نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 09)


ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 09)

ایک عجیب مماثلت :

حضرت نوح علیہ السلام کا ایک نافرمان بیٹا تھا (کنعان)۔طوفان نوح کے وقت اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی بات نہ سنی اور طوفان میں غرق ہو گیا۔ یہ پورا واقعہ سورہ ھود میں مذکور ہے ۔

عجیب اتفاق ہیکہ ناصر الدین البانی کے والد صاحب کا نام بھی نوح تھا اور انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو غیر مقلدیت/سلفیت سے دور رہنے کی التجا کی تھی لیکن ناصر الدین البانی بھی کنعان کی طرح ضدی نکلا اور اسکے والد صاحب شیخ نوح نجاتی حنفی [انبیاء کے وارث] نے اسکو اپنے گھر سے بے دخل کر دیا بالکل کنعان کی طرح[جو کشتی نوح میں شمولیت سے محروم رہا] ،ناصر الدین البانی صاحب بھی سلفیت کے گمراہ کن طوفان کی موجوں کے شکار ہو گئے۔ 

ہمارا یہاں یہ مماثلت بتلانے کا مقصد البانی صاحب کو ہرگز غیر مسلم قرار دینا نہیں بلکہ گمراہیت کا بتانا مقصود ہے۔

شیخ البانی کے والد ، اپنے بیٹے ناصر الدین البانی کی غیر مقلدیت سے بے حد نالاں تھے ، آئمہ فقہاء اور بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں ناصر الدین البانی کے بے ادب لہجہ اور حنفی فقہ کا انکار کی وجوہات کی بناء پر شیخ ناصر الدین البانی اپنے والد محترم کی نظروں میں ہمیشہ کیلئے گر گئے۔ شیخ ناصر الدین البانی کو ان کی اس نافرمانی پر گھر سے بے دخل کر دیا گیا

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن 

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

شیخ شعیب ارنووطی حنفی محدث رحمہ اللہ

قارئین ، جہاں بد قسمتی سے ناصر الدین البانی اپنے والد سے استفادہ نہ کر پائے ، اور ترک تقلید اور نفس پرستی کی راہوں کے مسافر ہوئے ، وہیں محقق وقت شیخ شعیب الارنووط حنفی رحمہ اللہ شیخ نوح نجاتی کے شاگرد بنے اور آخر وقت تک اپنے شیخ کے عقیدت مند رہے۔جہاں البانی نے امام اعظم رحمہ اللہ پر تنقید کی ہے وہیں شیخ شعیب الارنووط حنفی رحمہ اللہ نے امام صاحب کا زبردست دفاع کیا ہے جس کو البانی صاحب برداشت نہ کر پائے اور شیخ شعیب ارناووط رحمہ اللہ پر "متعصب حنفی" ہونے کا بلا دلیل الزام لگا گئے۔

قال الألباني في "سلسلة الهدى والنور" الشريط رقم (323):

(الشيخ شعيب معروف مخالفته للدعوه السلفيه،وتعصبه للمذهب الحنفي)

شیخ شعیب ارنووط رحمہ اللہ بلاشک و شبہ معتدل حنفی تھے ۔شیخ شعیب کی حیات و خدمات پر ان کے شاگرد جناب ابراہیم زیبق صاحب نے "المحدث العلامۃ الشیخ الارنؤوط، سیرتہ فی طلب العلم وجھودہ فی تحقیق التراث" کے نام سے قلمبند کی ہے۔ مکمل عربی کتاب ڈاونلوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں ۔

المحدث العلامۃ الشیخ الارنؤوط، سیرتہ فی طلب العلم وجھودہ فی تحقیق التراث

اس کتاب کے ایک حصے میں شیخ البانی کی تحقیقات کے متعلق ان کی بعض تنقیدی آرا کا تذکرہ ہے۔جس کا اردو ترجمہ مولانا محمد یاسر عبداللہ صاحب نے کیا ہے اور اسے اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے 

عالمِ عرب کے معروف عالم شیخ البانی شیخ شعیب ارنوٴوط کی نظر میں

شیخ ناصر الدین البانی کے مطابق وہ اپنے والد کے انتہائی شکرگزار ہیں کہ انکی البانیہ سے شام ہجرت کی بدولت وہ اجھل الجاھلین کی صفوں میں شامل نہ ہوئے ۔

(صفتہ صلاہ النبی ، صفحہ 8 ، مترجم عبدالباری ، اہل حدیث تعلیمی و رفاہی سوسائٹی یو پی ۔)

اسکے برعکس انکے والد شیخ نوح نجاتی رحمہ اللہ آخر عمر تک اپنے نافرمان بیٹے ناصر الدین البانی سے ناراض رہے اور دبے الفاظ اور اپنے افعال سے اسکا ثبوت دیتے رہے۔جب شیخ شعیب ارنووطی حنفی رحمہ اللہ نے اپنے استاد سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے سے ناراض ہیں؟ تو البانی صاحب کے والد بزرگوار کے دل پر گہرا اثر ہوا ،[شاید بیٹے کی شفقت میں ] انہوں نے افسوس بھری آواز میں کہا " کہ نہیں ،میں اس سے ناراض نہیں ہوں کبھی بھی ، میں کہتا ہوں وہ غلط ہے اور میں اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ، اور کون جانتا ہے وہ صحیح ہو اور میں اس سے ناراض کیوں ہوں؟؟ " شیخ نوح نجاتی اس کے بعد اداسی بھرے قدموں کے ساتھ اپنے رستے چلے گئے اور شیخ شعیب ان کے پیچھے چلنے لگے 

[المحدث العلامۃ الشیخ الارنؤوط، سیرتہ فی طلب العلم وجھودہ فی تحقیق التراث۔ صفحہ 48]

اس واقعے سے خوب معلوم ہوتا ہیکہ شیخ ناصر الدین البانی نے اپنے والد بزرگوار کو اپنی نافرمانی کے باعث سخت غم ، کڑھن اور دکھ کے سمندر میں جا پھینکا تھا لیکن دوسری طرف شیخ نوح نجاتی کو ٹمٹماتی امید تھی کہ شاید ناصر الدین البانی تائب ہو کر واپس آ جائے ، لہذا اس کیلئے سخت الفاظ استعمال نہ کرتے تھے بلکہ دل ہی دل میں اس روگ کو لئے بیٹھے تھے جسکا واضح ثبوت ان کا بجھا ، اداس اور افسردہ چہرہ تھا ۔

سلام ہے شیخ نوح نجاتی حنفی رحمہ اللہ پر کہ جنہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی محبت اور تعظیم کا اپنی پدرانہ شفقت سے سمجھوتہ نہ کیا ، بیٹے کو غیر مقلدیت سے توبہ تائب کی نصیحت کی اور آخر دم تک مسلک حق اہل السنت والجماعت سے رشتہ قائم رکھا اور بیٹے کے رشتے کو قربان کیا ۔

سلام ہو شیخ شعیب ارناووطی پر جن کی بدولت ہمیں شیخ نوح نجاتی رحمہ اللہ کے دل کا اصل حال معلوم ہوا ، ورنہ بعض الناس نے تو "لاڈلے البانی صاحب" کے والد بزرگوار کو مذموم مقاصد کی وجہ سے خوش باش مشہور کروایا تھا۔

3۔البانی صاحب نے اصول حدیث کی کوئی تعلیم باقاعدہ کسی استاذ سے حاصل نہیں کی ، بلکہ تانکا جھانکی کی حد تک محمد بہجہ البیطار کے دروس میں شرکت کرتے رہے ۔البانی صاحب نے چونکہ کسی استاد سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی اس لیئے ان کا علم متناقض تھا۔

 بے شک البانی صاحب کا مطالعہ وسیع تھا لیکن بقول مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب ،البانی صاحب کو اتنا وسیع علم بھی گمراہی سے بچا نہ سکا۔ البانی کے علوم و فنون کی مہارت کیا تھی ، اس کیلئے ہم  

ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے قسط 06 میں کتب  گنوا چکے ہیں۔

جہاں تک دنیاوی علم کی بات ہے تو  بعض سلفی اہلحدیث البانی صاحب کے بارے میں دعوی کرتے ہیں کہ وہ سائنسدان و موجد بھی تھے۔۔ 

بعض الناس کے من گھڑت قصوں مطابق شیخ البانی درج ذیل ایجادات کے موجد تھے۔

1۔شمسی توانائی سے چلنے والا گیزر

2۔اوقات نماز کیلئے [sun dial] سن ڈائل

3۔ لفٹ Elevator

4.مطالعہ کتب کیلئے گول چکر والا آلہ

5۔پورٹیبل اسٹک

6۔پرندوں کی خوارک کیلئے آٹومیٹک آلہ جو مقررہ وقت پر مخصوص دانے پرندوں کے پنجرے میں گراتا تھا۔

غیر مقلد اہلحدیثوں کا شیخ البانی کو سائنسدان اور موجد قرار دینے کی داستان کا پردہ چاک :

ہم البانی صاحب کی ایک ایک ایجاد کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔شمسی توانائی سے چلنے والا گیزر

سولر گیزر یا شمسی توانائی سے چلنے والا گیزر ، پانی کو گرم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

قارئین کرام سلفیوں کے مطابق شیخ البانی نے ایک صندوق نما ٹینک ایجاد کیا تھا جسے کول تار کے ذریعے لیپا ہوا تھا۔ پانی جب اس ٹینک میں آتا تو کول تار کی تپش سے گرم ہو جاتا اور اس میں محفوظ رہتا۔جب کہ یہ شیخ البانی پر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

پانی گرم کرنے کے گیزر کا موجد انگلستان کا ایک رنگ ساز "بینجمن موگن" ہے جس نے 1868 عیسوی میں شیخ البانی کی پیدائش سے 46 سال قبل ٹینک نما گیزر ایجاد کیا ،جبکہ تار کول سے حرارت کا کام البانی سے ایک صدی پیشتر ہی سے شروع ہو چکا تھا۔لہذا یہاں البانی صاحب کو گیزر کا موجد نہیں کہہ سکتے ۔

2۔اوقات نماز کیلئے سن ڈائل (سورج کی مدد سے ٹائم دیکھنے کا آلہ)

البانی صاحب کو سن ڈائل کا موجد قرار دینا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔کیونکہ سن ڈائل 1500 قبل مسیح میں مصریوں کی ایجاد ہے۔جبکہ مسلم دنیا میں اوقات نماز کیلئے سن ڈائل کا آغاذ عباسی خلافت کے زمانے میں ہو چکا تھا۔ مشہور شامی ماہر فلکیات ابن شاطر متوفی 1375 عیسوی نے جامع مسجد اموی میں ایک سن ڈائل بنایا تھا۔ اسکے علاوہ حنفی ماتریدی خلافت عثمانیہ کے کئی معماروں نے سن ڈائل کے ڈیزائن میں جدت لائی۔

3۔لفٹ یا چئیر لفٹ کی ایجاد شیخ ناصر الدین البانی کی پیدائش سے 61 سال قبل ، 1853 عیسوی میں (ایلیشا گریوز اوٹس) کے ہاتھوں نیویارک میں ہوئی ہوئی  

4۔ مطالعہ کتب کیلئے گول چکر والا آلہ ۔

یہ ایک ایسا آلہ تھا جس پر بہت سے کتب رکھی جاتی اور اس کو گول گھومانے پر وہ کتاب قاری کے سامنے آ جاتی۔۔۔ قارئین کرام یہ " گول میز " کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔۔معلوم نہیں سلفی حضرات، عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر البانی صاحب کے جھوٹے قصیدے قصے کہاں سے گھڑتے ہیں .

5۔پورٹیبل سٹک stick

نام نہاد سلفیوں نے لکھا ہے 

 "شیخ البانی کے گھر میں انجیر کا ایک درخت تھا۔ آپ اپنے کمرے سے مسند پر بیٹھے بیٹھے درخت سے پھل اتار لیا کرتے تھے۔ اس مقصد کیلیے آپ نے ایک پورٹیبل اسٹک بنائی ہوئی تھی جسے حسب ضرورت کھول لیا کرتے۔ اس کے آخر میں تیز دھار گلاس نما چیز تھی جس سے پھل کٹ کر اس میں گر جایا کرتا"۔

قارئین کرام انگریزی میں اس کو  

Portable fruit picker

کہتے ہیں ۔ سلفیوں نے یہ ڈیزائین اور قصہ 

 HUDSON ARNOLD 

نامی انگریز کی ایجاد سے چوری کیا ہے جس نے 1886 عیسوی میں اس ایجاد کا patnet "یعنی سند حق تحفظ " امریکی ریاست ٹیکساس texas سے حاصل کیا۔ تصویر میں مذکورہ شخص کی ایجاد اور patent کے عکس کو واضح دیکھا جا سکتا ہے۔


6۔مرغیوں اور پرندوں کیلئے خودکار فیڈر :

قارئین کرام ، بعض الناس نے اس قدیم ترین ڈبے کو البانی صاحب کی ایجادات میں شامل کر دیا ہے۔حالانکہ انسانی تاریخ میں جب سے پرندوں کو پالنے کا آغاز ہوا ہے اس قسم کے ڈبے تبھی سے بنانے شروع کئے گئے۔ آج کے جدید زمانے میں فیڈرز کیلئے کمپیوٹر پروگرامز کی مدد سے آٹومیٹک یعنی خود کار آلات موجود ہیں ۔حیرت ہے اکیسویں صدی کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو سلفیوں نے 1999 میں فوت ہونے والے شیخ ناصر الدین البانی صاحب کے کھاتے میں کس طرح ڈال دیا۔۔

سلفیوں کو یہ بھی شرم نہ آئی کہ اکثر یہود و نصاری کی ایجادات کا ٹھپہ شیخ البانی پر لگا دیا ، اگر ایجادات کی چوری کرنی ہی تھی تو کم از کم کسی مسلم سائنسدان و موجد سے چوری کرتے لیکن بقول شاعر

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

لطیفہ : بعض لوگوں نے اپنے فرقہ کا نام بھی عیسائیوں سے رجسٹر کروایا ہے۔


4۔البانی صاحب نے باقاعدہ کسی مدرسہ سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ حنفی مقلد اساتذہ سے علمی پیاس بجھائی جن مقلدین کو آج کے غیر مقلد جاہل کہتے ہیں ۔ ہمارا معصومانہ سوال ہیکہ جاہل سے البانی صاحب نے علم کیسے اور کیوں حاصل کیا ؟ غیر مقلد اسکا جواب ضرور دیں یا مقلد کو جاہل کہنا چھوڑ دیں۔

5۔البانی صاحب نے فقہ حنفی کی کتب جیسے مراقی الفلاح کو ہضم کرنا چاہا لیکن اس فقہ کی عمیق گہرائیوں نے مزعومہ ذہین و فتین بچے کو الجھا دیا ، ہوا یہ کہ البانی صاحب فقہ اسلامی سے ہمیشہ نا بلد رہے ، احناف سے تو اختلاف تھا ہی۔ ، البانی صاحب نے فقہ میں غیر مقلد اہلحدیثوں سے بھی کھل کر اختلاف کیا جسکو ہم آئندہ اقساط میں بیاں کریں گیں انشاءاللہ 

6۔ شیخ البانی صاحب نے اپنی سب سے پہلی اجازت حدیث ایک صوفی حنفی عالم دین ، شیخ راغب الطباخ حنفی حلبی رحمہ اللہ سے حاصل کی ، لیکن البانی صاحب نے حنفیہ اور تصوف سے نمک حرامی کی اور ساری عمر حنفیہ اور صوفیہ پر گل افشانیاں کرتے رہے۔

 شیخ راغب حنفی حلبی رحمہ اللہ (متوفی 1370ھ/1950ء)


يروي عن:

الشيخ شرف الحق الدهلوي الهندي الجشتي وهو عن العلامة فضل الرحمن المراد ابادي والعلامة رشيد احمد الكنكوهي،والعلامة رحمة الله الهندي، والعلامة احمد ابي الخير العطار،وعثمان الداغستاني، وعبدالله السكري الركابي، والعلامة محمد عبدالحق الالهابادي عن عبدالغني الدهلوي باسانيده.

قارئین شیخ البانی نے جن سے سب سے پہلے اجازت حدیث لی ، وہ علمی شخصیت علماء احناف خصوصا علماء دیوبند سے تعلق رکھتے تھے جیسا کہ اوپر مذکورہ سند حدیث میں علمائے دیوبند کا تذکرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ الحمداللہ۔معلوم نہیں غیر مقلد ان احسانات کا بدلہ بازاری زبان ، گالم گلوچ اور احناف پر طنز سے دینا کب ختم کریں گیں۔


شیخ راغب طباخ صوفی قادری حنفی تھے۔صوفیاء اور تصوف کی تعریف و توثیق ان کی کتاب الثقافة الإسلامية میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ یہاں ہم مختصرا انکی کتاب سے اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں وہ صوفیاء علیہ الرحمہ کی تعریف میں انکو دین اسلام کے چمکتے چراغ ، صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے ، بہترین معاملات رکھنے والے ، اخوت و بھائی چارہ کو مضبوطی سے تھامنے والا قرار دے رہے ہیں۔

فسلف الصوفيةهم أعلام الملة وسادة الأمة، وسراجها الوهاج ونورها الوضاح، وبهم وبأمثالهم منالمحدِّثين والفقهاء، اهتدت الأمة الى الصراط المستقيم، وسلكت المنهاج القويم، وانتظمتأحوال معاشهم، وصلحت أمور معادهم، وفازوا فوزًا عظيمًا.

واذا تتبعنا آثارالصوفية وتراجمهم، نجد أنه ربما كان للواحد منهم أتباع يعدون بالألوف،كلما انتسب إليه شخص آخى بينه وبين سابقيه، فتمكنت بين أتباعه والمنتسبين إليهأواصر الألفة وروابط المحبة، وتواصوا فيما بينهم، وتواصلوا بالحق، وعطف غنيُّهم علىفقيرِهم، ورحم كبيرُهم صغيرَهم، فأصبحوا بنعمة الله إخوانًا، وصاروا كالجسد الواحد،وكانوا في منتهى الطاعة والانقياد لشيخهم، يقومون لقيامه، ويقعدون لقعوده، ويمتثلونأوامره، ويتبادرون لأدنى إشاراته.

ومن جليل أعمال الصوفية وآثارهم الحسنة فيالأمة الإسلامية: أن الملوك والأمراء متى قصدوا الجهاد، كان الكثير من هؤلاء بإيعازوبغير إيعاز، يُحرِّضون أتباعهم على الخروج إلى الجهاد. ولعظيم اعتقادهم فيهم وانقيادهم لهم، كانوا يبتدرون إلى الانتظام في سلك المجاهدين، فيجتمع بذلك عدد عظيممن أطراف ممالكهم، وكثيرًا ما كان أولئك يرافقون الجيوش بأنفسهم، ويدافعون ويحرضون؛فيكون ذلك سببًا للظفر والنصر.

واذا تتبعت بطون التاريخ وجدت من ذلك شيئًا كثيرًا، على أننا لا ننسى أن مثل هذا العمل قد كان في كثير من المحدِّثين والعلماءالعاملين.

ومن آثار الصوفية، أنه إذا حصل اختلاف بين الناس في أمور دنياهم،وخصوصًا بين إخوانهم المنسوبين إليهم، فإنهم يرجعون إلى شيخهم، فيفصل بينهم بما أنزل الله، ويعودون وهم راضون، ويستغنون عن الترافع الى الحكَّام لفصل ما بينهم منالخصومات.

وهذا مما شاهدناه بأعيننا وسمعناه بآذاننا في أوائل هذا القرن من بعضبقاياهم، بل كان بعض الناس يُنْذِر أخاه بالشكوى الى الشيخ إن لم ينصفه؛ فيعود هذا الىحظيرة الحق، خشية أن يبلغ الشيخ عنه شيئًا، وهو يحرص أن تبقى سمعته لديه طيبة وسيرتهحسنة.

بعض الناس سے معصومانہ سوال ہیکہ آپ کے ہاں تصوف کی کیا شرعی حیثیت ہے ؟ اور جو شخص صوفی یا صوفیاء سے محبت رکھنے والے سے اجازت حدیث لے اس کا حکم بھی بیاں کر دیں ۔امید ہے سلفی یہاں تاویل کے طرف نہ بھاگے گیں۔

 بعض سلفی دل کو تسلی دینے کی خاطر کہتے ہیں کہ شیخ راغب طباخ حنفی نے غیر مقلد عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفتہ الاحوذی سے اجازت حدیث مانگی تھی ۔لہذا البانی نے اگر حنفی عالم دین سے اجازت حاصل کی تو کیا آسمان ٹوٹ پڑا ؟

جواب: 

شیخ راغب طباخ حنفی حلبی رحمہ اللہ کی تمام اسانید "الانوار الجلیہ فی مختصر الاثبات الحلبیہ" میں شائع ہو چکی ہیں جس میں سب سے پہلی سند [شیخ شرف الحق ۔۔۔الخ] ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ، شیخ راغب طباخ رحمہ اللہ کی تمام اسانید میں عبدالرحمان مبارکپوری غیر مقلد اہلحدیث کی اجازت حدیث اور سند کا تذکرہ نہیں ۔یاد رہے الانوار الجلیہ کی تالیف 25 صفر 1357 ھجری کو مکمل ہو چکی تھی جبکہ مبارکپوری صاحب کی وفات 1353 ھجری میں ہوئی ہے ۔اگر عبداالرحمان مبارکپوری غیر مقلد اہلحدیث کی اجازت حدیث ہوتی تو ، شیخ راغب طباخ ضرور اسکو بھی شامل کرتے ۔

دوسری بات یہ کہ بالفرض شیخ راغب طباخ حنفی نے اگر اجازت حدیث لی بھی ہے تو آج تک غیر مقلد ایسی سند نہیں پیش کر سکے جس کے واسطوں میں "مقلد" یا "مجتہد" نہ ہو۔ خود مبارکپوری صاحب نے اجازت حدیث میاں نزیر حسین دہلوی لی ہے اور بقول غیر مقلدین حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے دست ِمبارک سے سند ِحدیث لکھ کر میاں صاحب کو دی ۔ شاہ اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کی حنفیت ان کی تصانیف اور فتاوی سے ظاہر ہوتی ہے اور مسند ہند امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تو تھے ہی کٹر حنفی ، اگر کسی غیر مقلد کو انکی حنفیات ہضم نہ ہوتی ہو تو یہ حوالہ جات دیکھ لے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب۔

تقلید واجب

البانی صاحب کے پسندیدہ بندے کا حوالہ کہ شاہ ولی اللہ حنفی تھے

حنفیہ کے بارے میں شاہ صاحب کا کشف


غیر مقلد اہلحدیث کا اقرار۔شاہ ولی اللہ اہل حدیث نہ تھے


پھر بھی تسلی نہ ہو تو حضرت محدث یوسف بنوری رحمہ اللہ کا یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں۔

امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفیت .محدث العصرحضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

اس سے ثابت ہوا کہ غیر مقلدین کی سند میں یا تو "مقلدین" ہیں یا "مجتہدین" ، اور غیر مقلدین اپنی یتیم علمی سند کا رونا روتے آئے ہیں۔

فرقہ غیرمقلدین (نام نہاداہل حدیث ) کی گمشدہ اور یتیم اسناد کاعلمی تعاقب


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...