ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 03)
ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 02)کیلئے یہاں کلک کریں
شیخ البانی علمائے اہل السنت الجماعت کی عدالت میں۔
پچھلی اقساط میں ہم نے شیخ البانی کے کارناموں پر سلفی اور غیر مقلد اہلحدیثوں کے تاثرات و فتاوی جات قارئین تک پیش کیئے تھے ۔اس قسط میں قارئین اہل حق علماء کا موقف بھی جان لیں گیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمہ اللہ کے خادمِ خاص وشاگردِ رشید محدث مدینہ مولانا حبیب اللہ قربان مظاہری رحمہ اللہ (1943ء- 2020ء) شیخ البانی کے بارے میں کہتے ہیں
’’ان کے ہاں احادیث پر حکم لگانے کی بنیادیں ’’تقریب التہذیب‘‘، ’’لسان المیزان‘‘ اور ’’میزان الاعتدال‘‘ ہیں، میرے نزدیک محض ان کتب کی بنیاد پر حکم لگانا جائز نہیں۔ خود ان کے تلامذہ نے ان کی اغلاط پر رد لکھے ہیں اور کئی ردود آچکے ہیں "
(بینات : اپریل مئی 2020 : سید سلیمان یوسف بنوری)
البانی تصحیح و تضعیف میں حجت نہیں
شیخ البانی کے متعلق شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی رائے
سوال:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟
جواب: شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں۔
چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا، اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے، ناقابل اعتبار ہے، مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے، اور پانچ سال بعد وہی حدیث آئی، اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا: کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے۔یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا۔
تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ المأۃ ہیں۔
بہرحال عالم ہیں، عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں، حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے
نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند
علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگائے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے، یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے، بلکہ کہتا ہے کہ “رجالہ رجال الصحیح، رجالہ ثقات “
یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے، کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں۔
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف اس کا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ
یقولون ھذا عندنا غیر جائز
ومن انتم حتی یکون لکم عند
باقی حدیث من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اس کوحسن قرار دیاہے، باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں، لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر، دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں.
( انعام الباری جلد: 4 صفحہ: 346،347 )
الألباني ليس بحجة في تصحيح وتضعيف الحديث
◾️ إن الألباني ليس بحجة في تصحيح وتضعيف الحديث، فهو يصحح الحديث مرة ومرة يضعفه، وفعل هكذا في كثير من المواضع.
◾️ ثم أسلوب كلامه أيضا غير مرضي ففي كلامه إساءة أدب في حق السلف فلا إعتبار له، ليس وظيفتنا أن نصحح حديثا أو نضعفه بل علينا أن ننقل أقوال الجهابذة فقط في الحكم على الحديث، حتى الحافظ ابن حجر ينقل الحكم من السلف او يقول: رجاله رجال الصحيح، رجاله ثقات.
◾️ واليوم من يقول: هذا عندي ضعيف، فجوابه هذا البيت:
يقولون هذا عندنا غير جائز ... ومن أنتم حتى يكون لكم عند
📚 انعام الباری 4/ 346.
ناصر الدین البانی کے متعلق دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی رائے
عنوان:مجھے پوچھنا ہے کہ ناصر الدین البانی صاحب کون گذرے ہیں؟ کیا ان کا اہل سنت سے تعلق تھا اوران کی تحقیق احادیث کے متعلق صحیح ہے؟
سوال:مجھے پوچھنا ہے کہ ناصر الدین البانی صاحب کون گذرے ہیں؟ کیا ان کا اہل سنت سے تعلق تھا اوران کی تحقیق احادیث کے متعلق صحیح ہے؟
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 529-147/L=5/1435-U (۱) ناصر الدین البانی صاحب بلا دِ عرب کے ایک مشہور غیرمقلد عالم دین گذرے ہیں، البانی صاحب سن ۱۳۳۳ ہجری مطابق ۱۹۱۶ عیسوی، یورپ کے مشہور ملک البانیا کے شہر اشکورڈا (Shkorda) میں پیدا ہوئے ہیں، بعد میں وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ البانیا سے ہجرت کرکے ملک شام آئے بچپن میں ابتدائی کتابیں بعض اساتذہ سے پڑھیں مگر انھوں نے باقاعدہ کسی بھی دینی مدرسہ یا کسی اسلامی یونیورسٹی سے فراغت حاصل نہیں کی اور بڑی بڑی کتابیں بھی کسی معتبر اور ثقہ عالم دین سے نہیں پڑھیں، بالخصوص علم حدیث اور اصول حدیث کی کتابیں، لیکن چونکہ نہایت ذہین تھے اور ان کی قوت حافظہ بہت مضبوط تھی اس وجہ سے انھوں نے اپنے مطالعہ سے سب کچھ پڑھا اورکتابیں لکھیں۔
(۲) البانی صاحب متشدد غیر مقلد تھے بلکہ غیرمقلدین کے امام تھے، غیرمقلدین اصول اربعہ یعنی: کتاب اللہ، سنت، اجماع امت اور قیاس میں سے اجماعِ امت اور قیاس کو نہیں مانتے ہیں،اور اہل السنة والجماعت ان چاروں اصولوں کو مانتے ہیں اوران کے نزدیک یہ چاروں اصول حجت شرعیہ ہیں، اہل السنة والجماعت کی حقیقت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ (۱) اتباع سنت (۲) اجماعت امت۔ اتباع سنت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حضرات خلفائے راشدین کی سنتوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، کیونکہ خود سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: علیکم بسنتی وسنة الخفلفاء الراشدین المہدیین (مشکاة المصابیح ص۳۰) اہل السنة والجماعت کے صحیح مصداق وہی لوگ ہیں جو اتباع سنت اور اجماع امت کو مانتے ہیں، چنانچہ منہاج السنة میں علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فإن السنة تتضمن النص والجماعة تتضمن الإجماع، فأہل السنة والجماعة ہم المتبعون للنص والإجماع (منہاج السنة: ج۳ ص۲۷۲ مکتبہ الریاض الحدیثیة) ارواب اہل السنة والجماعت کے ماننے والے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے متبعین ہی میں منحصر ہیں، چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ جو بہت بڑے حنفی فقیہ گذرے ہیں اور علامہ ابن عابدین شامی کے استاذ بھی ہیں وہ الدر المختار کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: فعلیکم معاشر الموٴمنین باتباع الفرقة الناجیة المسماة بأہل السنة والجماعة فإن نصرة اللہ وحفظہ وتوفیقہ في موافقتہم وخذلانہ وسخطہ ومقتہ في مخالفتہم وہذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في مذاہب أربعة وہم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رحمہم اللہ ومن کان خارجا عن ہذہ الأربعة في ہذا الزمان فہو من أہل البدعة والنار (حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار: ج۴ ص۱۵۳) لہٰذا البانی صاحب کا کوئی تعلق اہل السنة والجماعة سے نہیں ہے، بلکہ وہ غیرمقلدین کی طرح اہل السنة والجماعة سے خارج ہیں۔
(۳) احادیث کے تحقیق کے سلسلہ میں ا لبانی صاحب بہت متشدد تھے، بہت سی احادیث جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک حسن درجہ کی ہیں، البانی صاحب نے ان سب کو ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح بہت سی احادیث جن میں کچھ ضعف تھا مگر وہ سب قابل استدلال تھیں اور محدثین کرام نے ان سب کو احادیث صحیحہ کے ساتھ ملحق کیا تھا، البانی صاحب نے جمہور کی مخالفت کرتے ہوئے ان سب احادیث کو احادیث موضوعہ (گھڑی ہوئی احادیث) کے ساتھ ملحق کردیا۔ اور ان پر ایک کتاب لکھی ”سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة وآثارہا السیئة فی الأمة“ البانی صاحب نے عالم اسلام خصوصا بلاد عرب میں ایک ایسے فتنہ کی داغ بیل ڈالی جس کی بیخ کنی کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، ان کی تحقیقات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، ان پر تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”صحیح“ اور کسی دوسری کتاب میں اسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ”منکر“ یا ”ضعیف“ مزید تفصیل کے لیے
(۱) تناقضات الالبانی الواضحات، موٴلفہ حسن بن علی السقاف
(۲) الالبانی شذوذہ وأخطاوٴہ، موٴلفہ حضرت محدث کبیر ابو المآثر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب کی طرف رجوع کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
فتوی دیکھنے کیلۓ یہاں کلک کریں
Darul Ifta, Darul Uloom Deoband fatwa about shaikh Nasiruddin Albani.
Question: I want to know that are Shaikh Nasiruddin Albani, Shaikh Ibn Baaz are reliable scholar or they belong to Ghair Muqallid? I read a book given by one Ghair Muqallid in which they have references to these Shaikhs. Can we read their books?
Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !
(Fatwa: 242/221/N=1434) (1-3) Nasiruddin Al-bani was extremist, staunch ghair muqallid as well as narrow minded towards Hanafis. He is out of Ahl Sunnah Al-Jamah and deviant person while Shaikh Ibn Baaz (رحمة الله عليه) is an authentic and reliable scholar. However, in some rulings he is resorted to strictness and due to his Hambali maslak he differs in some frua’at from Hanafis as well. So, you should not read the books of Nasiruddin Albani at all. However, you may read the books of Shaikh Ibn Baaz, but common Hanafi people should avoid reading his books as well.
Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best
Darul Ifta,
Darul Uloom Deoband, India
دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کی رائے
سوال
شیخ البانی صاحب کے بارے میں کوئی بہترین تحقیق ارسال فرما دیں!
جواب
شیخ البانی رحمہ اللہ عہدِ قریب کے ایک نام وَر عرب عالم گزرے ہیں، جنہوں نے علمِ حدیث کے حوالے سے قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے، لیکن ان کا طرز جمہور امت کے خلاف ہونے کی بنا پر، یہ دیکھا جائے گا کہ اگر ان کی بات سلف سے منقول یا (کم از کم ان سے) متضاد نہ ہو تو مقبول ہوگی، اور جہاں جمہور امت سے ان کی آراء متصادم ہیں، وہ ان کا تفرد ہے، اس سلسلے میں ان کی بات مقبول نہیں ہے۔
جو شخص سلف کے اقوال کی روشنی میں خود سے حدیث کی جانچ نہ کرسکتا ہو اسے ان کی کتابوں سے احتراز کرناچاہیے، اور جو شخص صحیح و غلط میں فرق کرسکتا ہو ، اس کے لیے ان کی آراء سے استفادے میں حرج نہیں ہے، ان کی آراء میں باہم تضاد بھی پایا جاتا ہے اور تشدد بھی، اس وجہ سے ہمارے نزدیک ان کی رائے معتبر نہیں ہے، خصوصاً جو آراء جمہور کے خلاف ہو ں، وہ ان کا شذوذ ہوگا، جو لائقِ التفات نہیں ہے۔
ان کے علمی تسامحات اور اپنی ہی آراء میں تضادات ، اور تشدد و دیگر خامیوں کے بارے میں مختلف علماءِ کرام نے کتابیں لکھی ہیں، کسی نے مستقل اور کسی نے ضمناً ذکر کیا ہے، ذیل میں چند کے نام ذکر کیے جارہے ہیں:
1- شذوذ الألباني وأخطائه، للشيخ حبیب الله الأعظمي
2- کلمات في کشف الأباطیل والافتراءات، للشیخ عبدالفتاح أبي غده
3- الإمام ابن ماجه وکتابه السنن کے آخر میں شیخ عبدالفتاح کا استدراک
4- حوار مع الألباني، تحقیقی مقالہ جامعہ بنوری ٹاون
5- حکم العمل بالحدیث الضعیف للشیخ عوامة
6- التعریف بأوهام من قسم السنن إلی صحیح وضعیف، للشيخ محمود سعید ممدوح
7- تناقضات الألباني الواضحات، للشیخ سقاف الشافعي.
اس کے علاوہ بھی وقیع تحریرات منصۂ شہود پر موجود ہیں، سرِ دست انہی چند ناموں پر اکتفا کیا جاتاہے۔ فقط واللہ اعلم
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن ۔ کلک کریں
ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 04) کیلئے کلک کریں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں