نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 10)


ناصر الدین البانی : حیات ، خدمات اور کارنامے ، (قسط 10)


4۔شیخ البانی کے مداح ابو عمر سیف الضمیری سلفی صاحب نے چوتھا نکتہ یہ اٹھایا ہیکہ جہیمان (کعبہ پر حملہ کرنے والا بدبخت سلفی) شیخ البانی کا شاگرد نہ تھا بلکہ شیخ البانی نے تو اسکی تردید کی ہے ۔

جواب:

بہتر ہے کہ ہم جہیمان کے تفصیلی حالات قارئیں کے سامنے پیش کریں۔

سلفی نظریات و عقائد کے حامل، مفتی اعظم سعودیہ بن باز اور ناصر الدین البانی سے متاثر ، مقدس خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والا جہیمان اینڈ گروپ

تعارف:

جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي سلفی عسکریت پسند تھا۔

جہیمان بن محمد بن سيف العتيبی (16 ستمبر 1936ء - 9 جنوری 1980ء) سعودی صوبہ القصیم کے علاقے میں پیدا ہوا۔کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں بہت بدمزاج تھا اور بہت رویا کرتا تھا اس لیے اس کا نام جہیمان رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے "منہ بگاڑنے والا۔"

جہیمان کا شیخ البانی سے استفادہ:

شیخ البانی 1961ء میں پہلی بار مدینہ یونیورسٹی کے دار الحدیث میں استاد مقرر ہوئے ، اور یہ وہی زمانہ تھا جب جہیمان کے ناپاک قدموں نے مدینہ منورہ کا رخ کیا اور وہ دار الحدیث میں وقت گزارنے لگا۔ 1963 میں سعودی حکومت نے شیخ البانی کو اس کی متنازعہ تصنیفات کی بناء پر مدینہ یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا ، لیکن شیخ البانی کے ساتھ جہیمان کے روابط دوران حج رہتے تھے۔جہیمان ، شیخ البانی کے دروس کو منعقد کرواتا اور خود بھی شرکت کرتا تھا ۔ بلکہ متشدد سلفی شیخ مقبل ہادی الوداعی کے مطابق جب جہیمان کی جماعت کے بعض نوجوان "الحزمیہ تکفیری جماعت" سے متاثر ہوئے تو یہ شیخ البانی ہی تھے جنہوں نے فریق مخالف کے ساتھ مناظرہ کیا ، اور نوجوانوں کو واپس سلفی منہج پر لایا۔

البانی کی کتب پڑھنے کی تلقین:

جہیمان کو چونکہ البانی صاحب سے خاص عقیدت تھی ، جہیمان بھی سلفی غیر مقلد تھا ، البانی صاحب کے نظریات اس کے رگ رگ میں رچے بسے تھے ، اس لئے موصوف نے تاکید کی تھی کہ اسکے جماعتی ساتھی البانی صاحب کی چند کتب لازمی پڑھیں ، یہ وہ کتب ہیں جن کی تصنیف ، تحقیق یا شرح البانی صاحب نے لکھی تھی 

1۔تحزیر الساجد

2۔سلسلہ احادیث صحیحہ

3۔سلسہ احادیث ضعیفہ

4۔جامع الاصول

5۔عقیدہ طحاویہ 

6۔آداب الزفاف

سلفی مفتی بن باز کے کارنامے:

یہ واقعہ 6 دوستوں کا ہے ، جن میں سے 2 کے نام منظر عام پر نہ آئے ، البتہ باقی 4 میں

1.ناصر بن حسين 

2.سليمان بن شتيوي یہ البانی صاحب کے شاگرد تھے غالبا دار الحدیث مدینہ میں ۔

3 سعد التميمي 

4جهيمان العتيبي۔ (سرغنہ/ماسٹر مائنڈ)

ان چاروں نے سلفی شیخ بن باز سے مدینہ منورہ میں ملاقات کی اور مدعا پیش کیا کہ انکا مقصد ایک دعوتی جماعت کی تشکیل کرنا ہے جس کے مقاصد میں سلفی دعوت کو عام کرنا، بدعات کا خاتمہ اور قرآن و سنت کو عام کرنا تھا۔ اس جماعت کا نام ان چار اشخاص نے 

" الجماعة السلفية " یعنی سلفی جماعت رکھا لیکن سلفی مفتی اعظم سعودیہ بن باز نے اس جماعت کا نام "الجماعة السلفية المحتسبة" رکھا اور اس بات کو تمام دوستوں نے خوشی خوشی قبول کیا کہ ایک قسم سے یہ انکے مقاصد کی تائید تھی۔

جماعت کے اغراض و مقاصد:

اس جماعت نے اپنا مرکز مدینہ منورہ میں دو منزلہ مکان "حرہ الشرقیہ" کو رکھا جسکو "بیت الاخوان" یعنی بھائیوں کا گھر کہا جاتا تھا۔ اس جماعت کی درس و تدریس کا کام "سلفی علماء" کے ذمہ تھا جس میں "بن باز سلفی" اور "أبو بكر الجزائری" پیش پیش تھے۔ انتظامی امور جہیمان کے دوست "احمد حسن المعلمی یمنی سلفی" کے ہاتھ میں تھے جبکہ جماعت کی فنڈنگ سلفی "مفتی بن باز" کے ذمہ تھی۔ یہ جماعت دیگر سلفیوں کی طرح ابن تیمیہ ، ابن قیم ، محمد بن عبدالوہاب نجدی کو حرف آخر سمجھتی تھی۔ جلد ہی یہ جماعت مکہ ، طائف ، ریاض اور جدہ میں پھیل گئی ۔ اس جماعت نے پاکستان کے مشہور "غیر مقلد اہلحدیث شیخ بدیع الدین شاہ راشدی سندھی" جو شیخ زبیر علی زئی کے استاد خاص ہیں اور مصر کی "غیر مقلد اہلحدیث جماعت انصار السنہ المحمدیہ" جسکو سلفی حامد الفقی نے 1926 میں قائم کیا تھا ، اس سے بھی روابط قائم کر دیئے۔ یاد رہے بدیع الدین شاہ راشدی اور حامد الفقی متشدد تریں سلفی اہلحدیث شمار ہوتے ہیں جنہوں نے فقہ حنفی اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف خوب لٹریچر شائع کیا۔ایک عرب کا بیان ہیکہ بدیع الدین شاہ راشدی آئمہ اربعہ بالخصوص فقہ حنفی کے خلاف حرم میں دوران تدریس سخت الفاظ استعمال کرتے تھے جسکہ شکایت امام کعبہ شیخ عبداللہ السبیل کو کی گئی ،تب بدیع الدین شاہ راشدی کی زبان کو کچھ لگام لگی۔[بدیع الدین شاہ راشدی شمس الحق ڈیانوی غیر مقلد کی عون المعبود کا درس دیتے تھے ۔ شیخ حامد الفقی وہ خائن شخص ہے جس نے تاریخ بغداد جو اس وقت تک طبع نہیں ہوئی تھی ، اس میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں منگھڑت اور مکذوب روایتوں کو ہندوستان بھیجا تا کہ یہاں کے غیر مقلد اسکو شائع کر کے امام صاحب پر طعن کر سکیں اور حنفی مذہب کو ختم کر سکیں۔اللہ جزائے خیر دے محقق وقت شیخ امام زاہد کوثری رحمہ اللہ کو جنہوں نے اس فتنے کا منہ توڑ جواب دیا ۔]

( حوالہ: جہیمان کی کہانی ، ابو عبداللہ الاثری)

مزید معلومات کیلئے اس لنک کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔.ناصر الحزيمي:هذه قصتي مع المهدي المنتظر

البانی نظریات کے حامل جہیمان کا گروپ :

جہیمان کے قائم کردہ بیت الاخوان کی مسجد میں محراب نہیں تھا، کیوں کہ یہ محراب بنانے کو بھی بدعت گردانتے تھے جیسا کہ شیخ البانی نے اپنی کتاب میں تصریح کی ہے 

(الثمر المستطاب فی فقہ السنہ والکتاب جلد 1 صفحہ 472 تا 478، قاموس البدع از ناصر الدین البانی ص 459 )۔


چونکہ ان کا خیال تھا کہ جوتے پہن کر نماز ادا کی جا سکتی ہے، اس لیے یہ شہر کی مسجدوں میں جوتوں سمیت گھس جاتے تھے۔ جیسا کہ شیخ البانی نے اپنی کتاب میں صراحت کی ہے۔

( نماز نبوی احادیث صحیحہ کی روشنی میں از ناصر الدین البانی ص 69 )۔

جوتوں میں نماز کے احکامات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں

سعودی سلفی مفتی بن باز کی عظیم غلطی:

اس گروپ کے لوگوں کو ایک بار گرفتار بھی کیا گیا تھا لیکن سلفی مفتی شیخ ابن باز نے ان سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد فیصلہ کیا یہ لوگ بےضرر ہیں، انہیں چھوڑ دیا گیا۔ یہ واقعہ 1977 کا ہے یعنی حادثہ حرم سے ایک سال قبل تک شیخ بن باز سلفی ، جہیمان کا دفاع کرتے رہے۔

یاد رہے جہیمان سلفی کے جماعتی دوست ، شیخ ابن باز سے مستقل رابطے میں رہتے تھے جیسا کہ بن باز کے قریبی غیر مقلد لقمان سلفی نے اپنی کتاب کاروان حیات صفحہ 153 میں تصریح کی ہے ۔


غالی سلفی گروپ کا سیاہ کارنامہ:

 جہیمان کی قیادت میں 400 سے 500 مردوں کے ایک منظم گروپ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے یکم محرم 1400 ہجری بمطابق 20 نومبر 1979ء کی صبح نماز فجر جسکی امامت شیخ محمد بن عبداللہ السبیل رح (یاد رہے شیخ ترک تقلید کے سخت مخالف تھے۔

جسکی تفصیل انکے خط آئمہ حرمین اور تقلی از امامِ کعبہ شیخ محمد بن عبداللہ السبیل میں دیکھی جا سکتی ہے

   ) کر رہے تھے ۔اس کی جماعت کے اختتام کے وقت اپنے مسلح ساتھیوں سمیت مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام (بیت اللہ) پر حملہ کیا اور کئی لوگوں کو یر غمال بنا لیا۔ مسجد الحرام (خانہ کعبہ) دو سے زائد ہفتے ان کے قبضے میں رہی اور کئی بے گناہ لوگوں کو بچوں اور عورتوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ شہداء کی تعداد کا اندازہ ایک سو سے لے کر چھ سو افراد تک لگایا جاتا ہے۔

حملہ آوروں نے اپنے ایک ساتھی محمد عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا۔ 

اس فتنے کا خاتمہ 4 دسمبر کو جہیمان اور اسکے ساتھیوں کی موت سے ہوا۔

شیخ زبیر علی زئی کے استاد محترم کا اپنے کھودے گڑھے میں گرنا۔

معروف غیر مقلد اہلحدیث شیخ بدیع الدین شاہ راشدی صاحب کا صاحبزادہ بھی "جہیمان گروپ" میں شامل تھا اور اسی حادثہ میں وہ بھی ہلاک ہوا۔اس بات کی تصدیق غیر مقلد لقمان سلفی نے کاروان حیات صفحہ 154 پر کی ہے ۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اس غالی جماعت کی ابتداء سے ہی بدیع الدین شاہ راشدی اس سے منسلک تھے۔آخر کار انکا اپنا بیٹا ہی اس حادثہ میں مردار ہوا۔

خانہ کعبہ کی بے حرمتے کرنے والے چند بدبخت گروہ:

1۔حجاج بن یوسف : جس نے خانہ کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے۔ 

2۔قرامطی (شیعہ)ابوطاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا، غلافِ کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیا، حجرِ اسود کو اکھاڑکے ساتھ لے گیا، اہلِ مکہ کے گھر بار اور مال ومتاع کو لوٹ لیا، اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کردیا کہ آئندہ سے حج اس کے ہاں ہوا کرے گا۔

(ابن خلدون،ج 5،ص 196)

3۔البانی نظریات سے متاثر جہیمان سلفی اینڈ گروپ جسکا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔

شیخ البانی کے نزدیک انکا شاگرد جہیمان خوارج مین سے نہ تھا۔

شیخ البانی سے سائل نے پوچھا کیا جہیمان اور اس کی جماعت جس نے حرم شریف میں خون ریزی کی وہ خوارج (خارجی) ہے یا باغی ؟

جس کے جواب میں شیخ البانی نے کہا کہ

فلا شك أن هؤلاء ليسوا خوارج

اس میں کوئی شک نہیں کہ (جہیمان اور اسکے ساتھی) خارجی نہیں تھے۔

مزید فرماتے ہیں

《فهؤلاء الجماعة الذين خرجوا وأثاروا فتنة الحرم المكي وهم بلا شك في ذلك كانوا مخطئين أشد الخطأ، ما خرجوا في جماعة ولا تبنوا عقيدة الخوارج فيما يتعلق مثلاً بتكفير المذنب ومرتكب الكبيرة، ما تبنوا عقيدة الخوارج التي تقول بأن الله لا يرى يوم القيامة أو في الآخرة.》

یہ گروہ جنہوں نے مکہ میں مسجد الحرام میں فساد برپا کیا اور وہ اس میں کسی شک و شبہ کے بغیر غلطی پر تھے، گہری غلطی پر تھے، وہ کسی گروہ کی صورت میں باہر نہیں نکلے تھے اور خارجیت کے عقیدہ کو نہیں اپنایا تھا، مثلاً: گناہ گار اور کبیرہ گناہ کرنے والے کا کفارہ، انہوں نے خارجیوں کے اس عقیدہ کو اختیار نہیں کیا جو کہتا ہے کہ خدا کو قیامت کے دن یا آخرت میں نہیں دیکھا جائے گا۔

سلسلة الهدى والنور- 212   هل جماعة جهيمان التي قتلت في المسجد الحرام المكي خوارج أو بغاة.؟

جبکہ دیگر سلفیوں/غیر مقلدوں نے اس مسئلے میں رعایت نہیں برتی اور خوب کھل کر شیخ البانی اور انکے شاگرد کی مخالفت کی ہے اور جہیمان کو خارجی کہا ہے ۔ 

حوالہ نمبر 1۔

چونکہ جہیمان خارجی ذہنیت رکھنےوالا فتنہ پرورتھا 

(البیان شمارہ 16 - صفحہ 68 

غیر مقلد شیخ خلیق الرحمن قدر مدرس: جامعہ دارالحدیث رحمانیہ، سولجربازار کراچی)

حوالہ نمبر 2۔

 نیز حصار کے دوران زندہ افراد(جہیمان کے ساتھی) میں سے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا، حالانکہ انہیں اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ ان کی باتیں ساری کی ساری جھوٹ ثابت ہو چکی ہیں،لیکن خوارج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ یہ لوگ چند ایک کے علاوہ اپنے موقف سے رجوع نہیں کرتے۔

(خوارج کی حقیقت مصنف: الشیخ فیصل بن قزار جاسم مترجم ابو عبد اللہ بن عبدالعزیز 137۔138)

بعد میں شیخ بن باز سلفی نے اپنی ساکھ بچانے کی خاطر فتوی میں کہا کہ وہ جہیمان کے گروہ کو گمراہ سمجھتے ہیں۔

"وبناء على ما تقدم فإن هيئة كبار العلماء تعتبر هذه الفئة فئة ضالة"

لیکن اب کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئی کھیت

معصومانہ سوال : سانحہ حرم میں غیر مسلم فوجیوں کو عارضی طور پر کلمہ پڑھا کہ مسلمان کیا گیا جنہوں نے فوجہ آپریشن کر کے جہیمان اور اسکے گروہ سے کعبہ کو پاک کیا۔

1۔یہاں ہمارا سوال یہ ہیکہ کسی غیر مسلم کو عارضی طور پر مسلمان بنانا کیسے جائز ہے ؟

2۔ ایمان کا زبانی اقرار تو جیسے تیسے سلفیوں نے کروا دیا ۔ تصدیق بالقلب کہاں رہ گیا ؟ کیا ان عارضی مسلمان فوجیوں سے تصدیق قلبی بھی کروائی گئی ؟ 

3۔ کیا اس آپریشن کے بعد ان عارضی مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ اسلام میں داخلے کی ترغیب دی گئی ؟ نتائج کیا تھے؟

4۔نیز اگر وہ مرتد ہوئے تو انکے ارتداد میں سلفی شیوخ کا برابر ہاتھ ہو گا ، کیا کسی سلفی شیخ نے اس غلطی کا اظہار اپنی تصنیف میں کیا؟

نوٹ : بعض لوگ فرضی کہانی سناتے ہیں کہ میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا ایسا ہی دعوی ایک پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی کیا لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔  

اور ویسے بھی اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی "ان دا لائن آف فائر" میں ضرور کرتے۔

سلفیوں میں جہیمان کی مقبولیت:

جہیمان کے مقالات و تصانیف کو آج بھی سلفی عوام میں مقبولیت حاصل ہے۔ 

چنانچہ " "مقالات الشيخ جهيمان بن سيف العتيبي

کے عنوان سے جامع الکتب السلامیہ سلفی ویب سائٹ میں جہیمان کی تصانیف اہلوڈ ہیں۔

جہیمان کے عربی کتب کا اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے ، اسکی ایک کتاب "رفع الإلتباس عن ملة من جعله الله إماما للناس" کا اردو ترجمہ "دفاع ملت ابراہیم علیہ السلام" کے نام سے ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی اہلحدیث حضرات کر رہے ہیں جیسا کہ آپ سکرین شاٹ مین دیکھ سکتے ہیں۔

 بعض سلفی آج بھی جہیمان کو رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔


لہذا اس سب تفصیل سے جہیمان کا شیخ البانی سے تعلق ،تلمذ اور نسبت کا سچ ظاہر ہوتا ہے۔ ہاں یہ برابر سچ ہیکہ البانی صاحب نے اپنی ساکھ۔ بچانے کیلئے اس واقعہ کے کافی سال بعد جہیمان کا نام لیئے بغیر اسکی تردید کی ہے ۔لیکن شیخ البانی کی وہ ویڈیوز آج بھی موجود ہیں جس میں وہ اپنے شاگرد کی خارجیت کو غلطی سے تبدیل کر کے ، اسکو خارجیت میں شامل نہیں کرتے۔ 

جواب نمبر 6۔

البانی کی تعریف سلفیوں نے کی ہے جو اہل السنت والجماعت کیلئے حجت نہیں نیز البانی کی حقیقت ان دس اقساط میں بتائی جا چکی ہے ۔ ابھی اور باقی ہے انشاءاللہ 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...