نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل . قسط نمبر (3)

 

متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل

(غیرمقلدین کی بے بسیاں اور ان کے اپنے ہی حوالے)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ  
  

یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت شمارہ 15 سے لیا گیا ہے ۔ مجلہ  حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں 

 

Whatsapp.  +92 342 8970409


قسط نمبر (3)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثوں کو ناسخ قرار دے کردوام کشید کرنا

حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

 ’’ چوں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دَور میں رہے لہذا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نماز وغیرہ کے جو مسائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں وہ آخری اور ناسخ ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نماز کا کوئی مسئلہ راقم الحروف کے علم میں نہیں ہے جو کہ منسوخ ہو۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۳۲۹) 

 اس کے بعد علی زئی نے رفع یدین سے متعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ابوداود سے نقل کی ۔ 

الجواب: 

اس سے بھی متنازع رفع یدین کا دوام ثابت نہیں ہوتاجس کی درج ذیل وجوہ ہیں۔ 

۱۔ اس حدیث کی سند خودزبیر علی زئی کے نزدیک ضعیف ہے چنانچہ انہوں نے لکھا:

’’ اس روایت کی سند امام زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۳۲۹)

چند صفحات بعد پھر لکھتے ہیں:

’’ امام زہری مدلس ہیں لہذا ہماری تحقیق میں یہ سند ضعیف ہے۔ ‘‘

 (نور العینین صفحہ ۳۳۲) 

 ۲۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کئی حدیثوں کو علی زئی سمیت غیرمقلدین منسوخ قرار دے چکے ہیں۔ 

حافظ محمد اسلم حنیف (جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ) لکھتے ہیں: 

 ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میت کو غسل دے خود غسل کرے اور جومیت کو اُٹھائے وضو کرے ۔ قَالَ ابُوْداودَ ھذا منْسُوْخٌ فقالَ یُجْزئُ الْوُضُوْءُ، امام ابو داود علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ ‘‘

 ( نماز جنازہ کے احکام و مسائل صفحہ۴۳، ناشر جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ضلع رحیم یار خاں )

مولانا فضل الرحمن بن محمد غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میت کو غسل دیا۔ اُس کو چاہیے کہ نہائے اور جس نے اس کواُٹھایا اس کو وضو کرنا چاہیے۔ یہی حدیث ابن ماجہ اور ابن حبان میں بھی ہے،لیکن امام ابوداود نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔یہ حدیث منسوخ ہے۔‘‘

( جنازے کے مسائل صفحہ۳۳،دار الدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور) 

 خود زبیر علی زئی نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی کو منسوخ قرار دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

 ’’ معلوم ہوا کہ یہ روایت اصولِ حدیث کی رو سے بالکل صحیح ہے۔ اسے محدثین کرام نے بغیر کسی اختلاف کے صحیح قرار دیا ہے۔ یہ حدیث دوسری صحیح حدیث کی وجہ سے منسوخ ہے ... منسوخ روایت کو پیش کرکے صحیح احادیث کامذاق اُڑانا اُن لوگوں کا ہی کام ہے جو قر آن کو ’’بلا رسول ‘‘ سمجھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ‘‘

 ( صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ صفحہ ۴۴،مکبتہ اسلامیہ ) 

یہ عبارت علی زئی کی کتاب ’’صحیح بخاری کا دفاع صفحہ ۲۶۴،مکتبہ اسلامیہ ‘‘ پر بھی ہے ۔ 

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’ اذا قرأ فانصتوا، جب امام قراء ت کرے تم خاموش رہو۔ 

 زبیر علی زئی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: 

 ’’ یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن منسوخ ہے۔ ‘‘ 

( ماہ نامہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ :۸، ذوا لقعدہ ۱۴۲۵ھ صفحہ ۵) 

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث ’’ ابو داود کتاب الصلوٰۃ باب الامام یصلی من قعود ‘‘ میں بھی ہے۔ 

اس حدیث کی تخریج و تحقیق میں زبیر علی زئی لکھتے ہیں: 

’’ ھذا الْحدِیْثُ منْسُوْخٌ ۔‘‘

( تخریج و تحقیق سنن ابی داود :۱؍۴۷۸)

ترجمہ: یہ حدیث منسوخ ہے ۔ 

علی زئی صاحب نے حدیث ’’ اذا قرأ فانصتوا‘‘ کے متعلق لکھا:

’’ یہ حدیث منسوخ ہے ‘‘

 (علمی مقالات جلد ۲ صفحہ ۲۶۳) 

  حدیث ِنبوی ’’ اذا صلی جالسا فصلوا جلوسا ‘‘کے راوی بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں مگر یہ منسوخ ہے جیسا کہ پیچھے باحوالہ غیرمقلدین کے اعتراف کے ساتھ مذکور ہوا۔

  معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی منسوخ ہو سکتی ہے لہذا ان سے مروی رفع یدین کی حدیث (جسے خود ضعیف تسلیم کیا ہے )کو غیر منسوخ اور رفع یدین کے عمل کو دائمی کہنا درست نہیں۔ 

فائدہ:

  مولانا محمد حسین میمن غیرمقلد حالت جنابت میں روزہ رکھنے کے مسئلہ پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

 ’’ جہاں تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ہے تو اس مسئلہ میں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث راجح ہوں گی۔ دیکھئے نیل الاوطار جلد ۳۹۲۲‘‘ 

( احادیث متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۶۳، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن ) 

میمن صاحب نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو مرجوح قرار دیا ہے ۔ 

رفع یدین کے دوام پر ایک اور کاوش : المعجم ابن الاعرابی کے حوالہ کا جائزہ 

  حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے رفع یدین کے دوام کو ثابت کرنے کے لیے ’’ المعجم ابن الاعرابی‘‘ کے حوالہ سے روایت نقل کی۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

  لاصلین بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ازید فیھا ولا انقص فاقسم باللہ وان کانت لھی صلاتہ حتی فارق الدنیا قال: فقمت عن یمینہ لانظر کیف یصنع فابتدأ فکبر ورفع یدیہ ثم رکع فکبر ورفع یدیہ ثم سجد ثم کبر ثم سجد و کبر حتی فرغ من صلوتہ قال اقسم باللہ ان کانت لھی صلوتہ حتی فارق الدنیا ۔(۱؍۲۲۶،ح: ۴۲)

  البتہ میں آپ کو ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاؤں گا۔ اس میں نہ زیادہ کروں گا، اور نہ کم۔ پس انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔راوی نے کہا: پس میں آپ کی دائیں طرف کھڑا ہوگیا تاکہ دیکھوں کہ آپ کیا کرتے ہیں ۔پس انہوں نے نماز کی ابتداء کی،اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے، پھر رکوع کیا، پس آپ نے اللہ اکبر کہااور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔ پھر سجدہ کیا۔ پھر اللہ اکبر کہا۔ پھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی کہ آپ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۳۳۷) 

الجواب: 

 حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: 

 ’’ آج کل غیرمقلد ین عموماً اور زبیر علی زئی خصوصاً دین تصوف کو کفر و شرک کہتے ہیں اور صوفیاء کرام کو دین اسلام کے متوازی نئے دین گھڑنے والے کہتے ہیں۔ اب جس کتاب سے دلیل بیان کر رہے ہیں وہ ایک صوفی منش بزرگ ہیں۔ امام ابن الاعرابی المعجم کے بارے میں علامہ ذہبی لکھتے ہیں: تصوف اور زہد ان پر غالب تھا، ان کی بہت سی تصانیف ہیں جن میں سے طبقات النساک مشہور کتاب ہے۔ آپ کو جنید بغدادی اور ابو احمد قلانسبی کی صحبت بھی میسر رہی ہے ...ا مام ابن الاعرابی نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ جمع ( اتحاد خالق و مخلوق ) کے بھی قائل ہیں حالاں کہ اس اتحاد کی صورت ہرایک کے نزدیک مختلف ہے۔ اسی طرح فنا ( ذات ِ الہی میں فنا ) کا معاملہ ہے لوگ اس کے اسماء میں تو متفق ہیں مگر ان کے معنیٰ میں اختلاف کرتے ہیں اس لیے کہ اسم سے مراد غیرمحدود حقائق و معارف ہو سکتے ہیں یہی حال معرفت الہی کا بھی ہے اس کی بھی کوئی انتہاء نہیں اور نہ اس کے وجود اور لذت سے ہی کماحقہ آدمی باخبر ہو سکتا ہے یہاں تک کہ انہوں فرمایا جب تو سنے کہ کوئی شخص حقیقت جمع و فنا کے بارے میں سوال کر رہا ہے یا ان کا جواب دے رہا ہے تو سمجھ لے کہ اسے ان کی کوئی واقفیت نہیں کیوں کہ ان کے حقیقت شناس لوگ ان کے بارے میں سوال نہیں کرتے وہ جانتے ہیں کہ یہ حقائق حدود نطق و بیان سے باہر ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ صفحہ ۸۳۰) اس سے معلوم ہوا کہ امام ابن الاعرابی جمع و فنا یعنی مسئلہ وحدۃ الوجود کو بالکل حقیقت سمجھتے تھے اور وحدۃ الوجود کو حقائق میں سے ماننے والے زبیر علی زئی کے نزدیک بدترین کافرو مشرک ہیں تو کیا علی زئی صاحب قرآن پاک کی کوئی آیت یا نبی پاک کی کوئی حدیث پیش کر سکتے ہیں کہ نماز کی اہم ترین سنت کسی کافر مشرک کی روایت سے لینا جائز ہے۔ ادہر تو صوفیاء کرام کے لیے کفر و شرک کی گردان پڑھتے نہیں تھکتے اوراُدہر نماز کی اہم سنت کے لیے ان کی چوکھٹ پر کاسہ گدائی رکھے سجدہ ریز ہیں۔ ‘‘

 ( تجلیات صفدر: ۴؍۱۱۱) 

 اس کے مزید راویوں پہ جرح ’’تجلیات ِ صفدر‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔اُن رواۃ کے پیش ِ نظر یہ روایت غیر مستند ہے۔ 

 اب ذرا متن کی طرف متوجہ ہوں۔ ابن الاعرابی کی اس روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے قسم اُٹھا کر فرمایا: میں نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) کی نماز بتانے لگا ہوں، اس میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ ہی کمی۔ لہذا غیرمقلدین کے وہ مسائل جو اِس روایت میں نہیں وہ اس روایت کے مطابق نماز نبوی میں اضافہ شمار ہوتے ہیں مثلاً:رکوع کے بعد رفع یدین کرنااور تیسری رکعت کی ابتداء کا رفع یدین، ننگے سر نماز پڑھنا، سینے پہ ہاتھ باندھنا،جلسہ استراحت اور تورک کرنا وغیرہ ۔ 

 یہیں سے غیرمقلدین کی مجبوری سمجھ آتی ہے۔یہ حدیث رکوع کے بعد والے اور دو رکعتوں سے اُٹھ کر تیسری رکعت کی ابتداء میں کئے جانے والے رفع یدین اور دیگر امتیازی مسائل کی نفی کر رہی ہے مگر چوں کہ اُن کے زعم میں یہ رکوع کے رفع یدین کے دوام کی دلیل ہے اس لئے اسے قبول کر لیا۔ 

 میں نے جتنے مناظرے پڑھے یا سنے ہیں اُن میں سے کسی مناظرہ میں غیرمقلدین نے اس روایت کو پیش نہیں کیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق رکوع سے اُٹھ کر کئے جانے والا رفع یدین اور قعدہ اولیٰ سے تیسری رکعت کی طرف اٹھتے ہوئے کیا جانے والا رفع یدین نماز نبوی پر اضافہ ثابت ہوتا ہے جب کہ غیرمقلدمناظراپنے دعوے میں ان مقامات کے رفع یدین کو بھی سنت لکھ چکا ہوتا ہے۔ 

دو حدیثوں کو ایک بنا کردوام کے حصول کی کوشش 

 حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے رفع یدین کے دوام کو ثابت کرنے کے لیے پہلے ابوداود کے حوالہ سے

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رکوع کے رفع یدین کی نقل کی ہے جس کی سند کو خود ہی زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ ( نور العینین صفحہ ۳۲۹)

 اس کے بعد نسائی :۱؍۱۷۳ سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں:

 ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں بے شک تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت میں قریب ہوں۔ آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۳۳۴) 

 الجواب: 

 علی زئی ان دو حدیثوں میں سے رفع یدین پہلی حدیث سے اخذ کرتے ہیں اور دوام دوسری حدیث سے۔ حالاں کہ جس میں رفع یدین ہے، وہاں دوام کی کوئی بات نہیں اور جہاں دوام ہے وہاں رفع یدین کا کوئی ذِکر نہیں۔ مگر اس کے باوجود انہیں ایک ہی حدیث قرار دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رفع یدین کے دوام کی غیرمقلدین کے پاس کوئی ایک بھی حدیث بھی موجود نہیں۔ اگر ان کے پاس رفع یدین کے دوام کی ایک بھی حدیث ہوتی تو دو کو ایک بناکر کام نہ چلاتے۔ 

 اگریہ حدیثیں واقعۃً ایک ہی حدیث ہے تو کسی جگہ تو دونوں جز:رفع یدین اور دوام ایک جگہ پر اکٹھے مذکور ہوتے حالاں کہ ہماری معلومات میں کسی جگہ بھی ان دو باتوں کا اجتماع ثابت نہیں ہے۔ اس کے برعکس رفع یدین سے متعلق سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت میں رکوع کا رفع یدین اور سجدوں کا رفع یدین ایک ہی حدیث میں مروی ہیں مگر علی زئی صاحب دونوں میں سے سجدہ کے رفع یدین کو نہیں مانتے۔ 

 یہ بات بھی حیرت ہے کہ یہاں رفع یدین کے موقع پر ضرورت پڑی تو غیرمقلدین الگ الگ دو حدیثوں کو ایک بنار ہے ہیں مگر جہاں انہیں ایسا کرنے سے غیرمقلدیت کے خلاف محسوس ہوتا ہے تو وہاں دونوں کو ایک نہیں مانتے مثلا:

 بخاری میں ایک حدیث ہے مگر اس میں اذا قرأ فانصتوا، جب امام پڑھے تو خاموش رہو‘‘ کاجملہ نہیں 

 ہے۔ البتہ نسائی ، ابوعوانہ اور مسلم میں یہ جملہ موجود ہے مگر غیرمقلدین مسلک کی پاس دار ی میں بقیہ حدیث کو قبول کر لیتے ہیں مگر اس جملہ’’ اذا قرأ فانصتوا‘‘ کو نہیں مانتے۔ توضیح الکلام وغیرہ کتب دیکھئے۔ 

  اسی طرح بخاری میں حدیث ہے لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ دیگر کتب حدیث میں اس حدیث کے آخر میں فصاعدا کا جملہ بھی ہے ( مسلم :۱؍۱۶۹، نسائی :۱؍۱۰۵)مگر غیرمقلدین یہاں فصاعدا کو پہلے حصہ کے ساتھ ملا کر مسئلہ اخذ نہیں کرتے۔ ( توضیح الکلام :۱؍۱۳۱)

 حاصل یہ ہے کہ جہاں ایک ہی حدیث کے دو حصے الگ الگ ہیں اور پھر کسی جگہ ان دونوں کا اجتماع بھی ہے اسے تو غیرمقلدین ماننے کے لئے تیار نہیں مثلاً فصاعدا کی زیادتی۔ اور اگر دو حدیثیں واقعۃ ً الگ الگ ہیں اور کسی بھی جگہ ان دو کا اجتماع نہیں مگر انہیں زبیر علی زئی ایک قرار دینے پہ تلے ہوئے ہیں یہ مذہبی پاس داری نہیں تو کیا ہے ؟

 رفع یدین کی حدیثیں اصح ہونے کی وجہ سے راجح ہیں 

 غیرمقلدین جب دلائل کی دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متنازع رفع یدین کو موت تک کرتے رہنا ثابت نہیں کر سکتے تو راجح و مرجوح کی طرف آ جاتے ہیں اور یوں دعویٰ کردیاکرتے ہیں کہ رفع یدین کے اثبات کی حدیثیں سنداً زیادہ صحیح ہیں لہذا اصح ہونے کی وجہ سے انہیں ترک کی حدیثوں پر ترجیح حاصل ہے ۔ 

الجواب: 

 اگر رفع یدین کی حدیثوں کو اصح مان بھی لیا جائے تو بھی ان کا راجح ہونا کوئی ضروری نہیں اس لیے کہ اصح کو صحیح پر ترجیح دینے کا اصول قاعدہ کلیہ نہیں۔مثلاً قرآن کریم میں ہے : 

 ’’کتب علیکم اذاحضر احدکم الموت ان ترک خیرا نِ الوصیۃ للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین ‘‘(سورۃ البقرۃ ، آیت: ۱۸۰)

 ترجمہ: تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے۔ پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے ۔ ‘‘ ( ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی ) 

حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: 

 ’’وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔اب یہ منسوخ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔( اخرجہ السنن بحوالہ ابن کثیر ) اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے۔ (یعنی ورثا کے حصے مقرر کر دیے ہیں ) پس اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔‘‘

 ( تفسیری حواشی صفحہ ۷۲) 

 حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد فلا وصیۃ لوارثکو ناسخ اور قرآنی آیت کو منسوخ بتایا ہے۔ جب کہ یہ حدیث بعض کے نزدیک ضعیف اور بعض کے ہاں حسن ہے یعنی اس کا صحیح یا حسن ہونا اتفاقی نہیں ۔اور اگر اسے صحیح ماننے والوں کی بات مان لیں تو بھی اس کی صحت قرآن سے زیادہ تو کیا ہواس کے برابر بھی نہیں بلکہ اس سے کئی گنا کم ہے۔ اس کے باوجودیوسف صاحب نے قرآنی آیت پرترجیح اسی حدیث کودی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ کوئی کلی اصول نہیں ہے کہ اصح کو صحیح پر ترجیح حاصل ہے اس لئے کہ یہاں تو غیر اصح ( بلکہ بعض کے بقول ضعیف ) کو اصح پر ترجیح دی گئی ہے۔ 

  خود غیرمقلدین اس اصول کی دھجیاں اُڑا چکے ہیں یعنی انہوں نے کئی بار ، متعدد مقامات پر غیر اصح کو اصح پر ترجیح دی ہوئی ہے ۔ 

مولانا عبد المنان اثری غیرمقلد( احمد پور شرقیہ )آہستہ بسم اللہ پڑھنے کی بابت لکھتے ہیں:

 ’’آہستہ پڑھنے کی روایتیں زیادہ اور صحت کے اعتبار سے قوی ہیں۔ ‘‘

 ( مجلہ تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ جنوری ۲۰۲۰ء ) 

 یہی بات دیگر کئی غیرمقلدین نے اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے ۔ ضرورت پڑی تو ہم وہ سب حوالے پیش کر دیں گے ان شاء اللہ ۔

 یاد رہے کہ بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی حدیثیں بخاری و مسلم کی ہیں جب کہ جہر کی روایت نسائی سے پیش کی جاتی ہے جسے کئی غیرمقلدین ضعیف کہہ چکے ہیں اور جنہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے تو انہیں یہ تسلیم ہے کہ اس کی صحت بخاری ومسلم کی حدیثوں کے برابر نہیں ۔ جب بات یونہی ہے تو غیرمقلدین کو چاہیے کہ بسم اللہ آہستہ کی حدیثوں کو ترجیح دے کر بسم اللہ اونچی کو مسنون و جائز تسلیم نہ کریں حالاں کہ غیرمقلدین کے ہاں بسم اللہ بالجہر بھی جائز و سنت ہے بلکہ بعض مثلاً مولانا بدیع الدین راشدی وغیرہ کے نزدیک تو صرف بسم اللہ بالجہر ہی مسنون ہے۔پھر مزید جسارت یہ کہ انہوں نے صحیح مسلم میں مروی بسم اللہ بالسر کی حدیث کو ضعیف تک کہہ دیا ہے ۔ لیکن جب مسئلہ تین طلاق کے بحث کی تب یہ دعویٰ کر دیا کہ صحیح مسلم کی ساری حدیثیں صحیح ہیں اور ان کی صحت پر اجماع ہے ۔غیرمقلدین کی عبارات نقل کرکے اس پرتفصیلی بحث میں اپنی کتاب ’’ غیرمقلدین قرآن و سنت کی کسوٹی پر ‘‘ میں کروں گا ان شاء اللہ۔ 

شیخ عبد الرحمن ضیا ء غیرمقلد لکھتے ہیں: 

 ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محرم ہونے کی حالت میں شادی کی [ بخاری ] جب کہ دیگر کتب ِ حدیث مثلاً ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ حلال ہونے کی حالت میں شادی کی تھی ۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ [ ابن تیمیہ (ناقل )] ابن عباس رضی اللہ عنہا کی صحیح بخاری والی روایت کو مرجوح قرار دیتے ہیں۔ ‘‘ 

( امام ابن تیمیہ بحیثیت ایک عظیم محدث صفحہ ۴۸)

 یہاں بخاری پر ترمذی وغیرہ کی روایت کوترجیح دی ہے جب کہ غیرمقلدین یہ جملہ (یا اس کا مفہوم )بہت زیادہ نقل کیا کرتے ہیں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح للبخاری ،یعنی صحیح بخاری کتاب اللہ کے بعد سب کتابوں سے زیادہ صحیح ہے ۔ لیکن نکاح محرم کے مسئلہ میں غیرمقلدین نے ترمذی وغیرہ کی روایت کو بخاری پر ترجیح دی رکھی ہے۔حاصل یہ کہ اصح کو صحیح پر ترجیح دینے کے اصول پر خود ان کا اپنا عمل نہیں ہے ۔ 

دوام ِ رفع کی نئی دلیل قسمیں اُٹھانا

 جب غیرمقلدین سارے جتن کرکے دیکھ چکے کہ ان سے رفع یدین کا موت تک کرتے رہنا ثابت نہیں ہوتا تو اَب قوم کو یقین دلانے کے لیے اُن کے خطیبوں نے قسمیں اُٹھاکر کہنا شروع کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت تک رفع یدین کرتے رہے۔ 

الجواب: 

 عرض ہے کہ مسائل دلائل سے ثابت ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس کوئی دلیل ایسی ہے جس میں رسول اللہ 

  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحابی نے بیان کیا ہو کہ آپ موت تک رفع یدین کرتے رہے تو پیش کیجئے۔ جب موت تک رفع یدین کے باقی رہنے کی تصریح کسی حدیث صحیح یا حسن میں نہیں تو محض قسم اُٹھا لینے سے رفع یدین کا موت تک باقی رہنا کیسے ثابت ہو سکتا ہے ؟

 نیزاگر آپ نے قسم اُٹھانی ہی ہے تو یوں قسم اُٹھائیے : اللہ کی قسم! صحیح یا حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موت تک رفع یدین کرنا بیان کیا ہے۔ 

 ہم مستقل الگ مضمون لکھ چکے جس میں غیرمقلدین کی گواہیاں نقل کیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکوع کا رفع یدین چھوڑثابت ہے۔ ان گواہیوں کے مطابق بھی بعض لوگوں کا حلفیہ دعویٰ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت تک رفع یدین کیا‘‘ غلط ہے۔ 

 یہ بھی فرمائیے کہ اگر آپ کا کوئی بھی مخالف کسی مسئلہ پر قسم اُٹھا لے تو آپ اس کی قسم پہ یقین کرکے اس کا مذہب قبول کر لیں گے؟مخالف کی قسم کو چھوڑئیے یہ بتائیے کہ آپ کے غیرمقلدین کی کتابوں میں جن مسائل کو حلفیہ بیان کیا گیا ہے انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو آئیے دو حوالے پیش خدمت ہیں۔ 

 (۱)ہم پچھلے صفحات میں زبیر علی زئی غیرمقلد کی کتاب ’’ نور العینین صفحہ ۳۳۷ ‘‘ کا حوالہ نقل کر چکے ہیں کہ انہوں نے المعجم لابن الاعرابی سے سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل کیاکہ انہوں نے دو بار اللہ کی قسم اُٹھا کر فرمایا : میں تمہیں بغیر کمی و بیشی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بتاتاہوں۔ پھر انہوں نے جو نماز نبوی بتائی اس میں رکوع سے اُٹھنے کا رفع یدین نہیں، تیسری رکعت کی ابتداء والا رفع یدین بھی نہیں۔ مزید یہ کہ اس میں جلسہ استراحت، سینہ پہ ہاتھ باندھنا اور تورک کرنا بھی نہیں۔ آئیے اپنے ذہبی زماں بزرگ علی زئی کی نقل کردہ حدیث کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قسم کا اعتبار کرکے ان سب اعمال کو چھوڑ دو جن کا اس روایت میں تذکرہ نہیں کیوں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بتانے میں نہ کمی کروں گا اور نہ ہی زیادتی۔ ان کی قسم کے مطابق مذکورہ بالا غیرمقلدین کے اعمال نماز نبوی پر اضافہ ہیں۔

 تنبیہ: ہمارے نزدیک المعجم لابن الاعرابی والی روایت غیر ثابت ہے ، یہ حوالہ بطور اِلزام پیش کیا ہے، اس لئے کہ غیرمقلدین کے بزرگ حافظ زبیر علی زئی کے نزدیک یہ روایت نہ صرف معتبر ہے بلکہ انہوں نے اس سے استدلال بھی کیا ہے۔

 (۲) اپنے بزرگ مولانا غلام رسول غیرمقلد کابھی حلفیہ بیان پڑھ لیں۔ ان کے حالات میں لکھا ہے :

 ’’ایک دفعہ دو زمیندار آپ کے پاس آئے انہوں نے کہا کہ ہم کو ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے ۔ مگر جب تک اللہ کی قسم کھا کر نہ بتائیں گے ہم یقین نہ کریں گے۔آپ نے فرمایا پوچھو انہوں نے کہا...کیاسورۃ فاتحہ خلف امام پڑھنا فرض ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اس مسئلہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو غیر پر ترجیح دوں گا کیوں کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ ان نمازوں میں جن میں قراء ۃ آہستہ پڑھی جاوے سورہ فاتحہ پڑھی جاوے اور جہر میں سکوت کیا جاوے۔‘‘

 (سوانح حضرت العلام مولانا غلام رسول صفحہ ۱۵۹)

 مولانا غلام رسول صاحب نے امام مالک کا مسلک اختیار کیا کہ جہری نمازوں میں مقتدی فاتحہ نہ پڑھے البتہ سری میں پڑھا کرے۔یہاں دو باتیں ملحوظ رہیں پہلی یہ کہ جہری نمازوں کی تعداد سری سے زیادہ ہے۔ دوسری یہ کہ امام مالک سری نمازوں میں مقتدی کے فاتحہ پڑھنے کو فرض نہیں سمجھتے تھے جیساکہ اس کا اعتراف خود غیرمقلدین نے بھی کیا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ۱؍۲۵۷ ، توضیح الکلام ۱؍۸۷، ۱۱۲) 

  خلاف واقعہ اُٹھائی گئی غیرمقلدین کی قسموں پر ایک الگ سے مضمون تیار کیا ہے۔جس میں ثابت کیا ہے کہ غیرمقلدین خلاف ِواقعہ قسمیں اُٹھانے میں بہت جری ہیں۔ عنقریب وہ مضمون اشاعت کے مراحل سے گزر کر احباب کی خدمت میں پہنچ جائے گا ان شاء اللہ۔ 

 متنازع رفع یدین کے دوام کا دعویٰ بلا دلیل، قسط 1


 فائدہ: بندہ نے یہ مضمون قریباً پندرہ سال پہلے لکھا تھا۔تب اس کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی تھی، البتہ عرصہ بعد حضرت مولانا عبد اللہ وڑائچ صاحب حفظہ اللہ (جہانیہ )کے ہاں مناظرہ پڑھنے والے فضلاء و طلبہ کو کئی باراس مضمون کے مندرجات پڑھائے تھے۔ یہ اس دَور کی بات ہے جب مولانا نیاز اوکاڑوی حفظہ اللہ وہاں مدرس تھے، ابھی تک اُن کی کتاب ’’ تسکین العینین فی ترک رفع الیدین ‘‘منظر عام پہ نہیں آئی تھی ۔اندازہ ہے کہ تب انہوں نے اسے لکھنا شروع کر دیاہوگا۔ اَب (سن ۲۰۲۳ء میں) اس مضمون میں کچھ حوالہ جات و عنوانات کے اضافے کئے اور نئی ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے اشاعت کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ اسے شرف قبولیت عطاء کرے اور اُمید کرتا ہوں کہ قارئین اسے پسند کریں گے ان شاء اللہ ۔ 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...