اعتراض نمبر٩٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله: صدقہ فطر کے لیے نصاب زکوۃ فرض نہیں
حدیث نبوی ﷺ
عن عبداللہ بن ابی صعير عن ابیہ قال قال رسول اللہ ﷺاما فقير كم فيردعليه اكثر مما اعطاه
( ترجمہ ) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے فقیروں کو فطرہ دینے سے بھی زیادہ عطافرماۓ گا۔ ( یعنی فقیر بھی صدقہ فطر ادا کرے ۔)
(ابوداؤدج١كتاب الذكوة باب من روي نصف صاء من قمح صفحه۲۲۵رقم الحدیث ۱۲۱۹)
فقه حنفی
صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم اذا كان مالكا النصاب
(هدایه اولین اکتاب الزكاة باب صدقة الفطر صفحه۲۸)
(ترجمہ) صدقہ فطر واجب ہے آزادمسلمان پر جب وہ زکوۃ کے نصاب کا مالک ہو۔
( فقہ وحدیث ۱۳۷)
جواب:
عید الفطر کے دن جو صدقہ دیا جا تا ہے اس کو صدقہ الفطر اور زکوۃ الفطر کہتے ہیں چونکہ پورے رمضان روزے رکھ کر وہ افطار کا دن ہوتا ہے اس لیے اس کو صدقہ الفطر کہتے ہیں نیز قرآن کریم میں صدقۃ الفطر پر زکوۃ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں آ تا ہے قد افلح من تز کی و ذکر اسم ربہ فصلی ( ترجمہ: بیشک اس نے فلاح پالی جو پاک ہو گیا اور جس نے اپنے رب کا نام یا درکھا اور نماز پڑھتا جا
( سورۃ الاعلی آیت نمبر ۱۴ - ۱۵)
ان دو آیتوں میں بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق صلوۃ سے مرادصلوۃ عید ہے اور تزکی سے مراد صدقہ الفطرکی ادئیگی ہے
(دیکھئے تفسیر روح المعانی ج ۱۵ص ۱۲۶ پاره ۳۰)
سورۃ الاعلی کی آیت نمبر ۱۴۔۱۵ کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے’’تزکی‘‘
ای تصدق صدقة وذكر اسم ربه كبر يوم العيد فصلى صلاة العيد و عن جماعة من السلف ما يقتضی ظاهرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کے علاوہ بھی اور بہت سے دلائل ہیں ۔ احادیث میں بھی جا بجا صدقۃ الفطرکوزکوۃ الفطر کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کی روایت ترمذی ابواب الزكوة باب ماجاء في صدقة الفطر میں موجود ہے اس میں آتا ہے عن ابي سعيد الخدري قال كنانخرج زكوة الفطر -
(۲) ترمذی کے اس باب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت بھی موجود ہے اس میں بھی فرض زکوۃ الفطر من رمضان کے الفاظ موجود ہیں ۔
(۳) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کی ایک روایت ترندی باب ماجاء في تقديمها قبل الصلوۃ میں آتی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں ۔یامر باخراج الزكوة قبل الغدو للصلوۃ۔
(۴) سنن الکبری بیہقی باب جماع ابواب زكاة الفطر ج ۴ ص ۲۶۸ میں ایک رایت جس کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
( عن کثیر بن عبداللہ المزنی عن ابی جدہ آن رسول اللہ سل عن قولہ، قد افلح من تز کی و ذکراسم ربہ فصلی آیت نمبر ۱۴۔ ۱۵ سورۃ الاعلی پارہ نمبر ۳۰)
قال هی زكوة الفطر -
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ صدقة الفطر کو زکوۃ الفطر کہنا اور سمجھنا قرآن وسنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے لہذا جب صدقة الفطر کو زکوۃ قرار دیا گیا تو اس کا نصاب بھی وہی ہوگا جوزکوۃ کا ہے ۔ فقہ حنفی میں صدقہ الفطر واجب ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں (۱) آدمی آزاد ہو (۲) مسلمان ہو(۳) مقدار نصاب کا مالک ہو۔ شرط نمبر ۳ پر مولانا راشدی صاحب کو اعتراض ہے ۔ کہ یہ جو ہدایہ میں لکھا ہے غلط ہے فطرانہ دینے کے لیے غنی کا ہونا ضروری نہیں مسکین فقیر بھی ادا کر یں گے ۔ حنفی مسلک کے دلائل
حدیث نمبر١ :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسواللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا تم عنقریب اہل کتاب کی قوم کی طرف جاؤ گے سو جب تم ان کے پاس جاؤ تو پہلے ان کو یہ دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں پس اگر وہ اس دعوت میں تمہاری اطاعت کر لیں تو پھر ان کو یہ خبر دینا کہ اللہ نے ان
پر ہر دن اور رات میں پانچ نماز میں فرض کی ہیں پس اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کر لیں تو پھر ان کو یہ خبر دینا کہ اللہ نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے۔ تؤخذ من اغنیا ئهم فترد على فقر ائهم ) جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء کی طرف لوٹا دی جائے گی ۔ پس اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کر لیں تو تم ان کے اموال میں سے عمدہ چیزوں سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی دعا سے ڈرنا کیونکہ مظلوم کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا ۔
( بخاری کتاب الزکوۃ باب اخذ الصدقة من الاغنياء وتر دفى الفقراء حیث ما کانواص ۲۰۳ ج اول ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوۃ صدقہ مالداروں سے لیا جاۓ گا ۔ اور مالدار اس کو کہتےہیں کہ حاجت اصلیہ سے مقدار نصاب مال زیادہ ہو۔
حدیث نمبر ۲:
وقال النبي لا صدقة الا عن ظهر غنى (ترجمہ) آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ عمدہ صدقہ وہی ہے جس کے بعد آدمی مالدار ہی رہے ۔ ( یعنی فقیر نہ ہو جاۓ )
( بخاری کتاب الوصایا باب تاویل قول اللہ تعالی من بعد وصیت توقون بھا اودین ) تعلیقاً امام بخاری نے کتاب الزکوۃ میں ایک مستقل باب بھی اس نام سے بندھا ہے : باب لا صدقة الا عن ظهر غنى ( ترجمہ ) باب صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد آدمی کے مالدار رہنے میں بظاہر کوئی فرق نہ آئے۔
اس باب میں آ گے امام بخاری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
اور جو خیرات کر کے خود محتاج وفقیر ہو جائے یا اس کے گھر والے یا خودمقروض ہے تو قرض اتارنا خیرات دینے سے بہتر ہے۔
حدیث نمبر ۳:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہترین خیرات وہی ہے جس کے دینے کے بعد بھی آدمی مالدار رہے اور پہلے انہیں خیرات دے جوتری نگہبانی میں ہے۔
( بخاری کتاب الزکو و باب لا صدقۃ الاعن ظهرغنی )
حدیث نمبر ۴:
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اوپر والا ( دینے والا )ہاتھ نیچے والے ( لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور پہلے اپنے اہل وعیال ، اعزہ واقرباء کو خیرات دے۔ اور بہترین خیرات وہی ہے ، جسے دے کہ بھی آدمی مالدار رہے۔ اور جو کوئی سوال کرنے سے بچنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے بچائے گا۔ جوغناء کی دعا کرے گا اللہ تعالی اسے غنی رکھے گا۔ ( بخاری کتاب الزکوۃ باب لا صدقۃ الاعمن ظهر غنی )
حدیث نمبر ۵:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اصل صدقہ تو دل کے غناء کے ساتھ ہوتا ہے۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ اور تم صدقات و خیرات میں ان لوگوں ے ابتداء کرو جو تمہاری ذمہ داری میں آتے ہیں ۔ (مسند احمد حدیث نمبر ۷۱۵۵)
ہم نے حنفی مسلک کے دلائل نقل کر دیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غنی پر یعنی صاحب نصاب پر صدقۃ الفطر واجب ہے مسکین وفقیر پر نہیں رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں ۔ جواب نمبر ١ :
یہ حدیث قابل حجت نہیں کیونکہ اس کی سند میں نعمان ابن راشد موجود ہے جو سخت قسم کا ضعیف ہے۔ اس کے متعلق امام بخاری نے فرمایا کہ یہ وہمی ہے۔ امام احمد نے فرمایا کہ یہ مضطرب الحدیث ہے۔امام نسائی اس کوضعیف اور کثیر الغلط کہتے ہیں ۔ ( تہذیب )
جواب نمبر ۲:
راشدی صاحب نے حدیث کے الفاظ صرف مما اعطاہ تک نقل کیے ہیں ۔ جبکہ ابوداؤد میں اس کے آگے یہ الفاظ بھی موجود تھے زاد سليمان في حديثه غنی او فقیر ۔سلیمان نے اپنی روایت میں غنی اور فقیرزائد کیا۔
جواب نمبر ۳:
قرآن حکیم سے پتہ چلتا ہے کہ زکوۃ صدقات جن لوگوں کو دینی چاہیے ان میں فقیر اورمسکین شامل ہیں جیسا کہ اس آیت میں ہے:
انما الصدقة للفقراء والمساكين صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے ۔
( پارہ نمبر ۱۰ سورۃ توبہ آیت نمبر ۶۰ ) اس آیت سے ایک اصول سمجھ آتا ہے کہ زکوۃ لینے والوں میں فقیر اورمسکین شامل ہیں دینے والوں میں نہیں ۔۔
جواب نمبر ۴:
عقلی طور پر بھی یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ فقیر فطرہ دے بھی اور دوسروں کا فطرہ لے بھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں