے ، اس میں سے وہ کسی چیز کو مکروہ نہیں سمجھتے ، اس لئے کہ اذان  واقامت کے الگ الگ طریقے  قرآت اور تشہد کے مختلف طریقوں کی طرح ہیں ،  اور کسی کو یہ حق نہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرے جو نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کیلئے سنت قرار دیا ہے۔

اور جو اختلافات وتفرقہ بازی میں یہاں تک پہنچ جائے کہ اس جیسےمسائل جس میں اللہ تعالی نے گنجائش دی ہے، دوستی ، دشمنی اور لڑائی جھگڑے  کرے ، جیسے کہ بعض اہل مشرق کرتے ہیں ، تو یہ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے ۔  (الفتاویٰ الکبریٰ  : جلد۲ : صفحہ ۴۲)

اس سے غلام مصطفی ظہیر امن پوری اور ان جیسے نام نہاد محققین کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح فتنہ فساد سے محفوظ رکھے ، ایمان و اعمال صالحہ کی زندگی اور شہادت کی موت عطاء فرمائیں۔

آمین وصلی اللہ وسلم علی سیدنا ونبینا محمد وعلیٰ آلہ وأصحابہ اجمعین۔



[1] الفاظ یہ ہیں :

الترجيع في الأذان:

۱۱ - الترجيع هو أن يخفض المؤذن صوته بالشهادتين مع إسماعه الحاضرين، ثم يعود فيرفع صوته بهما۔

وهو مكروه تنزيها في الراجح عند الحنفية؛ لأن بلالا لم يكن يرجع في أذانه، ولأنه ليس في أذان الملك النازل من السماء۔

وهو سنة عند المالكية وفي الصحيح عند الشافعية؛ لوروده في حديث أبي محذورة، وهي الصفة التي علمها له النبي صلى الله عليه وسلم، وعليها السلف والخلف۔

وقال الحنابلة: إنه مباح ولا يكره الإتيان به لوروده في حديث أبي محذورة. وبهذا أيضا قال بعض الحنفية والثوري وإسحاق ، وقال القاضي حسين من الشافعية: إنه ركن في الأذان۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ : ۲/۳۶۰)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...