ہر صحیح حدیث قابل عمل نہیں ہوتی اور ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی.
موجودہ غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں ہم صرف صحیح حدیث کو مانتے ہیں اور ضعیف حدیث کا رد کرتے ہیں۔
اور یہ نعرہ لگاتے ہیں کے اہلحدیث ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اور احناف کو طعنہ دیتے ہیں کے انکا مسلک ضعیف حدیثوں پر مبنی [منحصر] ہے۔
بلکہ مشہور اہلحدیث عالم ابو صہیب داؤد ارشد صاحب تو یہ تک لکھتے ہیں
حدیث صحیح کی موجودگی میں، ہم کسی عالم کا فتویٰ پیش کرنے کی ضروت تو نہیں۔
(تحفہ حنفیہ: صفحہ 163)
تو معلوم ہوا کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک رسول اللہ کی کوئی صحیح اور صریح حدیث موجود ہو تو اس کو ماننا اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
لیکن یہاں پر ہم اس مسئلے کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہر صحیح حدیث قابل عمل اور ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی یہ بات غیر مقلدین بڑے زور و شور سے عوام میں کہتے ہیں کہ ہم صرف صحیح حدیثوں کو مانتے ہیں اور اماموں کے مسلک کو چھوڑ کر ہر صحیح حدیث پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ضعیف حدیث کو نہیں مانتے لیکن حقیقت کے ائینے میں بات کچھ اور ہی نظر آتی ہے
کیا ہر صحیح حدیث قابل عمل ہوتی ہے ؟
پہلے ان حدیثوں کو ملاحظہ فرمائیں جو کہ صحیح ہے لیکن پھر بھی غیر مقلدین عمل نہیں کرتے
١۔ مسند احمد جلد دو صفحہ 461 پر روایت موجود ہے
کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملا کر بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ منورہ میں پڑھا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ امت پر تکلیف نہ ہو
مسند احمد جلد دو ص 461
یہ حدیث بالکل صحیح ہے علامہ البانی اور احمد شاکر غیر مقلد عالم نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
(مسند احمد تحقیق احمد شاکر جلد دو صفحہ
461 سنن ابی داؤد تحقیق البانی حدیث نمبر ١٢١١)
لیکن غیر مقلدین اس حدیث پر بالکل عمل نہیں کرتے جبکہ ان کا دعوی ہے کہ ہم صحیح صحیح حدیثوں پر عمل کرتے ہیں
٢۔ سنن ابی داؤد میں ایک حدیث موجود ہے جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا خلاصہ ہے ؛
اگر شرابی (روکنے کے باوجود) چوتھی بار (بھی) شراب پیے تو اس کو قتل کر دو
(سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۴۴٨۴)
اس حدیث کو غیر مقلد اہل حدیث عالم علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی نے صحیح قرار دیا ہے
( سنن ابی داؤد تحقیق البانی حدیث نمبر 4484
سنن ابی داؤد تحقیق علی زئی حدیث نمبر 4484 )
لیکن کوئی اہل حدیث اس پر عمل نہیں کرتا اخر کیوں ؟
جبکہ وہ لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم صرف صحیح حدیثوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں دعوی کچھ اور عمل کچھ اور۔
اس کے علاوہ اہل حدیث یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ ہم صحیح بخاری پر عمل کرتے ہیں لیکن وہ اپنے اس دعوے میں بھی سچے نہیں ہیں اور صحیح بخاری کی کئی صحیح حدیثوں پر ان کا عمل تو دور ، ان کی مخالفت کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک حدیث درج ذیل ہے
٣۔ صحیح بخاری حدیث 1837 پر موجود ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کیا تو اپ محرم تھے۔
(صحیح بخاری حدیث ١٨٣٧)
اس حدیث کے تحت امام ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہ اللہ المتوفی 852 ہجری فرماتے ہیں کہ :
گویا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حالات احرام میں نکاح کرنے کی اجازت دی ہے
(فتح الباری جلد نو صفحہ 165)
اور غیر مقلدین اہل حدیث عالم علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں امام بخاری رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اہل کوفہ متفق ہیں کہ محرم یعنی حالات احرام میں رہنے والے کو عقد نکاح کرنا درست ہے
(تیسیر الباری)
لیکن غیر مقلدین حضرت کے نزدیک حالت احرام میں نکاح کرنا درست نہیں ہے۔
چنانچہ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں کہ ؛
جمہور کے قول یہ ہے کہ محرم نکاح نہیں کر سکتا اور یہی قول ہے جمہور کا اور میرے نزدیک یہ راجح ہے
( تحفۃ الاحوذی جلد ٢ صفحہ 88
مزید دیکھیے عون المعبود جلد ٢ صفحہ 107
مرعاة المفاتیح جلد ٧ صفحہ 177 )
قارئین اہل حدیث حضرات صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل نہیں بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم صحیح بخاری پر عمل کرتے ہیں اس مسئلے پر آئندہ موقع ملا تو تفصیلی ذکر کریں گے کہ صحیح بخاری کی غیر مقلدین حضرات کتنی مخالفت کرتے ہیں
انشاءاللہ
قارئین آپ نے ملاحظہ کر لیا ہے کہ غیر مقلدین حضرات دعوی تو بڑے آرام سے کرتے ہیں کہ ہم ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں بلکہ اہل حدیث عالم مولانا حنیف صاحب لکھتے ہیں کہ
مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحیح واسطے کے ساتھ پہنچے تو وہ فورا اس پر ایمان رکھتے ہوئے عمل شروع کر لیتے ہیں ۔ الحمدللہ ہم اہل حدیث کہلاتے ہوئے کسی حدیث صحیح کو رد کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔
(مرد و زن کی نماز میں فرق صفحہ 28 )
ہم نے اوپر جو صحیح احادیث ذکر کی ہیں دراصل غیر مقلدین کے دعوے کے مطابق وہی ان کا مذہب ایمانی تقاضہ اور اہل حدیث کہلانے کی وجہ ہونا چاہیے تھا اور ان کو اس مسئلے میں کسی عالم کے فتوی کی ضرورت نہیں ہونی تھی لیکن قارئین آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ آج بھی انہی احادیث پر عمل نہیں کر رہے ہیں
باوجود اتنے بڑے بڑے دعوے کرنے کے ہماری اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ
آپ یا تو انہی حدیث پر عمل کرے ورنہ مہربانی فرما کر یہ دھوکہ عوام کو نہ دیں کہ ہم اہل حدیث ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں بلکہ عوام کے سامنے وضاحت کر دے کہ ہم اہل حدیث ہر صحیح حدیث پر عمل نہیں کرتے اور ہر حدیث قابل عمل نہیں ہوتی۔
نوٹ۔
اوپر ذکر کی گئی احادیث پر عمل کرنے کے بعد اہل حدیث حضرات ہمیں ضرور اطلاع دیں کہ ہم نے عمل کیا ہے تاکہ ہم مزید صحیح احادیث اپ کے سامنے پیش کر سکیں اور اپ ان پر بھی عمل کر سکیں ۔اللہ اپ کو توفیق عطا فرمائے
آمین ۔
تصویر کا دوسرا رخ
کیا ہر ضعیف حدیث مردود ہوتی ہے؟
اسی طرح غیر مقلدین اہل حدیث حضرات بڑی طاقت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہر ضعیف حدیث ضعیف ہی ہوتی ہے۔
بلکہ غیر مقلد عالم ابو صہیب داؤد ارشد صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث فرمان مصطفی نہیں ہے
(تحفہ حنفیہ ص 197)
لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی بلکہ امت کے عمل کی وجہ سے ضعیف حدیث بھی صحیح ہو جاتی ہے اور ضعیف حدیث پر غیر مقلدین حضرات بھی عمل کرتے ہیں ۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں
١ سبزیوں کی زکوۃ کا مسئلہ
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنِ الخَضْرَاوَاتِ وَهِيَ البُقُولُ؟ فَقَالَ: «لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ»: «إِسْنَادُ هَذَا الحَدِيثِ لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي هَذَا البَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا»، ” وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ: أَنَّهُ لَيْسَ فِي الخَضْرَاوَاتِ صَدَقَةٌ “.: «وَالحَسَنُ هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُهُ، وَتَرَكَهُ ابْنُ المُبَارَكِ»
متن:
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ
سبزیوں یعنی ترکاریوں وغیرہ کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان میں کچھ (بھی زکوۃ) نہیں۔
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرسل ہے اور اس کا راوی حسن رحمہ اللہ ضعیف ہے اور اس باب یعنی سبزیوں کی زکوۃ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں اگے امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے
( ترمذی حدیث نمبر 638 )
وضاحت ۔
معلوم ہو کہ یہ حدیث ضعیف لیکن اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے اور جہاں تک ہمارا علم ہے غیر مقلدین اہل حدیث حضرات بھی سبزیوں کی زکوۃ نہیں دیتے
امید ہے آج سے زکوۃ دینا شروع کریں گے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ ہم ضعیف حدیث پر عمل نہیں کرتے ورنہ کم سے کم یہ بات سمجھ لیں گے کہ ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی
٢۔ پانی میں گندگی گرنے کا مسئلہ
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ، أنا أَبُو الْوَلِيدِ، ثنا الشَّامَاتِيُّ، ثنا عَطِيَّةُ بْنُ بَقِيَّةَ بْنِ الْوَلِيدِ، ثنا أَبِي، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ الْمَاءَ طَاهِرٌ إِلَّا أَنْ تُغَيَّرَ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ أَوْ لَوْنُهُ بِنَجَاسَةٍ تَحْدُثُ فِيهَا “
متن ۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی پاک ہے لیکن گندگی گرنے کی وجہ سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ بدل جائے تو وہ پلید ( ناپاک) ہو جائے گا ۔
(سنن کبری للبیہقی جلد ١ صفحہ 392 حدیث نمبر 1228 )
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اہل حدیث عالم مولانا اسماعیل سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ
اس حدیث کی سند بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ اس روایت میں ثور بن یزید رحمہ اللہ اور بقیہ رحمہ اللہ یہ دونوں مدلس ہیں
( دیکھیے طبقات المدلسین ابن حجر )
لیکن اس زیادت کو تمام امت نے قبول کیا ہے اس کی قبولیت پر عملی تواتر ثابت ہے
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز صفحہ ٩)
وضاحت۔
معلوم ہوا کہ خود اہل حدیث حضرات بھی ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں لیکن عوام کو کہتے ہیں کہ ہم ضعیف حدیث پر عمل نہیں کرتے
٣۔ قبلہ کی طرف رخ کر کے آذان دینے کا مسئلہ
أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحِ بْنُ أَبِي طَاهِرٍ ابْنُ بِنْتِ يَحْيَى بْنِ مَنْصُورٍ الْقَاضِي، أنبأ جَدِّي يَحْيَى بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو بَكْرٍ عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ السَّدُوسِيُّ، ثنا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ ثنا الْمَسْعُودِيُّ ثنا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ فَذَكَرَ أَوَلًا حَالَ الْقِبْلَةِ فَذَكَرَ آخِرًا حَالَ الْمَسْبُوقِ بِبَعْضِ الصَّلَاةِ وَذَكَرَ بَيْنَ ذَلِكَ حَالَ الْأَذَانِ فَقَالَ: كَانُوا يَجْتَمِعُونَ لِلصَّلَاةِ يُؤْذِنُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى نَقَسُوا أَوْ كَادُوا أَنْ يَنْقُسُوا، ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ بَيْنَا أَنَا بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ رَأَيْتُ شَخْصًا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ قَائِمٌ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ……
متن
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے نیند اور بیداری کی درمیان حالت میں دیکھا کہ ایک آدمی کھڑا تھا جس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس نے قبلہ رخ ہو کر آذان دی
(سنن کبری للبیہقی جلد ١ صفحہ 576 حدیث 1838)
یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے اسی طرح ایک اور روایت موجود ہے جس میں ہے کہ
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحُمَيْدِيُّ، وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ الْأَنْمَاطِيُّ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَا: ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ الْقَرَظُ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ……
متن۔
بے شک بلال رضی اللہ تعالی عنہ آذان کی تکبیر کہتے وقت قبلہ کی طرف رخ کرتے تھے
( معجم الکبیر طبرانی جلد چھ صفحہ 39 )
یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن عمار بن سعد رحمہ اللہ ضعیف ہیں اور ان کے والد رحمہ اللہ بھی مستور ( یعنی مقبول) ہیں۔
( تقریب رقم نمبر 3873 ۔2251 )
معلوم ہوا کہ قبلے کی طرف رخ کر کے اذان دینا صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے لیکن آج بھی اہل حدیث حضرات قبلے کی طرف ہو کر آذان دیتے ہیں جبکہ ان کے اس عمل کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہو کہ قبلہ رو ہو کر اذان دینے کا۔
مگر افسوس ہے کہ جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم صرف صحیح حدیثوں کو مانتے ہیں اور ضعیف حدیثوں کو نہیں ان کی اذان ہی ضعیف حدیثوں پر مبنی ہے اور وہ مقلدین کو طعنے دیتے ہیں کہ تم ضعیف حدیثوں پر عمل کرتے ہو
سبحان اللہ
مزید کیا انہوں نے اپنی زندگی کے سارے اعمال کو صحیح حدیثوں سے ثابت کیا ہوگا اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنے دعوے میں کتنے سچے ہیں
بہرحال ہم تو قبلے کی طرف رخ ہو کر اذان اس لیے دیتے ہیں کہ ان حدیث پر امت کا عمل ہے اور جس حدیثوں پر امت کا عمل ہو وہ صحیح ہو جاتی ہے
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات کیا آج سے قبلہ کی طرف ہو کر آذان دینا بند کر دیں گے؟ یا اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی ؟
4 بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ
ابو داؤد میں روایت موجود ہے کہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ»
متن:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے کان میں اذان دی تھی جب وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئے تھے
(سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۵١٠۵)
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس روایت کے راوی عاصم رحمہ اللہ ضعیف ہیں
( تقریب رقم ٣٠٦۵)
اور دوسری روایت مسند ابو یعلی میں موجود ہے کہ
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ مَرْوَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى لَمْ تَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْيَانِ»
متن
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے یہاں بیٹا پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہے
( مسند ابو یعلی حدیث 6780
اس روایت کو خود اہل حدیث عالم حافظ زبیر علی زئی نے موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے اور حافظ صاحب نے وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں یحیی بن علاء کذاب اور مروان بن سالم متروک مہتم ہیں
(فتاوی علمیہ جلد ایک صفحہ 245)
لہذا یہ روایت تو خود غیر مقلدین کے نزدیک موضوع ہے مزید اس روایت میں ایک اور راوی جبارہ رحمہ اللہ بھی ضعیف ہیں
(تقریب رقم نمبر 890) اور طلحہ بن عبید اللہ رحمہ اللہ بھی مجہول ہیں دیکھی
( تقریب رقم نمبر 3029 )
نوٹ اس سند میں امام ابو یعلی رحمہ اللہ اور صحابی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ سارے کے سارے راوی ضعیف ہیں لیکن غیر مقلدین اہل حدیث حضرات ایسی حدیثوں پر عمل کرتے ہیں پھر پتہ نہیں کہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ضعیف حدیثوں کو نہیں مانتے۔ سبحان اللہ
ایک اور روایت شعب الایمان للبیہقی میں موجود ہے
وَأَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَيْفٍ السَّدُوسِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُطَيَّبٍ، عَنْ مَنْصُورِ ابْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَوْمَ وُلِدَ، فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى، وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى ” فِي هَذَيْنِ الْإِسْنَادَيْنِ ضَعْفٌ، قَالَ: ” وَالثَّانِيَةُ أَنْ يُحَنِّكَهُ بِتَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِحُلْوٍ يُشْبِهُهُ، وَيَنْبَغِي أَنْ يَتَوَلَّى ذَلِكَ مِنْهُ مَنْ يُرْجَى خَيْرُهُ وَبَرَكَتُهُ “
متن
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی
(شعب الایمان حدیث نمبر 8255 )
حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس روایت کو بھی موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے کیونکہ اس میں محمد بن یونس مشہور کذاب ہے اور حسن بن عمر بن سیف بھی کذاب و متروک ہے
(فتاوی علمیہ جلد ایک صفحہ 245 )
لہذا یہ روایت بھی غیر مقلدین کے نزدیک موضوع یعنی من گھڑت ہے
(مزید اس روایت میں ایک اور راوی قاسم بن مطیب بھی کمزور ہیں تقریب رقم 5496 )
قارئین اتنی تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلے کی جتنی روایات موجود ہیں ان کی صحت کھل کر سامنے آئے اور لوگوں کو پتہ چلے کہ اس مسئلے میں جتنی روایت مروی ہے اس کی اسنادی حیثیت کیا ہے ۔اور ہر مسلمان بلکہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات کی زندگی بھی خود اسی عمل سے شروع ہوتی ہے لہذا جس عمل سے اہل حدیث حضرات اپنی زندگی شروع کرتے ہیں وہ عمل ہی خود ضعیف حدیثوں پر مبنی ہے لیکن دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ ہم بالکل ضعیف حدیثوں کو نہیں مانتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث تو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم امید ہے کہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات سمجھ گئے ہوں گے کہ ہر حدیث قابل رد نہیں ہوتی اور مزید خود ان کے ہی عالم شیخ ثناء اللہ مدنی صاحب لکھتے ہیں کہ
کچھ ضعیف ایسی بھی ہیں جن کے مفہوم پر عمل کرنے میں اہل علم کا اتفاق ہے اور انہیں قبول کر کے ان پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے
(فتاوی ثنائیہ مدنیہ جلد ایک صفحہ 297 )
خلاصہ
الغرض ہمارے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا رد کرتے ہیں کہ
ہر صحیح حدیث قابل عمل ہوتی ہے اور ہر ضعیف حدیث قابل رد ہوتی ہے
اور حق کہتے ہیں کہ
ہر صحیح حدیث قابل عمل نہیں ہوتی اور ہر ضعیف حدیث قابل رد نہیں ہوتی ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں