نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 84 زبردستی کی وجہ سے نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ غلام آزاد ہوگا۔


 اعتراض نمبر ٨٤
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : 
مسئلہ : زبردستی کی وجہ سے نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ غلام آزاد ہوگا۔ 

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عائشة قالت سمعت رسول الله التي يقول لا طلاق ولاعتاق في اغلاق.

(ترجمہ) سیدناعائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ زبردستی نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ غلام آزاد ہوگا۔

(ابوداؤدج١کتاب الطلاق باب في الطلاق علي غلط صفحه۳۰۵، رقم الحدیث ۲۱۹۳) 

(ابن ماجہ ابواب الطلاق باب طلاق المكره والناسی صفحه۱۴۷، رقم الحدیث ۲۰۴۶) 

فقه حنفى 

وان اكره لمی طلاق امراته او عتق عبده ففعل وقع ما اکرہ علیہ۔

(هدایہ آخیرین ج ٣ کتاب الاکراہ صفحه ۳۵۰)

(ترجمہ )زبردستی طلاق بھی واقع ہو جاۓ گی اور غلام بھی آزاد ہو جاۓ گا۔

( فقہ وحدیث ۱۲۳)

جواب:

اس مسئلہ میں احادیث مختلف ہیں پیر بدیع الدین شاہ راشدی غیر مقلد نے صرف اپنے مطلب کی حدیث نقل کی ہے اور دوسری نقل نہیں کیا ۔ہم یہاں پر پہلے وہ احادیث نقل کریں گے جو فقہ حنفی کی تائید کرتی ہیں بعد میں راشدی صاحب کی نقل کردہ حدیث کا جواب بھی عرض کریں گے ۔ 

فقہ حنفی کے دلائل

حدیث نمبر ١ :

حضرت صفوان بن غزوان الطائی سے روایت ہے کہ ایک آدمی سویا ہوا تھا اس کی بیوی اٹھی اور اس نے چھری پکڑی اور اپنے خاوند کے سینے پر بیٹھ گئی اور چھری اس کے حلق پر رکھ دی اور کہنے لگی

مجھے تین طلاقیں دو ورنہ میں تجھے ذبح کردوں گی تو اس کے خاوند نے اس کو اللہ کا وسطہ دیا لیکن اس کی بیوی نے انکار کر دیا تو اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں پھر وہ آدمی آپ سلام کے پاس حاضر ہوا اور سارا معاملہ آپ ﷺکے سامنے بیان کر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایالاقيلولة في الطلاق ۔ کہ طلاق میں کوئی قیلول نہیں ہے ۔ یعنی طلاق واقع ہوگئی ہے۔ 

(المحلی فی الطلاق جلد نمبر ۱۰ص ۲۰۳ نصب الرای ج ۳ ص ۲۲۲)

امام شمنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام عقیل نے بھی اپنی کتاب میں نقل کی ہے ۔ :

حدیث نمبر ۲:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی مکرہ کی طلاق کو جائز قرار دیتے تھے۔ 

( الجوہرالنقی فی الررعلی البیہقی ج ۷ ص ۳۵۸ نصب الرایہ ج ۳ ص ۲۲۲) حدیث نمبر ۳:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

كل طلاق جائز الاطلاق المحتوة المغلوب على عقله سب طلاقیں پڑ جاتی ہیں مگر طلاق محتو نہیں پڑتی ۔ معتوہ کا مطلب ہے جس کی عقل جاتی رہی ہو۔ اس حدیث سے جہاں معتوہ کی طلاق کا عدم وقوع سمجھ میں آیا ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ معتوہ کے علاوہ ہر بالغ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے جس میں مکروہ طلاق بھی شامل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معتوہ یعنی دیوانے سے ایسا دیوانہ مراد ہے جس کی عقل نہ رہی ہو اور اگر ایسا دیوانہ ہو جو بھی کبھی ہوش میں بھی آ تا ہو اور وہ طلاق دیوے ہوش کی حالت میں تو ایسی طلاق واقع ہوتی ہے۔

حدیث نمبر ۴:

حديثنا وكيع عن الأعمش عن إبراهيم عن عابس بن ربيعة عن على قال كل طلاق جائز الاطلاق المعتوه

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۵ ص ۱۳ باب ما قالوافی طلاق المعتو و )

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہر ایک طلاق پڑ جائے گی ۔

حدیث نمبر ۵:

قال على وكل طلاق جائز الاطلاق المعتوه

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہر ایک طلاق پڑ جائے گی مگر دیوانے کی (یعنی دیوانے کی طلاق نہیں پڑتی )

( بخاری کتاب الطلاق باب الطلاق في الاغلاق والکرہ ( تعلیقاً ) جلد ۲ ص ۷۹۳ )

حدیث نمبر ۶:

روایت ہے ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ نے فرمایا تین چیز ہیں کہ اس میں سچ مچ کہنا اور خوش طبعی سے کہنا دونوں برابر ہے ایک نکاح دوسرے طلاق تیسرے رجعت ( یعنی طلاق - کے بعد رجوع کرنا ) ( ترمذی ابواب الطلاق باب ماج آ ء فی المجد والمنزل في الطلاق ) اس حدیث میں بازل کی طلاق ہونے کا ذکر ہے بازل اپنے اختیار سے طلاق کا حکم ہولتا ہے مگر وہ وقوع طلاق سے راضی نہیں ہوتا اس کے باوجود طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس میں معلوم ہوا کہ اپنے اختیار سے طلاق کا تکلم کیا جاۓ تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ گو محکم وقوع طلاق سے راضی نہ ہو اور مکرہ طلاق میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ ظاہر ہے کہ اکراہ سے اختیار تو سلب نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ رضا مفقود ہوتی ہے۔ لہذا بازل کی طرح یہاں بھی طلاق واقع ہونی چاہیے ۔

حدیث نمبر٧:

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر میں شرکت سے مجھے کوئی چیز مانع نہیں تھی بلکہ میں اپنے والد حسیل کے ساتھ نکلا تھا لیکن راستے میں ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جار ہے ہو؟ ہم نے کہا کہ ہمارا ارادہ تو صرف مدینہ منورہ جانے کا ہے۔ انہوں نے ہم سے یہ وعدہ اور مضبوط عہد لیا کہ ہم مدینہ میں جا کر لڑائی میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہم نبی علیہ اسلام کی خدمت میں پہنچے اور ساری بات بتادی نبی علیہ سلام نے فرمایا تم دونوں واپس چلے جاؤ ہم ان کا وعدہ وفا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگیں گے۔ (مسند احمد مترجم جلد ۱۰ ص ۷۹۶) مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۳۰۱ وجلد ۵ ص ۳۹۶۔ مستدرک حاکم مترجم جلد ۴ ص ۳۸۸ کتاب معرفت الصحابه طحاوی ج ۲ص۴۹) مسلم کتاب الجہادوایسر باب الوفاء بالعهد ۔ نیل الاوطار جلد ۷ ص۲۳۶) امام شوکانی فرماتے ہیں ۔ جوفقہاء جبری قسم کے جواز کے قائل ہیں وہ اس بارے میں اس ( نیل الاوطار ار دو جلد نمبر ۴ ص ۲۸۰)

اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔

 امام طحاوی فرماتے ہیں:

قالوا فلما منعهما رسول اللہ ﷺ من حضور بدر لاستعلاف المشركين القاهرين لهما على ما استحلفوهما عليه ثبت بذالك ان الحلف على الطواعية والاكرالاسواء كذالك الطلاق والعتاق ( طحاوی جلد ۲ ص ۴۹)

علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں:

بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہما و تابعین کا مسلک بھی یہی ہے کہ طلاق مکرہ واقع ہو جاتی ہے۔ مثلاً حضرت عمر ، ابن عمر ، عمر بن عبدالعزیز ،شعبی ، ابوقلابہ ، سعید بن المسيب ،شریح ، زہری ، قتادہ ، سعید بن جبیر نخعی وغیرہ۔ ( عمدة القاری شرح بخاری ج ۲۰ ص ۲۵۰ ونصب الرایہ ج ۳ ص ۲۲۲) قارئین کرام آپ نے حنفی مذاہب کے دلائل ملاحظہ فرماۓ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مجبوری کی حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ان کا ذکر راشدی صاحب نے نہیں کیا۔ اب رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں ۔ احناف کا طریقہ ا کثر جگہ پر یہ ہوتا ہے کہ جن روایات میں بظاہر تعارض نظر آۓ ان میں ایسی تطبیق دی جاۓ جس سے تعارض خود بخود ختم ہو جاۓ ۔لہذا یہاں پر بھی اس حدیث کا ایسا مطلب بیان کرنا چاہیئے جس سے تعارض ختم ہو جاۓ ۔ وہ مطلب یہ ہے کہ اخلاق سے مراد یہاں اغلاق الفہم ہے۔ یعنی کسی شخص کا منہ جبرا اس طرح سے بند کر دیا جاۓ کہ وہ طلاق اور عتاق کے الفاظ کے ایسے تکلم پر قادر نہ رہے جیسا تکلم طلاق اور عتاق کے حکم واقع ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اس اکراہ کی صورت میں طلاق کا عدم وقوع متفق علیہ ہے۔جبکہ اغلاق کا معنی صرف اکراہ ہی متعین نہیں ہے۔ بلکہ اس کے معنی میں اور احتمالات بھی ہیں اور معانی کے احتمال ہوتے ہوئے یہ حدیث قابل استدلال نہیں جیسا کہ اصول ہے۔إذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال۔

دوسرا جواب : اس بات پر اجماع ہے کہ قتل خطاء میں دیت ہے ہاں گناہ نہیں ہے یہی حال یہاں بھی ہے کہ طلاق واقع ہو جاتی ہے گو اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...