![]() |
علامہ اعظمیؒ کے نقد کا ایک شاہکار: الألباني شذوذہ وأخطاؤہ |
ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 07)
علامہ اعظمی پر تدلیس کا الزام اور اس کی حقیقت
واضح رہے کہ "الالبانی شذوذہ واخطاؤہ" پہلی مرتبہ ارشد سلفی کے نام سے طبع ہوئی تھی، یہ وہ شخص ہے جسے علامہ اعظمی نے یہ کتاب املا کرائی تھی ،پھر بعد کی طباعتوں میں کتاب کو اصل مصنف "مولانا حبیب الرحمن الاعظمی" کے نام سے شائع کیا گیا۔
حضرت مجیب اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم حدیث کے طلبہ بھی جانتے ہیں کہ ایسا کرنا تدلیس کہلاتا ہے اور "امام حماد بن زید" کے بقول تدلیس جھوٹ کی ایک قسم ہے۔
ہم حضرت مجیب کی بارگاہ میں دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ یہ تدلیس اس وقت ممنوع قرار پاتی جب کوئی گمنام اورکم مرتبہ شخص اپنے کو پردہ خفا میں رکھتے ہوئے کسی بھاری بھرکم متعارف شخصیت کے نام سے کتاب شائع کرتا جیسا کہ علم حدیث کی تدلیس میں رائج وشائع ہے جب کہ یہاں معاملہ ایسا نہیں ،بلکہ اس کے برعکس ہے۔
ہمارے مجیب شائد "عون المعبود" کے قضیے سے ناواقف ہیں ، ابو داؤد کی یہ مایۂ صدافتخار شرح علامہ شمس الحق ڈیانوی کی حیات تک ان کے بھائی" شیخ شرف الدین" کے نام سے طبع ہوتی رہی، مگر بعد کے مصنفوں اور تذکرہ نگاروں کا اس پر اجماع ہے کی یہ کتاب اصلا مولانا شمس الحق ڈیانوی کی تصنیف ہے،آپ نے ازراہ شفقت و تلطف اسے اپنے بھائی کی طرف منسوب کردیا ،میں کہتا ہوں کہ جب "عون المعبود" کے انتساب پر دنیا کے کسی مصنف و محدث نے تدلیس کا حکم نہیں لگایا تو "الالبانی شذوذہ واخطاؤہ" کے انتساب پر کون سی دنیا تہہ وبالا ہورہی تھی کہ اس پر تدلیس اور جھوٹ کا حکم لگانا ضروری تھا۔
ہاں اگر تدلیس، اور صرف تدلیس ہی نہیں بلکہ جرح کے تمام اوصاف کسی مصنف اور کتاب میں دیکھنے ہیں تو آپ "الکشف المثالی عن سرقات سلیم الھلالی" کا مطالعہ فرمائیں ،انشاء اللہ ساری حقیقت الم نشرح ہو جائے گی ۔
جواب میں تاخیر اور مجیب کا عذر لنگ
شذوذہ واخطاؤہ کی تصنیف کے تقریبا ١٢/١١سال بعد شیخ البانی کے دو مصاحبوں نے اس کا جواب لکھا،اس تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے مجیب تحریر فرماتے ہیں۔
ایک مدت تک ہم اس کے جواب سے اعراض کرتے رہے کیونکہ ہمارے ہاں نہ تو اس کتاب کی نشرو اشاعت ہوئی تھی اور نہ ہی یہاں زیادہ تر لوگ اس سے واقف تھے ،لیکن جب ہم نے بڑے پیمانے پر اس کی نشرواشاعت دیکھی تو ہمیں اس کتاب کا رد لکھنا پڑا تاکہ عوام الناس یہ نہ سمجھ لے کہ اس کتاب کے مشتملات معروضات حق اور درست ہیں۔
حضرت مجیب کے اس بیان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ....شذوذہ واخطاؤہ کی تصنیف کے مدتوں بعد تک جواب کی حاجت و ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کی گئی ، بلکہ چوتھے ،پانچویں ایڈیشن کے موقع پر جب بڑے پیمانے پر اس کو شائع کیا گیا، اور دور دراز دراز علاقوں اور خطوں تک اس کتاب کی رسائی ہونے لگی ،تو عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور انہیں تذبذب سے بچانے کے لئے "الرد العلمی علی حبیب الرحمن الاعظمی" کی تصنیف کی گئی
اب آئیے ذرا ایک نظر کتاب کی داخلی شہادت پر ڈالتے ہیں،
حضرت مجیب ایک جگہ لکھتے ہیں۔
......... شذوذہ واخطاؤہ کی اول طباعت کے بعد ایک مرتبہ "محدث اعظمی" دمشق آئے اور کچھ دنوں تک "شیخ البانی" کے یہاں مقیم رہے، شیخ البانی کے دل میں آیا کہ "محدث اعظمی" سے اس کتاب کے متعلق گفتگو کریں، اور مصنف (ارشد سلفی ) کے سلسلے میں جو شکوک و شبہات اور ظن و گمان ہیں، ان کو یقینی بنائیں(کیونکہ شیخ البانی اور ان کے اصحاب کو اول دن سے یہ شبہہ ہورہاہے تھا کہ یہ مولانا کی تصنیف ہے ) مگر چند وجہوں سے علامہ البانی نے پوچھنا مناسب نہ سمجھا
١ مہمان ہونے کی وجہ سے
٢ عمر میں بڑے ہونے اور جسم پرضعف ونقاہت کے آثار کی بنا پر
٣ کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی بنا پر
٤ محدث اعظمی کے ساتھ حسنِ ظن ہونے کی بنا پر ۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں ۔
زہیر شاویش نے "محدث اعظمی" سے کتاب ،کتاب کے مصنف اور خود مولانا اعظمی کے مصنف سے ربط و تعلق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انکار کردیا ۔
تیسری جگہ لکھتے ہیں
ہم نے اس حصے میں "شیخ البانی" کی اس غیر مطبوعہ کتاب سے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے جو انہوں نے "الالبانی شذوذہ واخطاؤہ" کی پہلی طباعت کے موقع پر بطور جواب لکھی تھی ۔
یہ تینوں شہادتیں ببانگ دہل یہ اعلان کررہی ہیں کہ .... شذوذہ واخطاؤہ کی تالیف نے ایک کہرام برپا کردیا تھا ، راتوں کی نیند اوردن کا سکون غارت ہو چکا تھا ، اور شیخ البانی تو پہلی ہی طباعت کے بعد اس کا جواب بھی لکھنے بیٹھ گئے تھے ،ایسے میں مجیب کا یہ کہنا کہ" ہم ایک زمانے تک اس سے اعراض کرتے رہے " عذر لنگ از بدتر گناہ" کی قبیل سے ہے
حق بات تو یہ ہے کہ دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ سے بھر پور ... شذوذہ واخطاؤہ کا جواب ایک مدت تک نہیں بن پایا اور ادھر حالت یہ کہ عوام کو بھی مطمئن کرنا تھا ،اس لئے مجبورا 12/11 سال بعد جواب کے نام پر کچھ خامہ فرسائی کرنی پڑی تاکہ عوام کو بزعم خویش مطمئن کیا جاسکے۔
مجیب کی خوش فہمی
شیخ البانی کےدونوں مصاحب اپنے قارئین کو یہ باور کرانے کے لیے ________کہ "شیخ البانی" کے سامنے "علامہ اعظمی" کی علمی حیثیت پرکاہ کی مانند ہے اور "شیخ البانی" کے سامنے وہ گفتگو کی ہمت و جرات نہیں کر پاتے تھے_________دو واقعہ ذکر کرکے اپنا مطلب کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
پہلا واقعہ
ایک بار شیخ البانی اپنی گاڑی سے "علامہ اعظمی" کو دمشق سے حلب لے کر گئے، اس دوران "شیخ" کے دو شاگردوں نے چاہا کہ مولانا سے کسی مسئلہ پر گفتگو کریں، لیکن جتنے سوالات شاگردوں کی طرف سے آتے علامہ اعظمی اسے شیخ البانی کی طرف موڑ دیتے، ایک مرتبہ تو یہاں تک فرمادیا "لا یفتی ومالک فی المدینۃ" اور ایک مرتبہ فرمایا "انی لم ات الی ھنا للبحث والمناقشۃ "میں یہاں بحث ومباحثہ کے لیے نہیں آیا ہوں ۔
دنیا میں خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں ورنہ جس واقعے سے مجیب نے اپنا مطلب کشید کیا ہے وہ واقعہ قطعا ان کے مطلب پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ حضرت مجیب آگے خود فرماتے ہیں "لطول المسافۃ بین دمشق وحلب ظہرت علی الشیخ الاعظمی علامات التعب والاعیاء فما کان من الألبانی الا ان اوقف عربتۃ وفرش للاعظمی مقعدہ الجالس علیہ لیستریح علیہ وان رغب فی النوم فلیفعل"
دمشق اور حلب کے درمیان لمبی دوری ہونے کی وجہ سے علامہ اعظمی پر ضعف و تکان کے اثار نمایاں تھے اس لئے شیخ البانی نے اپنی گاڑی روکی اور علامہ کی سیٹ کھول دی تاکہ آپ آرام کرسکیں اور اگر سونے کی خواہش ہو تو سو بھی جائیں
ایک تو سفر کی مشقت جس کے لئے شریعت نے بھی ہاف اور معاف کا اصول بنایا اس پر مستزاد 70 سال کا ایک بوڑھا، اگر بات کرنے اور بحث و مباحثہ سے گریز کر رہا ہو تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی عقل سلیم اس پر طعن و تشنیع کی اجازت دے گی۔
[حضرت والا حفظ الرحمان اعظمی صاحب کا یہ مضمون انکی فیسبک پروفائل سے لیا گیا ہے جسکی صرف 2 اقساط دستیاب ہوئی ہیں۔ ]
۔
![]() |
محدث شیخ مصطفی اعظمی حنفی رحمہ اللہ شاہ فیصل ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے |
محدث شیخ مصطفی اعظمیؒ حنفی جو سعودی عرب کی دو بڑی یونیورسٹیوں

1۔جامعہ ام القری مکہ
2۔ جامعة الملك سعود ریاض میں فرائض تدریس انجام دے چکے ہیں اور انہوں نے کچھ عرصہ قطر کی نیشنل لائبریری میں کتابوں کے محافظ کے طورپر بھی کام کیا۔ وہ کنگ سعود یونیورسٹی میں پروفیسر امیرٹس تھے جہاں وہ شعبہ دراسات اسلامیہ کے چیرمین بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ وزٹنگ پروفیسرکی حیثیت سے کئی ساری مغربی یونیورسٹیوں میں آتے جاتے رہے۔ جن میں مشی گن [Michigan State University]
میں وزٹنگ پروفیسر، سینٹ کراس کالج (یونیورسٹی آف آکسفورڈ)
[St Cross College University in Oxford, England ]
میں وزٹنگ فیلو، کنگ فیصل استاذ زائر برائے دراسات اسلامیہ پرنسٹن یوینورسٹی [Princeton University]
، وزٹنگ اسکالر یونیورسٹی آف کولوراڈو
[University of Colorado] شامل ہیں ۔
مزید برآں یونیورسٹی آف ویلز [University of Wales]
نے ان کو آنریری پروفیسر یعنی اعزازی پروفیسر کا درجہ دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ :
البانی اتنانقصان پہنچا گیا ہے کہ اس کی بھرپائی میں دوسوسال لگیں گے، یہ عرب اب بیدار ہوئے ہیں ، برصغیرکے علما نے پہلے ہی اس کی خطرناکی کا اندازہ کر لیا تھا“
مکمل مضمون کا لنک ، یہاں سے محدث مصطفی اعظمی رحمہ اللہ کا تعارف پڑھیں
شیخ البانی محدث عوامہ حنفی صاحب کی نظر میں:
![]() |
محقق زماں شیخ عوامہ حنفی حفطہ اللہ |
وثالث آخر : اعتاد أن يخرج على الناس بين الحين والآخر بكتاب
من تأليفه أو تحقيقه، ويُخصص مقدمته للسباب والشتائم، والإقلاع والوقيعة، لايريد أن يوجد في الدنيا مَن يُمسك قلما إلا وهو خاضع أمامه، وارث من إقذاعه ،وبذاءته أَعْشَتْه غطرَسَتُه عن أن يرى غيرها أهلاً
لعلم أو رأي أو فهم. (اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء ص 10)
ترجمہ :
اور تیسری بات یہ ہے کہ اس (شیخ ناصر الدین البانی) کی عادت ہیکہ لوگوں کے پاس یکے بعد دیگرے اپنی کتابوں میں سے کوئی کتاب لے کر آتا ہے یا تحقیق میں سے ، اور اپنے مقدمے کو گالی گلوچ کے لیے اور بری باتوں کے لیے اور عیب جوئی کے لیے خاص کر دیتا ہے۔ یہ(البانی) چاہتا ہے کہ دنیا میں جو بھی قلم پکڑے(یعنی کتاب لکھے) اس (البانی) کے سامنے جھکا ہوا ہو اس کی بری باتوں اور بدزبانیوں کا وارث ہو ، اس (البانی) کی غطرست نے اس کو اندھا کر دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کو علم رائے یا فہم کا اہل سمجھے (یہی حال البانی کے موجودہ اندھے اور متعصب مقلدین کا ہے از مساعد زیب)
شیخ محمد عوامہ نے یہ کتاب البانی کے انتقال سے دوسال پہلے لکھی تھی۔امید ہے کہ البانی نے اسے دیکھاہوگا لیکن اس کی تردید نہیں فرمائی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں