نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل (قسط نمبر01)


 متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل

(غیرمقلدین کی بے بسیاں اور ان کے اپنے ہی حوالے)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ  
  

یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت شمارہ 15 سے لیا گیا ہے ۔ مجلہ  حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں 

 Whatsapp.  +92 342 8970409

قسط نمبر (1)

رکوع کے رفع یدین کے حوالہ سے غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت تک یہ رفع یدین کرتے رہے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ ایسی حدیث پیش کریں جس میں صحابی نے یوں بیان کیا ہو کہ رکوع والا رفع یدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت تک کرتے رہے ۔ مگرہماری معلومات کے مطابق ذخیرہ احادیث میں صحیح یا حسن درجہ کی کوئی ایسی حدیث موجود نہیں۔ ہم نے رفع یدین کے عنوان پر غیرمقلدین کی قدیم و جدیدبیسیوں تحریریں پڑھی ہیں، ہمیں اُن کی تحریروں میں ایک’’ من گھڑت ‘‘ روایت کے علاوہ ایسی کوئی حدیث نہیں ملی جس میں صحابی کا بیان ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع والا رفع یدین موت تک کرتے رہے۔ غیرمقلدین نے رفع یدین کو موت تک ثابت کرنے کے لیے جن مزعومہ دلیلوں کا سہارا لیااور جن شبہات کو پیش کیا اُن کا جواب ہم عرض کر دیتے ہیں۔ قارئین انہیں پڑھ کر یقیناً جان لیں گے کہ غیرمقلدین کے پاس ایسی کوئی بھی حدیث نہیں جس کا یہ متن ہو کہ رکوع والا رفع یدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت تک کیا ہے۔ 

فما زالتْ تِلک صلوتہ حتی لقِی اللّٰہ سے استدلال 

حکیم محمد صادق سیالکوٹی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’ ’رسول اللہ ؐ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع اور جب اُٹھاتے سر اپنا رکوع سے اور سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے ملتے دم تک آپ ؐ کی نماز اسی طرح رہی یعنی وفات تک حضورؐ رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے رہے۔‘‘

 ( صلوٰۃ الرسول صفحہ ۲۳۳)

الجواب: 

یہ روایت من گھڑت ہے اس کے من گھڑت ہونے کا خود کئی غیرمقلدین نے بھی اعتراف کیا  حوالہ 

جات آگے آ رہے ہیں ان شاء اللہ ۔

اس روایت کے پہلے راوی امام بیہقی رحمہ اللہ شافعی المسلک ہیں۔ چنانچہ علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ فقہی مذہب: امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی کا شمار شافعی مذہب کے اکابر ائمہ میں ہوتا ہے ان کو اس مذہب سے غیرمعمولی شغف تھا اور اس مذہب کی نشرو اشاعت اور اس کی تہذیب و تنقیح میں انہوں نے اہم اور نمایاں کارنامے انجام دئیے، شافعی مذہب کو اامام بیہقی کی ذات سے بڑا فائدہ پہنچا ۔ ‘‘ 

(کاروان ِ حدیث صفحہ ۱۸۹) 

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ امام بیہقی م ۴۵۸ھ جنہیں حامل لواء الشافعی کہتے ہیں۔ ‘‘ 

( توضیح الکلام صفحہ ۹۱ ، طبع جدید)

مولانا عبید اللہ خان عفیف غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ امام بیہقی جو مسلک شافعی کے غواص اور ترجمان ہیں۔ ‘‘ 

( الاعتصام ،۱۰؍ شوال ۱۴۴۰ھ صفحہ ۲۶) 

جناب خلیل الرحمن چشتی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ امام بیہقی ؒ امام حاکم ؒ کے شاگرد ہیں۔ شافعی تھے۔ نیشاپور میں انتقال کیا۔ ‘‘ 

( حدیث کی ضرورت و اہمیت صفحہ ۲۴۹) 

غیرمقلدین کی عورت میمونہ اسلام  ( لیکچرز ڈگری کامرس کالج فاروومن سرگودھا )نےامام بیہقی رحمہ اللہ کا عقیدہ و فقہی مسلک ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا: 

’’امام بیہقی رحمہ اللہ اشعری عقیدہ رکھتے تھے۔ان کا مسلک شاید اپنے شیخ حاکم رحمہ اللہ کے زیر اثر تھا۔ کیوں کہ وہ اپنے زمانہ کے بلند پایہ شافعی امام تھے۔ انہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک طویل عرصہ غور و خوض کے بعدا ختیارکیا ۔ ‘‘ 

( السنن الکبری کی تدوین میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا منہج صفحہ ۶ ، مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ ) 

میمونہ اسلام نے امام ابو المعالی الجوینی رحمہ اللہ سے نقل کیا: 

’’ کوئی بھی شافعی فقیہ نہیں ہے جس پر امام شافعی رحمہ اللہ کے احسانات ہیں سوائے ابوبکر بیہقی کے ان کے امام شافعی رحمہ اللہ پر احسانات ہیں کہ انہوں نے اپنی تصانیف کے ذریعے ان کے مذہب کی مدد کی۔ ‘‘ 

( السنن الکبری کی تدوین میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا منہج صفحہ ۲۰، مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ)

اس مقالہ کی نظر ثانی ملک کامران طاہر نے کی جیسا کہ میمونہ اسلام نے ’’ اظہار تشکر ‘‘ میں لکھا: 

’’ جناب محترم ملک کامران طاہر مدیر معاون ماہ نامہ ’’محدث ‘‘ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف مقالہ سے متعلقہ بنیادی کتب و مصادر کی نشاندہی و فراہمی کا بندوست کیا بلکہ اپنا قیمتی وقت نکال کر مقالہ کی نظرثانی کی۔ ‘‘ 

( السنن الکبری کی تدوین میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا منہج صفحہ ۸ ، مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ )

بندہ نے اپنے مضمون ’’ علامہ ڈاکٹر خالد محمود پر اثری اعتراضات کا جائزہ ‘‘ میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے مقلد ہونے پر غیرمقلدین کی کتابوں سے بہت سے حوالے نقل کر دئیے ہیں۔ یہ مضمون شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلد کے جواب میں ہے ۔ 

امام بیہقی رحمہ اللہ شافعی المسلک ہیں جب کہ غیرمقلدین کے ہاں تقلید شرک ہے۔

( تحفہ حنفیہ صفحہ ۱۶۷، رسائل بہاول پوری صفحہ ۸۲) 

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اہلِ حدیث کی کتابیں ، رسالے اور فتوے دیکھیں جن میں تقلید کو نہ صرف بدعت بلکہ کفر قرار دیا ہے ۔

 ( اہلِ حدیث امرتسر ، ۲۲؍محرم ۱۳۳۳ھ ) 

اس کا عکس مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب ’’ تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۶۰ ‘‘ پہ دیکھ سکتے ہیں۔ 

اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن قریش ہے یہ جھوٹا راوی ہے۔

 ( میزان الاعتدال : :۲؍۱۱۴، لسان المیزان :۳؍۴۲۵)

شیخ عبد الروف سندھو غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس حدیث میں فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہٗ ... کا اضافہ سخت ضعیف ہے بلکہ باطل ہے کیوں کہ اس کی سند میں دو راوی متہم ہیں۔ ‘‘ 

( القول المقبول صفحہ ۴۱۴طبع چہارم )

شیخ عقیل احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حدیث کا یہ آخری حصہ ’’ فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ ‘‘ بیہقی کی کتابوں میں مجھے نہیں ملا۔ یہ اضافہ سخت ضعیف ہے،بلکہ باطل ہے کیو ں کہ اس کی سند میں دو راوی متہم ہیں۔ ‘‘ 

(تخریج حدیث ِ نمازمؤلفہ مولانا عبدالمتین میمن صفحہ۲۲۶) 

مولانا غلام محمد گھوٹوی کا مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد سے رفع یدین کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ اس مناظرہ کی روئیداد غیرمقلدین نے شائع کی اس میں منصف کا فیصلہ اس روایت کے متعلق یوں درج ہے: 

’’ جب مولوی ثناء اللہ صاحب نے بیہقی کی حدیث پیش کی جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم آخر دم تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں مولوی غلام محمد صاحب اس حدیث کے راویان عصمہ بن محمد انصاری کو رجال کے حوالہ سے متروک اور عبد الرحمن (بن قریش ) بن خزیمہ کو ذہبی کے حوالہ سے وضع الحدیث کے ساتھ متہم بتاتے ہیں میں اس کو تسلیم کرتا ہوں۔ ‘‘

 (مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری صفحہ ۹۲)

اس عبارت میں اعتراف ہے کہ منصف ( فیصلہ کرنے والنے )نے اس روایت کے من گھڑت ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔

حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد اِس روایت پر حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’ اس روایت میں دو راوی : عصمہ بن محمد اور عبد الرحمن بن قریش سخت مجروح ہیں۔ ‘‘

 ( تسہیل الوصول الی تخریج و تعلیق صلوٰۃ الرسول صفحہ ۱۹۵)

علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں: 

’’ انوار خورشید صاحب نے فَمَا زَالَتْ الخ والی موضوع روایت پیش کرکے اہلِ حدیث کا مذاق اُڑایا ہے کہ ان کے دعویٰ رفع الیدین کی بنیاد غالباً یہی روایت ہے جس میں عصمہ بن محمد الانصاری اور عبد الرحمن بن قریشی دونوں وضاع و کذاب راوی ہیں۔ ‘‘( نور العینین صفحہ ۳۲۷) 

  مولانا انوار خورشید صاحب نے اس روایت کی حقیقت بتائی ہے، مذاق نہیں اُڑایا۔ علی زئی صاحب کو یہ حقیقت بتانا مذاق محسوس ہوا مگر جن غیرمقلدین نے اس من گھڑت روایت سے استدلال کرتے ہوئے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا، انہیں مذاق اڑانے کا طعن نہیں دیا۔اس روایت کو بہت سے غیرمقلدین نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے ۔مثلا

مولانا محمد اسماعیل سلفی۔ ( رسول اکرم کا طریقہ نماز صفحہ ۵۱) 

علی زئی صاحب کے استاد شیخ بدیع الدین راشدی ۔ ( مقالاتِ راشدیہ :۵؍۲۷۱)

علی زئی صاحب کے استاد مولانا محمد گوندلوی۔ ( التحقیق الراسخ صفحہ ۵۵)

غیرمقلدین کے فتاوی میں لکھا ہے:

’’ امام بیہقی نے سنن کبری میں حضرت ابن عمرؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے وقت تک آپ کی نماز رفع یدین سے ہوتی رہی۔ ‘‘ 

( فتاویٰ علمائے حدیث:۳؍۱۶۴)

اس عبارت میں ’’ سنن کبریٰ ‘‘کا حوالہ غلط ہے جیسا کہ آپ آئندہ یہ بات خود غیر مقلدین کی زبانی جان لیں گے ان شاء اللہ ۔

مولانا خالد گرجاکھی غیرمقلد نے اسی موضوع روایت کومستقل حدیث نمبرکے تحت اپنی کتاب کی زینت بنایا۔دیکھئے حدیث: ۱۳۴، ۱۳۵،۱۳۶،۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۰۔ ( اثبات رفع الیدین مترجم صفحہ ۸۳) 

مولانا محمود احمدمیرپوری غیرمقلدلکھتے ہیں:

’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ملاقات

تک رفع الیدین کرتے رہے۔‘‘

 ( فتاویٰ صراط مستقیم صفحہ۲۰۷ ، مکتبہ قدوسیہ لاہور ، اشاعت ۲۰۱۰ء)

میرپوری صاحب نے مذکورہ بات کا حوالہ نہیں دیا۔ اندازہ یہی ہے کہ اُس من گھڑت روایت کی بنیاد پر یہ لکھ دیا، جس کے من گھڑت ہونے پر اوپر خود غیرمقلدین کی گواہیاں درج ہو چکی ہیں ۔ 

جو من گھڑت روایت سے استدلال کرے اس کی کیا حیثیت ہے؟یہ آپ مولانا داود ارشد غیرمقلد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں:

’’ علم حدیث کا دھواں تک لگا ہوتا تومن گھڑت اور موضوع سے استدلال نہ کرتے اگر ضرور ہی کرنا تھا تو اس پر حکم لگادیتے کہ موضوع ہے ۔ علم کو چھپانا اہلِ علم اور اہلِ سنت کا شعار نہیں بلکہ مبتدعین کا ہے ۔ ‘‘

(تحفہ حنفیہ صفحہ ۵۱ ۳)

داود صاحب کے نزدیک موضوع روایت پر من گھڑت ہونے کا حکم لگائے بغیر پیش کرنے والے کو علم حدیث کا دھواں تک نہیں لگا۔مزید یہ کہ من گھڑت روایت سے استدلال کرنا اہلِ بدعت کا کام ہے ۔ 

داود صاحب کی اس عبارت کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ غیرمقلدین نے نہ صرف یہ کہ اس من گھڑت روایت فمازالت الخ کو کتابوں کی زینت بنایا، بلکہ اسے مدار بنا کر دعوی کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت تک رفع یدین کرتے رہے جیسا کہ حکیم محمد صادق سیالکوٹی نے صلوۃ الرسول میں ’’رسول اللہ وفات تک رفع الیدین کرتے رہے ‘‘ عنوان قائم کرکے یہی من گھڑت روایت درج کی۔(صلوٰۃ الرسول صفحہ ۲۰۱)

مولانا عنایت اللہ اثری غیرمقلد نے تو اس کی صحت کا دعویٰ کر دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ ۷؍ مارچ ۵۶ء کو رسالہ اکمال الزینۃ لناظر الزینۃ شائع کیا جس میں عبد اللہ بن عمر ؓکی اس مرفوع روایت پر بحث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر دم تک رفع الیدین سے نماز پڑھی ہے ۔فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ اس روایت کا اتا پتا بتایا ہے اور اس کی سند اور اس کی تصحیح بیان کی ہے۔ اور دیگر روایات بھی اس کی تائید میں بیان کی ہیں۔ یہ رسالہ انجمن اہلِ حدیث روالپنڈی شہر کی تحریک پر شائع ہوا اور انجمن اہلِ حدیث گجرات نے بھی اس کی اشاعت میں حصہ لیا ہے ۔ یعنی کہ دونوں کے خرچ سے شائع ہواہے ۔ ‘‘ 

(الجسر البلیغ صفحہ ۵۱ ،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم ) 

حالاں کہ یہ محض دعویٰ ہے وہ اسے صحیح ثابت نہیں کر سکے۔ 

پھر اسی پر بس نہیں غیرمقلدین نے علمائے دیوبند پر الزام بھی جڑ دیا کہ انہوں نے بیہقی سے یہ روایت نکال دی ہے۔ 

چنانچہ غیرمقلد لکھاری محمد صدیق نے ’’ مقلدین کی افسوس ناک بددیانتی ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا جس کا حاصل یہ ہے کہ احناف نے سنن کبری بیہقی کو دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن سے شائع کیا تو اس میں سے فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ والی حدیث نکال لی ۔ ( پیش لفظ اسوۃ الکونین صفحہ ۶)

یہی الزام حکیم محمود سلفی غیرمقلد نے لگایا:

’’ یہ حدیث بیہقی میں موجود نہیں۔ آخر یہ نیک کام کس نے کیا ہے۔ اور یہی وہ گناہ ہے جو یہود کیا کرتے تھے ۔‘‘ 

( شمس الضحیٰ صفحہ ۱۱۶) 

 حالاں کہ یہ من گھڑت روایت سنن کبری میں تھی ہی نہیں،تو نکالا کیسے گیا ؟

مولانا عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس روایت میں فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ کے الفاظ خاص طور پر قابلِ غور ہیں جن کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ اصل محولہ کتاب میں دستیاب نہیں ایک طرف تو ان الفاظ کا اصل محولہ کتاب سے مطالبہ کیا جار ہا ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف یوں جواب دیا جاتا ہے کہ طباعت کے وقت انہیں اپنے خلاف پا کر احناف نے خارج کر دیا ہے اس لیے معروض [ یا عارض ؟( ناقل )]ہوں کہ تمام ذی علموں کے حوالے کا مدار حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ پر اور حافظ صاحب کے حوالے کا مدار بظاہر امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ پر ہے اور امام زیلعی رحمۃ اللہ کے حوالہ کا مدار شیخ تقی الدین ابن دقیق العید پر ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے سنن بیہقی کا حوالہ دیا ہے اور پچھلوں نے سنن چھوڑ کر صرف بیہقی کہا ہے جو بہت بڑی احتیاط ہے کیوں کہ شائع شدہ سنن کبری بیہقی میں سچ مچ یہ الفاظ موجود نہیں اور جہاں تک میرا علم ہے اصل میں بھی موجود نہیں کیوں کہ وہ دیگر کئی نسخوں سے مقابلہ ہو کر شائع ہوئی ہے جیسے کہ دائرۃ المعارف نے بیان کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ وہ روایت بھی شائع شدہ سنن کبری بیہقی میں نہیں جس کے جواب سے امام بیہقی نے اسے بیان فرمایا ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ امام بیہقی کا یہ مقولہ ھذا یدل علی خطاء الروایۃ التی جاء ت عن مجاھد جسے حافظ ابن حجر نے درایہ میں بحوالہ بیہقی نقل فرمایا ۔ سنن کبری بیہقی میں نہیں بلکہ مجاہد کی روایت بھی سنن کبریٰ بیہقی میں نہیں جس کی امام بیہقی تردید فرما رہے ہیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے مجاہد کی مذکورہ بے اصل روایت کو کتاب المعرفۃ میں بیان فرمایا ہے اور جواب بھی دیا ہے جیسے کہ نصب الرایہ ص: ۴۰۸ جلد ۱ میں ہے : واجاب البیہقی فی کتاب المعرفۃ فقال و حدیث ابی بکر بن عیاش اخبرناہ ابو عبد اللہ الحافظ فذکرہ بسندہ امام بیہقی نے مجاہد کی روایت کا معرفۃ السنن میں یوں جواب دیا ہے اور یہ حدیث ’’ فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ ‘‘ بھی مجاہدکی روایت کے جواب میں بیان ہوئی ہے اس لیے معرفۃ السنن میں دستیاب ہوگی۔ سنن کبری میں اس کی تلاش بے سود ہے کہ مجاہد کی روایت اس میں نہیں ۔‘‘

( اکمال الزینۃ لناظر الزینۃ مشمولہ مجموعہ رسائل اثریہ :۱؍۸۹، مکتبۃ الاثریۃ گجرات)

اثری صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ منیۃ الالمعی جو نصب الرایہ ( ص:۴۰۹ جلد ۱) کے ساتھ احناف کرام کے اہتمام سے ڈابھیل سورت میں طبع ہوئی ہے اس میں مرقوم ہے ھذہ الروایۃ لا توجد فی النسخۃ المطبوعۃ من السنن الکبری لعلھا فی المعرفۃ او غیرھا یہ حدیث فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ سنن کبری بیہقی مطبوعہ نسخہ میں نہیں شاید وہ معرفۃ السنن یا کسی دیگر کتاب ( خلافیات ) میں ہوگی ۔ منیۃ الالمعیص :۴۰۹ جلد ۱ میں یوں بھی مرقوم ہے کہ شیخ صاحب نے کتاب الامام میں جواس پر سنن بیہقی کا حوالہ دیا ہے ذہول ہے اور اس طرح کا ذہول موصوف کو کئی جگہ پر ہوا ہے جس کی ابن السبکی نے اپنی کتاب طبقات ص: ۲۰ جلد ۲ میں ایک خاص باب باندھ کر اصلاح کر دی ہے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ احناف کرام نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا اور نہ انہوں نے اسے خارج کیا ...ہاں یہ ضرور ہے کہ احناف نے اس کی سند پر جرح کی ہے چنانچہ نیموی نے اپنی کتاب کتاب آثار السنن پر جو بنام تعلیق حسن ص: ۱۰۱ خو حاشیہ چڑھایا ہے اس میں علامہ ہاشم سندھی حنفی کے رسالہ ’’کشف الرین ‘‘ سے یوں نقل کیا ہے کہ ....‘‘

 ( مجموعہ رسائل اثریہ :۱؍۹۲م۹۳)، مکتبۃ الاثریۃ گجرات)( مشمولہ مجموعہ رسائل صفحہ ۹۲، ۹۳) 

مولانا بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ لم نجد ھذہ الروایۃ فی نسختی السنن الخطیۃ والمطبوعۃ ولا فی المعرفۃ بل رواہ فی الخلافیات فقد رأیتہ فی مختصر الخلافیات ج ۱ ص۷۶‘‘ 

 ( جلاء العینین صفحہ ۱۳۷،بحوالہ نور الصباح:۲؍۷۳) 

ترجمہ : ہم نے یہ روایت سنن بیہقی قلمی و مطبوعہ دونوں نسخوں میں نہیں پائی اور نہ بیہقی کی کتاب المعرفۃ میں بلکہ بیہقی نے اس روایت کو خلافیات میں روایت کیا ہے پس بے شک اس روایت کو میں نے مختصر خلافیات ج ۱ ص ۷۶ میں دیکھا ہے ۔ 

  مولانا نور حسین گرجاکھی غیرمقلد نے تو اس روایت سے من گھڑت سند اتار کر بخاری و مسلم کی سند لگا دی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’سبحان اللہ یہ کیسی پیاری اور عمدہ حدیث (جس کوچھیالیس ۴۶)ائمہ نے نقل کیا ہے اوراس کا اسناد کتنا عمدہ ہے۔(۱) امام مالکؒ تو وہ تمام عالموں اور محدثوں کے پیشوا ہیں اور وہ اس کو (۲) ابن شہاب زہریؒ سے روایت کرتے ہیں جو اہلِ مدینہ کے بڑے مشہور عالم اور امام تھے اور امام زہری ؒ (۳) سالم بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں جو بڑے تابعی اور فقیہ ہیں اور سالم (۴) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں جو مشہور صحابی، قدم الاسلام ، متبع سنت اور عالم اور بڑے درجے والے تھے جو (کان یرفع یدیہ) سے حدیث نقل کر رہے ہیں اور آخر میں (فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ تعالیٰ) لا کر ثابت کرتے ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی آخری نمازتک رکوع جانے اور اور رکوع سے سر اُٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے رہے۔ 

قرہ العینین ص 10،11

قسط 2۔   ⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️ 

 متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل ، قسط (2))

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...