نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 1 : ابو حنیفہ ظاہرا متقی لیکن جھگڑالو تھے


 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد متعصب محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 1 :


النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي : صاحب الرأي ۔۔۔ وكان رجلا جدلا ظاهر الورع

 ترجمہ : ابو حنیفہ ظاہرا متقی لیکن جھگڑالو تھے۔

( كتاب المجروحين لابن حبان ت زاید 3/61 )

شق 1 : ابو حنیفہ جھگڑالو تھے

شق 2 : ابو حنیفہ ظاہر میں متقی تھے

جواب : 

1) محدث ابن حبان متوفی 354ھ نے یہاں کوئی سند ذکر نہیں کی کہ ان کو کیسے معلوم ہوا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ متوفی 150ھ جھگڑالو تھے اور صرف ظاہر میں متقی تھے ؟ ، بلکہ اس کے الٹ الإمام القدوة شيخ الإسلام یزید بن ہاروں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ عقل مند ، افضل اور پرہیزگار میں نے نہیں دیکھا ۔ (تاریخ بغداد ت بشار 15/498 ، محقق لکھتے اس کی سند بالکل صحیح ہے)۔ امام صاحب تو پرہیزگاری کے اعلی درجہ پر فائز تھے البتہ محدث ابن حبان کی اصلیت کیا ہے ملاحظہ فرمائیں

محدث ابنِ حبانؒ:  ناقدین کی نظر میں

1. امام ذہبیؒ کا تبصرہ  :  محدث ابن حبان نہایت متشدد متعصب بلکہ جھگڑالو تھے ، امام ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

ابن حبان صاحب تشنيع وشغب 
ابنِ حبان طعن و تشنیع کرنے والے اور شور و ہنگامہ کرنے والے تھے  (ميزان الاعتدال، ج1، ص460)

امام ذہبیؒ جیسا محتاط ناقد بھی جب کسی پر ایسا تبصرہ کرے تو یہ معمولی بات نہیں۔ اس جملے سے مراد یہ ہے کہ ابنِ حبان علمی اختلاف کے مواقع پر بجائے متوازن دلائل کے، بعض اوقات سخت جملے اور غیر ضروری اعتراضات کا سہارا لیتے، جو کہ علمی مزاج کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

2. امام ذہبیؒ کا مزید قول

وأما ابن حبان فإنه تقعقع كعادته
رہا ابنِ حبان، تو وہ ہمیشہ کی طرح بے معنی اور کھوکھلی باتیں کرتے ہیں  (ميزان الاعتدال، ج3، ص45)

یہ تبصرہ  ابنِ حبان   کے اندازِ کلام اور اسلوبِ جرح پر ہے۔ تقعقع کا مطلب ہوتا ہے کھوکھلا شور یا بے اثر گفتگو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ان کی تنقید دلیل سے خالی اور محض الفاظ کا گول مول شور ہوتی تھی، جو سننے میں سخت تو ہوتی مگر تحقیقی وزن نہیں رکھتی تھی۔

3. امام ذہبیؒ کا ایک اور تنقیدی بیان

وأما ابن حبان فأسرف واجترأ
اور ابنِ حبان حد سے تجاوز کرنے والے اور بے جا جرأت کے مرتکب تھے (ميزان الاعتدال، ج2، ص253)

یہاں امام ذہبیؒ نے اسراف (حد سے بڑھنا) اور جرأت (غیر ضروری دلیری) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابنِ حبان بعض اوقات ایسے راویوں پر بھی جرح کر جاتے جن پر جرح کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی تھی، اور یہ چیز علمِ رجال میں عدمِ توازن کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

4. امام ابن الصلاحؒ کی تنقید

غلط الغلط الفاحش في تصرفه
ابنِ حبان نے اپنے علمی طرزِ عمل میں فحش اور بڑی بڑی غلطیاں کیں (ميزان الاعتدال،  ج3، ص508) امام ابن الصلاحؒ، جو اصولِ حدیث کے امام ہیں، ان کا یہ کہنا کہ ابنِ حبان فحش غلطیوں کے مرتکب ہوئے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ راویوں کی درجہ بندی اور حدیث کے فیصلوں میں بعض اوقات  غیر محتاط مؤقف اختیار کر لیتے تھے۔

5. حافظ ضیاء الدین المقدسیؒ کا جائزہ (ابن الصلاح کے حوالے سے)

وله أوهام كثيرة تتبع بعضها الحافظ ضياء الدين
ابنِ حبان سے بہت سے وہم اور غلطیاں سرزد ہوئیں، جن کا پیچھا کر کے حافظ ضیاء الدین نے انہیں جمع کیا (ميزان الاعتدال، ج3، ص508) یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ابنِ حبان سے علمی سطح پر بار بار ایسے واضح علمی مغالطے (وہم) ہوئے جنہیں بعد کے محققین نے خاص طور پر نشان زد کیا اور جمع کیا، جو علمی تحقیق میں غیر معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔

6. امام ابن عبدالہادی حنبلیؒ کی گرفت

وقد وقع له مثل هذا التناقض والوهم في مواضع كثيرة. وقد ذكر أبو عمرو بن الصلاح أنه غلط الغلط الفاحش في تصرفه. ولو أخذنا في ذكر ما أخطأ فيه وتناقض، من ذكره الرجل الواحد في طبقتين متوهماً كونه رجلين، وجمعه بين ذكر الرجل في الكتابين كتاب الثقات وكتاب المجروحين، ونحو ذلك من الوهم والإيهام، لطال الخِطاب
ابنِ حبان سے اسی طرح کا تضاد اور وہم کئی مواقع پر ہوا ہے۔ اگر ہم ان کی تمام غلطیوں اور تضادات کو شمار کرنے بیٹھیں، جیسے کہ ایک ہی شخص کو دو مختلف طبقات میں ذکر کرنا، یا اسے دو مختلف افراد سمجھنا، تو یہ بات طویل ہو جائے گی۔ (الصارم المنكي، ص103–105)

7. امام ابن حجر العسقلانیؒ کی  جرح

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن حبان بعض اوقات کسی ثقہ راوی پر ایسے جرح کرتے ہیں کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آ رہا ہوتا ان کے منہ سے کیا نکل رہا ہے 

( القول المسدد ص 33) 




خلاصہ :

ابنِ حبان جیسے غیر معتدل اور نہایت متشدد متعصب  کی امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح علمی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب امام ذہبی، حافظ ابن حجر، ابن عبدالہادی اور امام ابن الصلاح جیسے جلیل القدر محدثین خود ابنِ حبان کی افراط، بے اعتدالی اور رواۃ کی پہچان میں اُن کی  فحش غلطیوں پر تنقید کریں، تو ایسے ناقد کی امام اعظم ابو حنیفہؒ جیسے متفق علیہ امام پر زبان درازی نہایت افسوسناک اور مردود ہے۔امام ابو حنیفہؒ کا علم، تقویٰ، دیانت اور امت کے لیے ان کی فقہی خدمات مسلم الثبوت ہیں، جن کا اعتراف اہلحدیث علما نے بھی کیا ہے (مراجع: تاریخ اہل حدیث ص 77، مقالات علی زئی 6/512، سبیل الرسول ص 88، اہل حدیث اور اہل تقلید ص 82، داؤد غزنوی ص 191، تاریخ المشاہیر ص 21)۔ 

ابنِ حبان کا یہ کہنا کہ "امام ابو حنیفہؒ ظاہراً متقی لیکن جھگڑالو تھے" نہ صرف ناعاقبت اندیشی ہے بلکہ علمی دیانت کے سراسر خلاف ہے۔ایسے بے وزن اعتراضات کو امت کے اجماعی اعتماد کے مقابلے میں کوئی حیثیت حاصل نہیں، اور نہ ہی علمی دنیا میں ان کی کوئی وقعت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی ذات پر طعن دراصل امت کی عظیم فقہی روایت پر حملہ ہے، جو کسی طور قابلِ قبول نہیں۔امام ابو حنیفہؒ علم و حکمت کے اُس بے پایاں سمندر کی مانند ہیں جو کوفہ کی زمین سے رواں دواں ہو کر ہر زمانے اور ہر مقام کو علم، حلم، حکمت، فراست اور فقہِ اسلامی سے سیراب کرتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے انہیں کروڑوں دلوں کا امام بنا کر ان کی عظمت کو آسمانوں کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچایا ہے، جہاں ان کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوتی۔ آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اللہ رب العزت محدث ابنِ حبانؒ کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، اور ان کے ذریعے جو خیر اور علم امت تک پہنچا، اس پر ان کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

 

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...