اعتراض نمبر٦٦
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : عورت کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے امام اس کے ( جنازہ) کے درمیان میں کھڑا ہو گا۔
حدیث نبوی ﷺ
عن سمرة بن جندب قال صليت وراء رسول الله ﷺ على امراة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها .
( ترجمہ ) سیدناسمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، ایک عورت اپنے نفاس ( کے ایام ) میں فوت ہو گئی میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں اس کی نماز جنازہ پڑھی آپﷺ اس کے ( جنازہ) کے درمیان میں کھڑے ہوئے ۔
( بخاري :ج ١كتاب الجنائز باب الصلوة علي النفساء اذا ماتت في نفاسها ص ١۷۷ رقم الحديث ۱۳۳۱ واللفظ له) (مسلم : ج١کتاب الجنائز باب ابن يكون الامام من الميت للصلاة عليها ص ۳۱۱، رقم الحديث (۲۲۳۵)
فقه حنفی
ويقوم الذى يصلى على الرجل والمراة بحذاء الصدر .
(هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب الجنائز فصل في الصلوة علي الميت ص ۱۸١)
جو آدمی کسی مرد یا عورت کا جنازہ پڑھا رہا ہے اس کو چاہیے کہ وہ (میت) کےسینے کے برابر کھڑا ہو۔
(فقہ وحدیث ص ۱۰۵)
جواب:
راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت مکمل نقل نہیں کی۔ اگر وہ پوری عبارت نقل کر دیتے تو وہاں پر سینہ کے سامنے کھڑے ہونے کی وجہ بھی لکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے یہ اعتراض بھی ختم ہو جاتا۔
ہدایہ کی مکمل عبارت اس طرح ہے:
ويقوم الذي يصلى على الرجل والمرأة بحذاء الصدر لانه موضع القلب وفيه نور الايمان فيكون القيام عنده اشارة الى الشفاعة لا يمانه وعن ابي حنيفة انه يقوم من الرجل بحذاء راسه ومن المرأة بحذاء وسطها لان انسا فعل كذالك وقال هوا السنة
( ترجمہ ) جو شخص مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھاتا ہے وہ سینہ کے مقابل کھڑا ہو کیونکہ سینہ دل کی جگہ ہے اور دل میں نور ایمان ہے پس اس کے پاس کھڑا ہونا اشارہ ہو گا کہ شفاعت اس کے ایمان کی وجہ سے ہے۔ ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ مرد کے جنازہ کے سر کے مقابل کھڑا ہو اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو
کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسی طرح کیا ہے اور کہا کہ یہی سنت ہے۔
( ہدایہ فصل فی الصلوة علی المیت )
ناظرین آپ نے دیکھ لیا کہ راشدی صاحب نے کس طرح قطع و بدیر کی ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ حنفی مسلک میں دو قول ہیں۔ اور دونوں دلائل سے ثابت ہیں فرق یہ ہے کہ بہتر کون ساہے۔ امام طحاوی نے طحاوی ج ۱، ص ۲۳۷ میں اور علامہ انور شاہ کشمیری نے العرف الشذی ج ١ص۱۹۹ میں اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس قول کو اختیار کیا ہے جس میں مرد کے سر کے سامنے اور عورت کےدرمیان میں کھڑے ہونے کا ذکر ہے احناف کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف کیسے ہوا۔ اور اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں احادیث مختلف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(1) حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث مولانا راشدی صاحب نے بھی نقل کی ہے اس سے
صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ امام عورت کے جنازہ پر درمیان میں کھڑا ہو۔ اس میں مرد کا سرےسے ذکر ہی نہیں۔ بعض روایت میں مرد کا سر کے سامنے اور عورت کے درمیان کی روایت میں عورت کے کولہے کے سامنے کا ذکر ہے۔
عن ابی غالب : ، قال صليت خلف ! انس رضی اللہ عنہ على جنازة فقال خيال صدره ( فتح القدير ج ۲، ص ۸۹ ، شرح نقایہ ج ۱ ص ۱۳۵) ابو غالب رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ میت کے سینہ کے برابر کھڑے ہوئے۔ عن ابراهيم قال يقوم الرجل الذى يصلى على الجنازة عند صدزهاابراهیم نحفی نے فرمایا مرد کے جنازہ میں نماز کے لیے سینہ کے برابر کھڑا ہونا چاہیئے ۔
(طحاوی باب الرجل یصلی علی المیت این ینبغی ان يقوم منه )
ان روایات سے ثابت ہوا کہ روایات میں اختلاف ہے اس واسطے بعض احناف نے سینےکےبرابر کھڑا ہونے کو ترجیح دی اور ساتھ ترجیع کی وجہ بھی بیان کردی کہ اس میں ایمان ہوتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں