نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابوبکر جصاصؒ اور مذہبِ اعتزال


امام ابوبکر جصاصؒ اور مذہبِ اعتزال؛ ایک تحقیقی جائزہ

 ( مولانا عصمت اللہ نظامانی حفظہ اللہ . تخصص فی علوم الحدیث جامعۃ الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی)
[یہ تحقیقی مضمون ،مجلہ  " راہ ہدایت " شمارہ نمبر 7 سے پیش کیا گیا ہے۔
مجلہ راہ ہدایت گروپ میں شمولیت کیلئے رابطہ کریں      Whatsapp :            03428970409  ]
 اصل موضوع شروع کرنے سے قبل چند باتیں بطورِ تمہید ملحوظ رہیں:
(1)۔۔۔کسی نظریاتی فرقے یا فقہی مذہب وغیرہ سے چند مسائل اورفروع میں موافقت کرنے سے کسی شخص کو اس فرقے یا مذہب کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، عقیدے یا فقہی نسبت کے لیے اس کا اقرار یا اکثر مسائل میں اتفاق ضروری ہے۔چنانچہ امام طحاوی وابن ہمام وغیرہ متعدد فقہی مسائل میں مذہبِ احناف سے ہٹ کر علیحدہ موقف رکھتے ہیں، یا دوسرے ائمہ کرام مثلاً مالک وشافعی وغیرہ کی رائے کو راجح قرار دیتےہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں بدستور حنفی ہی شمار کیا جاتا ہے، اس اختلاف کی بنا پر وہ احناف سے نہیں نکلیں گے، اور نہ مالکی وشافعی وغیرہ ہوں گے۔
(2)۔۔۔ معتزلہ فرقے کے بنیادی عقائد اور اصول راجح قول کے مطابق پانچ ہیں، جن پر ان کے فرقے کی بنیاد اور مدار ہے، جیساکہ قاضی عبد الجبار معتزلی (ت:415ھ) نے لکھا ہے۔ (۱)
 1۔ توحید،2۔ عدل، 3۔ وعدہ اور وعید، 4۔ منزلہ بین المنزلتین، 5۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔
ان اصولوں کی مختصر وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔(۲)
توحید: اس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفات ازلیہ جیسے سمع، بصر، کلام وغیرہ کا انکار کرتے ہیں۔
عدل: معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال حسن ہیں، اور چونکہ بندوں کے افعال قبیح بھی ہوتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق نہیں۔اسی طرح بندوں کے حق میں جو اچھا اور صالح ہو ، اسے بھی اللہ تعالیٰ پر واجب مانتے ہیں، نیز اس عقیدے کے درپردہ تقدیر کا انکار بھی کرتے ہیں۔
 3۔ وعدہ اور وعید: نیک مسلمانوں کو ثواب وجنت عطا کرنا ، اور کفار وگناہ گاروں کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ پر واجب سمجھتے ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیکیوں پر ثواب کا وعدہ کیا ہے، اور کفر وگناہوں پر عذاب کی وعید بتلائی ہے، تو وعدہ اور وعید کو پورا کرنا ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔
منزلہ بین المنزلتین:ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے آدمی دائرۂ ایمان سے نکل جاتا ہے، البتہ کفر میں بھی داخل نہیں ہوتا، بلکہ ایمان اور کفر کے درمیان رہتا ہے، اگر اس حالت میں مرگیا تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: لوگوں کو اپنے عقیدے پر لانا واجب جانتے ہیں، چاہے اس کے لیے جبر اور سختی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
(3)۔۔۔ اگر کوئی شخص ان پانچ اصولوں میں سے ایک دو میں معتزلہ کی موافقت کرے گا تو بھی اس کو معتزلی نہیں کہا جاسکتا، جب تک کہ ان پانچوں اصولوں میں ان کی موافقت نہ کرے، جیساکہ معتزلہ کے امام شیخ خیاط(جس کو امام ذہبی نے علم کا سمندر اور ابوعلی جبائی کے مثل قرار دیا ہے) (۳) تحریر فرماتے ہیں:
وليس يستحق أحد منهم اسم الاعتزال حتی يجمع القول بالأصول الخمسة: التوحيد، والعدل، والوعد والوعيد، والمنزلة بين المنزلتين، والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، فإذا كملت في الإنسان هذه الخصال الخمس فهو معتزلي. (۴)
ترجمہ: اور ان (ایک دو اصولوں میں معتزلہ کی موافقت کرنے والوں)میں سےکوئی بھی "اعتزال"کے نام کا مستحق نہیں ہوگا، یہاں تک کہ ان پانچ اصولوں کا قائل ہو، توحید، عدل ، وعدہ اور وعید، منزلہ بین المنزلتین، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ جب یہ پانچوں اوصاف کسی میں مکمل ہوں گے تو وہ معتزلی ہوگا۔
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ امام ابوبکر جصاص کے معتزلی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق اہل ِعلم میں کافی اختلاف ہے، اور عربی زبان میں اس پر کافی مواد جمع ہوچکا ہے، ذیل میں دلائل سے امام جصاص کے معتزلی ہونےیا نہ ہونے کے بارے میں جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
امام جصاص کے معتزلی ہونے پر دلائل:
جو حضرات امام جصاص کو معتزلی، یا مذہب اعتزال کی طرف مائل اور اس سے متاثرکہتے ہیں،وہ عموماً درجِ ذیل امور سے استدلال کرتے ہیں۔
(الف)۔۔۔ بعض تذکرہ نگاروں نے امام جصاص کو معتزلی اور مذہبِ اعتزال کی جانب میلان رکھنے والا قرار دیا ہے۔
علامہ ذہبی تحریر فرماتے ہیں:
وقيل: كان يميل إلى الاعتزال، وفي تواليفه ما يدل على ذلك في رؤية الله وغيرها، نسأل الله السلامة. (۵)
کہا گیا ہے کہ وہ مذہبِ اعتزال کی طرف مائل تھے، اور ان کی تالیفات میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت وغیرہ سے متعلق ایسی چیزیں ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی مانگتےہیں۔
اسی طرح بعض دیگر اہل علم نے بھی امام جصاص کو مذہبِ اعتزال سے متاثر مانا ہے، چنانچہ ڈاکٹر محمد سید حسین رقم طراز ہیں:
نجد الجصَّاص يميل إلى عقيدة المعتزلة، ويتأثر بها فى تفسيره. (۶)
ہم جصاص کو معتزلہ کے عقیدے کی طرف مائل، اور تفسیر میں اس سے متاثر پاتے ہیں۔
(ب)۔۔۔ امام جصاص کو طبقاتِ معتزلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔چنانچہ المہدی لدین اللہ احمد بن یحیی معتزلی (ت:840ھ) نے انہیں "طبقات المعتزلۃ" میں بارہویں طبقے میں ذکر کیا ہے۔(۷)
نیز منصور باللہ نے بھی امام جصاص کو "طبقاتِ معتزلہ" میں ذکرکیا ہے۔(۸)
(ج)۔۔۔امام جصاص کے متعدد اساتذہ معتزلی تھے، جن میں سرِ فہرست ان کےخاص استاد، مشہور ومعروف امام ابوالحسن کرخی ہیں، بلکہ ان کو "رأسافی الاعتزال"کہا گیا ہے۔(۹)
(د)۔۔۔ امام جصاص نے اہل سنت اور معتزلہ کے درمیان اختلافی مسائل میں سے متعدد نظریات میں معتزلہ کا مذہب اپنایا اور راجح قرار دیا ہے۔ان مسائل میں سے بعض درجِ ذیل ہیں۔
1:۔ رؤیتِ باری تعالیٰ کا انکار:
اہلِ سنت اور معتزلہ کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ قیامت کے دن باری تعالیٰ کی رؤیت ہوگی یا نہیں؟ اہل سنت کے نزدیک رؤیت ممکن ہے، اور نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ جنت میں رؤیتِ باری تعالیٰ ہوگی۔ 
جبکہ معتزلہ اسے نہیں مانتے، جیساکہ قاضی عبد الجبار معتزلی لکھتے ہیں:
ومما يجب نفيه عن الله تعالی الرؤية. (۱۰)
ترجمہ: جن اشیاء کی اللہ تعالی سے نفی کرنا واجب ہے، ان میں سے ایک رؤیت ہے۔
امام جصاص نے بھی اس مسئلے میں معتزلہ کی موافقت کی ہے، چنانچہ احکام القرآن میں"{لا تدركہ الأبصارُ}" آیت کے تحت فرماتے ہیں:
فلما تمدح بنفي رؤية البصر عنه لم يجز إثبات ضده ونقيضه بحال.
یعنی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ذات سے رؤیت کی نفی بطورِ مدح بیان کی ہے تو اس کی ضد اور نقیض (یعنی رؤیت) کا اثبات کسی طور پرجائز نہیں ہوگا۔
اور جس آیت سے رؤیت پر استدلال کیا جاتا ہے، اس میں انہوں تاویل کی ہے، جیساکہ لکھتے ہیں:
ولا يجوز أن يكون مخصوصا بقوله تعالى {وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة} لأن النظر محتمل لمعان، منه انتظار الثواب.
یعنی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "{وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة}" (ترجمہ: اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے)سے پہلی آیت کی تخصیص نہیں ہوسکتی، کیونکہ لفظِ"نظر" متعدد معانی کا احتمال رکھتا ہے، ان میں سے ایک ثواب کا انتظار بھی ہے۔
اسی طرح جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے، ان میں تاویل وتوجیہ کرتے ہیں، جیساکہ مندرجہ ذیل عبارات سے یہ بات معلوم ہوگی۔
والأخبار المروية في الرؤية إنما المراد بها العلم لو صحت ۔ ۔ ۔ لأن الرؤية بمعنى العلم مشهورة في اللغة.(۱۱)
ترجمہ: رؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں مروی احادیث اگر درست ہوں تو وہاں رؤیت سے مراد علم ہے ۔۔۔کیونکہ لغت میں رؤیت کا علم کے معنی میں استعمال مشہور ہے۔
2:۔ سحر وجادو کی حقیقت سے انکار:
اہل سنت کے نزدیک سحر کی حقیقت ہے، وہ محض ایک تخیلی چیز نہیں، جبکہ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں(۱۲)، امام جصاص نے بھی معتزلہ کی طرح سحر کی حقیقت اور اس کے اجسام وغیرہ پر اثرات کا انکار کیا ہے، بلکہ اسے ایک تخیلی چیز قرار دیا ہے، اور جن آیات میں سحر کا ذکر ہے، ان میں تاویل کرتے ہیں، اور سحر کے بارے میں وارد احادیث کا انکار کرتے ہیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر ہونے سے متعلق بخاری ومسلم کی روایت کو منگھڑت کہا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وقد أجازوا من فعل الساحر ما هو أطم من هذا وأفظع، وذلك أنهم زعموا أن النبي عليه السلام سحر، وأن السحر عمل فيه حتى قال فيه: "إنه يتخيل لي أني أقول الشيء وأفعله ولم أقله ولم أفعله" وأن امرأة يهودية سحرته في جف طلعة ومشط ومشاقة، حتى أتاه جبريل عليه السلام فأخبره ۔ ۔ ۔ ومثل هذه الأخبار من وضع الملحدين . (۱۳)
ترجمہ: لوگوں نے ساحر کے اس سے بڑے اور شنیع فعل کی اجازت دی ہے، اور یہ گمان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا گیا، اور سحر نے آپﷺ پر اثر بھی کیا، یہاں تک آپﷺ نے فرمایا: مجھے ایسے لگتا تھا کہ میں نے کوئی بات کہی ہے یاکام کیا ہے، جبکہ میں نے وہ بات نہیں کہی ہوتی تھی، اور وہ کام بھی نہ کیا ہوتا تھا، اور یہ ایک یہودی عورت نے کھجور کے خوشے کے غلاف، کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں سحر کیا تھا، یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام نے آکر خبر دی ۔۔۔ اس قسم کی احادیث ملحدین کی وضع کردہ ہیں۔
اسی طرح بعض دیگر صفات میں بھی معتزلہ کا مذہب اپنایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ امام جصاص معتزلی تھے، یا کم از کم اعتزال کی سے متاثر اور اس کی طرف مائل تھے۔

امام جصاص کو معتزلی ثابت کرنےوالے دلائل کا جواب:

اگر دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو پہلے تین دلائل سطحی معلوم ہوں گے۔
پہلی دلیل کا جواب:
 اولاً : امام جصاص کاتذکرہ لکھنے والے بیسیوں حضرات میں سے صرف چند ایک نے انہیں معتزلی یا اعتزال کی جانب مائل کہا ہے، باقی بہت سے سوانح نگاروں نے ان کو اعتزال کی طرف منسوب نہیں کیا۔ 
ثانیاً: جن حضرات نے امام جصاص کو معتزلی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان کے پیشِ نظر وہ بعض مسائل تھے جن میں امام جصاص بظاہر معتزلہ کے موافق معلوم ہوتے ہیں، جیسے مسئلہ رؤیت ِباری تعالی اور مسئلہ انکار سحر وغیرہ۔ لیکن آگے دلیل نمبر چار کے جواب سے معلوم ہوگا کہ ان مسائل میں بھی امام جصاص نے معتزلہ کی تقلید نہیں کی۔
دوسری دلیل کا جواب: 
ابن المرتضی معتزلی وغیرہ کے امام جصاص کو طبقات ِمعتزلہ میں ذکر کرنے سے ان کا معتزلی ہونا لازم نہیں آتا؛ کیونکہ ابن المرتضی نے خلفائے راشدین اور بعض دیگر صحابہ کرام کو بھی طبقاتِ معتزلہ میں ذکر کیا، اور پہلے طبقے میں ان کو شمار کیا ہے(۱۴)۔تو جس طرح طبقات معتزلہ میں ان صحابہ کرام کے ذکر سے ان کا معتزلی ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح امام جصاص کا طبقات معتزلہ میں ذکر ان کے معتزلی ہونے کی دلیل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
تیسری دلیل کا جواب: 
امام کرخی وغیرہ کو معتزلی قرار دینا محلِ نظر ہے، اگر بالفرض انہیں معتزلی مان لیا جائے تو بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے شاگرد امام جصاص بھی معتزلی ہوں؛ کیونکہ ائمہ کرام، خصوصاً متقدمین میں سے شاید ہی کوئی ایسا فقیہ یا محدث وغیرہ ہو جس کے اساتذہ معتزلہ، اہلِ تشیع یا خوارج وغیرہ میں سے نہ ہوں۔ امام شافعی ہوں یا امام بخاری ، ان کے بعض مشہور اور خاص اساتذہ بھی اہلِ بدعت میں سے تھے۔ لہٰذا امام جصاص کے بعض اساتذہ اگر معتزلہ ہوں تو بھی اس سے امام جصاص کا معتزلی ہونا لازم نہیں آئے گا۔
چوتھی دلیل کا جواب:
 اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ امام جصاص نے انکارِ رؤیت اور انکارِ سحر وغیرہ مسائل میں معتزلہ کی موافقت کی ہے، لیکن درحقیقت اس طرح نہیں، جس کی وضاحت حسبِ ذیل ہے۔
انکارِ رؤیت کا جواب:
اولاً: امام جصاص نے معتزلی ہونے یا معتزلہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے رؤیت باری تعالیٰ کا انکار نہیں کیا، بلکہ یہ ان کی اپنی تحقیق تھی، اور دلائل سے انہیں "انکارِ رؤیت"وغیرہ کا مسلک راجح لگا ہوگا۔ اگرچہ بظاہر اس سے معتزلہ کی موافقت ہوگئی ہو، لیکن حقیقت میں یہ ان کی اپنی رائے اورتحقیق تھی، معتزلہ کی پیروی اور تقلید نہیں تھی، تو یہ ان کا ایک قسم کا تفرد ہوا۔
ثانیاً: بعض سلف صالحین مثلاً امام مجاہد وغیرہ نے بھی رؤیتِ باری تعالیٰ سے انکار کو راجح قرار دیا ہے، اور جن آیات سے رؤیت کا اثبات ہو رہا ہے، ان کی تاویل کی ہے(۱۵) ۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام جصاص نے ان حضرات کی رائے راجح قرار دی ہے، نہ کہ معتزلہ کی رائے۔
انکارِ حقیقتِ سحرکا جواب:
اولاً: سحر کی حقیقت اور اس کے اجسام وغیرہ پر اثرات سے انکار متعدد اہل علم حضرات سے منقول ہے، جن میں ابو اسحاق اسفرائینی شافعی(۱۶) اور امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں۔چنانچہ علامہ ابن کثیر نے وزیر ابو المظفر ابن ہبیرہ کا قول نقل کیا ہے:
أجمعوا على أن السحر له حقيقة إلا أبا حنيفة فإنه قال: لا حقيقة له عنده. (۱۷)
ترجمہ: اہلِ علم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ سحر کی حقیقت ہے، سوائے امام ابوحنیفہ کے، کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک سحر کی کوئی حقیقت نہیں۔
لہٰذا اس مسئلے میں امام جصاص نے معتزلہ کی اقتداء نہیں کی، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا کہ انہوں نے امام صاحب کی پیروی کی ہے۔اس لیے اس مسئلے سے امام جصاص کے اعتزال پر استدلال کرنا درست نہیں ہوگا۔
ثانیاً: اگر امام ابوحنیفہ کی طرف حقیقتِ سحر سے انکار والی بات کی نسبت درست نہ ہو، اور امام صاحب بھی جمہور کی طرح حقیقتِ سحر کے قائل ہوں تو بھی ظاہری موافقت سے امام جصاص کو معتزلی نہیں قرار دیا جاسکتا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یہ امام جصاص کی اپنی تحقیق تھی، ان کے نزدیک حقیقتِ سحر سے انکار راجح تھا، اور یہ ضروری نہیں کہ ان کا ہر قول درست ہو۔
اسی طرح سحر کی حقیقت سے متعلق احادیث صحیحہ کا انکار بھی امام جصاص کی اپنی رائے تھی جس کا درست ہونا ضروری نہیں۔

امام جصاص کو معتزلی نہ ماننے والوں کے دلائل:

امام جصاص کی کتب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ اہلِ سنت والجماعت سے ہیں، معتزلی نہیں ہیں، بلکہ ان کی کتب میں تو معتزلہ اور ان کے عقائد پر اچھا خاصا رد موجود ہے، ذیل میں اجمالی طور پر امام جصاص کے معتزلہ میں سے نہ ہونے پر چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں۔
عذابِ قبر کا اثبات:
معتزلہ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں،جیساکہ امام ابوالحسن اشعری نے ذکر کیا ہے(۱۸)۔ لیکن امام جصاص نے متعدد مقامات پر اسے ثابت کیا ہے، اور اس کا نکار کرنے والوں پر رد کیا ہے، چنانچہ امام جصاص سورت بقرہ کی آیت(154) کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:
فثبت أن المراد الحياة الحادثة بعد موتهم قبل يوم القيامة. وإذا جاز أن يكون المؤمنون قد أحيوا في قبورهم قبل يوم القيامة، وهم منعمون فيها، جاز أن يحيا الكفار في قبورهم فيعذبوا، وهذا يبطل قول من ينكر عذاب القبر. (۱۹)
ترجمہ: پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد ان کی موت کے بعد قیامت سے قبل پیش آنے والی زندگی ہے۔ اور جب یہ بات جائز ہے کہ مؤمن اپنی قبروں میں قیامت سے پہلے زندہ ہوں، اور انہیں نعمتیں دی جاتی ہوں، تو یہ بھی جائز ہوگا کہ کفار کو ان کی قبور میں زندہ کیا جائے اور عذاب دیا جائے، یہ بات عذابِ قبر کا انکار کرنے والے کا قول باطل کردیتی ہے۔
اسی طرح سورت بقرہ کی آیت (143) کے تحت لکھتے ہیں:
وفي هذه الآية دلالة على بطلان قول من أنكر عذاب القبر. (۲۰)
اس آیت میں اس شخص کے قول کے بطلان پر دلالت ہے جس نے عذابِ قبر کا انکار کیا ہے۔
مرتکبِ کبیرہ کا دائرۂ ایمان سے خارج نہ ہونا:
امام ابوبکر جصاص نے اپنی مشہور کتاب "الفصول فی الاصول"میں امام ابوحنیفہ کا مذہب نقل کیا ہے کہ ارتکابِ کبائر سے مسلمان دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا، بلکہ بدستور مؤمن رہتا ہے، اگر توبہ کیے بغیر اس کا انتقال ہوجائے تو بھی اللہ تعالیٰ پر اس کو عذاب دینا لازم نہیں، بلکہ اگر عذاب دئیے بغیر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرنا چاہیے تو ایسا کرسکتا ہے۔اور پھر امام جصاص نے پانچ (5) آیات ذکر کرکے اس مذہب کی تائید کی ہے، بعدازاں تحریر فرمایا ہے:
وإنما جعل التخليد في النار مقصورا على الكفار بهذه الآيات ونحوها. (۲۱)
یعنی ان آیات وغیرہ کی وجہ سے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا عذاب کفار میں منحصر کیا گیا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس سے معتزلہ کے تیسرےاور چوتھے اصول یعنی وعدہ، وعید اور منزلہ بین المنزلتین کی صریح مخالفت ہوتی ہے۔

خلاصۂ کلام:

اس پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جصاص اہلِ سنت میں سے ہیں، ان کی کتب اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ اور چند ایک مسائل کو لے کر ان کو معتزلی قرار دینا، یا اعتزال کی جانب مائل اور اس سے متاثر سمجھنا ایک کمزور اور سطحی رائے ہے؛ کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ ان چند مسائل میں امام جصاص نے اپنی تحقیق سے جمہور اہل سنت کے خلاف موقف کو راجح قرار دیا ہے، تو ایسے مسائل ان کے تفردات وشذوذات میں شمار ہوں گے،معتزلہ کی تقلید یا ان سے متاثر ہوکر وہ موقف نہیں اختیار کیا۔
دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض ان چند ایک مسائل میں امام جصاص کو معتزلہ کی موافقت کرنے والا مان لیں تو بھی انہیں معتزلی نہیں کہا جاسکتا، جیساکہ تمہید میں"خیاط معتزلی" کے حوالے سے یہ بات گزرچکی ہے کہ جب تک کوئی شخص معتزلہ کے پانچوں اصولوں میں موافقت نہ کرے، محض ایک دو اصولوں میں موافقت کرنے سے وہ معتزلی نہیں کہلائے گا۔ اور امام جصاص نے پانچ اصول تو کجا، صرف ایک اصول کے بعض مسائل میں ان کے موافق معلوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کو معتزلی قرار دینادرست نہیں ہوگا۔
حواشی وحوالہ جات
(۱) الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار، (ص:67)، الناشر: لجنة التاليف والتعريب والنشر لجامعة الكويت، ط:1998م
(۲) انظر لمزيد التوضيح! المعتزلة وأصولهم الخمسة وموقف أهل السنة منها لعواد بن عبد الله، (ص:81 وما بعدها)، الناشر: مكتبة الرشد- الرياض، ط:1416ه- 1995م
(۳) سير أعلام النبلاء للذهبي، (134/11)، الناشر: دار الحديث- القاهرة، ط:1427ه- 2006م
(۴) كتاب الانتصار والرد علی ابن الروندي الملحد للخياط، (ص:126-127)، الناشر: دار الكتب المصرية- القاهرة، ط:1344ه- 1925م
(۵) سير أعلام النبلاء للذهبي، (344/12)
(۶) التفسير والمفسرون، للدكتور محمد السيد حسين الذهبي، (2/326)، الناشر: مكتبة وهبة- القاهرة
(۷) طبقات المعتزلة، لابن المرتضی، (ص:118)، الناشر: دار مكتبة الحياة- بيروت، ط:1380ه- 1961م
(۸) الإمام أحمد بن علي الرازي الجصاص: دراسة شخصيته وكتبه لعجيل جاسم النشمي، (ص:51)، الناشر: دار القرآن الكريم- الكويت، ط: 1400ه- 1980م
(۹) تاريخ بغداد للخطيب، (74/12)، الناشر:دار الغرب الإسلامي- بيروت، ط:1422ه- 2002م
(۱۰)شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار، (ص: 232)، الناشر: مكتبة وهبة، ط: الثالثة، 1416ه- 1996م
(۱۱) أحكام القرآن للجصاص، (6/3)، الناشر: دار الكتب العلمية- بيروت، ط:1415ه- 1994م
(۱۲) الجامع لأحكام القرآن للقرطبي، (46/2)، الناشر: دار الكتب المصرية- القاهرة
(۱۳) أحكام القرآن للجصاص، (58،59/1)
(۱۴) طبقات المعتزلة لأحمد بن يحيی بن المرتضی، (ص:9)
(۱۵) الجامع لأحكام القرآن للقرطبي، (108/9)- فتح القدير للشوكاني، (407/5)، الناشر:دار ابن كثير، ط:1414ه
(۱۶) الجامع لأحكام القرآن للقرطبي، (46/2) 
(۱۷) تفسير القرآن الكريم لابن كثير، (255/1)، الناشر: دار الكتب العلمية- بيروت، ط:1419ه
(۱۸) الإبانة عن أصول الديانة لأبي الحسن الأشعري، (ص:247)، الناشر: دار الأنصار- القاهرة، ط:1397ه
(۱۹) أحكام القرآن للجصاص، (113/1)
(۲۰) المصدر السابق: (547/1)
(۲۱) الفصول في الأصول للجصاص، (103/1)، الناشر: وزارة الأقاف الكويتية، ط:1414ه- 1994م


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...