حدیث ’أولہ رحمۃ وأوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار‘ کی تحقیق
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
امام
ابوبکر محمد بن اسحق بن خزیمہ السُلمی النیسابوری ؒ (م ۳۱۱ ھ ) فرماتے ہیں کہ :
ثنا علی بن حجر السعدی ، ثنا یوسف بن زیاد ، ثنا ھمام
بن یحیی ،عن علی بن زید بن جدعان ، عن سعید ابن المسیب ، عن سلمان قال : خطبنا رسول اللہ ﷺ فی آخر یوم من
شعبان فقال:
(( أیہا الناس قد أظلکم شھر عظیم ، شھر مبارک ، شھر فیہ
لیلۃ خیر من ألف شھر ، جعل اللہ صیامہ فریضۃ ، وقیام لیلہ تطوعاً، من تقرب فیہ
بخصلۃ من الخیر ، کان کمن أدّٰی فریضۃ فیما سواہ ، ومن أدّٰی فیہ فریضۃ کان کمن
ادّٰی سبعین فریضۃ فیما سواہ ، وھو شہر الصبر الصبر ثوابہ الجنۃ ، وشھر المواساۃ ،
وشھر یزداد فیہ رزق المؤمن ، من فطر فیہ صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من
النار ، وکان لہ مثل أجرہ من غیر أن ینتقص من أجرہ شیئا ))
قالوا: لیس کلنا
نجد ما یفطر الصائم ۔
فقال : ’’ یعطی اللہ ھذا
الثواب من فطر صائماً علی تمرۃ ، أو شربۃ مائٍ، أو مذقۃ لبن ، وھو شھر أولہ
رحمۃ وأوسطہ مغفرۃ ، وآخرہ عتق من النار ، من خفف عن مملوکہ غفر اللہ لہ وأعتقہ
من النار‘‘۔
حضرت
سلمان ؓ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری روز خطبہ ارشاد فرمایا:
لوگو! تمہارے پاس بڑا عظیم مہینہ آگیا
ہے ، یہ مہینہ بڑا مبارک ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ۱۰۰۰
مہینوں
سے بہتر ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے
روزے کو فرض اور اس کی راتوں کے قیام کو نفل قرار دیا ہے ۔
جو شخص اس میں کوئی نیک کام کرکے اللہ
تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے ، تو گویا اس نے دیگر مہینوں میں ادا کئے گئے فر ض جیسا کام (کیا ) ہے ، اور جس شخص نے اس
مہینہ میں فرض ادا کیا، تو گویا اس نے دیگر مہینوں میں ۷۰
فرض
ادا کیا ۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب
جنت ہے ، یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں مؤمن کا رزق بڑھادیا جاتا
ہے ، جس نے اس مہینہ میں روزہ دار کو افطار
کروایا ، تو وہ اس کے گناہوں کی بخشش
کا ذریعہ ہوگا، اور جہنم سے اس کی گردن کی آزادی کا ذریعہ بنے گا، اسے روزہ دار کے
برابر ثواب ملے گا، جبکہ روزہ دار کے ثواب میں بھی کمی نہیں ہوگی۔
صحابہ ؓ نے عرض کیا: ہم میں بعض ایسے
ہیں جو افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہ ثواب
اس شخص کو بھی عطا کرتے ہیں جو روزہ دار کو ایک کھجور یا پانی کا گھونٹ یا کچی لسی
کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کروادے ۔
اس مہینہ کے ابتدائی ۱۰ دن رحمت ہیں ، درمیانی
۱۰ دن مغفرت کے ہیں، اور
آخری ۱۰ دن جہنم سے آزادی
حاصل کرنے کے ہیں ۔
(صحیح ابن خزیمہ ، حدیث : ۱۸۸۷، واللفظ لہ ،شعب الایمان للبیہقی ، حدیث: ۳۳۳۶،فضائل رمضان لابن شاہین ، حدیث :۱۶، فضائل شہر رمضان ،للمقدسی ،حدیث: ۲۴، فضائل رمضان للامام ابن ابی الدنیا ، حدیث
: ۴۱)
اس حدیث کے تمام رجال ثقہ ہیں ، لیکن
علی بن زید بن جدعان ؒ پر کلام [1]ہے۔لیکن
سلفی عالم شیخ حوینیؒ کے نزدیک ان کی حدیث شاہد کی موجودگی میں حسن ہوتی ہے ، اور اس
حدیث کی ایک شاہد موجود ہے۔
امام
ابوبکر ابن ابی الدنیا ؒ ( م ۲۸۱ ھ
) کہتے ہیں کہ :
حدثنا الحسن بن علی [2] ،
قثنا ھشام بن عمار [3] ، قال
ثنا سلام بن سوّار[4]
، فثنا مسلمۃ بن الصلت[5]
، عن
الزھری عن[6] ابی سلمۃ عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ: أول شھر رمضان رحمۃ، وأوسطہ مغفرۃ، وآخرہ عتق
من النار ۔
(فضائل رمضان للامام ابن ابی
دنیا ، حدیث: ۳۷، واسنادہ حسن بشاہد )۔ لہذا یہ حدیث حسن درجہ کی ہے ۔
الجواب
نمبر(۲) :
اگر
ان دونوں سندوں کو ضعیف بھی مان لیا جائے ، تو بھی یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ کی ہوگی،
اور حسن لغیرہ حدیث اہل حدیث علماء کے نزدیک حجت ہے ۔
(۱) غیر مقلدین
کے قاضی شوکانی ؒ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے
ہیں :
بہذا تعرف أن الحدیث من قسم الحسن لغیرہ ، وھو محتج
بہ عند الجمہور ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث حسن لغیر ہے ، جو جمہور کے یہاں قابل حجت ہے
۔ (نیل الاوطار ۹/۲۲)
(۲) اہل حدیث
عالم ، مولانا عبید اللہ مبارک پوری نے حسن لغیرہ کو صحیح احادیث کی ایک قسم قرار دیا
ہے ۔ (تحفۃ اہل الفکر /۲۰)[7]
(۳) اہل حدیث
محدث شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث باہم تقویت پہنچاتی ہیں ، جن سے استدلال
درست ہے ۔ (عون المعبود ۴/۱۱۱)
(۴) مولانا
عبد الرحمن مبارکپوری ؒ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کم از کم حسن لغیرہ
ہے ، کیوں کہ اس کی متعدد سندیں ہیں ۔ (تحفۃ الاحوذی ۵/۴۱)
(۵) ایک اور
اہل حدیث احمد شاکر ؒ لکھتے ہیں کہ جب راوی کا حافظہ خراب ہونے کی وجہ سے حدیث ضعیف
ہو تو وہ متعدد سندوں کی بناء پر حسن یا صحیح درجہ تک پہنچ جاتی ہے ۔ (الفیۃ السیوطی/۲۷)
(۶) غیر مقلدین
کے محدث ، البانی ؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے
یہاں ، یہ بات مشہور ہے کہ جب کسی حدیث کی متعدد سندیں ہوں، تو ان سندوں کی بناء پر
تقویت حاصل کرکے حجت بن جاتی ہے ، اگرچہ ان میں سے ہر سند انفرادی طورپر ضعیف ہو۔
(تمام المنہ ۱/۳۱)
(۷) مشہور سلفی عالم شیخ ابن العثیمین ؒ نے باقاعدہ
ایک رسالہ تحریر کیا ہے ، القول الحسن کے نام سے جس میں موصوف نے ضعیف روایت شواہد
اور متابعات کی صورت میں ، ایک دوسرے کو تقویت دے کر حسن درجہ تک پہنچاتی ہے ، ثابت
کیا ہے ۔ (القول المقبول للعثیمین)
(۸) شیخ ابن
باز ؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ امام ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں ذکر کیا ہے
کہ (وضو سے پہلے ) بسم اللہ پڑھنے کی حدیث بعض، بعض کو تقویت دیتی ہے ، اور وہ حسن
لغیرہ ہے ۔ (حاشیہ سماحۃ الشیخ ابن بازعلی بلوغ المرام /۸۵) معلوم
ہوا کہ شیخ ؒ کے نزدیک بھی حسن لغیرہ حجت ہے
۔
(۹) مزید عبد
الرحمن مبارکپوری ؒ ایک حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لیکن حق یہ
ہے کہ وہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ کی ہے اور اس پر عمل بھی ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ۷/۳۶۷)
(۱۰) اہل حدیث
محدث علامہ البانی ؒ ایک مقام پر ایک حدیث
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ہمارے نزدیک حسن لغیرہ ہے ، کیوںکہ
وہ روایت ابو جعفر الباقر کی صحیح سند سے مرسلاً مروی ہے ۔
اور
( اس کا ) پہلا طریق (علی ؓ سے مروی ہے ) اور دوسرا طریق ابن عباس ؓ سے مروی ہے ، اس
(مرسل روایت ) کے (یہ دو طرق ) شاہد ہیں اور ان دونوں طرق کا ضعف ہلکا ہے ۔ (ارواء
الغلیل ۶/۳۳۴) لہذا معلوم ہوا کہ
اہل حدیث کے نزدیک ضعیف حدیث کی تائید کسی صحیح مرسل سے ہوجائے ، تو وہ روایت قابلِ
استدلال یعنی حسن لغیرہ ہوجاتی ہے ۔
نیز
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مرسل کی تائید میں کوئی
ضعیف حدیث آجائے، تو وہ مرسل بھی غیر مقلدین کے نزدیک حجت ہوتی ہے ۔
(۱۱) اہل حدیث
کے ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر صاحب حسن لغیرہ کے دلیل ہونے کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
(ضعیف حدیث ) کو مجوعہ متابع کی وجہ سے حسن قرار دیا جاتا ہے ، جس طرح ایک دھاگہ (Thread)
اکیلا کمزور ہوتا ہے ، مگر جب کئی ایک دھاگے باہم مل جاتے ہیں تو مضبوط رسی بن جاتی ہے ۔ (التحدیث فی علوم الحدیث
/۱۶۷)
نیز
موصوف نے صفحہ ۱۶۷پر لکھا ہے کہ حدیث ِ حسن کی دو قسمیں ہیں
:
۱ - حسن لذاتہ
۔ ۲ -
حسن
لغیرہ ۔
معلوم
ہوا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی حسن لغیرہ ،حسن حدیث کی قسم میں سے ہے ۔
اور یہ سب
کو معلوم ہے کہ حسن ،صحیح حدیث کی قسم ہے ۔
(۱۲) غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولونا سلطان محمود
صاحب مقبول حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقبول کی چار قسمیں ہیں :
۱ - صحیح لذاتہ
۔ ۲ - حسن لذاتہ ۔ ۳ - صحیح لغیرہ
۔ ۴ - حسن لغیرہ ۔ (اصطلاحات
المحدثین /۹)
معلوم ہوا کہ موصوف کے نزدیک بھی حسن لغیرہ
مقبول ہے ۔
الغرض ان حوالجات سے معلوم ہوا کہ غیرہ مقلدین
کے نزدیک حسن لغیرہ ،حجت ہے ۔ اور یہ حدیث حسن لغیرہ ہونے کی وجہ سے بھی حجت ہے۔ لہذا
اس حدیث کو ضعیف کہنا صحیح نہیں ہے ۔ واللہ اعلم
[1] جرح کے باوجود : امام عجلی ؒ (م ۲۶۱ ھ) نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور کہا کہ ان
میں کوئی خرابی نہیں ہے ، ان کی حدیث لکھی جائے ۔امام یعقوب بن شیبہ ؒ ( م ۲۷۷ھ ) کہتے
ہیں : ’’ ثقۃ ، صالح الحدیث ، وإلی
اللین ما ھو‘‘ اور امام ہیثمی
ؒ ( م ۸۰۷
ھ ) کہتے ہیں : ’’ فیہ
کلام وحدیثہ حسن ‘‘ ۔( مجمع الزوائد ، حدیث /۶۹۶۴) امام
ابن عدی ؒ(م ۳۶۵ھ
) کہتے ہیں کہ ضعف کے باوجود ان کی حدیث لکھی جائے ۔ امام ساجی ؒ (م ۳۰۷ ھ ) ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ’’ کان من اہل الصدق ، ویحتمل
لروایۃ الجلۃ عنہ ، ولیس یجری مجریٰ من أجمع علی ثبتہ ‘‘ ۔
امام
ابو علی الطوسی ؒ ( م ۳۱۲ ھ
) کہتے ہیں : ’’ صدوق
إلا أنہ ربما رفع الشیٔ الذی یوقفہ غیرہ ‘‘۔امام ترمذی (م ۲۷۹ ھ ) بھی یہی فرماتے ہیں ۔
کلبی
اور امام ابو عبید قاسم بن سلّام ؒ( م ۲۲۴ ھ
) انہیں ’’ فقیہ بصری ‘‘ کہتے ہیں ۔امام بلاذری (م ۲۷۹ ھ ) انہیں محدث کہتے ہیں ۔ امام ابن خلفون ؒ (
م ۶۳۶ ھ ) نے انہیں کتاب الثقات میں شمار کیا ہے ، اور
کہا ہے کہ :’’ عابدا ًورعاً صدوقاً یرفع
الشیٔ الذین یوقف ‘‘۔ امام ذہبی ؒ (م
۷۴۸ ھ ) نے انہیں ’’ من تکلم فیہ وھو موثق ‘‘ میں
شمار کیا ہے، اور کہا ہے کہ : ’’ صویلح
الحدیث
، قال احمد ویحی : لیس بشیٔ
وقواہ غیرھما‘‘۔
دیکھئے صفحہ /۱۴۰۔
نیز
سیر اعلام النبلاء ، تاریخ الاسلام ، دیوان الضعفاء میں انہیں’’الامام ، العالم الکبیر ، أحد
أوعیۃ العلم فی زمانہ ، حسن الحدیث ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔
المستدرک
للحاکم مع تلخیص ۴/۵۵۱ ،حدیث: ۸۵۴۳ ، میں امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ ھ
) نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے ، اور تلخیص میں امام ذہبی ؒ نے انہیں صالح الحدیث
کہا ہے ۔ (اکمال تہذیب الکمال للحافظ مغلطائی
ؒ ۹/۳۲۳، تہذیب التہذیب لابن حجر ۷/۳۲۳)۔اہل حدیث عالم احمد شاکر صاحبؒ ثقہ کہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، حدیث :۲۶)۔ امام أبو عَوانة الإسفرَايينيّ (م ۳۱۶ ھ) امام ضیاء الدین مقدسی ؒ (م ۶۴۳ ھ)
اور امام ترمذی ؒ (م ۲۷۹ھ ) نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ (الاحادیث
المختارۃ ۲/۱۰۱) (سنن ترمذی ، حدیث : ۵۰۵) ( صحیح
ابی عوانہ ، حدیث :۱۰۶۰۳۔ طبع الجامعۃ الاسلامیۃ،
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ) امام ابن الملقن ؒ ( م ۸۰۴ھ ) بھی
انہیں حسن الحدیث کہتے ہیں ۔ (تحفۃ المحتاج ۱/۴۷۷) امام بوصیری ؒ ( م ۸۴۰ ھ ) نے
ان کو ایک جگہ ثقہ لکھا ہے ۔ (اتحاف
الخیرۃ المہرۃ للبوصیری ، حدیث: ۷۶۲۶) مشہور
سلفی عالم ابو اسحق حوینیؒ کہتے ہیں کہ : ’’ حدیثہ حسن فی الشواہد ‘‘۔ (غوث المکدود ۲/۲۳۵، حدیث
: ۹۶۹) اسی طرح حافظ ابن کثیر ؒ (م ۷۷۶ھ )ان کی روایت کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ : ’’ علی بن زید بن جدعان لہ غرائب
وافرادات ولکن لہ شاھد ‘‘۔ (مسند الفاروق ۱/۳۸۰) معلوم
ہوا کہ شاہد کی موجود گی میں ابن کثیر ؒ کے نزدیک علی بن زید کی روایت کا اعتبار ہوگا
۔
[2] ھو
الثقۃ الحافظ الحسن بن علی بن محمد الھذلی الخلال ، المتوفی ۲۴۲ ھ ۔ کذا فی التقریب : ۱۲۶۲
[3] ھشام بن عمار ؒ (م ۲۴۵ ھ ) یا (م ۲۴۶ ھ
) صحیح بخاری اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور صدوق راوی ہیں ، لیکن ابن حجر ؒ نے وضاحت
کی ہے کہ وہ آخر عمر میں مختلط ہوگئے تھے ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ : ’’ صدوق مقریٔ ، کبر فصار یتلقن ،
فحدیثہ القدیم أصح ‘‘۔ (تقریب :۷۳۰۳،تاریخ الاسلام ۵/۱۲۷۷)۔ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ ان کے شاگرد امام الحافظ
الحسن بن علی الخلال (م ۲۴۲ ھ
) نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے ، کیوں کہ ہشام بن عمار ؒ کے انتقال کے
۳ یا ۴ سال پہلے
ہی امام حسن بن علی الخلال ؒ کا انتقال ہوچکا تھا ، پھر علی بن زید بن جدعان ؒ کی روایت
سے بھی اس روایت کی تائید ہوتی ہے ، لہذا ان پر اختلاط کا اعتراض صحیح نہیں ہے ۔
[4] سلام بن سلیمان بن سوار ؒ (م ۲۱۰ ھ ) ابن ماجہ کے راوی ہیں اور امام عباس بن الولید
ؒ (م
۲۶۹ ھ ) نے ثقہ کہا ہے ۔ ان کے بارے میں ابن عدی
ؒ کا قول فیصلہ کن ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : ’’وھو عندی منکر الحدیث ، عامۃ مایرویہ حسان إلا أنہ
لایتابع علیہ ‘‘
۔ وہ میرے نزدیک منکر الحدیث ہیں ، اور عام
طور سے جو ان سے روایت کیا ہے درست ہے ، مگر جس میں اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے، وہ
اس میں درست نہیں ہے ۔ (تہذیب الکمال ۱۲/۲۸۷) یہ بات
معلوم ہے کہ اس میں سلام بن سلیمان ؒ کی متابعت ابن خزیمہ ؒ کی روایت سے ہورہی ہے
۔ لہذا یہ
راوی بھی مقبول ہے ۔
[5] یہ راوی مسلمہ بن صلت ؒ بھی غیر مقلدین
کے اصول کے مطابق ثقہ ہیں ، امام ابن حبان ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات ۹/۱۸۰) امام احمد
بن حنبل ؒ نے آپؒ سے روایت کی ہے ، اور امام احمد ؒ غیر مقلدین کے نزدیک صرف ثقہ سے
روایت کرتے ہیں ۔ (انوار البدر /۱۸۲) اسی
طرح امام بخاری ؒ نے اپنی تاریخ الکبیر ۷/۳۸۹ میں اس راوی کا ذکر
کیا اور کوئی جرح نہیں ، اور غیرمقلدین کے نزدیک یہ امام بخاری ؒ کی طرف راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (میزان مناظرہ ۲/۱۱۱) نیز امام
ابو عوانہ ؒ (م ۳۱۶ ھ ) نے ان کی روایت کو صحیح کہا ہے ۔ (صحیح ابوعوانہ
، حدیث : ۵۱۶۶) لہذا یہ راوی خود اہل حدیث حضرات کے اپنے اصول
کی روشنی میں ثقہ ہے ۔
نوٹ: یاد رہے کہ ابو حاتم ؒ کسی راوی
کو متروک کہنا یہ جرح مفسر نہیں ہے ۔ (تعداد قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ /۴۹)۔ خود اہل حدیث حضرات کے نزدیک تعدیل کے مقابلہ
میں جرح غیر مفسر جرح مبہم مردود ہوتی ہے ۔
(دین الحق ۱/۶۷)
[6] امام زہری ؒ (م ۱۲۵ ھ
) کی تدلیس غیر مقلدین کے نزدیک قابل قبول ہے ۔ (مقالات اثریہ : ۲۷۵) ۔لہذا ان
کا اعتراض خود ان کے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں