سلطان محمود غزنوی کی حنفیت سے توبہ کی داستان۔
سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ حنفی تھے لیکن علم حدیث اور محدثین سے رغبت رکھتے تھے، انہوں نے دیکھا حنفی مذہب کے اکثر مسائل قرآن و سنت کے خلاف ہیں جبکہ شافعی مذہب کے زیادہ تر قرآن و سنت کے مطابق ہے،
سلطان محمود غزنوی نے فیصلہ کرنے کے لیے اپنے دربار میں ایک مناظرے کا اہتمام کیا جس میں محدثین، شافعی اور حنفی مسلک کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا، اور رائے زنی کی گئی مناظرے کا طریقہ کار کیا ہو گا، بالآخر یہ طے پایا کہ دو رکعت نماز شافعی مذہب کے طریقے سے اور دو رکعت نماز حنفی مذہب کے طریقے سے دربار میں سب کے سامنے پڑھی جائے گی تاکہ دیکھا جائے کونسا مذہب قرآن و سنت کے زیادہ قریب ہے،
"بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا"
حضرت قفال مروزی رحمہ اللہ جو ایک زبردست عالم اور دونوں مذہب شافعی اور حنفی سے خوب واقف تھے کو حکم دیا گیا کہ دونوں مذہبوں کے مطابق دربار میں دو دو رکعت نماز پڑھ کر دکھائیں،
حضرت قفال مروزی نے پہلے شافعی مذہب کے مطابق دو رکعت نماز پڑھی
جس میں اچھا پاک لباس پہن کر کامل وضو کیا، قبلہ کی طرف رخ کر کے باادب خشوع و خضوع رفع الیدین کے ساتھ دو رکعت پڑھیں، جس میں نہ کسی فرض کو چھوڑا نہ سنت کو اور نہ ہیت کو،
پھر سلطان محمود غزنوی نے حکم دیا کہ اب حنفی مذہب کے مطابق دو رکعت پڑھیں، وہ دو رکعت جو امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہوں،
قفال رحمہ اللہ نے کتے کی رنگی ہوئی کھال منگوائی اور پہن لی، اور اس کا ایک چوتھائی حصہ نجاست سے آلودہ کر لیا، اور کھجوروں کی نبیذ سے الٹا سیدھا وضو کیا، یعنی پہلے پاؤں دھوئے پھر ہاتھ پھر منہ بے ترتیبی سے وضو کیا، گرمی کا موسم تھا بدن پر مکھیاں بھنبھنانے لگی اور ایک تماشہ بن گیا،
جب نماز شروع کى تو الله اکبر کہنے کی بجائے فارسى ميں " خدا بزرگ خدا بزرگ تراست" کہہ کر بجائے قرآن پڑھنے کے چھوٹى سى آيت مدها متان " کا ترجمه "دو برگ سبز" فارسى ميں پڑھ دئے، اور بغير باقاعده اطمنان کے ساتھ رکوع کرنے کے دو سجدے کر لئے اور وه بهى کيا تهے جيسے مرغ زمين سے دانا اٹھاتا هو اور دو سجدوں کے درميان جلسہ بهى نہ کيا ’ اس طرح دو رکعت پڑھ کر سلام کے بجائے گوز "پاد" مار ديا اور فارغ هو گئے،
اور سلطان سے کهنے لگے یہ حنفى مذہب کى جائز نماز ہے،
سلطان محمود غزنوی بے حد طيش ميں آ گیا اور نہایت غصے هو کر قفال رحمہ اللہ سے کہنے لگا،
اے قفال اگر اس ميں کچھ بهى غلطى ہوئى اور يہ نماز حنفى مذهب کى جائز کى ہوئى نماز کے مطابق نہ ہوئى تو ميں اللہ کى قسم تيرى گردن اڑا دوں گا،
یہ تو ايسى نماز ہے جسے کوئى ديندار جائز نہیں کہہ سکتا،
وہاں حنفی مذہب کے علماء بھی موجود تھے انہوں نے کہا بادشاہ سلامت یہ شخص جھوٹ کہتا ہے،
قفال رحمہ اللہ نے کہا لاؤ حنفی مذہب کی سوہنی کتابیں، لہذا حنفی مذہب کی کتابیں منگوائی گئی،
وہاں دونوں مذہب کے علماء فریقین کی صورت موجود تھے لہذا ایک پڑھے لکھے عیسائی کو مقرر کیا گیا، اور اسے سلطان محمود غزنوی نے حکم دیا کہ قفال جو عبارت پیش کرے اس کا ترجمہ کرکے سب کے سامنے سناؤ،
قفال رحمہ اللہ نے وہ تمام مقام کھول کر سامنے رکھ دیے جس کے مطابق انہوں نے حنفی نماز پڑھ کر دکھائی تھی، عیسائی عالم نے ان کا ترجمہ کرکے سب کے سامنے سنا دیا،
سب کچھ دیکھ سن کر محمود غزنوی دربار میں کھڑا ہی اعلان کرتا ہے
"میں آج کے بعد حنفی مذہب سے توبہ کرتا ہوں"
امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ یہ واقعہ درج کرنے کے بعد اپنا فیصلہ لکھتے ہیں :
لو عرضعت الصلواة التى جوزها ابوحنيفه على الحامى لا متنح من قبولها و الصلواة عماد الدين قناهيک فساد اعتقاده فى الصلواة وضوحا على بطلان مذهبه
يعنى امام ابوحنيفہ نے جس نماز کو جائز کيا ہے اگر يہ نماز کسى گنوار اور جاہل کے سامنے بهى پيش کى جائے تو وه بهى اسے قبول نہ کريگا، اور جس مذہب نے نماز جيسى اسلام کى جڑ کو اس طرح بگاڑ رکها ہو اس مذہب کے باطل اور غلط ہونے ميں کيا شبہ ره گيا؟
:جواب
یہ واقعہ سب سے پہلے کٹر شافعی مقلد ، امام الحرمین جوینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " مغیث الخلق فی الاختیار الحق " صفحہ 58 ،59 پر نقل کیا ہے ۔اس کے بعد جتنے بھی لوگوں نے اس واقعہ کو لکھا ، سب نے امام الحرمین جوینی شافعی رحمہ اللہ سے ہی نقل کیا جیسے مورخ ابن خلکان شافعی رحمہ اللہ نے اسے وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان ، ﺍﻣﺎﻡ ﯾﺎﻓﻌﯽ شافعی رحمہ اللہ نے ﻣﺮﺍۃ ﺍﻟﺠﻨﺎﻥ ﺟﻠﺪ ﺳﻮﻡ ﮐﺎ ﺻﻔﺤﮧ 25، علامہ کمال الدین دمیری شافعی نے حاشیہ حیات الحیوان میں اور انگریز دور کے غیر مقلد جدید اہلحدیثوں نے اس جھوٹے واقعے کو اپنی مختلف کتب اور محدث فورم پر لکھا۔
اس جھوٹے واقعے کے منہ توڑ جوابات بہت بار دیئے جا چکے ہیں جنکا ہم مختصر ذکر کرے گیں لیکن ہمارا فریق مخالف انتہائی ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہے جو صرف اعتراض کرنا جانتا ہے ، جواب سننے کی ہمت ان جدید نام نہاد محققوں میں نہیں۔
1۔امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی نسل سے ہندوستانی فقیہ جناب ملا عبد النبی گنگوہی رحمہ اللہ نے ایک زبردست کتابچہ تحریر کیا جس کا نام رساله فی رد طعن القفال المروزي على الامام ابی حنیفہ ہے اور اس کتاب کا قلمی نسخہ کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن آندھرا پردیش بھارت میں موجود ہے۔ اس کتاب میں شیخ عبدالنبی گنگوہی نے قفال مروزی کے اُن تمام اعتراضات کا جواب بڑے مدل انداز میں دیا ہے جو قفال نے حنفی مکتب فقہ پر کئے ہیں۔
2.اس واقعے کا رد محدث و فقیہ امام ملا علی قاری ہروی حنفی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے تشييع فقهاء الحنفية لتشنيع سفهاء الشافعية میں اس جھوٹ کا رد کیا ہے ۔یہ رسالہ مخطوطہ کی شکل میں ہمارے ٹیلیگرام مکتہ النعمان سوشل میڈیا میں موجود ہے
3.اسی طرح خلافت عثمانیہ کے آخری نائب شیخ الاسلام جناب محقق امام محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب إحقاق الحق بإبطال الباطل في مغيث الخلق صفحہ 59 تا 63 اس واقعہ پر تفصیلی رد کیا
ہے.
4.ماضی قریب میں دارالعلوم دیوبند کے محدث کبیر جناب حضرت مولانا ابو المآثر حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ نے مقالات ابو المآثر جلد 1 ص 177 تا 206 میں اس واقعے پر سیر حاصل بحث کی ہے جسکو قارئین ہمارے بلاگ کے عنوان " نماز قفال مروزی " میں دیکھ سکتے ہیں ۔
5.تجلیات صفدر ج 1 ص 457 میں فاتح غیر مقلدیت مولانا امین اوکاڑوی رحمہ اللہ نے نماز قفال کی حقیقت کے عنوان سے زبردست تحقیقی مدلل جواب دیا ہے ۔
اس واقعہ کو نقل کرنے والے سب سے پہلے امام الحرمین ہیں جنکی پیدائش 419ہجری / 1028 عیسوی میں ہوئی
(سیر اعلاء النبلاء ج 18 ص 468/ طبقات الشافعية الكبرى - تاج الدين السبكي 5/168 )
جبکہ قفال مروزی رحمہ اللہ کی وفات 1027 عیسوی/ ہجری 418 میں ہوئی.
(سیر اعلاء ج 18 ص 405/
طبقات الفقهاء الشافعية - لابن الصلاح/طبقات الشافعية الكبرى - تاج الدين السبكي)
1030 عیسوی میں سلطان محمود غزنوی فوت ہوئے ۔
قارئین یہ کیسے ممکن ہیکہ جوینی رحمہ اللہ اپنی پیدائش سے ایک سال قبل نیشاپور سے غزنی 1350 کلو میٹر سفر طے کر کے آتے ہیں ،
ابھی پیدا نہ ہونے والے بچہ کو دربار میں آنے کی اجازت ملتی ہے ، اور یہ حضرت شافعی مسلک کے مطابق ایک ایک سنن مستحب یاد کرتے ہیں ، اور حنفی مسلک کے مسائل کو بھی یاد رکھتے ہیں ۔
سبحان اللہ
پھر یہ بچہ قفال مروزی کی وفات کے ایک سال بعد پیدا ہوتا ہے ، اور کئی سال بعد یہ واقعہ ہو بہو مغیث الخلق میں لکھتا ہے ؟
عجیب
جب ایک غیر مقلد مولوی نے اپنی تقریر میں قفال مروزی والے واقعے کا تذکرہ کیا تو محدث اعظمی رحمہ اللہ نے اسکا زبردست رد کیا۔۔محدث اعظمی لکھتے ہیں
اس کے بعد مولوی ابوالقاسم صاحب ایک مجتہدانہ شان سے رقم طراز ہیں کہ : "سلطان محمود غزنوی کا اہل حدیث عالم سے سفارت کا کام لینا شاید اس وقت شروع ہوا جب کہ وہ مشہور اہل حدیث فاضل قفال مروزی کی صحبت کے اثر سے مذہب حنفی کو خیر باد کہہ چکا تھا۔" (صفحہ8)
اس دو سطر کی عبارت میں مولوی صاحب نے اپنے اجتہاد کی خوب نمائش کی ہے۔
1۔ قفال مروزی کو اہل حدیث لکھنا حالانکہ وہ کٹر شافعی مقلد تھے۔[طبقات شافعیہ 3/198]
2۔ قفال مروزی کے مکذوب و جعلی قصہ کا اعادہ کیا حالانکہ وہ قصہ عقلاً ونقلاً باطل ہے، تفصیل کے لئے ملا علی قاری اور ملا عبدالنبی گنگوہی کے رسالے دیکھئے نیز "مخائل الافتعال علی صلٰوۃ القفال" نامی میرا رسالہ پڑھئے۔
3۔ سلطان محمود غزنوی کی حنفی مذہب سے بیزاری کا راگ الاپا، حالانکہ مسعود بن شیبہ اور عبدالقادر قرشی نے سلطان کو فقہائے حنفیہ میں شمار کیا ہے اور مدتوں تک فقہ حنفی میں سلطان کی ایک تصنیف تفرید نامی بلاد غزنہ میں مشہور و متداول رہ چکی ہے۔
نیز سلطان کی آخر حیات تک اس کی سلطنت کے قاضی القضاۃ ابو محمد ناصحی حنفی تھے، جیسا کے جواہر مضیہ ٔ میں ہے۔
4۔ اگر اہل حدیث سے سفارت کا کام لینا حنفی مذہب سے بیزاری کا اثر ہے، تو سفارت کے واقعہ کے بائیس برس بعد 412ھ میں قاضی القضاۃ ابو محمد ناصحی کو امیر حاج مقرر کرنا اور انہیں حنفی بزرگ کے ذریعہ حج کو از سر نو جاری کرانا (قرامطہ کے ظلم کی وجہ سے عرصہ دراز سے حج بند تھا) کیا مذہب حنفی سے گرویدگی اور اس کی برتری کا اعلان نہیں ہے؟حیرت ہے کہ یہ واقعہ بھی اسی تاریخ فرشتہ (جلد1صفحہ 46) میں مذکور ہے، مگر مولوی صاحب کو نظر نہیں آیا۔
(بحوالہ:تحقیق اہلِ حَدیْث، اثر خامہ محدثِ جلیل امیر الہند ابو المآثر حبیب الرحمٰن الاعظمی )
سلطان محمود غزنوی حنفی سے شافعی نہیں ہوئے ۔
دلیل :
سلطنت غزنویہ کے سلطان محمود نے اپنے دور حکومت میں جس کو اپنی عظیم الشان سلطنت کا قاضی القضاة یعنی چیف جسٹس بنایا وہ حنفی عالم دین تھے نہ کہ شافعی عالم دین ۔
جھوٹ نمبر ١۔
غیر مقلد اہل حدیث جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی 410 ہجری/١٠١٩ عیسوی تک حنفی سے شافعی ہو چکے تھے ۔جھوٹے اہل حدیثوں نے لکھا ہے
" 410 ہجری میں سلطان ممدوح خود بھی قفال مروزی محدث کے اثرصحبت سے اپنا حنفی مذہب چھوڑ چکا تھا"
(فتاویٰ علمائے حدیث جلد 12 ص 63-84)
برٹش اہلحدیثوں سے سوال نمبر ١:
ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر سلطان محمود غزنوی شافعی ہو چکے تھے تو انہوں نے اپنی سلطنت کا سب سے بڑا عہدہ یعنی قاضی القضاة ایک حنفی ہی کو کیوں بنایا اور انہوں نے ۴١٢ ہجری میں امیر حجاج ابو محمد ناصحی حنفی کو کیوں مقرر کیا ؟
جھوٹ نمبر ٢۔
غیر مقلد اہل حدیثوں نے دوسرا جھوٹ یہ بولا ہے کہ سلطان خود تو حنفی ہو چکے تھے لیکن سلطنت کے امور کی وجہ سے ان کو اپنی سلطنت میں سے حنفیت ختم کرنے کی فرصت نہ ملی ۔ غیر مقلد جھوٹ لکھتے ہیں کہ
" مگرغازی (سلطان محمود غزنوی) مرحوم اپنی ملکی مصروفیتوں کی مشغولیت کے سبب ہندوستان میں خالص اتباع کتاب کی تحریک کو کامیاب بنانے کےلئے کوئی مستقل ادارہ یا شعبہ قائم نہ کرسکے "
(فتاویٰ علمائے حدیث ،ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداء و انتہاء : جلد 12 ص 95-112)
برٹش اہلحدیثوں سے سوال نمبر ٢:
ہمارا ان جھوٹوں سے یہ سوال ہے کہ ایک حنفی عالم دین کو قاضی القضاة یعنی چیف جسٹس بنانا سلطنت کے امور سے باہر ہے کیا ؟بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سلطان نے اپنی سلطنت میں حنفی فقہ کو فروغ دیا ہے الحمداللہ۔
سلطان محمود غزنوی کے حنفی قاضی القضاة / چیف جسٹس
ابو محمد عبداللہ بن حسین ناصحی حنفی کا تعارف :
الترجمة :
عبد الله بن الْحُسَيْن أَبُو مُحَمَّد الناصحي قَاضِي الْقُضَاة وَإِمَام الْإِسْلَام وَشَيخ الْحَنَفِيَّة فى عصره والمقدم على الأكابر من الْقُضَاة وَالْأَئِمَّة فى دهره ولى الْقَضَاء للسُّلْطَان الْكَبِير مَحْمُود بن سبكتكين ببخارى لَهُ مجْلِس التدريس وَالنَّظَر وَالْفَتْوَى والتصنيف وَله الطَّرِيقَة الْحَسَنَة فى الْفِقْه المرضية عِنْد الْفُقَهَاء من أَصْحَابه وَكَانَ ورعا مُجْتَهدا قصير الْيَد توفّي سنة سبع وَأَرْبَعين وَأَرْبع مائَة وَقدم بَغْدَاد حَاجا سنة إثنتي عشرَة وَأَرْبع مائَة قَالَ الْخَطِيب وَكَانَ ثِقَة دينا صَالحا وَعقد لَهُ مجْلِس الْإِمْلَاء وروى الحَدِيث عَن بشر بن أَحْمد الأسفرايني وَالْحَاكِم أبي مُحَمَّد الْحَافِظ روى عَنهُ أَبُو عبد الله الفراسي وَغَيره وَله مُخْتَصر فى الْوُقُوف ذكر أَنه اخْتَصَرَهُ من كتاب الْخصاف وهلال بن يحيى تقدم ذكر ابْن إبنه أَحْمد بن مُحَمَّد وَابْنه مُحَمَّد يَأْتِي فى بَابه إِن شَاءَ الله تَعَالَى وَيَأْتِي عبد الرَّحِيم ابْن بنته قَرِيبا رَحمَه الله تَعَالَى
(الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي محيي الدين الحنفي.)
رَوَى عَنْ: بِشْرِ بنِ أَحْمَدَ الإِسْفَرَايِيْنِيِّ.
وَطَالَ عُمُرُهُ، وَعَظُمَ قَدرُهُ، وَكَانَ قَاضِي السُّلْطَانِ مَحْمُوْدِ بنِ سُبُكْتِكِيْنَ.
تُوُفِّيَ سَنَةَ سَبْعٍ وَأَرْبَعِيْنَ وَأَرْبَعِ مائَةٍ.
حَدَّثَ عَنْهُ طائفة.
(سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي.)
وشيخ الحنفية في عصره. ولي القضاء للسلطان محمود بن سبكتِكين ببخارى. ومرَّ ببغداد حاجا سنة 412 هـ وحدث بها.
كتاب " الجمع بين وقفي هلال والخصاف - خ " اشرف اليه في الأعلام ترجمة هلال بن يحيى (245) قال في مقدمته: " لقد هممت باختصار كتاب الوقف لهلال بن يحيى ... ثم استعنت باللَّه تعالى على اختصار كتابي أبي بكر هلال بن يحيى وأحمد بن عمر والخصاف البصريين ... وأضفت اليه ما وجدته في كتبنا إلخ " وله " أدب القاضي - خ " في دمشق.
قال ابن قاضي شهبة: وطال عمره .
(-الاعلام للزركلي-)
وناصح اسم بعض أجداده كان إمامًا كبيراً له مجلس التدريس والفتوى ولى قضاء القضاة للسلطان محمود بن سبكتكين ببخارى أخذ الفقه عن القاضى عتبة أبي الهيثم عن قاضي الحرمين وتفقه عليه ابنه محمد الناصحي مات سنة سبع وأربعين وأربعمائة ومن تصانيف تهذيب أدب القضاء للخصاف.
(قال الجامع) يأتي ذكر ابنه محمد في الميم وابنه الآخر يحيى في الياء.
(الفوائد البهية في تراجم الحنفية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي الهندي.)
وقدم بغداد، وحدث بها عن بشر بن أحمد الإسفراييني، وابن حمدان والطبقة.
وسمع منه ابن الضراب وغيره.
وعقد مجلس الإملاء.
وله مختصر في الوقف، اختصره من كتاب الخصاف وهلال.
توفي سنة سبع وأربعين وسبعمائة.
(تاج التراجم - لأبي الفداء زين الدين أبي العدل قاسم بن قُطلُوبغا السودوني)
محترم قارئین جیسا کہ آپ تفصیل دیکھ چکے ہیں کہ اس جھوٹے واقعے کی سند نہیں ہے کیونکہ کفال مروزی رحیم اللہ کی وفات کے ایک سال بعد امام الحرمین جوینی کی پیدائش ہوئی ہے جو اس قصے کو نقل کر رہے ہیں لہذا یہ منقطع ہے ۔
قارین کرام اتفاق دیکھیں کہ جس طرح واقعہ کربلا سنہ 61 ہجری میں وقوع پذیر ہوا ہے لیکن اس کی روایات بیان کرنے میں ابو مخنف لوط بن یحیی ہے جس کی پیدائش تقریبا 92 ہجری اور وفات ایک 157 ہجری ہے یعنی واقعہ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کے تقریبا 30 برس بعد پیدا ہونے والا شخص واقعہ کربلا کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہے بالکل اسی طرح نماز قفال والے واقعے کا حال ہے ۔
غیر مقلدوں نے اپنے خطبات تقریر اور کتب میں اس واقعے کو بارہا بیان کیا ہے جس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غیر مقلد اہل حدیثوں نے یہ طریقہ اپنے بڑے رافضی ابو مخنف لوط بن یحیی سے ورثے میں حاصل کیا ہے۔
قارئین یہاں سے ایک اور بات بھی پتہ چلتی ہے کہ غیر مقلد جس تقلید کے خلاف ہیں یہ صرف تقلید ابو حنیفہ کے خلاف ہے ، تقلید شافعی تقلید مالک تقلید احمد بن حنبل رحمہ اللہ اجمعین کے خلاف نہیں ہے ۔
کیونکہ اگر یہ لوگ مذاہب اربعہ کی تقلید کے خلاف ہوتے تو سلطان محمود غزنوی کا حنفی سے شافعی ہو جانا بھی غیرمقلد اہل حدیثوں کے لیے تکلیف دہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ان کے ہاں بدعت اور شرک ہے اس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تقلید بھی بدعت اور شرک ہونی چاہیے تھی لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔۔
یہاں پر ہم برٹش غیر مقلد اہل حدیثوں کے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید جائز کیوں ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید جائز کیوں نہیں ہے ؟
ہمارا سوال ہے کہ اگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تقلید جائز ہے تو پھر اپ لوگ امام شافعی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۔اگر امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کی تقلید آپ کے ہاں جائز نہیں ہے تو پھر سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ تعالی کا جھوٹا واقعہ سنا کر اپنی عوام کو خوش کرنے کی کیا ضرورت تھی
یہاں ہمارا یہ بھی سوال ہے کہ کیا غیر مقلد اہل حدیثوں کے ہاں خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولا جا سکتا ہے؟اگر نہیں بولا جا سکتا تو پھر آپ کے غیر مقلد جدید اہل حدیث اکابر پر کیا حکم لگے گا ؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں