ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 08)
البانی اصول فقہ سے ناواقف شخص تھا :
شیخ البانی کے متعلق شیخ ابو غدہ حنفی رحمہ اللہ (متوفی ۱۴۲۰ھ) لکھتے ہیں کہ :
’’وإنما أدی إلی ھذا الشذوذ اعوجاجُ فھمہ لبعض النصوص لضعف معرفتہ بأصول الفقہ، بل أصول الروایۃ والدرایۃ أیضا‘‘۔
ترجمہ : بعض نصوص میں کج فہمی نے ان (شیخ البانی ) کو اس شذوذ تک پہنچادیا ہے، اور اس کی وجہ اصول فقہ، بلکہ اصولِ روایت و درایت سے واقفیت کی کمی ہے۔
(خطبۃ الحاجۃ لیست سنّۃ فی مستہلّ الکتب والمؤلفات ،ص:۵۲)
شیخ ناصر الدین البانی سے معاصر عالم معروف محقق و محدّث شیخ عبدالفتّاح ابوغدّہ حنفی رحمہ اللہ کا علم حدیث پر مناظرہ :
![]() |
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ حنفی رحمہ اللہ |
هذا الالباني ناقشه الشيخ عبد الفتاح ابو غدة الحلبي المحدث والعالم الاصولي في علم الحديث صار بينهم محاورة نقلها اخي الشيخ محمد منير رحمه الله قبل وفاته في شهر شعبان عندما قدم الى المدينة المنورة قال لي بالحرف الواحد تناقش معه في مدينة الرياض۔
البانی کے ساتھ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ جو محدث ہیں ، عالم ہیں ، علم حدیث کے اصولوں کو جاننے والے ہیں ان کے درمیان محاورہ ہوا اس کو میرے بھائی شیخ منیر احمد رح نے اپنی وفات سے پہلے نقل کیا اور یہ مناظرہ ریاض میں ہوا تھا ،
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کیا تم محدث اور حدیث کے عالم ہو ؟
البانی : لوگ اسی طرح کہتے ہیں۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم نے علماء میں سے کس سے اسانید لی ہیں ۔۔؟
البانی : میں نے کتابوں سے لی ہیں ۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایسا آدمی محدث نہیں ہوتا ، جب تک آدمی محدثین کرام سے حدیث نہ لے وہ آدمی محدث نہیں ہوتا ۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کیا تم نحو اور صرف اور باقی علوم کو جانتے ہو ؟ اجازت مرحمت فرمائیں تو ذرا صحیح بخاری لیکر آئیں ۔
تو احباب صحیح بخاری لے کر آئے
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے رسول الله ﷺ کے غزوات میں سے کوئی حدیث نکالی اس میں رسول الله ﷺ نے صحابہ کرام کو فرمایا تھا
"اذھبوا واِربعوا " یہ حدیث نکال کر البانی کو دی اور کہا یہ حدیث پڑھ کر سناؤ
البانی نے وہ حدیث پڑھنا شروع کی اور اس کلمہ تک پہنچا تو کہا "اَربعوا "ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ حالانکہ یہ ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ تھا اور ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ معنی تھا کہ "چار چار ہو کر جاؤ" اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ معنی تھا کہ " چار پر چلو "
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اتنی بات کافی یے کہ تم تو چلتے بھی چار پر ہو ۔ تیرے جاہل ہونے کیلئے اتنی بات بھی کافی ہے اے وہ آدمی جو چوپایہ(جانور) ہے جاؤ لغت سیکھو اس کے بعد حدیث میں مشغول ہو
یہ زمانہ کا اعجوبہ کہاں سے آگیا ہے ،
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آل سعود کو علم حدیث کا پتہ نہیں تھا تو انہوں نے جامعۃ الاسلامیہ میں اس کو حدیث کا استاذ رکھے رکھا.
اور یہ اپنے شاگردوں کو جو کہا کرتا تھا اس میں سے یہ بھی تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں رسول الله ﷺ کی قبر حرم سے نکال دیتا اور سبز گنبد کو گرادیتا
اور اس کے شاگردوں میں سے" جہیمان" تھا جس نے1400ھ میں مہدی ہونے کا قصہ گھڑا
حرم کی حرمتوں کو پامال کیا فجر کے وقت اسلحہ لے کر حرم میں داخل ہوا اور بہت سارے لوگوں کو مارا اور حرم کے دروازے بند کر کے اپنے مہدی منتظر ہونے کے نام سے بیعت طلب کی[شیخ ناصر الدین البانی کے اس فتنہ زدہ فتوی اور جہیمان بدبخت کے حالات کو میں آئندہ اقساط میں مفصل بیان کروں گا ۔از مساعد زیب]
تو اس فتنے کے بعد البانی کو اردن کی طرف جلا وطن کر دیا گیا .
وتكلم الشيخ عبد الفتاح والشيخ عبد الله سراج الدين الحلبي واخر من تكلم الشيخ المحدث تلميذ الشيخ عبد الله سراج الدين في هذا العصر وهو الآن في المدينة المنورة الشيخ محمد عوامة الحلبي قال عن الالباني لقد مزق الامة الاسلامية
نیز شیخ محمد عوامہ الحلبی نے کہا کہ اس البانی نے امت کو پارہ پارہ کردیا
![]() |
شیخ عبدالفتاح ابو غدہ حنفی رحمہ اللہ |
اس مناظرے پر شیخ البانی کے مداح ابو عمر سیف الضمیری سلفی نے چند تبصرے کرتے ہوئے اسے باطل قرار دیا ہے کیونکہ البانی کے معتقد کے خیال میں
1۔ اس مناظرے میں شیخ البانی کے ساتھ جاہلوں کا سا سلوک کیا گیا ہے جبکہ البانی اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تھا۔
2۔البانی نے باقاعدہ علم بھی حاصل کیا تھا ۔
3 البانی تمام علوم و فنون کا ماہر تھا
4۔جہیمان(کعبہ پر حملہ آور) البانی کا شاگرد نہ تھا
5۔البانی کی تعریف علماء نے کی ہے۔
6۔البانی کا موقف قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد نبوی سے جدا کرنے کا درست تھا۔
جواب 1:
شیخ البانی کو آئینہ دکھایا تو البانی صاحب کے حواری برا منا گئے۔ شیخ البانی جس قدر کرخت لہجہ اپنے مخالفین کیلئے استعمال کرتا تھا اسکی حقیقت قاموس شتائم البانی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
نیز البانی صاحب نے تو اہل سنت کے مشہور علماء کو بھی نہیں چھوڑا، ان کو گالیاں دی ہیں، ان کی توہین کی ہے۔نمونے کے طور پر کچھ موارد یہاں پر بیان کرتے ہیں: البانی نے کبار اہل علم جیسے امام ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ، امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ، امام ذهبی شافعی رحمہ اللہ، امام حافظ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ، امام صنعانی رحمہ اللہ پر خطا کا الزام لگایا ہے اور ذہبی رحمہ اللہ اور امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ پر تناقض گوئی کی تہمیت لگائی ہے۔
البانی کی سلف پر زبان درازیاں :
قارئین کرام!
البانی اپنے دعوی اتباع سلف میں کتنا سچا تھا اور اسلاف کا دامن تھامنے اور خود کو سلفی کہنے میں کتنا حق بجانب تھا آئیے ہم آپ کو تصویر کا صحیح رخ دکھاتے ہیں
لیجیئے! یہ ہیں دسویں صدی کے مجدّد ، ایک ہزار سے زائد کتب کی تصنیفات کا شرف پانے والے، دو لاکھ احادیث کے حافظ، امام جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابوبکر السیوطی علیہ رحمۃ جن کی جلالت شان مسلمہ ہے ۔
ان کے بارے میں البانی صاحب کی "بازاری زبان" ملاحظہ فرمائیں اور اسکی اسلاف سے عقیدت کو داد دیں :
(1) قلت : فیا للعجب للسیوطی کیف لم یخجل من تسوید کتابه " جامع الصغیر " بھذا الحدیث ۔۔؟
ترجمہ : حیرت ہے سیوطی پر اسے ذرا شرم نہیں آئی کس طرح اپنی کتاب کو اس حدیث سے سیاہ کر ڈالا
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 3 ص 479)
(2) وجعجع حوله السیوطی فی " اللآلی " دون طائل ۔
اس حدیث کے دوران سیوطی نے بے فائدہ" ٹر ٹر" کی ہے
جعجع کا معنی ہے : اونٹ کی آواز بھینسے کی آواز بکرے کی آواز ۔ (ہمارے اردو محاورے میں کسی کی آواز کو جانور کی آواز سے تشبیہ دینے کیلئے" ٹر ٹر" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لہذا یہی ترجمہ بنتا ہے)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 4 189)
(3) 《والحدیث مما سود به السیوطی جامعه الصغیر۔ 》
اور یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے سیوطی نے اپنی جامع الصغیر کو سیاہ کر ڈالا ۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 3 ص 360 )
(4) 《 ثم ان السیوطی تناقض》 ۔
پھر سیوطی نے متضاد بیان دیا۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 4 ص 386)
مجھے حیرت ہے کہ وہ شخص جو خود شیشے کے محل میں بیٹھا ہو اس کو کیسے جرائت ہوئی کہ ایک مضبوط قلعے پر سنگباری کرے جس جناب پر تناقضات کی کتب لکھی پڑی ہیں وہ چلا ہے دوسروں پر تناقض کے فتوے لگانے ویل اللالبانی
البانی کی زبان درازی سے امام ذھبی شافعی رحمہ اللہ بھی محفوظ نہ رہ سکے :
ايسے عظیم محقق کے متعلق جنکی کتابی انکی گہری تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ البانی کے الفاظ سنیں ۔ اور اندازہ لگائیں۔ کہ یہ شخص تکبر کے کسی اسٹیج پر تھا۔اور اسلاف کے متعلق کتنا بد گمان تھا ۔ اور امت اسلامیہ کو شک کا انجکشن لگا کر کس دوراہے پر چھوڑ گیا۔ آج امت اسلامیہ میں اسلاف سے بداعتمادی کی جو فضا نظر آرہی ہے وہ البانی کی انہیں "شکی عبارات " کیوجہ سے ہے۔ اب دل تھام کر" تہذیب التہذیب میزان الاعتدال، تذکرة الحفاظ اور تاریخ الاسلام "جیسی محققانہ تصانیف کے مصنف پر کسے گئے جملے سنیں۔
" ایک حدیث جسکو امام حاکم ، علامہ ذھبی اور امام بیہقی نے صحیح کہا ہے۔ اس پر اپنی تحقیق جھاڑ کر امام ذہبی کو کم نظر، غیر محقق اور متضاد بیان دینے والا کہہ ڈالا۔
وہ بھی صرف ایک حدیث کے متعلق نہیں بلکہ خود البانی کی زبان میں بہت ساری احادیث میں ۔
في غاية المرام ص 35 [ قلت : فلِمَ إذن وافق الحاكم على تصحيح إسناده؟ وكم لهُ أي( الذهبي ) من مثل هذهِ الموافقات الصادرة عن قلة نظرٍ وتحقيق ]
اور دوسری کتاب السلسلة الضعیفة میں تو حد ہی کر دی۔
في " ضعيفته "( 4 / 422 ) بحوالہ قاموس شتائم البانی
" فتأمل مبلغ تناقض الذهبي ! لتحرص على العلم الصحيح وتنجو من تقليد الرجال۔
" اه " البانی صاحب کہتے ہیں ۔ غور کرو ذہبی کے متضاد بیانی کی حد میں ۔ تاکہ تم صحیح علم کے متلاشی بن جاؤ اور لوگوں کی تقلید سے چھٹکارا پالو.
معلوم ہوا کہ جناب کی نظر میں ذہبی متضاد بیان دینےوالے بھی ہیں صحیح علم سے خالی بھی ہیں اور لوگوں کی تقلید کا شکار بھی ہیں۔
[ناقل مفتی صابر سلطان صاحب]
امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ پر زبان درازی:
《ولذلك فقد أخطأ الحاكم خطأ فاحشا》
(ضعيفته ج3 ص 458)
اور سی وجہ سے امام حاکم نے فحش غلطی کی ہے
البانی نے امام حاکم پر بھی تناقض کا الزام لگایا ہے
《قلت : ومن تناقض الحاكم في المستدرك》
(كتاب التوسل صفحة 106)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پر طعن:
《وتناقض رأي ابن حجر فيه ، ففي " التهذيب " يرجح قول أبي حاتم إنه تابعي ، وفي التقريب يجزم بأنه صحابي صغير له رؤية ، وليس يخفى على طالب العلم أن هذا التناقض من مثل هذا الحافظ ما هو إلا لانه》
(ضعيفته ج 3 ص 266)
ابن حجر کی رائے میں تناقض ہے ،تہذیب میں ابن حاتم کےبقول تابعی کو راجح کہتے ہیں جبکہ تقریب میں جزم کے ساتھ انکو چھوٹے صحابی کہتے ہیں اور انہوں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا ہے۔اور کسی طالب علم پر مخفی نہیں ہیکہ یہ تناقض ہے ایسے حافظ سے
تین جلیل القدر آئمہ امام حاکم ،امام ذہبی اور امام منذری رحمھم اللہ پر البانی کا طنز اور طعن:
《وقال الحاكم: صحيح الإسناد ووافقه الذهبي وأقره المنذري في"الترغيب" وكل ذلك من إهمال التحقيق والاستسلام للتقليد, وإلا فكيف يمكن للمحقق أن يصحح مثل هذا الإسناد》
(ضعيفته 3 / 416)
امام حاکم نے اسکو صحیح الاسناد کہا ، ذہبی نے اسکی موافقت کی اور منذری نے اسکو برقرار رکھا یہ سارا 1۔تحقیق کو چھوڑنے
2۔اپنے آپ کو تقلید کے حوالے کرنے کی وجہ سے ہے
3۔محقق کیلئے کیسے ممکن ہے کہ اس جیسی سند کو صحیح قرار دے
امام مناوی رحمہ اللہ پر تعصب اور تناقض کا الزام :
《 بل هو من تعصب المناوي علیہ 》
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة جلد 2 ، صفحه 345)
《 وإن من عجائب المناوي التي لا أعرف لها وجها أنه في كثير من الاحيان يناقض نفسه۔》
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة جلد 4 ، صفحه : 34)
البانی کا امام ابن جوزی رحمہ اللہ پر تناقض کا الزام :
ولذلك فقد أساء ابن الجوزي بإيراده لحديثه في " الموضوعات " ! على أنه قد تناقض ، فقد أورده أيضا في " الواهيات " يعني الاحاديث الواهية غير الموضوعة
(صحيحته ، الجزء 1 ، صفحة 193)
شیخ البانی کی امام سبکی شافعی رحمہ اللہ پر زبان درازی
《ثم تعقبه السبكي نحو ما سبق من تعقب الحافظ لابن طاهر ، ولكنه دافع عنه بوازع من التعصب المذهبي ، لا فائدة كبرى من نقل كلامه وبيان ما فيه من التعصب》
(ضعيفته : ج2 ص 285)
البانی کی اپنی زبان درازیاں اس قدر ہوں ، وہاں دوسری طرف وہ معاصر اہل حق علماء سے اپنے لیئے لمبے چوڑے القابات مانگے ، نہایت بے شرمی کی بات ہے۔
جواب 2:
البانی نے باقاعدہ علم حاصل کیا ، یہ بات غلط ہے۔
شیخ البانی یورپ میں پیدا ہوئے نسلا انگریز تھے [فتاوی علمائے حدیث ج 2 ص 176 ، سکین حوالہ علی جانباز صاحب]
، البانی نے اپنے والد شیخ نوح نجاتی حنفی رحمہ اللہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔شروع میں عربی سے واقفیت نہ تھی۔موصوف فرماتے ہیں
《وكان عمري في ذلك الوقت تسع سنوات، وما كنت أعرف من اللغة العربية شيئًا، فعندما ذهبنا إلى دمشق ما كنا نعرف القراءة والكتابة باللغة العربية -》
ميرى عمر اس وقت نو سال تھی۔ میں عربی زبان کا کچھ بھی نہیں جانتا تھا، جب ہم دمشق گئے تو عربی میں ہمیں لکھنا پڑھنا تک نہیں آتا تھا)
سلفیوں نے لکھا ہیکہ:
سوریا آنے کے بعد ایک پرائیویٹ مدرسہ جمعیۃ الاسعاف الخیری میں داخلہ لیا اور مسلسل چار سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ مدارس میں جو علوم آلہ پڑھائے جاتے ہیں ان تمام علوم سے اپنے آپ کو لیس کیا۔
واضح ہو کہ نہایت ذہین ہونے کی وجہ سے پہلے دو سال کا کورس آپ نے ایک سال میں ہی ختم کر دیا تھا۔ اس لیے گرچہ مذکورہ مدرسے میں صرف چار سال تھے لیکن یہ کورس چار سال سے زیادہ کا تھا جو آپ نے وہاں پڑھا۔ آپ عربی زبان وقواعد میں اس طرح ماہر ہو چکےتھے کہ عربی طلبہ جن مسائل کو حل نہیں کر پاتے تھے استاد آپ کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے :
"ما ذا تقول يا أرناؤطي عن هذه الجملة؟ اے ارناؤطی-یعنی البانی۔تم اس جملہ کے بارے کیا کہتے ہو؟
شیخ صحیح جواب دیتے اور استاد عرب طلبہ کو عار دلاتے کہ دیکھو تم عرب ہو اور یہ عجمی ہیں لیکن صحیح جواب انھوں نے دیا ہے۔
البانی صاحب نے ایک مدرسہ میں 4 سال تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کے والد نے انھیں مدرسہ سے نکال لیا اور گھر میں ان کے لیے ایک نہایت منظم کورس تیار کیا اور وہیں ان کی آگے کی تعلیم جاری رہی۔ ان کے والد خود بہت بڑے حنفی عالم تھے اور اس علاقے میں انھیں مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ شیخ نے ان کے پاس علم الصرف اور فقہ حنفی پڑھا، ساتھ ہی ان کے پاس تجوید کے ساتھ حفص عن عاصم کی قرأت میں پورا قرآن ختم کیا۔ وہیں شیخ نے دمشق کی مشہور مسجد، مسجد بنی امیہ کے امام شیخ سعید البرہانی کے پاس بھی فقہ حنفی پڑھا۔ جس میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب مراقی الفلاح شرح نور الایضاح نامی کتاب بھی تھی۔ ان سے شیخ نے خصوصی طور پر علم النحو اور علم البلاغہ کی تعلیم حاصل کی۔ وہیں شیخ نے حلب (سوریا) کے مشہور محدث شيخ راغب الطباخ حنفی حلبی سے علم حدیث میں اجازہ بھی حاصل کیا۔ [ حياة الالبانى وآثاره لمحمد ابراہیم الشیبانی: ص۴۴-۴۶، صفحات بيضاء من حياة الامام الالبانى لابی اسماء عطية المصري: ص ۱۹-۲۲ ، العلامة الالبانی حیاتہ و منہجہ ومؤلفاتہ وثناء العلماء عليه لابي الحسن محمد بن الحسن الشيخ ص۱۱-۱۲]
تبصرہ:
سلفیوں کے اس بیان سے ہم چند باتیں اخذ کرتے ہیں۔
1۔ البانی صاحب 4 سال مدرسہ میں گزار کر بھی عربی کے بنیادی علوم سے واقف نہ ہو پائے ۔ سلفیوں کے مطابق شیخ البانی بچپن میں باقی عرب طلباء سے زیادہ ذہین تھے جبکہ ہمارا معصومانہ سوال یہ ہیکہ مزعومہ ذہین طالب علم 4 سال کے بعد بھی بنیادی مضمون (کورس)علم الصرف ، علم النحو کی تعلیم کیوں حاصل کرتا ہے ؟
کیا 4 سال تک مدرسہ میں علم الصرف جیسا ابتدائی علم حاصل نہ کر سکا؟
آخر کیا وجہ تھی کہ 4 سالہ فاضل کیلئے شیخ نوح نجاتی حنفی رحمہ اللہ نے خود سے " منظم کورس " تیار کروایا وہ بھی ابتدائی علم الصرف علم النحو۔
معلوم ہوا یورپی گھڑی ساز ، شیخ البانی کی جھوٹی تعریفیں گھڑی گئی ہیں ورنہ کہاں عربوں کا عار دلانے والا خود ساختہ ذہین بچہ کہاں علم الصرف کا ٹیوشن حاصل کرنے والا البانی۔
دال میں کچھ کالا ہے۔
2۔یوں تو نام نہاد سلفی غیر مقلد اہلحدیث احناف کی تعریف نہیں کرتے ،جاہل مقلد کہتے ہیں لیکن چونکہ یہاں حنفی نوح نجاتی رحمہ اللہ ، " لاڈلے البانی صاحب " کے باپ تھے تو غیر مقلد اہلحدیثوں نے تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے
《 ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ 》
(سورہ الجمعہ - آیت نمبر 4 )۔
مختصرا یہاں شیخ البانی کئ والد کا تعارف نقل کرتے ہیں۔
الشيخ الفقيه نوح الألباني الأرناؤوطي الحنفي (١٣۷۲ / 1952)
والد گرامی ناصر الدین البانی غیر مقلد .
![]() |
شیخ نوح نجاتی حنفی رحمہ اللہ |
شیخ نوح البانی رحمہ اللہ البانیا کے شہر اشكودر میں پیدا ہوئے ، اور اسی شہر کے علماء کرام سے تحصیل علم کیا. البانیا میں نامناسب حالات کے پیش نظر دمشق ہجرت کی اور منطقۂ حکر النعنع کے عمارہ گلی میں رہنے لگے . وہیں پر تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ عقیبہ گلی میں مسجد توبہ کے قریب گھڑی سازی کا کام کرنے لگے .
شیخ نوح البانی رح نے اپنے ہی گھر میں مدرسہ کھولا تھا ، جس میں دیگر طلباء کی طرح ان کے بیٹے ناصر الدین البانی اور شیخ شعیب الارناؤوط (حنفی) رحم اللہ نے بھی زانوئے تلمذ طے کئے تھے . شیخ نوح اپنے تلامیذ کی علمی استعداد بڑھانے کی خاطر ان میں علمی مذاکرے کراتے تھے .
شیخ نوح رح ایک سفید ریش,اچھے اخلاق والے, متقی اور پرہیزگار عالم دین تھے . حنفی مذہب پر سختی سے کاربند تھے . کسی بھی مخالف کی طعنوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے . فرماتے تھے کہ حق بیان کرنے میں کسی سے بھی ڈرنا نہیں چاہیئے .
انتہائی فروتن اور متواضع شخصیت تھے . پیدل چلنا پسند کرتے تھے اور خوب کثرت سے پیدل چلتے تھے .
١٣۷۲ ھ کو علالت کے بعد دمشق کے اسی علاقے حکر النعنع والے گھر میں فوت ہوئے اور مقبرۂ دحاح میں مدفون ہوئے.
رحمہ اللہ .
(تاریخ علماء دمشق في القرن الرابع عشر)
از قلم عنایۃاللہ عینی صاحب
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں