نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 06)

 

ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 06)


البانی کے شاگروں نے جب علامہ محدث اعظمی رحمہ اللہ کی کتاب کا جواب دیا تو ، ہم بھی قارئین کی خدمت میں مختصرا جواب الجواب رکھتے ہیں

از قلم ...............✍️حفظ الرحمن الاعظمی تحفیظ القرآن سکٹھی مبارک پور اعظم گڑھ

الرد العلمی علی حبیب الرحمن الاعظمی ایک سرسری مطالعہ

شیخ ناصر الدین البانی صاحب

 

علم حدیث کے میدان میں موجودہ صدی نے جتنی پذیرائی "علامہ ناصرالدین البانی" کو عطا کی،اتنی عزت و توقیر اور حوصلہ افزائی و پذیرائی کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی، حتی کہ آج عربوں کے یہاں حدیث کی صحت و ضعف کا معیار صححہ الالبانی ،ضعفہ الالبانی کی صراحت پر موقوف ہے ، اور یہ شیخ البانی کا حق بھی تھا، کیونکہ علم حدیث کی جمیع جہات پر جو دسترس انہیں حاصل تھی ، یا ان کے مطالعے میں جو وسعت و پھیلاؤ تھا ،وہ قابل رشک اور قابل تقلید تھا ۔

    مگر فوق کل ذی علم علیم کے مسلم قاعدے کے تحت حرم نبوی سے دور ،بہت دور ایک غیر معروف ،غیر مشہور علاقے میں وقت کے محدث نے اپنے کلک گہربار سے "تالیفات البانی " پر رد و استدراک لکھا اور اس شان سے لکھا کہ الألبانی شذوذہ واخطاؤہ کی ضیاء پاشی سے عرب و عجم منور ہوگیا، چنانچہ مولانا بدر الحسن قاسمی، محدث اعظمی کو اپنے خط میں لکھتے ہیں یہاں دارالعروبہ للنشروالتوزیع نے "الالبانی شذوذہ واخطاؤہ"کو بڑے پیمانے پر شائع کیا تھا، اور "معرض الکتاب العربی" میں بہت زیادہ فروخت ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے تو معاصرانہ چشمک ہر دور میں علمی تاریخ کا حصہ رہی ہے ،خواہ وہ امام مالک اور محمد بن اسحاق ہوں یا علامہ عینی اور ابن حجر عسقلانی، مولانا عبدالحی لکھنوی اورنواب صدیق حسن بھوپالی ہوں یا علامہ شوق نیموی اور شمس الحق ڈیانوی ہوں ،مگر معاصرانہ چشمک سے آگے بڑھ کر "الالبانی شذوذہ واخطاؤہ "کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ فضل وکمال کے کوہ ہمالیہ پر مسند افروز ہونے کے باوجود "شیخ البانی" کا بے باکانہ انداز، اور تسامحات و تنازعات کی بھرمار کے ساتھ ساتھ جس طرح انہوں نے عمل بالضعیف کو مطلقاً حرام کہا،ضعیف حدیث کو موضوع احادیث کے درجے میں رکھا، صحیح اور ضعیف کی تمیز کو واجب کہا اور فقہ مصفی کا بیڑا اٹھایا، وہ امت کے سنجیدہ اور علمی حلقوں میں ایک طوفان برپا کر دینے کے مترادف تھا ،چنانچہ "شیخ محمود سعید ممدوح "اس عمل کا نتیجہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: 

《 لفیکون الشیخ ناصرالدین الالبانی قد نقل الناس من العالی الی النازل ومن اتباع ائمۃ المجتھدین والحفاظ الی تقلیدہ وحدہ 》

 شیخ البانی نے لوگوں کو بلندی سے اتار کر بستی میں لا کھڑا کیا ،اور انہیں ائمہ مجتہدین و حفاظ حدیث کی تقلید سے ہٹا کر اپنی تقلید کرنے پر مجبور کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محدث اعظمی کی کتاب کا منصۂ شہود پرآنا تھا کہ اطراف و اکناف عالم میں پھیلے ہوئے علم حدیث کے خدام نے "محدث اعظمی" کے افادات کو مشعل راہ بناکر صحیح متوارث منہج کی بالا دستی کا علم بلند کیا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں کتابیں شیخ البانی کے رد میں وجود میں آگئی، جن میں

 (ڈاونلوڈ کیلئے کتاب کے نام پر کلک کریں)

۔  "حسن سقاف الشافعی کی " تناقضات الالبانی الواضحات

2 ،قاموس شتائم الالبانی

3۔الحدیث الجاریہ

4 "شیخ عادل کاظم عبداللہ" کی

المضحک المبکی فی فتاوی الالبانی

 5 "اسعد سالم" کی

بیان اوہام الالبانی

6 "عبداللہ غماری" کی

الرد علی الالبانی

7حسان عبدالمنان کی

حوار مع الشیخ الالبانی 

8عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کی

کلمات فی کشف اباطیل وافتراءات

 اور  9۔محمود سعید ممدوح کی 6 ضخیم جلدوں میں

التعریف باوھام من قسم السنن الی صحیح و ضعیف سر فہرست ہیں 

  "ولکن الفضل للمتقدم "

___________________________________________

شیخ ناصر الدین البانی کے تعاقب میں لکھی مزید کتابیں ، مقالہ جات و رسائل:

ان میں سے اکثر کتب درج ذیل ٹیلیگرام چینل لنک سے ڈاونلوڈ کی جا سکتی ہیں

رد البانی پر کتب

النعمان سوشل میڈیا سروسز مکتبہ


10۔ ”إباحة التحلي بالذهب المحلق للنساء والردّ على الألباني في تحريمه”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري

11۔”إبطال التصحيح الواهن لحديث العاجن”؛ للسيد حسن بن علي السقاف

12۔”إتمام الحاجة إلى: (صحيح: ”سنن ابن ماجه”)”؛ لعبد الله بن صالح العبيلان.

تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”صحيح: (سنن ابن ماجه)” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.

13۔ ”الأحاديثُ الضعيفة في: (سلسلة الأحاديث الصحيحة)”؛ لرمضان محمود عيسى.

14۔ احتجاج الخائب بعبارة من ادَّعى الإجماع فهو كاذب”؛ للحسن بن علي السقاف

15۔”الأدلةُ الجليّة لسنة الجمعة القبلية”؛ للحسن بن علي السقاف.

16۔ ”إرغامُ المبتدع الغبي بجواز التَّوسّل بالنبي في الردِّ على الألباني الوبي ”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري

 17۔ ”الإعلامُ في إيضاح ما خفي على الإمام” لفهد بن عبد الله السُّنيد

ويقصد بالإمام : الألباني والكتاب تعقبات حديثية على الألباني، مع نقولات في الرِّجال لعبد العزيز بن باز

18۔ ”إعلام المبيح الخائض بتحريم القرآن على الجنب والحائض”؛ للسيد حسن ابن علي السقاف.

19۔”إقامةُ البرهان على ضعف حديث: استعينوا على إنجاح الحوائج بالكتمان. وفيه الرد على العلامة الشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لخالد بن أحمد المؤذن.

20۔”الانتصارُ لأهل التوحيد والرد على من جادل عن الطواغيت ملاحظات وردود على شريط: (الكفر كفران) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).

 یہ کتاب اردو میں 《 طاغوت کے حمایتیوں کا رد حق اتباع باطل کا رد کیا ضروری نہیں ؟ 》کے نام سے سلفی استاد جامعہ ستاریہ کراچی کے ترجمے سے شائع ہو چکی ہے ۔ تفصیل کیلئے دیکھیں 

 ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے( قسط نمبر 02)

(21) ”الانتصارُ لشيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب بالردِّ على مجانبة الألباني فيه الصواب”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري

(22) ”أنوارُ المصابيح على ظلمات الألباني في صلاة التراويح”؛ لبدر الدين حسن دياب الدمشقي.

(23) ”أينَ يضع المصلي يده في الصلاة بعد الرفع من الركوع”؛ لعبد العزيز بن عبد الله بن باز طُبِعَت هذه الرِّسالة ضمن مجموع: ”ثلاث رسائل في الصلاة”، للشيخ نفسه.

(24) ”بذلُ الجهد بتضعيف حديثي السوق والزهد”؛ لعادل بن عبد الله السعيدان.

(25) ””؛ للسيد حسن بن علي السقاف.البشارةُ والإتحاف فيما بين ابن تيمية والألباني في العقيدة من الاختلاف

26۔بيانُ نكث الناكث المتعدي بتضعيف الحارث”؛ لعبد العزيز بن الصديق الغماري.

(27) ”تحذير العبد الأوّاه من تحريك الإصبع في الصلاة”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.

(28) ”تخريجُ حديث أوسٍ الثقفي في فضل الجمعة وبيان عِلّتِه”؛ لأسعد سالم تَيِّم.

وهو ردٌّ على تصحيح الألباني للحديث.

(29) ”تصحيحُ حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والردّ على الألباني في تضعيفه”؛ إسماعيل بن محمد الأنصاري

30۔”التعقّبُ الحثيث على من طعن فيما صحَّ من الحديث”؛ للشيخ عبد الله الهَرَري الحَبَشيّ ۔

(31) ”تعقباتٌ على: (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة) للألباني”؛ لإسماعيل بن محمد الأنصاری

(32) ”التعقباتُ المليحة على: (السلسلة الصحيحة)”؛ للشيخ: عبد الله بن صالح العبيلان.

تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.

(33) ”التكميلُ لما فاتَ تخريجه من: (إرواء الغليل)”؛ للدكتور: صالح بن عبد العزيز آل الشيخ

34۔ ”تنبيهُ القارئ [على] تقوية ما ضعفه الألباني”.

(35) ”تنبيهُ القارئ لتضعيف ما قواه الألباني”؛ كلاهما لعبد الله بن محمد الدويش

(36) ”تنبيهُ المسلم إلى تعدي الألباني على: (صحيح مسلم)”؛ لمحمود سعيد ممدوح.

(37) ”التنبيهاتُ على رسالة الألباني في الصلاة”؛ لحمود بن عبد الله التويجري

(38) ”تنقيح الفهوم العالية بما ثبتَ وما لمْ يثبتْ من حديث الجارية”؛ للحسن بن علي السقاف.

39۔جزءٌ في كيفية النهوض في الصلاة وضعف حديث العجن”؛ لبكر بن عبد الله أبو زيد

40۔”حكم تارك الصلاة”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).

(41) ”حول مسألة تارك الصلاة”؛ لممدوح جابر عبد السلام.

كتب على غلافه:

(الرَّد العِلمي على كتاب: ”فتحٌ من العزيز الغفَّار بإثبات أنَّ تارك الصلاة ليس من الكفَّار”. ورسالة الشيخ ناصر الدين الألباني: ”حُكم تارِكِ الصَّلاةِ”).

(42) ”خطبةُ الحاجة ليست سنة في مستهل الكتب والمؤلفات”؛ للشيخ عبدالفتاح أبو غدة رَحِمَهُ اللهُ.

(43) ”رَفْعُ الْجُنَّةِ أمام: (جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة)”؛ لعبدالقادر بن حبيب الله السندي رَحِمَهُ اللهُ.

وهو ردٌ موسع على كتاب: ”جلباب المرأة المسلمة” للشيخ الألباني.

وقد التزم مؤلفه بالأدب مع الألباني رَحِمَهُ اللهُ، على عكس صنيع الألباني مع السندي، إذ تَعَرَّض له في كتابه: ”الجلباب”، و ”الرد المفحم”، وشنَّع عليه في الردِّ؛ كعادته مع مخالفيه .

(44) ”صحيح صفة صلاة النبي صلى الله عليه وآله وسلَّم”؛ للحسن بن علي السقاف

عارض به كتاب الألباني: ”صفةُ صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- من التكبير إلى التسليم كأنك تراها”، مع التعرض لآراء الألباني في كتابه السابق.

(45) ”الشماطيط فيما يهذي به الألباني في مقدماته من تخبطات وتخليط”؛ للحسن بن علي السقاف.

وهي ”رسالة” ردَّ بها على ما جاء في مقدمة الجزء (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الضعيفة”.

(46) ”الشهاب الحارق المنقض على إيقاف المتناقض المارق”؛ للحسن بن علي السقاف.

(47) ”عددُ صلاة التراويح”؛ للدكتور: إبراهيم الصبيحي.

(48) ۔البراهين الناسفة للأنوار الكاسفة

(49) ”القول المبتوت في صحة صلاة الصبح بالقنوت”؛ للحسن بن علي السقاف

50۔ اللجيف الذعاف للمتلاعب بأحكام الاعتكاف”؛ للحسن بن علي السقاف.

رسالة رد بها على الألباني في قوله بـ: أنه لا يجوز الاعتكاف إلا في المساجد الثلاثة.

(51) ”المؤنقُ في إباحة تحلي النساء بالذهب المحلق وغير المحلق”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي.

(52) ”ملحوظاتٌ على كتاب: (الصلاة) للعلامة محمد ناصر الدين الألباني” لعبد الله بن مانع العتيبي

53۔”نظراتٌ في: (السلسلة الصحيحة) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي، وخالد بن أحمد المؤذن.

وهو دراسةٌ لـ (المائة) حديث الأولى من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة”

(54) ”نقدُ تعليقات الألباني على شرح الطحاوية”؛ لإسماعيل ابن محمد الأنصاري.

(55) ”وصولُ التهاني في إثبات سُنِّيَّة السُّبْحة والرَّدِّ على الألباني”؛ لمحمود سعيد ممدوح.

(56) ”وهم سيء البخت الذي حرَّم صيام السبت”؛ للحسن بن علي السقاف.

(57) ”ويلك آمن، تفنيد بعض أباطيل ناصر [الدين] الألباني”؛ لأحمد عبد الغفور عطار.

58 "تنبيه المسلم إلى تعدي الألباني على صحيح مسلم" لمحمود سعيد ممدوح وبعض الردود عليه.

59۔ البانی شیخ شعیب۔ ارناووط کی نظر میں

60۔ اعتداء البانی علی امام ابی حنیفہ

____________________________________


۔ "شیخ البانی" الالبانی شذوذہ واخطاؤہ  کی اشاعت کے بعد زندگی بھر مولانا اعظمی کو کوستے اور اپنے غیض و غضب کا اظہار کرتے رہے،چنانچہ "آداب الزفاف" کے مقدمہ میں لکھتے ہیں 《 واستعان الانصاری بآخر رسالتہ بأحد اعداء السنۃ واہل الحدیث ودعاۃ المشہورین بذلک ،ألا وھو الشیخ حبیب الرحمن الاعظمی》 ، لیکن انہوں نے نہ تو وسعت ظرفی کے ساتھ ان استدراک کو قبول کیا ،اور نہ ہی سنجیدہ علمی انداز میں اس کا جواب دیا ،البتہ کافی عرصے کے بعد ان کے دو شاگرد "سلیم الہلالی " اور "علی حسن علی عبدالحمید " نے الرد العلمی علی حبیب الرحمن الاعظمی کے نام سے دو جلدوں میں"محدث اعظمی" کا رد لکھا، پہلی جلد88 اوردوسری 172 صفحات پر مشتمل ہے۔

کہنے کو تو یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے مگر وہ حصہ جسے مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی کے اعتراضوں کا جواب کہاجاسکے وہ بمشکل چند صفحوں پر محیط ہے، بقیہ وہ چیزیں ہیں جس کا نفس جواب سے کوئی سروکار نہیں اور جسے پڑھ کر بے ساختہ شیخ سعدی یاد آتے ہیں۔

        ترسم نہ رسی بکعبہ اے اَعرابی.

        کیں راہ تو می روی بترکستان است

آپ جو کچھ تحریر کررہے ہیں اسے حبیب الرحمان کا جواب ہرگز نہیں کہیں گے، البتہ کتاب کی ضخامت بڑھ جائے گی۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...