نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر65 مسئله : نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت نبوی ﷺہے۔


 اعتراض نمبر٦٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت نبوی ﷺہے۔

حدیث نبوی ﷺ

عن طلحہ ابن عبد اللہ بن عوف قال صليت خلف ابن عباس على جنازة فقر إبفاتحة الكتاب وقال لتعلموا انها سنة. 

( ترجمہ ) سیدنا طلحہ بن عبد اللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے جنازہ نماز پڑھی انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی اور کہا ( یہ میں نے اس لیےپڑھی ہے ) تا کہ تم جان لو یہ سنت ہے۔

(بخاري :ج١كتاب الجنائز باب قراة فاتحة الكتاب علي الجنازةص۱۷۸، رقم الحدیث (۱۳۳۵)

فقه حنفی

والبداية بالثناء ثم بالصلوة.

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب الجنائز في الصلوة علي الميت ص۱۸۰)

جنازہ نماز کی ابتداء ثناء سے کرنی ہوگی اور اس کے بعد درود پڑھنا ہوگا۔

( فقه و حدیث ص ۱۰۴)

جواب:

یہاں پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنازہ کی نماز میں قرآۃ ہے یا نہیں۔ ہم حنفی یہ کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں کسی قسم کی قرآة نہیں ہے۔ جبکہ غیر مقلدین کا یہ دعویٰ ہے کہ جنازہ میں قرآہ ہے اور خاص کر جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا تو فرض ہے اگر سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی گئی تو نماز جنازہ نہیں ہوتی کیونکہ حدیث لا صلوۃ میں جنازہ کی نماز بھی شامل ہے۔

دلائل احناف

حدیث:

(۱) عن ابى هريرة قال سمعت رسول الله ﷺ يقول اذاصليتم على الميت فأخلصواله الدعاء

(ابو داؤد ج ۲ ص ۱۰۰ ابن ماجه ص ۱۰۹)

(ترجمہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم کسی میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔

(۲) مالك عن سعيد بن ابي سعيد المقبري عن ابيه انه سال ابا هريرة كيف تصلى على الجنازة فقال ابو هريرة أنا لعمرالله اخبرك اتبعها من اهلها فاذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم اقول اللهم انه عبدك وابن عبدك و ابن امتك كان يشهدان لا اله الا انت وان محمدا عبدك ورسولك. وانت اعلم به اللهم ان كا محسنا فزد فى احسانه وان كا مسيئا فتجاوز عنه سياته اللهم لا تحرمنا اجره ولا تفتنا بعده (موطا امام مالک ج اص ۲۰۹)

( ترجمہ ) حضرت امام مالک رحمتہ اللہ حضرت سعید مقبری رحمة الله عليه سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نماز جنازہ کیسے پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا بخدا میں تمہیں ضرور بتلاؤں گا ، میں جنازہ والے گھر سے ہی جنازہ کے ساتھ ہو لیتا ہوں جب جنازہ (نماز کے لیے ) رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہ کر اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ پر درود شریف پڑھتا ہوں پھر یہ دعا پڑھتا ہوں ۔ اللهم عبدك وابن عبدك و ابن امتك كان يشهد ان لا اله الا انت وأن محمدا عبدك ورسولك دانت اعلم به اللهم ان كان محسنا فزد فی احسانه وان كان مسيئا فتجاوز عنه سياته اللهم لا تحرمنا اجره ولا تفتنا بعده (۳) مالك عن نافع ان عبدالله بن عمر كان لا يقرا في الصلوة على الجنازة، (موطا امام مالک ج ١ص ۲۱۰) (ترجمہ) حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں قرآت نہیں کرتے تھے۔ 

(۴) روى عن ابن مسعود انه سئل عن صلوة الجنازة هل يقر افيها فقال لم يوقت لنا رسول الله ﷺ قولا ولا قراءة وفى رواية دعاء ولا قراءة كبر ما كبر الامام و اختر من اطيب الكلام ماشئت، وفى رواية واختر من الدعاء اطيبه

 بدائع الصنائع ج ١ص ۳۱۳ معنی ابن قدامة ج ۲ ص ۴۸۵)

(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے نماز جنازہ میں قرآت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرما یا رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے کوئی خاص کلام اور قرآت مقرر نہیں فرمائی، ایک روایت میں ہے کہ کوئی خاص دعا اور قرآت مقرر نہیں فرمائی ، جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جو اچھے سے اچھا کلام ( ثناء ودعاء وغیرہ ) چاہو اختیار کرو اور ایک روایت میں ہے کہ جو بہتر سے بہتر دعا ہو وہ اختیار کرو۔

(۵) روی عن عبد الرحمن بن عوف و ابن عمر انهما قالا ليس فيها قراء لا شيء من القرآن. 

(بدائع الصنائع ج ١ص ۳۱۳)

 ( ترجمہ ) حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا نماز جنازہ میں قرآن کے کسی حصہ کی بھی قرآت نہیں ہے۔

(٦) عن على انه كان اذا صلى على ميت يبدا بحمد الله ويصلى على

النبي صلى الله عليه وسلم ثم يقول اللهم اغفر لا حيائنا وامواتنا فالف بين

قلوبنا واصلح ذات بيننا و اجعل قلوبنا على قلوب خيارنا.

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص۲۹۵)

(ترجمہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ جب کسی میت کی نماز جنازہ پڑھاتے تو اللہ کی حمد و ثنا سے ابتداء کرتے پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود پڑھتے پھر یہ دعا مانگتے : اللهم اغفر لا حيائنا وامواتنا والف بين قلوبنا واصلح ذات بيننا و اجعل قلوبنا على قلوب خیارنا

(٧) عن الشعبي قال فى التكبيرة الاولى يبدا بحمد الله والثناء عليه ها الله سة والثانية صلوة على النبي ﷺ والثالثة دعاء للميت والرابعة للتسليم (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۵ مصنف عبد الرزاق ج ۳ ص ۴۹۱)

( ترجمہ ) حضرت امام شعبی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں نماز جنازہ میں پہلی تکبیر میں اللہ کی حمد و ے دوسری تکبیر کے بعد نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر درود پڑھے، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دُعا کرے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرے۔

(۸) عن عبد الله بن ایاس عن ابراهيم و عن ابى الحصين عن الشعبي قالاليس فى الجنازة قراءة

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹)

( ترجمہ ) حضرت ابراہیم نخعی اور امام شعبی رحمہا اللہ فرماتے ہیں نماز جنازہ میں قرأت نہیں ہے۔

(۹) عن ايوب عن محمد انه كان لا يقرأ على الميت

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۸ مصنف عبد الرزاق ج ۳ ص ۴۹۱)

(ترجمہ) حضرت ایوب رحمۃاللہ علیہ حضرت محمد بن سیرین رحمۃاللہ علیہ سے روایت کرتےہیں کہ آپ نماز جنازہ میں قرآت نہیں کرتے تھے۔

(۱۰) عن حجاج قال سالت عطاء عن القراءة على الجنازة فقال ما سمعنا بهذا

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ جس ۲۹۹)

(ترجمہ) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃاللہ علیہ سے نماز جنازہ میں قرآت کرنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم نے یہ نہیں سنا۔

(۱۱) عن ابی طاؤس عن ابيه وعطاء انهما كان ينكر ان القراءة على الجنازة .. 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹) (ترجمہ) ترجمه حضرت ابو طاؤس اپنے والد طاؤس اور حضرت عطاء بن ابی رباح رحمھم اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ نماز جنازہ میں قرآت کا انکار کرتے تھے۔

(۱۲) عن بكر بن عبد الله قال لا اعلم فيها قراءة

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص۳۹۹) .

(ترجمہ) حضرت بکر بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نماز جنازہ میں قرآت کو نہیں جانتا۔

(۱۳) عن مفضل قال سالت میمونا على الجنازة قراءة او صلوةعلى النبي ﷺ قال ما علمت

( مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹)

(ترجمہ) حضرت مفضل رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت میمون رحمۃاللہ علیہ سے نماز جنازہ میں قرآت یا درود سے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں۔

(١٤) عن محمد بن عبدالله بن ابي سارة قال سالت سالما فقلت القرائة على الجنازة فقال لا قراءة على الجنازة 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹)

( ترجمہ ) حضرت محمد بن عبد اللہ بن ابی سارہ میں رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم رحمتہ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ میں نماز جنازہ میں قرآت کروں تو آپ نے فرمایا نماز جنازہ میں قرآت نہیں ہے۔

(۱۵) عن ابى المنهال قال سألت ابا العالية عن القراءة في الصلوة على الجنازة بفاتحة الكتاب فقال ما كنت احسب ان فاتحة الكتاب تقرؤ

الا في صلوة فيها ركوع و سجود (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹) (ترجمہ) حضرت ابوالمنہال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالعالیہ الریاحی رحمۃاللہ علیہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا میرا تو یہی خیال ہے کہ سورہ فاتحہ صرف رکوع و سجود والی نماز ہی میں پڑھی جاتی ہے۔

(١٦) عن موسى بن علی عن ابيه قال قلت لفضالة بن عبيدة هل يقرؤ على الميت شيئ قال لا ۔ 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹) (ترجمہ) حضرت موسیٰ بن علی رحمۃاللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فضالہ بن عبیدة رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میت پر (نماز جنازہ میں قرآت کی جاتی ہے آپ نے فرمایا نہیں۔

(۱۷) عن سعید بن ابی بردة عن ابيه قال قال له رجل اقرؤ على الجنادة بفاتحة الكتاب قال لا تقرا ۔ 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۲۹۹)

(ترجمہ) حضرت سعید رحمۃاللہ علیہ اپنے والد ابو بردہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی نے پوچھا کہ کیا میں نماز جنازہ میں قرآت کر لیا کروں تو آپ نے فرما یا نہیں۔

(۱۸) عن حمادعن ابراهيم قال سالته يقرا على الميت اذا صلى عليه؟قال لا. 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۴۹۱) (ترجمہ) حضرت حماد رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ سےدریافت کیا کہ کیا نماز جنازہ میں قرآت کی جاسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ قال سحنون قلت لعبد الرحمن بن القاسم اى شيئ يقال على الميت في قول مالك قال الدعاء للميت قلت فهل يقراء على الجنازة في قول مالك قال الا.... ابن وهب عن رجال من اهل

العلم عن عمر بن الخطاب وعلى ابن ابی طالب و عبد الله بن وعبيد بن فضالة وابى هريرة وجابر ابن عبدالله وواثلة بن الاسقع والقاسم وسالم بن عبدالله وابن المسيب وربيعة وعطاء ويحيى بن سعيد انهم لم يكونوا يقرؤن في الصلوة على الميت وقال مالك ليس ذالك بمعمول به انما هو الدعاء ادرکت اهل بلادنا على ذالك.

( المدونۃ الکبری جاص ۱۷۴) 

(ترجمہ) حضرت سحنون رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن قاسم رحمۃاللہ علیہ سے دریافت کیا کہ حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ کے قول میں میت پر کیا پڑھنا چاہئے؟ فرمایا میت کے لیے دعاء میں نے کہا، کیا امام مالک رحمۃاللہ علیہ کے قول کے مطاق نماز جنازہ میں قراءت ہوتی ہے؟ فرمایا نہیں ۔ ابن وہب رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ بہت سے اہل علم مثلاً حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبیدہ بن فضالة ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم اور حضرت قاسم بن محمد ، حضرت سالم بن عبداللہ ، حضرت سعید بن مسیب، حضرت عطاء بن ابی رباح ، حضرت یحیی بن سعید رحمہم اللہ نماز جنازہ میں قراءت نہیں کیا کرتے تھے، ابن وہب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا ہمارے شہر (مدینہ طیبہ ) میں اس پر عمل نہیں، نماز جنازہ صرف دعاء ہے، میں نے اپنے شہر کے اہل علم کو اس پر پایا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں۔

" ومقصود الصلوة على الجنازة هو الدعاء اللميت وكذالك حفظ عن النبي ﷺ ونقل عنه مالم ينقل من قراء ة

الفاتحة والصلوة عليه صلى عليہﷺ - (زاد المعادج ١ص ۱۴)

( ترجمہ ) نماز جنازہ سے مقصود میت کے لیے دعا کرنا ہے اور اسی طرح آنحضرت ﷺ سے جنازہ کی دعائیں اس کثرت کے ساتھ نقل کی گئی ہیں کہ فاتحہ یا درودشریف کا پڑھنا اس طرح نقل نہیں کیا گیا۔

موصوف مزید لکھتے ہیں :

ویذكر عن النبي ﷺ انه امران يقرا على الجنازة بفاتحةالكتاب ولا يصح اسنادہ۔“ 

(زاد المعادج ١ص ۱۴۱) 

( ترجمہ ) اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر كیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خلفاء راشدین جو آنحضرت ﷺ کی سنتوں کے امین ہیں ان میں سے کسی بھی خلیفہ راشد سے نماز جنازہ میں قراءت فاتحہ منقول نہیں جب کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا قراءت نہ کرنا صراحتا منقول ہے جیسا کہ مدونہ کبریٰ کی عبارت سے واضح ہے۔

رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے پیش کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں۔

جواب نمبر ١ : اصول یہ ہے کہ جس خبر واحد میں کسی مسئلہ کے مسنون ہونے کی تصریح ہو اس خبر واحد سے اس مسئلہ کی فرضیت پر استدلال کس طرح درست ہو سکتا ہے، جبکہ یہ امر بھی قطعی نہیں ہے کہ اس سے مراد سنت رسول الله ﷺ ہے یا سنت صحابہ کرام رضیاللہ عنہما، اور چونکہ دیگر دلائل سے نماز جنازہ میں بطور قراۃ قرآن پڑھنے کی ممانعت ثابت ہے اس لیے یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کو بطور ثنا اور دعا کے پڑھا ہوگا۔

جواب نمبر ۲: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف بھی روایت مروی ہے علامہ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ عسقلانی شافعی رحمۃاللہ علیہ فتح الباری میں ایک حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں جس سے واضح طور پر ثبوت ملتا ہے کہ حضرت ابن عباس کے نزدیک نماز جنازہ صرف تکبیر اور تسبیح ہے۔

اخرجه عمر بن شبه في كتاب مكة من طريق حماد عن ابی حمزه عن ابن عباس رضی اللہ عنہ والله لا قلت له كيف اصلي في الكعبة قال كما تصلي في الجنازة تسبح وتكبر ولا تركع ولا تسجد ثم عندار كان البيت تسبح و کبر و تصرع و استغفر ولا تركع وتسجد وسنده صحيح 

(فتح الباری ج ۳ ص ۳۷۶)

اس حدیث کو عمر بن شبہ کتاب مکہ میں طریق حماد نقل کرتے ہیں کہ ابوحمزہ رحمۃاللہ علیہ نے حضرت ان عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ بیت اللہ میں کیسے نماز پڑھوں ، تو انہوں نے فرمایا کہ اس طرح پڑھ جس طرح نماز جنازہ کی پڑھتا ہے کہ تسبیح اور تکبیر کہ اور رکوع و سجود نہ کر پھر بیت اللہ کے ارکان کے پاس تسبیح و تکبیر کہہ اور عاجزی اور استغفار کر رکوع سجدہ نہ کر اور سند اس کی صحیح ہے۔

اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ حضرت ابن عباس والے جب ابوحمزہ کو نماز جنازہ کا طریقہ بتاتے ہیں تو اس میں سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں کرتے تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک سورۃ فاتحہ پڑھنا نماز جنازہ میں نہ فرض ہے اور نہ سنت ورنہ اس موقعہ پر آپ ضرور ان کو بتا دیتے۔

حضرت ابن عباس یا ان کی ایک اور روایت :

عن ابن عباس ان النبي ﷺ كان اذا صلى على الميت قال اللهم اغفر لحينا وميتنا الحديث. 

(مجمع الزوائد ج ۳ ص ۳۳)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ جب نماز جنازہ پڑھاتے تو فرماتے اے اللہ بخش دے ہمارے زندوں کو اور مردوں کو الخ

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں اسناد حسن کہ اسناد اس کی حسن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ حضور اکرم ﷺ نے جب بھی نماز جنازہ پڑھی تو آپ ﷺ نے اس میں دعائے مغفرت کی ، اگر آپ سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ فرماتے کہ جب بھی نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تو اس میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے لیکن ایسا نہیں کہا۔

لہذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دونوں قسم کی روایات منقول ہیں اس لیے دونوں قسم کی روایات میں تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کہ آپ کبھی کبھار بطور حمد وثناء کے پڑھ لیتے ہوں گے، اور کبھی نہیں پڑھتے ہوں گے اس طریقہ کو اگر اختیار کیا جائے تو دونوں قسم کی روایتوں پر عمل ہوگا ورنہ ایک پر عمل ہوگا اور دوسری کو چھوڑنا پڑے گا۔

جواب نمبر ۳:

ان حدیث سے یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ کس تکبیر کے بعد پڑھی اگر تکبیر بھی مقرر کر لوتو یہ پتہ نہیں لگتا کہ بنیت حمد وثناء پڑھی بینیت قراة بنیت حمد وثنا کہ پڑھنے کہ تو ہم احناف بھی قائل ہیں۔

جواب نمبر ۴ :

آپ کے سورۃ فاتحہ پڑھنے پر سارے حاضرین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃاللہ علیہ کو سخت تعجب ہوا تب ہی تو آپ نے کہا کہ میں نے یہ عمل اس لیے کیا تا کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔ پتہ چلا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ تو خود پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے سنت جانتے تھے اسی لیے آپ کو یہ معذرت کرنا پڑی۔

جواب نمبر ۵ :

آپ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت ہے اس جملہ سے سنت رسول صلی اللہ کی مراد نہیں ہے بلکہ یہاں پر لغوی معنی مراد ہیں۔ یعنی یہ بھی ایک طریقہ ہے بجائے دوسری ثناء اور دعا کے سورۃ فاتحہ پڑھ لی جائے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھو۔ اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں آپ ﷺ کا خود سورۃ فاتحہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں دلائل سے ثابت نہیں ہو سکتی تو سنت رسول ﷺ کیسے ثابت ہوگی۔


اعتراض نمبر


پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں: مسئله : عورت کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے امام اس کے ( جنازہ ) کے درمیان میں کھڑا ہوگا۔ حدیث نبوی من می دانیم


عن سمرة بن جندب قال صليت وراء رسول الله صلى الم على


امراة ماتت فى نفاسها فقام عليها وسطها .


( ترجمہ ) سید نا سمرہ یا اللہ کہتے ہیں وہ ایک عورت اپنے نفاس ( کے ایام ) میں فوت ہو گئی میں نے رسول اللہ صلی اللہ نام کی اقتداء میں اس کی نماز جنازہ پڑھی آپ صلی اللہ تم اس کے جنازہ) کے درمیان میں کھڑے ہوئے ۔


(بخاري جاكتاب الجنائز باب الصلوة علي النفساء اذا ماتت في نفاسهاص ارقم الحدیث ۳۳۱ واللفظ له) (مسلم : اکتاب الجنائز باب ابن يكون الإمام من الميت للصلاة عليها ص۳۱۱، رقم الحدیث (۲۲۳۵)


فقه حنفی


ويقوم الذى يصلى على الرجل والمراة بحذاء الصدر .



هدایه پر اعتراضات کا علمی جائزہ


هدایه اولین اکتاب الصلوة باب الجنائز فصل في الصلوة علي الميت ص ۱۸۱)


جو آدمی کسی مرد یا عورت کا جنازہ پڑھا رہا ہے اس کو چاہیے کہ وہ (میت) کے


سینے کے برابر کھڑا ہو۔


جواب:


( فقه و حدیث ص ۱۰۵)


334


راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت مکمل نقل نہیں کی۔ اگر وہ پوری عبارت نقل کر دیتے تو وہاں پر سینہ کے سامنے کھڑے ہونے کی وجہ بھی لکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے یہ اعتراض بھی ختم ہو جاتا۔ ہدایہ کی مکمل عبارت اس طرح ہے:


ويقوم الذي يصلى على الرجل والمراة بحذاء الصدر لانه موضع القلب وفيه نور الايمان فيكون القيام عنده اشارة الى الشفاعة لا يمانه وعن ابي حنيفة انه يقوم من الرجل بحذاء راسه ومن المراة بحذاء وسطها لان انسا فعل كذالك وقال هوا السنة ( ترجمہ ) جو شخص مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھاتا ہے وہ سینہ کے مقابل کھڑا ہو کیونکہ سینہ دل کی جگہ ہے اور دل میں نور ایمان ہے پس اس کے پاس کھڑا ہونا اشارہ ہو گا کہ شفاعت اس کے ایمان کی وجہ سے ہے۔ ابو حنیفہ میں اللہ سے مروی ہے کہ مرد کے جنازہ کے سر کے مقابل کھڑا ہو اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو کیونکہ حضرت انس و اللہ نے اسی طرح کیا ہے اور کہا کہ یہی سنت ہے۔


( ہداي فصل في الصلوة علی المیت)


ناظرین آپ نے دیکھ لیا کہ راشدی صاحب نے کس طرح قطع و بدیر کی ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ حنفی مسلک میں دو قول ہیں۔ اور دونوں دلائل سے ثابت ہیں فرق یہ ہے کہ بہتر کون سنا ہے۔ امام طحاوی نے طحاوی ج ۱ ص ۲۳۷ میں اور علامہ انور شاہ کشمیری نے العرف الشند ی ج اص 199 میں اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس قول کو اختیار کیا ہے جس میں مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے درمیان میں کھڑے ہونے کا ذکر ہے احناف کا یہ مسئلہ پھر احناف کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف حدیث کے خلاف کیسے ہوا۔ اور اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں احادیث مختلف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔ (1) حضرت سمرہ بن جندب روانہ کی حدیث مولاناراشدی صاحب نے بھی نقل کی ہے اس 

صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ امام عورت کے جنازہ پر درمیان میں کھڑا ہو۔ اس میں مرد کا سر سے ذکر ہی نہیں۔ بعض روایت میں مرد کا سر کے سامنے اور عورت کے درمیان کی روایت میں عورت کے کولہے کے سامنے کا ذکر ہے۔


(۲) عن ابی غالب قال صليت خلف انس الا الله على جنازة فقال حيال صدره ( فتح القدير ج ۲، ص ۸۹ ، شرح نقایه ج ا ص ۱۳۵) ابو غالب امیہ سے روایت ہے کہ میں نے انس


(3)

ال ان کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ میت کے سینہ کے برابر کھڑے ہوئے ۔ عن ابراهیم قال يقوم الرجل الذي يصلى على الجنازة عند صدرها ابراهیم نحفی نے فرمایا مرد کے جنازہ میں نماز کے لیے سینہ کے برابر کھڑا ہونا چاہئے ۔ طحاوی باب الرجل یصل علی المیت این تنش ان يقوم منه )


ان روایات سے ثابت ہوا کہ روایات میں اختلاف ہے اس واسطے بعض احناف نے سینے کے برابر کھڑا ہونے کو ترجیح دی اور ساتھ ترجیع کی وجہ بھی بیان کر دی کہ اس میں ایمان ہوتا ہے

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...