مردود جرح کی
قسمیں
محترم محمد حسیب صاحب حفظہ اللہ
(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ ائمہ
جرح و تعدیل روات پر مختلف قسم کی نوعیت کا کلام کرتے رہتے ہیں بلکہ بڑے بڑے
ثقات پر جرح کی گئی ہے جسکا جھابذیہ نقاد
پرواہ نہیں کرتے اور اسکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اگرچہ جارح سے صحیح سندوں کے ساتھ
ثابت بھی ہو بحرحال یہاں پر جرح کے اعتبار سے چند اصولی باتیں قارئین کے لئے پیش
خدمت ہیں۔
جارح یعنی جرح کرنے والا راوی کے
متعلق مختلف وجوه سے جرح کرتا ہے جوکہ راوی کے مجروح بننے کا سبب ضرور بن سکتا ہے
لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ لازماً راوی مجروح ہو جیسا کہ بعض ناعاقبت اندیش
لوگ امام ابو حنیفہ کے متعلق لوگوں کا کلام دکھا کر صرف سند کے صحیح ہونے کا ڈرامہ
رچتے ہیں ان لوگوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے
کہ سند کے صحیح ہونے کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ جارح سے یہ کلام ثابت
ہے لیکن جرح کے جو اسباب بتائے گئے ہیں یا جرح قبول ہونے کے جو شرائط و معیار مقرر
کئے گئے ہیں اسکو اپ نے نظر انداز کر کے اصول شکنی اور انصاف کا خون کردیا ہے ۔
ناقدین اور
جارحین کے نقد و جرح کے پیچھے مختلف قسم کے اسباب و قرائن پیش رو ہوتے ہیں۔
1...عقائد میں مخالفت
یعنی راوی سے
عقیدے کی اختلاف کی بنیاد پر جرح کرنا اس کو اہل السنہ کے نزدیک بدعت غیر مکفرۃ سے
پہچانا جاتا ہے جیسے شیعہ خوارج قدریہ مرجئہ معتزلہ وافقیہ جھمیہ وغیرہ اس قسم کے
روات کی روایت کے قبول و رد کے اعتبار سے ائمہ حدیث کے ہاں چند اصول ہیں جس کو کسی
اور جگہ بیان کرونگا ان شاء اللہ۔
بہت سے ائمہ
جرح و تعدیل کسی راوی کی توثیق کرتے ہوئے اسکی بدعت بھی بیان کر دیتے ہیں جوکہ اس
بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ انکے نزدیک راوی کی اس بدعت سے اسکی روایت کی صحت و ثقاہت
پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس پر کتبِ جرح و تعدیل میں بیشمار امثال موجود ہیں
مثلا امام
یحییٰ بن سعید قطان ایک راوی عباد بن منصور الناجی کے متعلق کہتے ہیں
ثقۃ
لا ینبغی ان یترک حدیثه لرای أخطأ فیه یعنی القدر
عباد بن منصور ثقہ ہے اس قابل نہیں کہ اسکی حدیث
ترک کی جائے بوجہ قدریہ نظریہ کے ،جس میں وہ غلطی کھا گیا۔
(الجرح و التعدیل 6 الترجمۃ
438)
2...سلطان کے معاملات میں مداخلت کرنا
اس کڑی میں
ایک جماعت ان لوگوں کی ہے جس میں ائمہ حدیث نے کئی روات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان پر جرح
کی ہے کیونکہ وہ لوگ سلطان اور خلیفہ وقت کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں لیکن
اس کا راوی کے حفظ و ضبط ، اتقان، ورع اور دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگرچہ متعدد
ائمہ کو یہ عمل ناپسند رہا ہے۔
جیسے حمید بن
ھلال العدوی مشہور و معروف متفق علیہ ثقہ راویوں میں سے ہیں لیکن امام ابن سیرین
نے سلطان کے معاملات میں مداخلت پر ان سے توقف اختیار کر لیا تھا جیسے کہ اسکا ذکر
حافظ ابن حجر نے کیا ہے
ﺣﻤﻴﺪ
اﺑﻦ ﻫﻼﻝ اﻟﻌﺪﻭﻱ ﺃﺑﻮ ﻧﺼﺮ اﻟﺒﺼﺮﻱ ﺛﻘﺔ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﻮﻗﻒ ﻓﻴﻪ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ ﻟﺪﺧﻮﻟﻪ ﻓﻲ ﻋﻤﻞ اﻟﺴﻠﻄﺎﻥ
ﻣﻦ اﻟﺜﺎﻟﺜﺔ. ( تقریب التھذیب رقم الترجمة
1563)
اس مختصر کتاب میں متفق علیہ ثقہ راوی پر کلام
پیش کرنے کی یہاں کوئی ضرورت تھی بھی نہیں مگر حافظ ابن حجر نے پھر بھی نقل کیا ہے
بحرحال ایسی جرح کے متعلق خود حافظ ابن حجر رح نے لکھا ہے کہ اس قسم کی تضعیف سے
راوی کی صداقت و حفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
ولا
اثر لذالک التضعیف مع الصدق والضبط
(ہدی الساری 385)
امام ابو
حنیفہ خود حکام و سلاطین کے ہاں انا جانا اور انکے مجالس یا انکے معاملات میں
مداخلت کو برا سمجھتے تھے اسی وجہ سے انھوں نے قضاء کا عہدہ قبول نا کرنے پر جیل
کی سزائیں کھاٹی کوڑے اور دیگر تکالیف برداشت کیے۔
( تارخ بغداد
للخطیب)
تو اس قسم کی وجوہات کی بنیاد پر تنقید کرنا
کوئی معانی نہیں رکھتا نا ہی اہل علم کے ہاں اسکا کوئی اعتبار ہوتا ہے ۔
3... اجتہاد ،قیاس و رائے کی مخالفت کی بنیاد پر جرح کرنا،
بمع اصحاب الرائ پر جرح کا تحقیقی جائزہ
قارئین کرام
! مردود جرح کی قسموں میں تیسری جوکہ سب سے بدترین قسم ہے وہ اجتھاد، قیاس و رائ کی مخالفت کی
بنیاد پر جرح کرنا ہے جوکہ ہم نے بیشمار کوفہ کی ثقہ راویوں کے بارے میں دیکھا ہے
جن میں بیشتر کی تضعیف فقط اسی وجہ سے کی گئی ہے جبکہ وہ قرآن و سنت پر مبنی صحیح
رائے کے حامل تھے۔ قرآن و سنت میں قیاس و رائے کے ماھر لوگوں کو اھل الرای اور
اصحاب الرای کہا جاتا ہے انھوں نے دیگر ائمہ متبوعین کی طرح ایک عمدہ طریقہ اپنایا
تھا ابھرتے ہوئے واقعات اور مسائل کے جامع وضاحتوں اور عملی حل کے ساتھ اسلامی فقہ
کو تقویت بخشنے میں ان کا بڑا اثر تھا۔ قیاس رای کے ذریعے وہ مسائل شرعیہ فقہیہ کے
استنباط کے اھل تھے اس وجہ سے بعض ظاھری قسم کے اصحاب الحدیث نے ان کو اپنی تنقید
کا نشانہ بنایا ان میں امام احمد بھی شامل تھے ۔
امام احمد
اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں ظاہری قسم کے طبیعت والے تھے اور اصحاب الرائی سے سخت متنفر رہیں ہیں چنانچہ
انکے بیٹے عبد اللہ نقل کرتے ہیں۔
سمعت
أبی يقول أهل الراي لا يروي عنهم الحديث
امام احمد نے
کہا اہل الرای سے احادیث روایت نہیں کی جائے گی،
(العلل ومعرفۃ الرجال 1707)
حالانکہ راوی
کے حفظ و عدالت کے ہوتے ہوئے اہل الرائے ہونا یہ
سرے سے کوئی علت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سے حدیث روایت نا کی جائے نا
ہی اہل علم میں سے آج تک کسی نے صحت حدیث کے لئے ایسی کوئی شرط مقرر فرمائی ہے کہ
راوی رائے و اجتھاد سے پیدل ہو۔
شعیب ابن
اسحاق جوکہ امام احمد کے نزدیک خود صاحب حفظ و عدالت تھا ان کے متعلق امام احمد سے
پوچھا گیا تو جواب میں امام احمد نے کہا
ما
اری به بأسا ولکنه جالس اصحاب الرای کان جالس ابا حنیفة
یعنی امام
احمد کہتے ہیں میرے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی موجود نہیں سوائے یہ کہ اصحاب
الرای کی مجالس اور امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا تھا...
(مسائل الامام
احمد روایة أبي داؤد السھستانی 1778)
قارئین
ملاحظہ فرمائیں کہ راوی میں ایسی کوئی خرابی موجود نہیں جس کی وجہ سے اسکی حدیث
مشکوک ہو لیکن پھر بھی امام احمد کو ان سے اصحاب الرائے کی مجالس میں بیٹھنے کا
گلا ہے۔
امام ابو
حنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا کہ
محمد بن حسن شیبانی جوکہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور اصحاب الرائے میں سے ہے انکے بارے میں کیا فرماتے ہیں تو
انھوں نے جواب دیا میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔
سألت
ابی عن محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفة صاحب الرای قال لا اروی عنه شیئا،
( العلل ومعرفۃ الرجال 5329 مع
5330)
تو خلاصہ یہ
ہے کہ امام احمد شروع میں نا صرف رائے، اجتھاد و قیاس کے مخالف رہیں بلکہ جو اسکے
قائل رہیں ہیں ان سے بھی منحرف تھے جن میں بڑے بڑے ائمہ شامل ہیں اسی وجہ سے انھوں
نے امام مالک کی رائے کو بھی ضعیف کہنا شروع کردیا تھا۔اور اس سرفہرست میں امام
اوزاعی کو بھی شامل کرکے ان پر بھی جرح کی ہے ملاحظہ فرمائیں
امام خطیب
بغدادی نقل کرتے ہیں
ﺳﻤﻌﺖ
ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ- ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ- ﻓﻘﺎﻝ: ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭﺭﺃﻱ ﺿﻌﻴﻒ ،ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻓﻘﺎﻝ:
ﺣﺪﻳﺚ ﺿﻌﻴﻒ، ﻭﺭﺃﻱ ﺿﻌﻴﻒ،
ابراھیم بن
إسحاق الحربی کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سنا جبکہ ان سے کسی نے امام مالک کے
متعلق پوچھا تو فرمایا کہ اسکی حدیث صحیح ہے لیکن اسکی رائے ضعیف ہے اور امام
اوزاعی کے متعلق پوچھا تو جواب دیا ان کی حدیث بھی ضعیف ہے اور رائے بھی....
(تاریخ بغداد للخطیب 13/418)
امام اوزاعی
کا علمی مقام اہل علم کو بخوبی معلوم ہے لیکن امام احمد نے آسانی کے ساتھ ان پر
بھی خط تنسیخ کھینچا ، بلکہ امام سفیان ثوری امام مالک اور امام اوزاعی سب کی
اجتھادی تحقیقات کو محض رائے کہہ کر رد کردیا تھا جیسے کہ امام ابن عبد البر نقل
کرتے ہیں
ﺣﺪﺛﻨﺎ
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﺛﻨﺎ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﻨﺠﻴﺮﻣﻲ ﺑﺎﻟﺒﺼﺮﺓ ﺛﻨﺎ اﻟﻌﺒﺎﺱ
ﺑﻦ اﻟﻔﻀﻞ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﺷﺒﻴﺐ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻳﻘﻮﻝ: ﺭﺃﻱ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻭﺭﺃﻱ
ﻣﺎﻟﻚ، ﻭﺭﺃﻱ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻛﻠﻪ ﺭﺃﻱ، ﻭﻫﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﺳﻮاء ﻭﺇﻧﻤﺎ اﻟﺤﺠﺔ ﻓﻲ اﻵﺛﺎر
(جامع بیان العلم 2/1082)
سلمہ بن شبیب
کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سنا وہ کہتے ہیں کہ امام اوزاعی کی رائے، امام مالک
کی رائے اور امام سفیان کی رائے محض رائے ہی ہے (یعنی اسکی کوئی حیثیت نہیں) جبکہ
حجت میرے نزدیک صرف آثار میں ہے ۔
یہ سب اس بات
کی دلیل ہے کہ امام احمد نے اصحاب الرای کے متعلق اپنے شاذ منہج یعنی رائے و
اجتھاد سے متنفر ہونے کی وجہ سے بڑے ائمہ پر تنقید کی تھی لیکن بعد میں تحقیق کرنے
پر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر گئے، تو سابقہ منہج کی وجہ سے صادر کلام کی کوئی
حیثیت نہیں رہتی نا ہی اہل علم کے نزدیک اصحاب الرای ہونا باعث جرح و قدح ہے۔
آج کے دور
میں یہی موقف غیر مقلدین حضرات میں بھی پایا جاتا ہے بڑے بڑے ائمہ دین کی آراء و
تحقیقات کو محض رائے کہ کر رد کر دیتے ہیں جوکہ انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔رائے و قیاس
کی مخالفت کی بنیاد پر جرح کی ایک اور مثال قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
ایک مشہور
ثقہ امام ہیں جن کا نام ہے حماد بن دلیل۔امام خطیب لکھتے ہیں
حماد
بن دلیل ابو زید قاضی مدائن حدث عن سفیان الثوری، عمر بن نافع، والحسن بن عمارۃ،
وابی حنیفة النعمان بن ثابت وکان اخذ الفقه عن ابی حنیفة..
یعنی امام
حماد بن دلیل نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے سیکھا
اسکی توثیق
پیش خدمت ہے
1...امام یحی بن معین کہتے ہیں لیس به بأس
ھو ثقة
دوسری جگہ
کہتے ہیں حماد بن دلیل ابو زید قاضی المدائن وکان ثقة..
(تاریخ ابن
معین روایۃ الدوری 4/376)
2...ابن عمار کہتے ہیں حماد بن
دلیل.. وکان من ثقات الناس
( تاریخ
بغداد 8/148)
3...امام ابو داؤد صاحب السنن کہتے ہیں ابو
زید قاضی المدائن لیس به بأس
(تاریخ بغداد
8/148)
4...امام مغلطائی کہتے ہیں ذکرہ ابو حفص
ابن شاھین فی جملة الثقات قال ھو عندی فی الطبقة الثالثة من المحدثین..
(اکمال
تھذیب الکمال 4/138)
5...وقال ابن ابی حاتم عن ابیه من
الثقات
(اکمال
تھذیب الکمال رقم 1336)
اسی طرح بہت
سارے ائمہ حدیث نے اسکی توثیق کی ہے۔
اب چونکہ
حماد بن دلیل جوکہ ثقہ امام ہیں انھوں نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا اس
بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ رائے و قیاس
کی مخالفت کے سبب ان پر جرح کرنے پر مجبور ہوگئے۔
چنانچہ مھنی
بن یحییٰ کہتے ہیں
سألت
احمد عن حماد بن دلیل قال کان قاضی المدائن لم یکن صاحب حدیث کان صاحب رای قلت
سمعت منه شیئا قال حدیثین...
میں نے امام
احمد سے پوچھا حماد بن دلیل کے بارے میں تو انھوں نے کہا کہ مدائن کے قاضی تھے
لیکن صاحب حدیث نہ تھے (یعنی حدیث سے شوق و شغف نہیں رکھتے تھے) بلکہ صاحب رای تھے
(یعنی قیاس و اجتھاد کے فاعل و قائل تھے) میں نے پوچھا کیا اپ نے ان سے کچھ سنا ہے
امام احمد نے کہا ہاں صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔
(موسوعة
اقوال الإمام أحمد رقم 612)
حافظ ابن حجر
رح انکا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ﺣﻤﺎﺩ
اﺑﻦ ﺩﻟﻴﻞ ﻣﺼﻐﺮ ﺃﺑﻮ ﺯﻳﺪ ﻗﺎﺿﻲ اﻟﻤﺪاﺋﻦ ﺻﺪﻭﻕ ﻧﻘﻤﻮا ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺮﺃﻱ
تقریب
التھذیب رقم 1497
یعنی حماد بن دلیل صدوق درجے کا
راوی ہے رائے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا گیا ہے ۔
علامہ البانی
رائے کے اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں
قلت:
وهذا ليس بجرح، فالحديث جيد الإسناد
میں( البانی
)کہتا ہوں یہ سرے سے جرح ہی نہیں ہے لہذا حدیث اعلی سند والی ہے انتہی
(سلسلۃ
الأحاديث الصحیحۃ رقم 1233)
معلوم ہوا کہ
رائے و اجتھاد کی مخالفت پر مبنی جرح مردود ہوتی ہے۔
امام ابن عدی
بھی ان ائمہ میں سے تھے جو رائے و قیاس کے مخالف رہیں ہیں انھوں نے حماد بن دلیل
کا ذکر بغیر کسی جرح و تعدیل کے اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں کیا ہے البتہ ساتھ ہی انکو قلیل الروایۃ بھی کہا ہے۔
(الکامل فی
ضعفاء الرجال رقم 425)
ایسے ہی اور
بھی چند ائمہ رہے ہیں جنھوں نے رائے قیاس و اجتہاد کی مخالفت کی بنیاد پر ثقہ روات
پر کلام کیا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
ذیل میں قارئین کرام کو امام احمد کے
ابتدائی دور کا ایک جھلک دکھاتا ہوں وہ شروع میں فقہ سے اتنے نابلد تھے کہ اصول
فقہ اور کتب حدیث میں ابواب کے ترتیب کو بدعت کہتے تھے بلکہ جید اور کبار ائمہ کو
اس وجہ سے بدعتی شمار کرتے رہیں۔
چنانچہ امام
ابو داؤد ایک باب قائم کرتے ہیں باب فی الرأی
اس باب میں
امام احمد کا موقف نقل کرکے لکھتے ہیں
سمعت
احمد قال ابن عیینة اصحاب الرای ثلاثة عثمان بالبصرۃ وربیعة بالمدینة وابو حنیفة
بالکوفة....
امام ابو
داؤد کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سنا کہ ابن عیینہ نے کہا اصحاب الرای تین لوگ
(معروف) ہیں۔امام عثمان بتی بصرہ میں، امام ربیعہ مدینہ میں جبکہ امام ابو حنیفہ
کوفہ میں۔
سمعت
احمد وقال له رجل جامع سفیان نعمل به؟ قال علیک الآثار
میں نے امام
احمد سے سنا، کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا جامع سفیان پر عمل کیا جائے تو امام احمد
نے کہا کہ تم پر ضروری ہے آثار کی پیروی کرنا۔
یعنی امام
احمد کسی امام کی اجتھادی تحقیقات کو بالکل نظر انداز کرتے تھے کیونکہ ان میں ان
لوگوں کی رائے شامل تھی جبکہ امام خود کو محض روایت حدیث تک محدود رکھتے رہیں۔
سمعت
احمد وسأله رجل عن المسئلة فقال دعنا من ھذہ المسائل المحدثة
میں نے امام
احمد سے سنا ان سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو امام احمد نے جوابا کہا کہ ہمیں ان جدید
مسائل (غیر منصوصہ) سے دور رکھو۔
اسی پر بس
نہیں امام احمد کسی کو اپنی ذاتی اجتھادی رائے و تحقیق بتانے کے بھی خلاف تھے
سوائے روایت نقل کرنے کے ۔
امام ابو
داؤد کہتے ہیں
وما أحصی ما سمعت احمد یسأل عن
کثیر مما فیه اختلاف العلم فیول لا ادری
یعنی میں
نہیں بتا سکتا کہ کتنی بار میں نے امام احمد سے سنا ان سے اختلافی مسائل کے بارے
میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم...
سمعت
احمد یقول انا اکرہ ان یکتب عنی رای
میں نے امام
احمد سے سنا میں مکروہ سمجھتا ہوں کہ مجھ سے میری رائے لکھی جائے۔
راوی کہتا ہے
قلت
لاحمد الغرقی یورث بعضهم من بعض؟ قال اکثر الأحاديث علیه ولا نعلم بین اھل الکوفة
فیه اختلافا حتی جاء ابو حنیفة فقاله وتباعه علی ذالک سفیان..
میں نے امام
احمد سے پوچھا کیا غرقی شخص اپنے بعض لوگوں سے بعض کو وصیت کر سکتا ہے یا نہیں تو
جواب دیا اس پر اکثر احادیث موجود ہیں لیکن میں نہیں جانتا اھل کوفہ میں کسی نے اس
مسئلے پر کلام کیا ہو یہاں تک کہ ابو حنیفہ آئے انھوں نے اس بارے میں کلام کیا اور
سفیان ثوری نے انکی اتباع کر لی
(مسائل الامام احمد روایة ابی
داؤد السجستانی باب فی الرأی)
امام احمد کے
ابتدائی منفرد نہج کی وجہ سے بہت سے ائمہ اسلام معاذ اللہ بدعت کی ضد میں بھی آتے
ہیں ملاحظہ فرمائیں امام احمد کا بیٹا عبد اللہ ایک باب قائم کرتے ہیں
ما نهي عنه
من وضع الکتب والفتیا وغیرہ
یعنی جو امام احمد نے کتابیں
اور فتاوی لکھنے سے منع کیا ہے اسکا بیان
اس کے تحت
لکھتے ہیں
ﺳﻤﻌﺖ
اﺑﻲ ﻭﺫﻛﺮ ﻭﺿﻊ ﻛﺘﺐ
ﻓﻘﺎﻝ
اﻛﺮﻫﻬﺎ ﻫﺬا اﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﺿﻊ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻓﺠﺎء اﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﻭﻭﺿﻊ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻭﺟﺎء ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻭﺿﻊ
ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻓﻬﺬا ﻻ اﻧﻘﻀﺎء ﻟﻪ ﻛﻠﻤﺎ ﺟﺎء ﺭﺟﻞ ﻭﺿﻊ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻭﻫﺬا ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺿﻊ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻭﺟﺎء اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ
اﻳﻀﺎ ﻭﺟﺎء ﻫﺬا ﻳﻌﻨﻲ اﺑﺎ ﺛﻮﺭ ﻭﻫﺬﻩ اﻟﻜﺘﺐ ﻭﺿﻊﻫﺎ ﺑﺪﻋﺔ ﻛﻠﻤﺎ ﺟﺎء ﺭﺟﻞ ﻭﺿﻊ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻭﻳﺘﺮﻙ
ﺣﺪﻳﺚ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭاﺻﺤﺎﺑﻪ اﻭ ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ اﺑﻲ ﻫﺬا ﻭﻧﺤﻮﻩ
ﻭﻋﺎﺏ
ﻭﺿﻊ اﻟﻜﺘﺐ ﻭﻛﺮﻫﻪ ﻛﺮاﻫﻴﺔ ﺷﺪﻳﺪﺓ ﻭﻛﺎﻥ اﺑﻲ ﻳﻜﺮﻩ ﺟﺎﻣﻊ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻭﻳﻨﻜﺮﻩ ﻭﻳﻜﺮﻫﻪ ﻛﺮاﻫﻴﺔ
ﺷﺪﻳﺪﺓ ﻭﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺳﻤﻊ ﻫﺬا ﻣﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻭﻟﻢ اﺭﻡ ﻳﺼﺤﺢ ﻷﺣﺪ ﺳﻤﻌﻪ ﻣﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻭﻟﻢ ﻳﺮﺽ اﺑﻲ اﻥ ﻳﺴﻤﻊ
ﻣﻦ اﺣﺪ ﺣﺪﻳﺜﺎ....
مسائل
الامام احمد روایة ابنه عبد اللہ 1/438
عبد اللہ
کہتے ہیں میں نے والد یعنی امام احمد بن حنبل سے سنا انھوں نے فقہی طرز کی کتابوں
کو لکھنے کا ذکر کیا تو کہا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں ابو حنیفہ آئے انھوں نے
(فقہی طرز پر) کتاب لکھی پھر ابو یوسف آئے انھوں نے لکھی پھر محمد بن حسن شیبانی
آئے انھوں نے بھی لکھی تو اسکا کوئی انتہا نہیں ہے (یعنی یہ ایک سلسلہ شروع ہوگیا)
کہ ہر بندہ آئے اور فقہی طرز پر کتابیں لکھتا رہی یہ دیکھو مالک بن انس نے بھی
(فقہی طرز) پر کتاب لکھی شافعی آئے انھوں نے بھی لکھی ابو ثور آئے انھوں نے بھی
لکھی یہ کتب لکھنا بدعت ہیں جب کوئی آیا اس نے کتاب لکھی اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم اور انکے اصحاب کی کی حدیث کو ترک کردیا ایسا کچھ میرے والد نے کہا اور
کتابیں لکھنے کو معیوب کہا اور شدت کے ساتھ کراہت اختیار کی اور میرے والد احمد نے
جامع سفیان ثوری کی فقہی کتاب کو سخت ناپسند کرتے اور شدت کے ساتھ اسکا انکار کرتے
تھے... الخ۔
یہ عبارت
امام احمد کے ابتدائی شاذ و ضعیف نہج کے بارے میں بالکل واضح ہے جس سے بعد میں
رجوع کر چکے تھے۔ ان شاء اللہ فرصت ملی تو امام احمد رحمہ اللہ کے رجوع اور آخری
موقف پر لکھنے کا ارادہ ہے۔
... 4معاصرین کا
ایک دوسرے پر کلام کرنا
مردود جرح کی قسموں میں ایک قسم معاصرین کا ایک
دوسرے پر کلام کرنا ہے جس کو علوم الحدیث کی کتب میں کلام الاقران کے تحت بیان کیا
گیا ہے، اگر جرح کا سبب مذہبی عصبیت یا دینی منافست پر مبنی ہو جیسے کہ معاصرین کے
مابین ایسی چپقلش ہوتی رہتی ہے اور اس کے متعلق علماء میں مشہور ہے المعاصر
لا یناصر یعنی معاصر
خیر خواہ نہیں ہوتا اور المعاصرۃ کالمنافرۃ تو یقیناً اس بنیاد پر کی گئی
جرح قابل قبول نہیں ہوگی ہمیں کتب رجال میں اسکے بیشمار امثال و نظائر دیکھنے کو
ملتے ہیں جس میں بڑے بڑے ائمہ نے ایک دوسرے کے خلاف کلام کیا ہوتا ہے لیکن اسکی
کوئی حیثیت نہیں ہوتی نا جارح مطعون ہوگا نا ہی جس پر جرح کررہا ہے وہ مطعون ہوگا۔
چنانچہ ابو
الزناد عبد اللہ بن زکوان کے متعلق ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کا کلام قابل سماعت
نہیں ہوگا نا ہی امام نسائی کا کلام احمد بن صالح کے متعلق، نا سفیان ثوری کا کلام
امام ابو حنیفہ کے بارے میں اور نا ہی ابن ابی ذئب کا کلام امام مالک پر وعلی
ھذا القیاس لہذا اس قسم
کی جرحوں کو معتبر قرار دینا فتنے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اسی وجہ سے بڑے
بڑے ائمہ اس سرفہرست میں مجروح قرار پائیں گے ۔
5... علماء کا کسی راوی کے متعلق جرح و قدح میں متفرد ہونا
علماء جرح و
تعدیل کا کسی راوی کے متعلق جرح و قدح کرنے میں متفرد ہو جانا لہذا شذوذ اور جمہور
کی مخالفت کی وجہ سے ایسی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
6... متکلم فیہ راوی کا اپنے اوثق ، اتقن، حافظ و اعرف بالحدیث پر کلام کرنا
جیسے کدیمی نے ابان بن یزید العطار پر کلام
کیا ہے جبکہ کدیمی خود ضعیف ہے تو اس قسم کا کلام غیر مؤثر و غیر قادح شمار ہوگا ۔ھذا
ما عندی واللہ اعلم ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں