اعتراض نمبر 2- مذبوحہ حاملہ جانور کے حمل کا حکم۔
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله 2
مذبوحہ حاملہ جانور کے حمل کا حکم۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن جابر ان النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال زكوة الجنين زكوة امه ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مادہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔
(ابوداود ج 2 كتاب الضحايا باب ما جاء في ذكوة الجنين صفحه 34-35 رقم الحديث 2828)(ترمذي ج1 ابواب الصيد باب ذكوة الجنين صفحه 178 . عن ابي سعيد. رقم الحديث 1476)
فقه حنفی
و من نحر ناقة او ذبح بقرة فوجد فى بطنها جنينا ميتا لم يوكل اشعر اولم يشعر
( هداية اخرین کتاب الذبائح ص 440 ص 4)
یعنی جس نے اپنی اونٹنی نحر کی یا گائے ذبح کی ، اور اس کے پیٹ میں مرا ہوا بچہ پایا تو وہ بچہ کھانے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (فقہ وحدیث ص 41)
جواب: امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کی رائے کی دلیل یہ ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کے تمام مراحل طے کر لیتا ہے اور اس میں روح پڑ جاتی ہے تو اب وہ محض ماں کے بدن کا ایک جزو نہیں رہتا بلکہ و وہ ایک مستقل وجود بن جاتا ہے چنانچہ شریعت بھی اس کا اعتبار ایک مستقل وجود کے طور پر کر کے یہ قرار دیتی ہے کہ اگر کوئی شخص حاملہ عورت کو قتل کر دے تو ماں کے قصاص یا دیت کے علاوہ اس کے پیٹ میں موجود بچے کی بھی الگ دیت اس پر لازم آئے گی جیسا کہ ( صحیح سلم ج 2 ص 62 كتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات باب دية الجنين ووجوب الدية ) کی مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
حديث:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل کی دو عور تیں لڑیں اور ایک نے دوسری کے پتھر مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو ہلاک کر دیا۔ انہوں نے (مقتولہ کے ورثاء) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مقدمہ پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ پیٹ کے بچے کا تاوان ایک غلام باندی ہے اور عورت کی دیت اس کے قاتلہ کے عاقلہ ( ددھیال کے رشتہ داروں ) پر ہے اور عورت (مقتولہ ) کی اولاد اور اس کے رشتہ داروں کو اس ( دیت) کا وارث قرار دیا۔
حمل بن نابغہ ہزلی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا تاوان کیسے ادا کروں جس نے کھایا نہ پیا، نہ بولا نہ چلایا ایسے بچے کی دیت نہیں دی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مسجع عبارت ( قافیہ والی عبارت) کی وجہ سے یہ شخص کا ہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے ) اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ ماں کے پیٹ کا بچہ ایک مستقل وجود رکھتا ہے جس کی وجہ سے ماں کی دیت کے علاوہ بچے کی الگ دیت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ اور فقہاء کے ہاں یہ بھی مسلم ہے کہ ماں کے پیٹ کے اندر بچے میں روح پڑھنے سے پہلے تو کسی شدید ضرورت کی بنا پر حمل گرانا جائز ہے۔ لیکن بچے میں روح پڑ جانے کے بعد حمل گرانا قتل کے حکم میں آتا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن حزم لکھتے ہیں۔
وان كانت عمدت قتله فالقود عليها او المعاداة في مالها اور اگر اس نے بچہ کو قتل کرنے کے ارادے سے اسقاط کیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا اس کے مال سے تاوان لیا جائے گا۔ (محلی ابن حزم ج 1 ص 31)
چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ جب عقلا و شرعاجانور اور اس کے پیٹ کا بچہ دو الگ وجود ہیں تو ایک کو ذبح کرنے سے دوسرا حلال نہیں ہو سکتا۔ تجربہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ ذبح نہیں ہوتا۔ کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اس کے پیٹ سے زندہ نکل آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جانور کے پیٹ میں موجود بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے ذبح نہیں ہوتا۔ بلکہ ماں کی موت کے بعد سانس رک جانے کی وجہ سے دم گھٹ کر بھی مرجاتا ہے اور یہی چیز ہے کہ جس کو قرآن نے نام لے کر حرام قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
حُرّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَ الْمُتَرَذِيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَيْتُمْ (پارہ نمبر6 سورۃ المائدہ آیت نمبر 3) تم پر حرام کئے گئے ہیں مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نامزد کر دیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوئے اور جو کسی ضرب سے مر جائے اور جو اونچے سے گر کر مر جاوئے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوئے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔
اس لئے امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ جانور کے پیٹ سے مردہ نکلنے والے بچے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ چونکہ اس کی (یعنی مردہ نکلنے والے بچے کی ) حرمت نص قرآنی سے ثابت ہے قرآن نے میتہ کو حرام کہاہے اور یہ میتہ ہے۔
تابعی کبیر حضرت امام ابراہیم نخعی نور اللہ مرقدہ کا حوالہ :
و كان يروى عن حماد عن ابراهيم انه قال لا تكون زكوة نفس
حضرت ابراہیم نخعی نور اللہ مرقدہ کا قول ہے کہ ایک کا ذبح کرنادو کا ذبح کرنا نہیں ہو سکتا۔
موطا امام حمد کتاب اضحایا باب ذکوة الجنین زکوة وامه )
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ فقہ حنفی کا اس مسئلہ میں قرآن پر عمل ہے ہم نے یہاں پر صرف ایک آیت نقل کی ہے ویسے قرآن میں میتہ کے حرام ہونے پر کئی آیات موجود ہیں۔ رہی وہ روایت جو مولانا بدیع الدین صاحب غیر مقلد نے نقل کی ہے۔ اس کا ایسا مفہوم لینا ضروری ہے جو قرآن کے مطابق ہو اس لئے فقہائے احناف نے اس حدیث کی کئی توجیہیں کی ہیں تاکہ یہ حدیث قرآن کے مطابق ہو جائے ۔ اور قرآن و حدیث میں جو بظاہر تعارض نظر آرہا ہے وہ ختم ہو جاے ۔
ہم یہاں پر صرف دو توجیہیں نقل کرتے ہیں۔
پہلی توجیہ یہ ہے کہ یہ حکم اس بچے کے بارے میں ہے جس کے اندر ابھی روح نہ ڈالی گئی ہوروح ڈالنے سے قبل چونکہ وہ کوئی الگ زندہ وجود نہیں ہوتا بلکہ محض ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہےاس لیے ذبح کرنے میں بھی وہ ماں کے تابع ہوگا۔ علامہ ابن حزم نور اللہ مرقدہ کی روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کا فتوی بھی اس صورت میں یہی ہے۔ البتہ روح پڑ جانے کے بعد اس کو ماں کے تابع قرار دینا مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظر ممکن نہیں۔ اس صورت میں یہ ماں کے ذبح کرنے سے حلال نہیں ہوگا۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ کا ترجمہ عربی زبان کی رو سے جسے وہ ہو سکتا ہے جو مولانا بدیع الدین صاحب نے کیا ہے اس طرح یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ جانور کے پیٹ کے بچے کو ذبح کرنا اس کی ماں کو ذبح کرنے ہی کی طرح ہے۔ یعنی جس طرح جانور کو ذبح کیا گیا ہے اسی طرح اس کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی ذبح کرنا ضروری ہے اس کے بغیر وہ حلال نہیں ہوگا۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جانور کے پیٹ سے مردہ نکلنے والا بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے ذبح نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے ذبح ہو جانے کے بعد دم گھٹنے سے اور سانس رُک جانے کی وجہ سے وہ مر جاتا ہے اور قرآن مجید نے ایسے جانور کو حرام قرار دیا ہے اس لئے حدیث کو یا تو اس جانور پر محمول کیا جائے گا جس میں ابھی روح نہیں ڈالی گئی یا یہ معنی لیا جائے گا کہ اس کی ماں کی طرح اس کے بچے کو بھی ذبح کرنا ضروری ہے۔
اگر ان میں سے کوئی سی توجیہہ بھی اختیار کی جائے تو یہ حدیث قرآن کے مطابق ہو جاتی ہے حنفی مذہب قرآن وحدیث کے مطابق قرار پاتا ہے۔
حنفی مذہب میں احتیاط کا پہلو زیادہ نمایا ہے
امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ ہی یہ حلال و حرام کے مسائل میں زیادہ سخت ہیں کسی چیز میں زرا بھی حرام کا شبہ پڑ جائے آپ اس سے منع کرتے ہیں۔ اور آپ کا یہ نظریہ حدیث کے مطابق ہے۔
حديث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے سو جو شخص ان مشتبہات سے بچا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچالی اور جو مشتبہات میں جا پڑا (گویا) وہ حرام میں جا پڑا جیسے چراگاہ کے ارد گرد جانوروں کو چرانے والا قریب ہے کہ چراگاہ میں جا پڑھے۔
(بخاری ج 1 ص 13 ابن ماجہ بن ص 296 )
حديث:
آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے تردد اور اشتباہ میں ڈالے۔ (مستدرک حاکم ج 2 ص 12)
ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن امور میں شک وشبہ ہو اس کو چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں حنفی مذہب قرآن وحدیث کے مطابق ہے مخالف نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں