*🌹 روزہ کھولنے سے پہلے کی دعا ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘ کی تحقیق*
غیرمقلد زبیر علی زئی افطار سے پہلے کی دعاء کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں "اللهم لك صمت و على رزقك أفطرت" کے الفاظ آۓ ہیں لیکن یہ روایت ثابت نہیں ہے بلکہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (مقالات ج 3 ص 604)
اور زبیر علی زئی کی تقلید میں اہلحدیث جدید کی عوام اس دعاء کو ضعیف بتاتی نظر آتی ہے۔
*🔹حدیث کی تحقیق*
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ،’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘ ۔
’’نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو فرماتے: اےاللہ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا‘‘۔
(الزهدوالرقائق الامام ابن المبارك المزوریؒ ۱۸۱ھ: ج۱،ص۴۹۵)
(کتاب الدعاء امام محمد بن فضيل الضبیؒ ۱۹۵ھ: ج۱،ص۲۳۷)
(السنن امام ابو داودؒ ۲۷۵ھ: ج۳، ص۱۴۸)
(المصنف حافظ ابن ابی شیبہؒ ۲۳۵ھ: ج۶، ص۳۲۹)
(السنن الکبریٰ امام بیہقیؒ ۴۵۸ھ: ج۸،ص۵۳۴)
(شرح السنۃ امام البغویؒ ۵۱۶ھ: ج۶،ص۲۶۵
▪️یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت جمہور محدثین کے نزدیک حجت ہے۔
اور مزید امام ابوداؤد نے بھی اسے نقل کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے۔ جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ (سکین ملاحظہ کریں)
مزید اس روایت کے شواہد بھی موجود ہیں ، جو کہ درج ذیل ہیں :
▪️1 - حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ جب افطار فرماتے تو یہ پڑھتے " بسم الله اللهم لک صمت و علی رزقک افطرت - ( معجم الاوسط للطبرانی ۲۹۸/۷- ضعيف )
▪️2 - الربیع بن خشیم سے بھی یہی دعاء ثابت ہے۔
(الطبقات الکبری : ج ۶ : ص ۲۲۶ ، واسنادہ صحیح)
اور مولانا رئیس ندوی سلفی اہل حدیث عالم لکھتے ہیں کہ :
مرسل حدیث احناف و مالکیہ کے نزدیک مطلقاً حجت ہے ، اور دوسرے اہل علم کے نزدیک بعض شرائط کے ساتھ حجت ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسری متصل سند سے ، خواہ ضعیف ہو مروی ہو۔
(نماز جنازہ اور اس کے مسائل / ۴۶ )
معلوم ہوا کہ خود اہل حدیث کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری متصل ضعیف روایت کی موجودگی میں مقبول ہوتی ہے۔
🔹یہی وجہ ہے کہ امام الشیرازی ؒ، امام غزالی ؒ، امام بغوی ؒ اور امام النووی ؒ نے اس دعاء کو افطار کے وقت پڑھنے کو سنت و مستحب لکھا ہے۔
(المهذب للشيرازي: ج ۱ : ص ۳۴۳ ، الوسيط في المذهب للغزالي : ج ۲ : ص ۵۳۶ التهذيب للبغوى : ج ۳ ص ۱۸۳ ، المجموع : ج ۶ : ص ۳۶۲)
🔹حافظ ابن ملقنؒ ۸۰۴ھ تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووی میں فرماتے ہیں:
’’رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَلم يُضعفهُ وَهُوَ مُرْسل‘‘۔
’’یعنی امام ابو داود نے اس کی تضعیف نہیں کی‘‘۔
(تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووی: ج۲، ص۹۶)
دوسرے لفظوں میں وہ امام ابو داودؒ کے قاعدہ سے استدلال کر رہے ہیں ۔جو انہوں نے فرمایا ہے کہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں گے وہ قابل احتجاج ہے۔ ابن الملقنؒ نے خود بھی اس کی سند کو مرسل حسن قرار دیا ہے۔
(بدر المنیر تخریج شرح الکبیر:ج٥، ص۵۵۸)
🔹اسی طرح شیخ الاسلام زکریا الانصاریؒ ۹۲۶ھ نے بھی اس کو مرسل حسن فرمایا ہے۔
(فتح الوهاب شرح منہج الطّلاب: ج۱، ص۱۲۲)
🔹حافظ ابن حجر العسقلانیؒ نےهداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة، ج۲،ص۳۲۳ پہ سنن ابو داود کا حوالہ دے کر اس روایت پر سکوت کیا ہے جو ان کے نزدیک حسن ہونے کی علامت ہے۔
ابن حجر الهيتمي تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج میں فرماتے ہیں: ’’وَلَا يَضُرُّ إرْسَالُهُ؛ لِأَنَّهُ فِي الْفَضَائِلِ عَلَى أَنَّهُ وَصْلٌ فِي رِوَايَةٍ‘‘۔
(تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج: ج۳، ص۴۲۵)
🔹علامہ ناصرالدین البانیؒ اپنی کتاب اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹-۳۸ پر اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کے بعد آخرمیں لکھتے ہیں: ’’ومع ذلک صحیح حدیثھم جمیعاً‘‘ ’’اس کے باوجودیہ حدیث صحیح ہے‘‘۔
(اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹)
🔹امام شوکانیؒ کی فقہ کی مشہور ومعروف کتاب ’’الدُّررالبھیّہ‘‘جس کی تخریج و تحقیق مشہورعرب عالم ومحقق علامہ ناصرالدین البانیؒ نے کی اور اس کا ترجمہ وتشریح حافظ عمران ایوب لاہوریؒ نے ’’فقہ الحدیث‘‘ نامی کتاب میں کی۔ اس کتاب میں افطاری کی دعا کے باب میں یہ دعا نقل کرنے کے بعد نیچے لکھتے ہیں: ’’شیخ ناصرالدین البانیؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث شواہد کی بناپر قوی ہو جاتی ہے‘‘۔
(فقہ الحدیث: ج۱، ص۷۲۷بحوالہ المشکاۃ المصابیح البانیؒ)
🔹جلیل القدرمحدثین اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں 🔹
▪️امام بیہقی رحمہ اللہ ۴۵۸ھ:
امام بیہقیؒ بھی اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنی کئی کتب مثلاًشعب الایمان، دعوات الکبیر، فضائل الاوقات، السنن الکبریٰ، السنن الصغریٰ۔ میں یہ روایت نقل کی ہے۔ امام بیہقیؒ کی عادت ہے کہ وہ ناقابل استدلال روایت پر خاموش نہیں رہتے۔ انہوں نے خود اپنا طرز عمل دلائل النبوۃ: ج۱، ص۴۷میں بتایا ہےکہ: ’’وعادتي- في كتبي المصنّفة في الأصول والفروع- الاقتصار من الأخبار على ما يصح منها دون ما لا يصح، أو التمييز بين ما يصح منها وما لا يصح، ليكون الناظر فيها من أهل السنة على بصيرة مما يقع الاعتماد عليه، لا يجد من زاغ قلبه من أهل البدع عن قبول الأخبار مغمزا فيما اعتمد عليه أهل السنة من الآثار‘‘۔ (دلائل النبوۃ: ج۱، ص۴۷)
اگرچہ اس قاعدہ پر وہ ہرجگہ ۱۰۰ فیصد قائم نہ رہے ہوں ۔لیکن افطار کی اس دعا سے انہوں نے استحباب ہی ثابت کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ السنن الکبریٰ: ج۴، ص۴۰۳ میں انہوں نے اس روایت پر باب قائم کیا ہے۔ ’’بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ‘‘ اور اس کے ضمن میں صرف یہی دو روایات نقل کی ہیں۔ ایک’’ذَهَبَ الظَّمَأُ ‘‘ والی اور دوسری ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘۔ اور السنن الصغریٰ جو کہ اس کے بعد کی تصنیف ہے۔اور اس میں احادیث کا مزید احتیاط اور انتخاب کیا ہے، اس میں ج۲ص۱۱ پہ بھی یہی دونوں دعائیں ذکر کی ہیں اور اس پر استحباب کا باب بھی قائم کیا ہے۔ ’’بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُفْطِرَ عَلَيْهِ وَمَا يَقُولُ‘‘ اسی طرح فضائل الاوقات ج۱، ص۳۰۰ میں بھی استحباب کا باب باندھا ہے۔ ’’بَابُ اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْفِطْرِ‘‘۔
▪️امام بغوی رحمہ اللہ ۵۱۶ھ
مصابیح السنۃ ج۲، ص۷۶ ،کتاب الصوم میں احادیث من الحِسان کے تحت روزہ افطار کی دونوں دعاؤں کی احادیث لکھی ہیں۔یعنی’’ذَهَبَ الظَّمَأُ‘‘اور’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘۔ مصابیح السنۃ کے مقدمہ ج ،۱، ص ۱۱۰میں انہوں نے اپنا منہج بھی بتایا ہے کہ من الحسان سے کیا مراد ہے۔
’’وأعني بـ (الحِسان) ما أورده أبو داودوالترمذي وغيرهما من الأئمة في تصانيفهم رحمهم اللَّه وأكثرها صحاح بنقل العدل عن العدل غير أنها لم تبلغ غاية شرط الشيخين في علو الدرجة من صحة الإسناد إذ أكثر الأحكام ثبوتها بطريق حسن۔ وما كان فيها من ضعيف أو غريب أشرت إليه وأعرضت عن ذكر ما كان منكرًا أو موضوعًا‘‘۔
یعنی منکر اور موضوع روایات سے تو وہ اعراض کریں گے اور جو ضعیف ہے اس کو بیان کر دیں گے۔ اور اس روایت پر انہوں نے سکوت فرمایا ہے۔ اور اسی طرح دوسری مشہور کتاب شرح السنۃ ج۶، ص۲۶۵ میں’’بَابُ مَا يَقُولُ عِنْدَ الْفِطْرِ‘‘کے تحت صرف ان ہی دونوں دعاؤں کی احادیث پوری سند سے بیان کی ہیں۔ اور اپنی تیسری کتاب التھذیب فی الفقہ الامام الشافعی ج۳، ص۱۸۳ میں واضح اس کا استحباب بیان کیا ہے۔
’’ويستحب أن يقول عند الفطر ما روي عن معاذ: قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا أفطر قال: "اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (التھذیب فی الفقہ الامام الشافعی: ج۳، ص۱۸۳)
▪️شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ ۵۶۱ھ
شیخ عبدالقادرجیلانیؒ نے اپنی کتاب غنیۃالطّالبین ص۱۱۱میں افطار کی دعا کے لئے صرف اس دعا کو ہی نقل کیاہے۔
▪️امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ۶۲۰ھ
امام ابن قدامہؒ نے اگرچہ المغنی میں اس کا ذکر نہیں کیا لیکن دوسری کتاب الهادی أو عمدة الحازم فی الزوائد على مختصر الخرقی ص۱۷۲میں اس کا استحباب بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور تصنیف المقنع فی فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيبانی ص ۱۰۴ اور ۱۰۵ پہ بھی اس دعا کے استحباب کا ذکر کیا ہے۔
’’ويستحب تعجيل الإِفطار وتأخير السحور، وأن يفطر على التمر فإِن لم يجد فعلى الماء. وأن يقول عند فطره: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت سبحانك اللهم وبحمدك۔ اللهم تقبل مني إِنك أنت السميع العلم۔
ويستحب التتابع في قضاء رمضان ولا يجب‘‘۔ (المقنع فی فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيبانی: ص ۱۰۴ -۱۰۵)
▪️حافظ ضیاء المقدسی رحمہ اللہ ۶۴۳ھ (صاحب المختارہ):
حافظ ضیاء المقدسیؒ نے اپنی احادیث احکام پر مشتمل کتاب السنن والأحكام عن المصطفى ج۳، ص۴۳۵ پہ
’’باب ما یقال عند الافطار و فضل الدعاء عندہ‘‘کے تحت یہ روایت بیان کی ہے۔اور سکوت کیاہے۔
اس کتاب میں ان کا منہج یہی ہے کہ وہ ضعیف اور ناقابل استدلال روایت پر خاموش نہیں رہتے۔ ایسا ہی اس کتاب پر مقدمہ التحقیق لکھنے والے عالم کے اسلوب سے ظاہر ہے جنہوں نے ان کے منہج کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ (السنن والأحكام عن المصطفى: مقدمہ، ص ۱۶۷)
اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس بارے میں جو دوسری مرفوع روایت ہے اس کا ضعف بیان کیا ہے۔ لیکن ابو داود والی روایت پر سکوت۔
▪️امام مجد الدین ابن تيمية رحمہ اللہ ۶۵۲ھ
یہ بہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں اورشیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے دادا ہیں۔ امام ذہبیؒ ان کو الشیخ الامام العلامہ فقیہ العصر کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی احادیث احکام پر ایک کتاب مشہور ہےجس کا نام منتقی الاخبارہے۔ علامہ شوکانیؒ نے اس کی مشہور شرح نیل الاوطار کے نام سے لکھی۔ اس میں جلد ۱صفحہ ۳۹۴ (ط دار ابن الجوزی) پہ’’بَابُ آدَابِ الْإِفْطَارِ وَالسُّحُورِ‘‘کے تحت صرف ’’اللھم لک صمت‘‘والی دعاسنن ابوداودسےنقل کی ہے۔
العز بن عبد السلام سلطان العلماء رحمہ اللہ ۶۶۰ھ
العز بن عبد السلام سلطانؒ نے اپنی کتاب مقاصد الصوم ص ۲۰ پرروزہ کے آداب میں اس دعا کا ذکر کرکے استحباب ظاہرکیا ہے۔
▪️امام نووی رحمہ ﷲ ۶۷۶ھ
امام نوویؒ اپنی کتاب المجموع شرح المهذب ج۶، ص ۴۰۸ میں جمہور شوافع سے اس دعاءکا استحباب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: ’’والمستحب أن يقول عِنْدَ إفْطَارِهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘ پھراس کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’رَوَاهُ أَبُو دَاوُد عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَرَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ مُسْنَدًا مُتَّصِلًا بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ۔ قال المصنف وسائر الاصحاب يستحب ان يدعوا عِنْدَ إفْطَارِهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ وَفِي سُنَنِ أَبِي دَاوُد وَالنَّسَائِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا أَفْطَرَ قَالَ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى" وَفِي كِتَابِ ابْنِ مَاجَهْ عَنْ ابْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ "إنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ دَعْوَةً ما ترد" وكان ابْنُ عَمْرٍو إذَا أَفْطَرَ يَقُولُ "اللَّهُمَّ بِرَحْمَتِكَ التي وسعت كل شئ اغْفِرْ لِي"۔
(الثَّالِثَةُ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يَدْعُوَ الصَّائِمَ وَيُفَطِّرَهُ فِي وَقْتِ الْفِطْرِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِي اسْتِحْبَابِهِ لِلْحَدِيثِ‘‘۔ (المجموع شرح المهذب: ج۶، ص ۴۰۸)
▪️شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ﷲ ۷۲۸ھ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے شرح عمدۃ الفقہ، کتاب الصیام ص۵۱۳ میں تمام دعا ئیں نقل کرنےکے بعدان الفاظ میں استحباب کا باب قائم کیا ہے: ’’ويستحب لہ أن يدعو عند فطره‘‘۔ سب پہلے’’ذهب الظمأ‘‘ والی روایت، پھر سنن ابو داؤدکی روایت ’’اللھم لک صمت‘‘، پھر اس کے دونوں شاہد ابن عباسؓ اور انسؓ کی روایات پھر الربیع بن خثیمؒ کا اثر۔
▪️حافظ ابن قیم رحمہ ﷲ ۷۵۱ھ
حافظ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب زاد المعادج۲، ص۴۹ میں’’فصل في هديه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الفطر‘‘کے بام سے پورا باب قائم کرکے اس میں یہ روایت نقل کی ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ابن قیمؒ نے اس روایت کی تضعیف کی ہے، حالانکہ انہوں نے ابوداؤد کی روایت پر کوئی جرح نہیں کی بلکہ دوسری روایت کی تضعیف کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’وَيُذْكَرُ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ «كَانَ يَقُولُ عِنْدَ فِطْرِهِ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، فَتَقَبَّلْ مِنَّا، إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ»۔ وَلَا يَثْبُتُ۔ وَرُوِيَ عَنْهُ أَيْضًا أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ ذَكَرَهُ أبو داود عَنْ معاذ بن زهرة أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ۔ وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ «كَانَ يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: (ذَهَبَ الظَّمَأُ)‘‘۔ (زاد المعاد: ج۲، ص۴۹)
▪️امام ابن کثیر رحمہ اللہ ۷۷۶ھ
امام ابن کثیرؒ نے الشیرازیؒ کی کتاب التنبیہ کی تخریج کی اوراس میں ان کی عبارت’’ويستحب أن يدعو على الافطار بدعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم "اللهم لك صمت" ‘‘کی تخریج میں یہ روایت بیان کی ہے: ’’عن أبي زُهْرةَ: مُعاذِ بنِ زُهْرَةَ، أنهُ بلَغَهُ: "أنَّ النبيَّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ كانَ إذا أفطَرَ قالَ: "اللهُمَّ لكَ صُمْتُ، وعلى رزقِكَ أَفطرتُ"، رواهُ أبو داود هكذا، وهو مُرْسَلٌ۔
ورَوى الدارَقُطنيُّ من حديثِ ابنِ عباس نحوَهُ ، ولا يَصحُّ سنَدُهُ‘‘۔ (إرشاد الفقيه إلى معرفة أدلة التنبيه: ج۱، ص۲۸۹)
▪️امام ابن کثیرؒ نے اس کتاب کے مقدمہ میں اپنے منہج کی یوں وضاحت فرمایاہے: ’’وشَرَطْتُ فيهِ أنّي أذْكُرُ دَليلَ المَسأَلةِ مِن حَديثٍ أو أثَرٍ يُحْتَجُّ بِهِ، وأعْزو ذلك إلى الكُتُبِ السِّتِّةِ، كالبُخارِيِّ، ومُسْلِم، وأَبي داودَ، والنَّسائِيِّ، والتِّرْمِذِيِّ، وابنِ ماجَةَ، أَو غيرِها، فإنْ كانَ الحَديثُ في الصَّحيحينِ، أو أحَدِهِما، اكتَفَيْتُ بعَزْوِهِ إلَيْهِما، أو إلى أحَدِهِما، وإلاّ ذكَرْتُ مَنْ رواهُ مِن أهْل ِ الكُتُبِ المَشهورَةِ، وبيَّنْتُ صِحَّتَهُ مِن سقَمِهِ،
ولَسْتُ أَذْكُرُ جَميعَ ما وَرَدَ في المَسْأَلَةِ مِن الأحاديثِ خَشْيَةَ الإطالَةِ،
بَلْ إن كانَ الحَديثُ أَو الأَثَرُ وافياً بالدِّلالَةِ عَلى المَسْأَلَةِ، اكْتَفَيْتُ بِهِ،
عَمّا عَداهُ، وإلاّ عَطَفْتُ عَلَيْهِ ما يُقوّي سَنَدَهُ أَو مَعْناهُ‘‘۔ اس عبارت سے واضح ہوگیاکہ وہ ان کے نزدیک یہ روایت قابل احتجاج ہے۔
▪️ابن الملقن رحمہ ﷲ ۸۰۴ھ
ابن ملقنؒ نے اپنی کتاب بدر المنیرج٥، ص٧١٠ میں’’اللَّهُمَّ لَك صمت‘‘والی روایت کی تخریج میں ابن عباسؓ کی متصل روایت کاضعف بیان کرتے ہوئےابوداؤد والی روایت کو مرسل حسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح مختصر بد المنیر رقم۱۱۲۶ میں بھی اس کو مرسل حسن قراردیاہے۔
▪️شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ ﷲ ۹۲۶ھ
یہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کے مشہور شاگرد ہیں اور حافظ حدیث ہیں۔ آج کل اکثر کتب احادیث کی حافظ ابن حجر عسقلانیؒ سے متصل مشہور عالی سند انہی کے ذریعے سے ہے۔ انہوں نے امام نوویؒ کی کتاب منہاج الطالبین کو منهج الطلاب فی فقه الإمام الشافعی کے نام سے اختصار کیا ہےپھر خود ہی اس کی شرح فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب کے نام سے لکھی جس میں روزہ سے متعلق سنتوں میں اس دعا کا ذکر کیا ہے: ’’وسن تسحر وتأخيره وتعجيل فطر۔ ويقول عقب فطره: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت‘‘۔ (منهج الطلاب فی فقه الإمام الشافعی: ج۱، ص۴۰)
اسی طرح اس کی شرح میں فرمایا ہے: ’’وَ "أَنْ يقول عقب" هُوَ أَوْلَى مِنْ قَوْلِهِ عِنْدَ "فِطْرِهِ اللَّهُمَّ لَك صُمْت وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت "لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ لَكِنَّهُ مُرْسَلٌ‘‘۔ (فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب: ج۱، ص۱۴۲)
یعنی ان نے نزدیک اس روایت کی سند مرسل حسن ہےاور یہ دعاپڑھنا مسنون ہے۔
▪️امام الشوکانی رحمہ ﷲ ۱۲۵۰ھ
امام شوکانیؒ نے نیل الاوطار ج۴، ص۲۶۲میں اس سے دلیل پکڑتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَحَدِيثُ مُعَاذٍ مُرْسَلٌ لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَقَدْ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالدَّارَقُطْنِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ۔ وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارَقُطْنِيّ وَالْحَاكِمُ وَغَيْرُهُمْ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، وَزَادَ: «ذَهَبَ
الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: إسْنَادُهُ حَسَنٌ۔ وَعِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إذَا أَفْطَرَ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ لِأَنَّهُ فِيهِ دَاوُد بْنُ الزِّبْرِقَانِ وَهُوَ مَتْرُوكٌ۔ وَلِابْنِ مَاجَهْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَرْفُوعًا: «إنَّ لِلصَّائِمِ دَعْوَةً لَا تُرَدُّ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا أَفْطَرَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي۔ وَحَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ يُشْرَعُ لِلصَّائِمِ أَنْ يَدْعُوَ عِنْدَ إفْطَارِهِ بِمَا اشْتَمَلَ عَلَيْهِ مِنْ الدُّعَاءِ‘‘۔ (نیل الاوطار: ج۴، ص۲۶۱-۲۶۲)
ان تمام ائمہ کرامؒ کے اقوال کے بعد یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اس دعا سے متعلق جو بھی کلام کیاگیاہے، مثلا ًیہ روایت مرسل ہے، اس لئے کہ حضرت معاذؒ تابعی ہیں اورانھوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ نہیں پایا، اوراس کے دوسرے مرفوع شواہد ضعیف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب انکشافات کوئی نئےنہیں ہیں جو ان ائمہ کرامؒ پر مخفی تھےاور آج کے علما پر واضح ہو گئے ہیں بلکہ ان سب باتوں سے یہ تمام ائمہ کرامؒ بھی واقف تھے۔اس کے باوجود بھی سب اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں۔ اس پرمزید دلائل کے لئے ہر دور کے علماءاور فقہا کی کتب کےحوالے پیشِ خدمت ہیں جن میں ’’اللھم لک صمت‘‘کے استحباب کا ثبوت ملتا ہے۔
🔹 حنبلی علماءِ کرامؒ سے استحباب کاثبوت 🔹
مشہور کتب حنابلہ کے حوالے ذیل میں درج ہیں جن میں اس دعا کا استحباب بیان کیا گیا ہے:
۱۔ القاضي محمد أبو يعلى ابن الفراء الحنبلیؒ ۴۵۸ھ: (ان سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے شرح عمدہ،کتاب الصیام ج۱، ص۵۱۳ میں استحباب نقل کیا ہے۔)
۲۔ حافظ ابن الجوزیؒ ۵۹۷ھ: (التبصرہ: ج۲، ص۷۵)
۳۔ أبو الخطاب الكلوذانیؒ۵۱۰ھ : (الهداية على مذهب الإمام أحمد: ج۱، ص۱۶۱)
۴۔ شیخ عبد القادر جیلانیؒ ۵۶۱ھ: (الغنية لطالبين: ج۱، ص۱۰)
۵۔ يوسف بن عبد الرحمنؒ ۶۵۶ھ (یہ ابن الجوزیؒ کے بیٹے ہیں): (المذهب الاحمد في مذهب الامام احمد: ص۵۴)
۶۔ شمس الدين ابن قدامة المقدسيؒ ۶۸۲ھ: (الشرح الكبير على متن المقنع: ج۳، ص۷۶-۷۸)
۷۔ علی بن سليمان المرداوی الحنبلیؒ ۸۸۵ھ: (الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۳۳۲)
۸۔ مرعی بن يوسف الكرمى المقدسی الحنبلىؒ۱۰۳۳ھ: (دليل الطالب لنيل المطالب: ج۱، ص۹۳)
۹۔ عبد القادر التغلبی الشیبانیؒ۱۱۳۵ھ: (نيل المآرب بشرح دليل الطالب: ج۱، ص۲۷۵)
۱۰۔ مصطفى الرحيبانى الدمشقی الحنبلیؒ ۱۲۴۳ھ: (مطالب أولی النهى فی شرح غاية المنتهى: ج۲، ص۲۰۷)
۱۱۔ ابن ضويان، إبراهيم بن محمد بن سالمؒ۱۳۵۳ھ: (منار السبیل شرح الدلیل: ج۱، ص۲۲۱)
🔹 شافعی علماءِ کرامؒ سے استحباب کاثبوت 🔹
مشہور کتب شافعیہ کے حوالے درج ذیل یہ ہیں جن میں اس دعا کا استحباب بیان کیا گیا ہے:
۱۔ أبو اسحاق الشيرازی ۴۷۶ھ: (المهذب فی فقة الإمام الشافعی: ج۲، ص۶۲۳)
۲۔ أبو اسحاق الشيرازی ۴۷۶ھ: (التنبية فی الفقه الشافعی: ج۱، ص۶۷)
۳۔ الرویانیؒ ۵۰۲ھ: (بحر المذهب فی فروع المذهب الشافعی: ج۳، ص۲۷۱)
۴۔ ابوحامدالغزالیؒ ۵۰۵ھ: (الوسيط فی المذهب: ج۲، ص۵۳۶)
۵۔ یحییٰ العمرانی اليمنی الشافعی:۵۵۸ھ: (البيان فی مذهب الإمام الشافعی: ج۳، ص۵۳۹)
۶۔ عبد الكريم الرافعی القزوينیؒ۶۲۳ھ: (فتح العزيز بشرح الوجيز والشرح الكبير: ج۶، ص۴۲۵)
۷۔تقی الدين السبكیؒ ۷۵۶ھ: (الابتهاج فی شرح المنها: ص۲۲۶)
۸۔ كمال الدين الدميریؒ ٨٠٨ھ(صاحب حیاۃ الحیوان): (النجم الوهاج فی شرح المنهاج: ج۳، ص۳۲۴)
۹۔ جلال الدین المحلی ؒ ۸۶۴ھ (صاحب جلالین): (كنز الراغبين شرح منهاج الطالبين: ج۱، ص۴۲۱، ۴۲۲)
۱۰۔ أبن حجر الهيتميؒ ۹۷۴ھ: (تحفة المحتاج فی شرح المنهاج: ج۳، ص۴۲۵)
۱۱۔ ابن علانؒ ۱۰۵۷ھ: (الفتوحات الربانية شرح الاذكار النواوية: ج۴، ص۲۳۴،۲۳۵)
🔹 مفتی شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ
سعودی عرب کے مفتی شیخ ابن العثیمینؒ نے ایک سوال کے جواب میں ان دونوں دعاؤں ’’اللھم لک صمت‘‘اور ’’ذھب الظمأ‘‘کو مستحب قرار دیا ہے۔
س۴۳۶: هل هناك دعاء مأثور عند الإفطار؟
الجواب: إن الدعاء عند الإفطار موطن إجابة للدعاء، والدعاء المأثور: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت، ومنه أيضاً قول النبي صلى الله عليه وسلم حين أفطر قال: (ذهب الظمأ، وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله) هذان الحديثان وإن كان فيهما ضعف لكن بعض أهل العلم حسنهما۔ (فتاوی ارکان الاسلام: ص ۴۸۶)
شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا: كيا افطارى كے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى دعاء كرنى ثابت ہے؟ اور اس دعا كا وقت كيا ہے، اور كيا روزے دار مؤذن كى اذان كا جواب دے يا كہ افطارى كرنے ميں مشغول رہے؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اللہ ميں نے تيرے ليے روزہ ركھا اور تيرے رزق پر ہى افطار كيا‘‘۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افطارى كے وقت درج ذيل دعاء بھى ثابت ہے: " ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "۔ ’’پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا‘‘۔
ان دونوں حديثوں ميں اگرچہ كچھ ضعف ہے، ليكن بعض اہل علم نے انہيں حسن كہا ہے۔ (فتاوی ارکان الاسلام: ص ۴۸۶)
🔹 سعودی عرب کے مفتی شیخ صالح الفوزانؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سؤال: ما هو الدعاء المأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم عند الإفطار وعند السحور؟
الجواب: قد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا أفطر يقول: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله»، وورد عن بعض الصحابة أنه إذا أفطر قال: «اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت فاغفر لي إنك أنت الغفور الرحيم» وأما السحور فلم يرد فيما أعلم دعاء مخصوص يقال عند ذلك، والله أعلم۔ (مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان: ج۲،ص۳۹۵)
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افطارى كے وقت درج ذيل دعاء بھى ثابت ہے: " ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "۔ ’’پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا‘‘۔
اور بعض صحابہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اللہ ! میں نے تیرے لئےروزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا ‘‘۔ اوراس کے علاوہ آپ جو مناسب سمجھیں وہ دعا بھی کر سکتے ہیں۔ (مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان: ج۲،ص۳۹۵)
🔹 یہی حوالہ شیخ صالح المنجدؒ نے بھی دیا ہے
وكذلك ورد عن بعض الصحابة أنه كان يقول: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) فأنت ادع الله بالدعاء المناسب الذي ترى أنك محتاج إليه۔
اسی طرح بعض صحابہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا‘‘۔ اوراس کے علاوہ آپ جو مناسب سمجھیں وہ دعا بھی کر سکتے ہیں۔ (اللقاء الشهري:ج٨،ص٢٥)
🔹 علماءِ اہلحدیث بھی اس دعاکے سے استحباب کے قائل ہیں
اہلحدیث عالم حافظ عبداللہ روپڑی صاحب لکھتے ہیں: ’’اور افطاری کے وقت یہ لفظ (دعاکے لئے) آئے ہیں:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ج۲، ص۵۵۳)
🔹 فتاویٰ علمائے اہلحدیث جس کو اہلحدیث مکتبہ فکرکے جید علماء کی تصدیق حاصل ہے اس میں لکھا ہے: ’’اور افطاری کے وقت یہ لفظ (دعاکے لئے) آئے ہیں:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (فتاویٰ علمائے اہلحدیث: ج۶، ص۹۴)
🔹 علامہ ناصرالدین البانیؒ اپنی کتاب اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹-۳۸ پر اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کے بعد آخرمیں لکھتے ہیں: ’’ومع ذلک صحیح حدیثھم جمیعاً‘‘ ’’اس کے باوجودیہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹)
مندرجہ بالا تمام دلائل، جلیل القدرمحدثین اور تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ائمہ کرامؒ کے استحباب کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اس حدیث کو مرسل کہہ کراس دعا کے پڑھنے کا انکار کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے یہی کہا جائیگاکہ وہ لاعلم، متعصب اور صحیح حدیث کا منکر ہے۔
ماخذ:
مجلہ الاجماع
نعمان اقبال الحنفی بلاگ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں