ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 05)
مفتی سعید احمد قاسمی مجادری صاحب نے اپنی تصنیف " موضوع احادیث سے بچیئے " میں شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب رحمہ اللہ کے ، شیخ البانی کے بارے میں موقف کی مزید وضاحت کی ہے جسکو ہم معمولی ترمیم کے ساتھ یہاں پیش کرت ہیں ۔آپ لکھتے ہیں:
غیر مقلدین کے فسادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ علماء امت نے ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان جس فرق کو بیان کیا تھا غیر مقلدین نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی، اور ضعیف اور موضوع کو برابر کردیا۔
البانی کا احادیث کو نقصان پہنچانا
![]() |
شیخ ناصر الدین البانی صاحب |
اس سلسلہ میں ان کی ناپاک حرکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ماضی قریب میں عالم عرب کے ایک عالم البانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، اس میں موضوعات کے ساتھ ضعیف احادیث کو بھی داخل کر دیا ہے ، دونوں کے درمیان کی دوری کو ختم کرنے کی انجانی کوشش کی، اس انداز نے ضعیف احادیث کو بڑا نقصان پہنچایا ، حتی کہ اس کتاب کے عقیدت مندوں کے یہاں موضوع اور ضعیف کا یکساں شمار ہونے لگا ، دونوں کے درمیان واضح مسافت کو ختم کرکے دونوں کو ایک درجہ میں لا کھڑا کیا ہے، اور اس ذہنیت میں کمًّا و کیفاً اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔
متقدمین محدثین کا دشمن البانی:
نیز البانی نے اپنی بدبختی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک کام یہ کیا ہے کہ متقدمین کی بہت ساری کتابوں کو دو حصوں میں منقسم کردیا، ایک حصے میں صحیح اور حسن درجے کی روایات جمع کیں اور دوسرے حصے میں ضعیف اور موضوع روایات جمع کیں، جیسے سنن ترمذی کے دو حصے کردئیے ، ایک ’’صحیح الترمذی‘‘ اور دوسرا ’’ضعیف الترمذی‘‘، اسی طرح منذری کی ’’الترغیب والترہیب‘‘ کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ اور ’’ضعیف الترغیب والترہیب‘‘، ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ میں صحیح اور حسن درجہ کی روایتیں شامل کیں، اور ’’ضعیف الترغیب والترھیب‘‘ میں ضعیف اور موضوع روایتوں کو جمع کیا، البانی کے اس عمل نے احادیث کو بڑا نقصان پہنچایا۔
البانی کا جدید غیر مقبول انداز:
قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ہمارے علماء ، محدثین اور ائمۂ امت کا طرز نہیں ہے، بلکہ نئی پیداوار کی نئی سوچ ہے ،جس کو قبولیت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ، علماء اور محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، اعمال کے فضائل میں تو ضعیف احادیث بڑی وسعت سے قبول کی گئی ہیں، کئی محدثین نے اعمال کے فضائل پر کتابیں لکھی ہیں اور کثرت سے ضعیف احادیث کو اپنی کتابوں میں داخل کیا ہے، اور صحیح اور حسن درجہ کی حدیث کی عدم موجودگی میں ضعیف حدیث سے احکام میں بھی کام لیا گیا ہے، الغرض ضعیف حدیث موضوع کے برابر نہیں ہے ۔
[موضوع احادیث سے بچیئے ؛ صفحہ 155 تا 157 ]
حدیث میں غیر مقلد اہلحدیث کی بددیانتی ، جہالت و خیانت
غیر مقلد اہلحدیثوں کی بد دیانتی کو اگر جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے اس لئے ان سب کا جمع کرنا تو ممکن نہیں ، ہمارے اکابرین نے ان کی تردید میں جو کتابیں لکھی ہیں ان میں ان کی بددیانتی کی مثالیں بکھری پڑی ہیں، ان میں سے ایک کتاب ہے
’’ الألباني شذوذہ وأخطاؤہ‘‘
’’ الألباني شذوذہ وأخطاؤہ‘‘ Download link
اس میں محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ نے البانی کی غلطیوں کو طشت از بام کیا ہے، میں یہاں پر اس کی ایک جھلک دکھاؤں گا جس سے معلوم ہوجائے گا کہ غیر مقلدین کے یہ بڑے حضرت کتنے پانی میں کھڑے ہیں،ان کے انتخاب میں یہ فائدہ بھی ہے کہ غیر مقلدین ان کو اپنا محقق اور بے مثال محدث مانتے ہیں اور صبح شام ان کا یہی ورد رہتا ہے کہ:
’’البانی نے اس کو موضوع کہا ہے‘‘ ،
’’ البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے‘‘
جب ان کے مایۂ ناز سرمایہ کی حقیقت سامنے آئے گی تو خود بہ خود ان کے متبعین کی حقیقت واضح ہوجائے گی، اب ذیل میں ان کی غلطیوں اور خیانت کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
البانی کی غلطیاں
1شیخ ناصر الدین البانی کی الفاظ میں غلطی
البانی کسی معنی کو الفاظ میں ادا کرنے میں غلطی کرتا ہے جیسے اس نے لکھا ہے
《 سنۃ الجمعۃ والمغرب القبلیتین 》
حالانکہ صحیح یہ ہونا چاہئے
《 سنۃ الجمعۃ وسنۃ المغرب القبلیتان 》
2۔شیخ ناصر الدین البانی کا حدیث کے الفاظ پڑھنے میں غلطی
اسی طرح البانی حدیث کے الفاظ پڑھنے میں غلطی کر جاتا ہے، جیسے حدیث کے الفاظ ہیں
《 تصدق باثوار من الاقط 》 ۔۔۔ (پنیر کے ٹکڑے صدقہ کیے)
اس کی جگہ البانی نے حدیث کو اس طرح لکھا ہے
《 تصدق باتوار من الاقط 》 (بالمثناۃ الفوقیۃ) (پنیر کا برتن صدقہ کیا)
3۔شیخ ناصر الدین البانی کا اسماء الرجال میں ٹھوکر کھانا
راویوں کو پہچاننے میں بھی غلطی کرتا ہے ، ایک نام کے دو راویوں میں ایک کو دوسرے کی جگہ سمجھ لیتا ہے، پھر اس راوی کے مطابق روایت پر حکم لگاتا ہے، جس کے نتیجے میں معتبر روایت کو غیر معتبر اور غیر معتبر روایت کو صحیح کہہ دیتا ہے۔
4۔ شیخ ناصر الدین البانی اور مجہول راوی
ایک راوی سے چار لوگوں نے حدیث لی ہے پھر بھی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے۔
5۔ شیخ ناصر الدین البانی کا اصطلاحات علوم حدیث سے عدم واقفیت
علوم حدیث کی اصطلاحات سے بھی پوری واقفیت نہیں ہے ، جیسے
(الف) ایک حدیث کے ’’شاہد‘‘ کو پیش کرکے کہا کہ یہ اس کا ’’متابع‘‘ ہے، اسی طرح حدیثیں متعدد ہیں یا سندیں متعدد ہیں اس میں بھی بصیرت نہیں رکھتا۔
(ب) مصنفین اور راویوں کے مزاج و عادات سے ناواقف ہے، اور ان کے کلام کو صحیح سمجھنے میں غلطی کرتا ہے، جیسے جہاں بھی ’’قیل‘‘ یا ’’ رُوی‘‘ دیکھ لیا وہاں ضعف کا حکم لگادیا، حالانکہ ہر جگہ مصنفین اس کا خیال نہیں رکھتے ، راوی نے اگر حدیث کی تشریح کے لئے کوئی زیادتی کی تو اس کو حدیث کا جز سمجھ لیتا ہے۔
(ج) اگر کوئی حدیث اس کو نہیں ملی تو اس حدیث کے نہ ہونے کا فیصلہ کردیتا ہے ، جیسے ابن تیمیہ ؒ نے ایک حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے اس پر البانی نے کہا کہ مجھے یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملی ، شاید ابن تیمیہؒ کو کسی دوسری حدیث سے اشتباہ ہوگیا ہوگا۔
6شیخ ناصر الدین البانی کی علمی دیانت؟
شیخ البانی علمی کوتاہی تو پھر بھی بعض مرتبہ برداشت کرلی جاتی ہے لیکن دیانت کی کمی ناقابل برداشت ہے، البانی دیانت داری سے تہی دامن تھا، اگر کسی حدیث کو نہیں ماننا ہے تو کسی ایک کمزور راوی کا ہاتھ پکڑے گا اور اس کے متعلق جرح کرنے والے محدثین کے اقوال بیان کرے گا اور توثیق کرنے والے علماء کے اقوال سے نظریں چرا کر اس طرح گزر جائے گا جیسے ان اقوال کو جانتا ہی نہیں۔
7شیخ ناصر الدین البانی مجموعہ تضادات
(الف) ایک ہی بات کو کبھی حدیث کی صحت کے لئے کام میں لیتا ہے اور اسی بات سے کسی حدیث کو ضعیف بھی کہہ دیتا ہے، مثلا’’ مقبول‘‘ کا لفظ ابن حجرؒ کی ایک اصطلاح ہے ، راویوں پر کلام کرتے ہوئے بعض راویوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ ’’مقبول‘‘ ہے ، البانی اس ایک لفظ سے روایت کو جو چاہے وہ درجہ دے دیتا ہے ، کبھی کسی روایت کو صحیح کہے گا کبھی حسن کہے گا ، اور کبھی کہے گا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے ایک راوی کے بارے ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ وہ ’’مقبول ‘‘ہے، اسی ایک لفظ سے ہر طرح کا درجہ اس کے یہاں نکل سکتا ہے۔
(ب) اسی طرح لفظ ’’غریب‘‘ کا مقام متعین کرنے میں بھی اپنی خواہشات کا اتباع کیا ہے کبھی تو کہا ہے کہ اس روایت کو فلاں محدث نے ’’غریب‘‘ کہا ہے اور غریب کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اور کبھی لکھتا ہے غریب کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث ضعیف ہے، غریب حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے۔
(ج) ایک محدث کی بات کی جب ضرورت پڑتی ہے تو قبول کرلیتا ہے اور جب وہ اس کی رائے کے مخالف ہوتی ہے تو اس کو رد کردیتا ہے کہ ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا
(د) اسی طرح آئمۂ جرح و تعدیل کے اقوال کو قبول کرنے یا رد کرنے کے سلسلے میں بھی خیانت کا ثبوت دیا ہے، چنانچہ کبھی کہتا ہے کہ ابن حبان کی توثیق کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے کبھی ابن حبان کی توثیق پر روایت کی صحت کا فیصلہ کرتا ہے یا اس کو حسن قرار دے دیتا ہے۔
(ہ) اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لئے صرف موافق احادیث کو ذکر کرے گا اور قارئین کو یہ باور کرائے گا کہ بس اس باب میں یہی روایات ہیں، اور اگر مخالف روایات کا بھی ذکر کردے گا تو صرف اشارۃ ذکر کرنے پر اکتفا کرے گا ، پورا متن ذکر نہیں کرے گاتاکہ اس حدیث سے کوئی آگاہ نہ ہوجائے۔
8شیخ ناصر الدین البانی مزعومہ علامہ فہامہ:
البانی نے اسلاف کے کلام پر تنقید کرکے ان سے بد گمان کرنے کی اور ان سے اعتماد ختم کرنے اور خود کو بڑا علامہ اور فہامہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس نے احادیث کا جو درجہ متعین کیا ہے اس میں بھی بہت ہی تناقض پایا جاتا ہے، ایک حدیث کو صحیح کہتا ہے پھر اسی کو ضعیف کہہ دیتا ہے، ایک حدیث کو کسی جگہ موضوع کہا ہے، پھر کسی اور جگہ اس کو ضعیف لکھا ہے ، اس طرح احادیث کے درجہ کی تعیین میں بہت زیادہ ٹکراؤ پایا جاتا ہے، بعض لوگوں نے البانی کے تناقضات کو جمع کرکے ایک کتاب تیار کی ہے۔
یہ غیر مقلدین کے مایۂ ناز محدث کا اصلی چہرہ ہے جو سرسری طور پر قارئین کو دکھایا گیا ہے، اسی سے ہر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے کہ البانی خوبصورت دکھتے ہیں یا بدنما اور داغدار نظر آرہے ہیں، حالانکہ یہ توان کے کرشموں کی ایک معمولی جھلک تھی تفصیل سے دیکھنے کے لئے ’’البانی شذوذہ و اخطائہ ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے، اس کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ان کے کرتوتوں نے شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
جن لوگوں کے بڑے کا یہ حال ہے ان کے چھوٹوں اور ان کے متبعین کا کیا عالم ہوگا ظاہر ہے، چنانچہ وہ بھی اپنے بڑے کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ، اور بد دیانتی اور خیانت کا ایک دوسرے سے بڑھ کر نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
[موضوع احادیث سے بچیئے : صفحہ 158 تا 162]
علامہ اعظمیؒ کے نقد کا ایک شاہکار: الألباني شذوذہ وأخطاؤہ
علامہ اعظمیؒ کے نقد کا ایک شاہکار: الألباني شذوذہ وأخطاؤہ اصل مضمون کا لنک
محدث دیار ہند علامہ حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف۔
علامہ اعظمیؒ کے ایک سچے قدر داں اور جاں نثارحضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ(ت:۱۴۱۷ھ) ایک موقعہ پر لکھتے ہیں: العلامۃ الکبیر المحقق المحدث مولانا الشیخ حبیب الرحمن الأعظمي، الذي عرفہ علماء بلاد الشام ومصر والمغرب وغیرها ، من تحقیقاتہ واستدراکاتہ النادرۃ الغالیۃ علی العلامۃ الشیخ أحمد محمد شاکر رحمہ اللہ تعالی في تحقیقہ لکتاب “مسندأحمد”.
[مجلة المجمع العلمي العربي: اکتوبر ۱۹۶۳ء]
علامۂ کبیر، محقق، محدث، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب الاعظمی، جن سے شام، اور مصر ومغرب وغیرہ ممالک کے علماء، “مسند احمد” پر علامہ شیخ احمد محمد شاکر رح کی تحقیق پر آپ کی نادر اور بیش قیمت تحقیقات واستدراکات کے ذریعہ متعارف ہوئے ہیں۔
![]() |
محدث شیخ حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی حنفی رحمہ اللہ |
محدث اعظمیؒ کی علمی و دینی غیرت و حمیت کا شاہ کار یہ علمی سرمایہ چار حصوںمیں(۱۷۲) صفحات پر اشاعت پذیر ہوا تھا، اس میں عرب دنیا کی ایک مشہور اور نامور شخصیت شیخ ناصرالدین البانی(ت:۱۴۲۰ھ) پر عالمانہ نقد کیا گیا ہے۔ شیخ البانی اپنی علمی ناپختگی، فطری حدّت، اور کسی بڑے کی رہنمائی سے محرومی کے باعث مزاج میں ضرورت سے زیادہ شدت، نیز حد اعتدال سے بڑھے ہوئے بےباکانہ انداز اور دائرۂ ادب سے متجاوز اسلوب بیان کی وجہ سے بے شمار تسامحات و تناقضات کے شکار ہوئے ہیں،یہی نہیں بلکہ ان کی جرأت و بیباکی نے وہ گل کھلائے کہ نئی نسل کا مزاج بدل کر رکھ دیا، احادیث ضعیفہ کو موضوعہ کے ساتھ شامل کرکے، اور سنن اربعہ ودیگر کتب حدیث کی صحیح وضعیف میں تقسیم کرکے ایسا ذہن بنا دیا کہ احادیث ضعیفہ سے اعتماد ختم ہوگیا، صرف اصطلاحی صحیح احادیث پر انحصار کا مزاج بن گیا، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ دین کی صحیح شکل بنا ہر قسم کی صحیح، حسن، ضعیف احادیث کے امتزاج کے ممکن نہیں ہے، ہاںاتنا ضرور ہے کہ ہر قسم کی احادیث کو اس کے صحیح محمل پر رکھا جائے۔
عرب نسلِ نوجو تساہل پسندی اور تن آسانی کی خوگر ہوچکی ہے، اس نے شیخ البانی کے افکار کو بسر وچشم قبول کیا، اور انھیں اس قدر بڑھاوا دیا کہ ان کا نام بطور استناد استعمال کرنے لگے، اور اس فکر نے ایسا نقصان پہونچایا جس کی تلافی کے لیےشاید صدیاں درکار ہوں، غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ البانی پر نقد کرتے وقت علامہ اعظمیؒ کا شہاب قلم عادت کے خلاف صفت جلالیہ کا پرتو نظر آتا ہے،یہ وہ دور تھا جب شیخ البانی کے خلاف لب کشائی کی کوئی ہمت نہیں کرپارہا تھا، ایسے میں علامہ اعظمیؒ کے شہاب قلم سے یہ شاہکار وجود میں آیا، جس نے شیخ کے مبلغ علم اور ان کے تناقضات کو اس طرح مدلل و آشکارا کیا کہ علمی دنیا میں دھوم مچ گئی، اور علمائے کرام جو پہلے ہی سے شیخ کی مچائی تباہی سے نالاں تھے، انھیں یہ جوہر بیش بہا ہاتھ لگ گیا، اور پھر شیخ کے افکار وخیالات پر قدغن لگانے اور امت کو ان کے پھیلائے غلط افکار سے بچانے کے لیے کئی تصانیف وجود میں آئیں،چنانچہ شیخ حسن سقاف کی“تناقضات الألباني الواضحات” اورشیخ محمود سعید ممدوح کی بہترین تصنیف “التعریف بأوھام من قسّم السنن إلی صحیح وضعیف” وغیرہ کتابیں علامہ اعظمیؒ کی رہنمائی کی مرہون منت ہیں،ولکن الفضل للمتقدم
شیخ البانی کے بارے میں خود علامہ اعظمیؒ لکھتے ہیں:
الشيخ ناصرالدين الألباني شديد الولوع بتخطئة الحذّاق من كبار علماء الإسلام، ولايحابي في ذلك أحدا، كائنا ما كان، فتراه يوهّم البخاريَّ ومسلما، ومن دونهما، ويغلط ابن عبدالبر وابن حزم وابن تيمية والذهبي وابن القيم وابن حجر والصنعاني والشوكاني، ويكثر من ذلك حتى يظن الجهلة والسذَّج من العلماءأن الألباني نبغ في هذا العصر نبوغاً يندر مثله.
شيخ ناصرالدين الباني كواکابر علمائے اسلام کے ماہرین کو غلط ٹھہرانے کا بہت شوق ہے، اس سلسلے میں وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے،چنانچہ وہ بخاری، اور مسلم وغیرہ کی فرو گزاشتیں دکھاتے ہیں، اور ابن عبدالبر، ابن حزم، ابن تیمیہ، ذہبی، ابن قیم، ابن حجر، صنعانی، اور شوکانی وغیرہ کی غلطیاں نکالتے ہیں، اور یہ کام اس کثرت سے کرتے ہیں کہ علم سے ناآشنا اور سادہ لوح علماء یہ گمان کرنے لگے کہ البانی کو اس فن میں وہ کمال حاصل ہے جس کی نظیر مشکل ہے۔
علامہ اعظمیؒ نے اس کتاب میں شیخ البانی کی کتب سے ایسے نمونے پیش کیے ہیں جن میں شیخ اپنی تحقیقات کو نادر، انوکھی اور اچھوتی، نئی اور بے مثل تحقیق وغیرہ الفاظ سے موسوم کیا ہے، حالانکہ وہ تحقیقات یا تو متقدمین سے ماخوذ ہیں یا لایعبأبہ ہیں، اور چونکہ شیخ البانی نے اساتذہ اور اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا ہے،جو کہ رسوخ فی العلم اور فکری اعتدال کے لیے ضروری ہے، بلکہ گھڑی سازی کے پیشے کے ساتھ ساتھ کتابوں کا مطالعہ کرتے کرتے مقام اجتہاد تک پہونچے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان سے فہم وتحقیق میں ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جن کا مبتدی طلبہ سے بھی صدور نہیں ہوتا۔
علامہ اعظمیؒ نے شیخ البانی پر استدراکات اور انتقادات کومندرجہ ذیل عنوانات پر منقسم کیا ہے:
۱- مبلغ علم الألباني ۲- ولوع الألباني بنقض کلام ابن تیمیۃ۳-مناقضات ۴-تحریم الصورۃ التي توطأ ۵-ھل خاتم الذهب محرم علی النساء؟ ۶-خرق الإجماع ۷-اختلاف العلماء ۸-ستر المرأۃ ۹-السفر لزیارۃ القبر النبوي ا ۱۰-تطبیق الألباني ذم المعتزلۃ علی ذم أتباع الأئمۃ ۱۱- انقراض الاجتهاد، ان کے علاوہ ذیلی عناوین بھی قائم کیے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں