اعتراض نمبر ٩٦
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئلہ: کسی بھی صورت میں وقف ، وقف کرنے والے کی ملکیت سے نہیں نکل سکتا۔
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن عمرانه اصاب ارضا بخيبر فاتی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہﷺ وانی اصبت ارضا بخيبر لم اصب مالا قط انفس عندی منه فما تأمرنی به قال ان شئت حبست اصلها وتصدقت بها فتصدق بها عمر انه لا يباع اصلها ولا يوهب ولا يورث وتصدق بها في الفقراء وفي القربى وفي الرقاب وفي سبیل الله وابن السبيل والضعيف لا جناح على من وليهاان يأكل منها بالمعروف او يطعم صديقا غیر متمول فیہ۔
( ترجمہ ) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی ﷺکے پاس آۓ اور کہا کہ میرے نزدیک نفیس ترین مال وہ زمین ہے جو مجھے خیبر میں ملی ، اس کے بارے میں آپ ﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو یہ کر سکتا ہے کہ اس کی ملکیت اپنے پاس رکھے اور اس کی پیداوار صدقہ کر دے، اس لیے کہ ملکیت کو ( یعنی وہ چیز جس کو وقف کر دیا جاۓ اس کو نہ بیچا جا سکتا ہے ، نہ وہ ورثہ میں دی جاسکتی ہے ، ہاں اس کی پیداوارفقرا میں ، قریبی رشتہ داروں میں ، غلام آزاد کرنے میں ، اللہ کے رستے میں، مسافر اور مہمان کو دینے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور جو اس کا سنبھالنے والا ہے اس کو معروف طریقے سے کھانا چاہیے تو کھا سکتا ہے۔
(بخاري كتاب الوصاياباب الوقف وكيف يكتب صفحہ۹۹-۳۹۸، رقم الحدیث ۲۷۷۲) (مسلم ج٢كتاب الوصية باب الوقف صفحه ۴۱، رقم الحدیث ۴۲۲۴)
فقه حنفی
قال ابو حنيفة لايزول ملك الواقف عن الوقف الا ان يحكم به الحاكم ۔ (هدایه اولین ج٢ کتاب الوقف صفحه٦٣٦)
( ترجمہ ) جب تک حاکم فیصلہ نہیں دیتا تب تک وہ وقف کرنے والے کی ملکیت ہی رہے گی ۔
( فقه وحدیث ۱۳۵)
جواب:
اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے مسلک میں کچھ تفصیل ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ کسی چیز کو وقف کرنے کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اصل چیز ہی کو وقف کر دے ۔ مثلاً کوئی جگہ مسجد یا مدرسہ یا ہسپتال وغیرہ کے لئے وقف کر دے۔ اس صورت میں ایک دفعہ وقف کر دینے کے بعد یہ چیز وقف کرنے والے کی ملکیت سے نقل جاتی ہے اور وقف لازم ہو جا تا ہے ۔اب یہ شخص اس وقف شدہ چیز کو واپس نہیں لے سکتا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اصل چیز کو وقف نہ کرے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو وقف کرے مثلاً کسی باغ کا پل، یا کسی دوکان کا کرایہ ،کسی کام کے لیے وقف کر دے اوراصل چیز اپنے قبضے ہی میں رکھے۔
اس صورت میں آدمی کو یہ وقف واپس کرنے کا اختیار ہے اور اگر وہ مرجاۓ تو اس کے ورثاءاس چیز کو واپس لے کر آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اس دوسری صورت میں وقف صرف اس شکل میں لازم ہوگا جب حکومت اسے لازم قرار دے یا وقف کرنے والا بطور وصیت یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ چیز وقف ہوگی یا وقف تو اپنی زندگی ہی میں کر دے لیکن اس وقف کو ہمیشہ کے لیے لازم قراردے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ وقف کی دوسری صورت میں جس میں اصل چیز کے بجاۓ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی وقف کی جاتی ہے اصل چیز واقف کی ملکیت میں رہتی ہے۔اس لیے اس کے انتظام و انصرام کا حق واقف کو ہوتا ہے اور اس کی آمدنی کو مختلف مدوں میں خرچ کرنے کی صوابدیداس کے پاس ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کسی چیز سے متعلق جتنے مالکانہ حقوق ہو سکتے ہیں وہ سب اس شخص کو حاصل رہتے ہیں۔ پس جب یہ چیز اس کی اپنی ملکیت میں ہے۔ اس کی آمدنی کو وہ بطور صدقہ خرچ کر رہا ہے تو بالکل بدیہی بات ہے کہ اس کے وقف کو واپس لینے اور انسے بیچنے یا دیگر تصرفات کرنے کا حق بھی اس کو حاصل ہوگا۔ اسی طرح اگر واقف ( وقف کرنے والا ) مر جاۓ اور اس نے وقف شدہ چیز کو دائمی طور پر موقوف قرار نہ دیا ہوتو ظاہر ہے، اس کی ملک میں ہونے کی وجہ سے یہ چیز اس کے ورثاء کاحق ہوگی اور انہیں اختیار ہوگا کہ وہ اسے وقف کی صورت سے نکال کر آپس میں تقسیم کر لیں ۔ امام صاحب کا یہ مسلک بالکل فقہی اور اصولی ہے اور احادیث میں اس کے خلاف کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی ۔ راشدی صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وقف کی جو روایت نقل کی ہے اس سے امام صاحب ان کے خلاف تو کیا استدلال ہوتا الٹا ان کے موقف کی تائید ہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ : یہ زمین اس طرح صدقہ کرو کہ اس کو نہ بچا جا سکے نہ ہبہ کی جا سکے اور نہ وراثت میں تقسیم کی جا سکے لیکن اس کا پھل خرچ کیا جاۓ ۔
(فتح الباری شرح بخاری ج ۵ ص ۳۹۲)
راشدی صاحب کی نقل کردہ روایت میں صاف موجود ہے کہ انہوں نے وقف کر تے ہوئے یہ قید لگائی تھی کہ اصل زمین نہ بیچی جا سکے گی نہ کسی کو ہبہ کی جا سکے گی اور نہ وراثت میں تقسیم ہوگی ۔
یہ صراحت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے بالکل مطابق ہے۔ کیونکہ اگر واقف وقف شدہ چیز کے بارے میں خود ایسی صراحت کر دے یا حاکم وقت اس کو ابدی قرار دے دے تو پھر امام صاحب کے نزدیک بھی اس کو بیچا یا وراثت میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اس لیے امام صاحب کا مسلک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وقف کے روایت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے ۔ ( بحوالہ امام ابوحنیفہ اورعمل بالحدیث ترمیم واضافے کے ساتھ ص ۷۵ تاص ۷۷ )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں