متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل
(غیرمقلدین کی بے بسیاں اور ان کے اپنے ہی حوالے)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ
یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت شمارہ 15 سے لیا گیا ہے ۔ مجلہ حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں
Whatsapp. +92 342 8970409
قسط نمبر (2)
قسط نمبر 1 کیلئے دیکھیں ⬇️⬇️⬇️⬇️
متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل ، قسط 1
مولانا ارشاد الحق اثری کی اک نئی کاوش کا جائزہ
مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’ متواتر حدیث کے ہر راوی کی صحتِ اسناد کا تقاضا نہایت درجہ یتیمی علم کا ثبوت ہے۔ رفع الیدین کی احادیث کو ابن الجوزی... وغیرہ نے متواتر قرار دیا ہے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں، لہذا اَب اس کی ایک ایک سند کے تتبع اور تحقیق کا مطالبہ اصول سے بے خبری ہے... اس لئے عشرہ مبشرہ میں سے ایک ایک صحابی کی روایت کے بارے میں ’’سند صحیحہ‘‘ کا مطالبہ ہی بے اصولی پر مبنی ہے۔ ‘‘
( مقالاتِ اثری :۲؍۴۷)
الجواب:
عرض ہے کہ پہلے تو یہ ثابت کرتے کہ فلاں فلاں محدثین نے عشرہ مبشرہ سے رفع یدین کی روایات کو متواتر کہا ہے، اگلی بات ’’ متواتر حدیث کے ہر راوی کی صحتِ اسناد کا تقاضا نہایت درجہ یتیمی علم کا ثبوت ہے۔‘‘ بعد میں کرتے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص فما زالت الخ کو بھی اسی اصول سے قابل قبول باور کرانے لگے تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ رفع یدین کے ثبوت کو متواتر کہا گیا ہوگا مگر اس کے موت تک باقی رہنے کی روایت کو کسی نے بھی متواتر نہیں کہا۔ مزید یہ کہفمازالت الخ روایت من گھڑت ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں خود غیرمقلدین کی گواہیاں اس کے من گھڑت ہونے پرمنقول ہو چکی ہیں۔
کان سے استدلال اور اس کا جواب
غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہے:
’’عربی کا قاعدہ ہے کہ کان کی خبر فعل مضارع ہو تو اس سے استمرار ثابت ہوتا ہے
مذکورہ بالا روایت اور دیگر روایات میں ہے کان یکبر و یرفع یدیہ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مذکورہ بالا مقامات پر نماز میں رفع یدین کرتے تھے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت ہوا ۔ ‘‘
(تحقیق دارمی مترجم صفحہ ۵۱۹،ترجمہ و تحقیق محمد الیاس )
یہی بات دیگر کئی غیرمقلدین نے لکھی ہوئی ہے ۔
الجواب:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: محققین اہلِ اصول کے نزدیک کَانَ دوام کا فائدہ نہیں دیتا ، اصل وضع کے اعتبار سے یہ صرف ایک دفعہ کے فعل پر دلالت کرتا ہے۔
( شرح مسلم :۱؍۲۲۴)
امام شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ بل قد یاتی فی بعض الاحادیث کان یفعل فیما لم یفعلہ الا مرۃ واحدۃ نص علیہ اھل الحدیث ، بعض حدیثوں میں کان یفعل ایک مرتبہ کام ہو جانے کے لیے آتا ہے محدثین نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ‘‘
( الاعتصام :۱؍۲۹۰)
غیرمقلدین کے ہاں بیہقی وقت کا لقب پانے والے بزرگ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ باقی رہا استدلال دوام پر کان یفعل کذا سے تو یہ صحیح نہیں یہ حکم اکثر ہے کلی نہیں بلکہ بعض مقام پر اکثری بھی نہیں۔ آ پ مشکوۃ باب القراء ۃ فی الصلوۃ یا نیل الاوطار وغیرہ بلکہ احادیث منقولہ دریں تحریر ہی کو ملاحظہ کرکے تمام حدیثوں کے کان یفعل کذا کو آپس میں تطبیق دیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوام نہیں ورنہ تناقض معلوم ہوگا۔‘‘ ( فتاویٰ ثنائیہ : ۱؍۴۹۹)
امام نووی رحمہ اللہ اور امام شاطبی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق کان مضارع پر داخل ہونے کی صورت میں ایک بار کام کے واقع ہونے کو ظاہر کرتاہے۔ اور مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے تو صاف کہہ دیا کہ کان سے تو اکثری عمل کا ثبوت بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ اسے دوام کی دلیل بنایا جائے۔ مزید یہ کہ انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ اگر کان سے دوام کشید کیا جائے تو حدیثیں آپس میں ٹکرا جائیں گی۔ جس طرح کہ خود رفع یدین کے مسئلہ میں غیرمقلدین ٹکراؤ پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ ترک کی حدیثوں کو اثبات کی حدیثوں کے خلاف بتاتے ہیں۔ اگر کان سے دوام کشید نہ کریں تو دونوں قسم کی حدیثوں میں باہمی تعارض و ٹکراؤ نہیں بلکہ اس طرح توضیح کی جائے گی کہ رفع یدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا عمل ہے ۔ بعد میں آپ نے اسے چھوڑ دیا تھا۔
حاصل یہ کہ کانَ دوام کے لیے ہو یہ قاعدہ کلی نہیں۔ جو غیرمقلدین اسے قاعدہ کلیہ کے طور پر منوانے کے درپے ہیں وہ درج ذیل حدیثوں میں دوام کا معنی کرنے کے لیے تیار ہیں؟ جب کہ ان میں بھی کانَ مضارع پر داخل ہے ۔
(۱)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یتکئی فی حجری وانا حائض ثم یقرأ القرآن ،بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری گودی میں سر رکھتے جب کہ میں حالتِ حیض میں ہوتی پھر قرآن پڑھتے ۔( بخاری :۱؍۴۴)
اس حدیث میں کان ( یتکئی )مضارع پر داخل ہے کوئی بھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل نہیں کہتا ۔
(۲)بخاری میں حدیث ہے :
’’ اِن رسُوْل اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم کان یُصلّیْ وھُو حامِلٌ اُمامۃ بِنْتَ زیْنب، بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اس حال میں امامہ بنت زینب کو اُٹھائے ہوتے ۔ ‘‘( بخاری :۱؍۷۴)
اس حدیث میں کان مضارع پر داخل ہے جب کہ خود غیرمقلدین بھی بچی اُٹھا کر نماز پڑھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ موت تک کیا جانے والا عمل تسلیم نہیں کرتے۔
(۳)مسلم میں ہے :
’’ اِنَّ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلَّم کان یُباشِرُ وھُو صائِمٌ، یعنی بے شک
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں مباشرت کر لیا کرتے تھے ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ،حدیث:۱۱۰۶)
اس حدیث میں بھی کان مضارع پر داخل ہے پھر بھی روزہ میں مباشرت کے عمل کو دائمی نہیں کہا جاتا۔
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کان یطُوْفُ علی نِسائِہ بِغُسْلٍ وَّاحِدٍ ،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے پھر بعد میں ایک ہی غسل کرتے ۔
اس حدیث میں کان مضارع یطُوْفُ پر داخل ہے مگر کوئی بھی یہ موقف نہیں رکھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دائمی اور موت تک برقرار رہنے والا معمول تھا۔ بلکہ یہ کبھی کبھی پیش آنے والا واقعہ ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سب بیویوں کے پاس رات گزارنے کے لئے باری باری تشریف لے جاتے تھے۔
حاصل یہ کہ کان سے دوام و ہمیشگی پر دلیل لینا انتہائی کمزور بات ہے ۔
تنبیہ: کان مضارع پر داخل ہونے مگر دوام نہ ہونے پرمولانا ابو بلا ل جھنگوی نے تحفہ اہلِ حدیث میں متعدد حدیثیں ذکر کردی ہیں شائقین حضرات وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
لفظ ’’ اذا‘‘ سے استدلال
بعض غیرمقلدین کہا کرتے ہیں کہ حدیث میں اذارکع یرفع یدیہ ہے اور اذا دوام کا فائدہ دیتا ہے تو معنی یوں ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے ۔ اور چوں کہ نماز میں رکوع کرنا آخر عمر تک رہا لہذا رفع یدین بھی آخر عمر تک ثابت ہوا۔
الجواب:
لفظ ’’ اذا‘‘ سے بھی دوام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ جو کام ایک بار کیا گیا ہو اسے بھی ’’ اذا‘‘سے بیان کر دیا جاتا ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
’’ واِذا رأوْا تِجارۃً اوْ لھْو نِ انْفضُّوْا اِلیْھا و ترکوْک قائِما۔(سورۃ الجمعۃ، آیت: ۱۰)
اس آیت میں ’’ اذا‘‘ہے اور جو واقعہ بیان کیا گیا وہ صحابہ کا دائمی معمول نہیں بلکہ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا ۔ حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑکر باہر خرید و فروخت کے لیے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت نہ ہو جائے صرف ۱۲ آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ‘‘
( تفسیر احسن البیان صفحہ ۱۵۷۹)
کان اور اذا کے مجموعہ سے استدلال
غیرمقلدین کے سامنے جب مذکورہ مثال پیش کرکے ان کے خودہ ساختہ اصول کو توڑا جاتا ہے تو جواباً کہتے ہیں کہ آپ نے جو مثال دی ہے اس میں صرف اِذَا ہے اور ہماری پیش کردہ رفع یدین کی حدیث میں کَانَ بھی ہے اور اِذَا بھی ۔ جب ان دونوں کا مجموعہ ہو تو یقینا دوام کا فائدہ دیتا ہے ۔
الجواب:
کَانَ اور اِذَا کا مجموعہ دوام کا فائدہ دے ، یہ لازمی اور ضروری نہیں۔ بخاری میں حدیث ہے: اِنَّ رَسُولَ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم کان اِذا سلّم سلّم ثلاثا واِذا تکلّم بِکلِمۃ اَعادھا ثلاثا۔ ( صحیح بخاری ،کتاب الاستیذان ، باب التسلیم والا ستیذان ثلاثا : ۱؍۹۲۳)
ترجمہ: بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے اور جب بات کرتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے ۔
اس حدیث میں کَانَ بھی ہے اور اِذَا بھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دائمی معمول نہ تھا کہ جب کبھی سلام کیا تو تین مرتبہ کیا ہو اور اس طرح جب بھی با ت کی ہو تو تین مرتبہ کی ہو بلکہ خاص مواقع پر آپ نے ایسا کیا۔ علامہ وحید الزمان غیرمقلد ، بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’ تین بار سلام اس حالت میں ہے جب کوئی کسی کے دروازہ پر جائے اور اندر آنے کی اجازت چاہے ۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو باب الاستیذان میں بیان کیا ہے اس سے بھی یہی نکلتا ہے ورنہ ہمیشہ آپ کی عادت یہ ثابت نہیں ہوتی کہ ہر مسلمان کو تین بار سلام کرتے۔‘‘
( تیسیر الباری شرح بخاری ، کتاب العلم ، من اعاد الحدیث ثلاثا لیفھم :۱؍۸۲)
ابن ماجہ میں حدیث ہے :
’’ کان رسُوْلُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم اِذا توضّأ خلّل لحْیَتہ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، باب ماجآء فی تحلیل اللحیۃ )
’’آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے اپنی داڑھی میں خلال کرتے ‘‘( ترجمہ وحیدالزمان )
اس حدیث میں کَانَ اور اِذَا دونوں ہیں مگر علامہ وحیدالزمان غیرمقلد کے نزدیک یہ کبھی کبھار کا عمل ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ داڑھی میں خلال کرنے پر حضرت کو مواظبت نہ تھی کبھی کبھی کر لیا کرتے تھے۔‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۱؍۲۳۰)
معلوم ہوا کہ غیرمقلدین کا مذکورہ ضابطہ ان کے دعوی ’’ دوام ‘‘ کو ثابت نہیں کرتا۔ جب کَانَ اور اِذَا دونوں کے مجموعہ سے دوام ثابت نہیں ہوتا تو ان میں سے کسی ایک کَانَ یا اِذَا سے بطریق اولی ثابت نہیں ہوگا ۔
نوہجری تک رفع یدین کے باقی رہنے سے دوام پر دلیل
پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ متنازع رفع یدین آخر عمر تک کرتے رہے کیو ں کہ یہ دونوں صحابی ۹ ھ میں مسلمان ہوئے۔ ‘‘
(رسائل بہاول پوری صفحہ ۱۸۱)
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت وائلؓ جو ۹ ھ میں حاضر ہوئے، حدیث رفع الیدین بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت مالک ؓ بن حویرث کی حدیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دَور میں حاضر ہوئے وہ بھی اس کی حکایت کرتے ہیں۔ ‘‘ ( مقالات ِ اثری :۲؍۱۴)
الجواب:
۱۔پہلے تو غیرمقلدین کو اپنے اصول کے مطابق صحیح سند سے ثابت کرنا چاہیے تھا کہ یہ دونوں صحابی سن نو ہجری میں مسلمان ہوئے۔
۲۔ اگر یہ بات تسلیم کر لیں کہ وہ دونوں صحابی نو ہجری میں مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کا
رفع یدین کرتے دیکھا ہے تب بھی متنازع رفع یدین کا دوام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ کسی عمل کا نو ہجری میں کیا جانا اس کی دلیل نہیں کہ وہ وفات تک بھی باقی رہا ۔ اس لیے کہ نو ہجری کے بعد بھی احکام میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور منسوخ و متروک کا سلسلہ بھی رہا۔ مثلاً
بخاری میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِذا صلّٰی جالِسا فصلّوْا جُلُوْسا اجْمعِیْن، جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ ( صحیح بخاری :۱؍۹۱)
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے( وفات سے چند روز پہلے) بیٹھ کر نماز پڑھائی تو آپ کے مقتدی کھڑے تھے۔ (صحیح بخاری :۱؍۹۱)
اس لیے علماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو ناسخ اور فصلّوْا جُلُوْسا کو منسوخ بتایا ہے ۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ قال الْحُمیْدِیُّ ھذا حدِیْثٌ منْسُوْخٌ ، امام حمیدی نے فرمایا یہ حدیث منسوخ ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری )
امام بخاری رحمہ اللہ اس کے منسوخ ہونے پر دلیل یوں دیتے ہیں:
’’ لِانَّ النَّبِیَّ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّمَ آخِرُ ما صلّٰی صلّٰی قاعِدا وَّالنَّاسُ خلْفہ قِیَامٌ ،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری نماز پڑھی وہ بیٹھ کر پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔‘‘(صحیح بخاری : ۲؍۸۴۵)
علامہ وحید الزمان نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی :جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ اخیر کا فقرہ اکثر علماء کے نزدیک منسوخ ہے مرض موت کی حدیث سے اس میں آپ ؐ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ آپ ؐ کے پیچھے کھڑے تھے۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۱؍۴۳۰)
ایک غیرمقلد نے لکھا:
’’ پہلی حدیث میں ہے کہ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن پہلی والی حدیث مذکورہ بالا دوسری حدیث سے منسوخ ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ سلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سب صحابہ کرام نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ ‘‘
( سنن دارمی مترجم صفحہ ۵۲۳، ترجمہ و تحقیق محمد الیاس )
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد حدیث نبوی ’’ فصلّوْا جُلُوْساً‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ یہ واقعہ ماہ ذوالحجہ ۵ھ مدینہ منورہ میں پیش آیا جب آپ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تھے زندگی کے آخری ایام میں جب آپ بیمار تھے تو آپ نے بیٹھ کر امامت کرائی اورلوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔اس لیے مقتدیوں کا ایسے حالات میں بیٹھ کرنماز ادا کرنا ضروری نہیں۔عون الباری : ۷۴۰؍۱...‘‘
(مختصر صحیح بخاری : ۱؍۲۸۸)
سن پانچ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا وہ وفات سے چند روز پہلے منسوخ ہوا۔ معلوم ہوا کہ نسخ و ترک کا سلسلہ نوہجری کے بعد تک جاری رہا لہذا کسی عمل کا نوہجری تک جاری رہنا اس کے دائمی اور تاوفات باقی رہنے کی دلیل نہیں۔
۳۔ اگر سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کا رفع یدین کرتے دیکھا ہے تو انہوں نے سجدہ کا رفع یدین بھی ملاحظہ فرمایا۔( نسائی: ۱؍۱۶۵)
بندہ نے غیرمقلدین کی زبانی سجدوں کے رفع یدین کے اثبات کو اپنے متعدد مضامین میں نقل کر دیا ہے۔ انہوں نے سجدوں کے اثبات رفع یدین پرجن حدیثوں کو پیش کیا اُن میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اورسیدنا وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ کی حدیثیں بھی ہیں۔
اگر ان کے متاخر الاسلام ہونے سے رکوع کا رفع یدین موت تک باقی رہنے والا باور کراتے ہوتو سجدوں کا رفع یدین بھی موت تک باقی رہنے والا تسلیم کرنا ہو گا۔۔
قسط نمبر 3 کیلئے دیکھیں ⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️
۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں