تحریر حافظ طیب الرحمن صاحب ، فیصل آباد
مولانا ارشاد الحق اثری ... اپنی تحریرات کے آئینہ میں
تضادات غیر مقلد اہلحدیث مولانا ارشاد الحق اثری
1۔ابن عبد البر متقدمین میں سے ہیں:
جناب اثری صاحب رقمطراز ہیں: اور آئمہ متقدمین مثل ابن عبدالبر، ابن حزم ، بغوی اور حازمی کی تصریحات سے بھی اس کی تردید
ہوتی ہے۔ [ توضیح الکلام: 506]
ابن عبدالبر متاخرین میں سے ہے:
لیکن جب علامہ ابن عبد البر حدیث ابی موسیٰ اشعری کو صحیح قرار دینے کا جرم کر بیٹھے تو یہی اثری صاحب پینترا بدل کر لکھتے ہیں:
ان حضرات کے علاوہ متاخرین مثلاً علامہ ابن قدامہ ابن تیمیہ، ابن عبدالبر، بینی ، ماردینی ، ابن كثير ، علامہ منذری، موفق الدین ابن قدامہ کی آراء تو محض ظاہر سند کی بنا پر ہیں
[ توضیح الکلام :711]
اثری صاحب کی پسند پیش خدمت ہے:
تیری بات کوبت حیلہ گر نہ قرار ہے نہ قیام ہے !!
کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے، کبھی شام ہے
2 ۔ محدث کے سند کو " متصل صحیح " کہنے کے بعد تدلیس کا اعتراض فضول ہے:
جناب اثری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
پھر جب محدث مبارک پوری، اور امام بیہقی نے اس عبارت میں امام ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے: "هذا اسناد متصل “ و ” اسناد صحیح متصل " کہ یه سند صحیح اور متصل ہے۔ تو پھر سند میں تدلیس کا اعتراض والزام بے معنی ہے ۔ [توضیح الکلام : 437]
محدث کے صحیح متصل کہنے کے باوجود اثری صاحب کا اعتراض کرنا:
علامہ ابن قدامہ کے حدیث جابر《 من كان له إمام فقراءة الإمام له قراء 》 کے متعلق اسناد صحیح متصل کہنے کے جواب میں اثری صاحب لکھتے ہیں :
حافظ شمس الدین بن قدامہ کا اس حدیث کو متصل اور اس کی سند کو صحیح کہنا بظاہر سند کے اعتبار سے ہے لیکن جب کہ ابو الزبیر رحمہ اللہ ، مدلس ہے اور اس کی یہ روایت جمیع طرق سے معنعن ہے تو ان کا یہ دعوئی صحیح نہیں۔ ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ابو الزبیر مدلس ہے اور اس کی یہ روایت معنعن ہے لہذا اسے صحیح یا حسن قرار دے کر استدلال کرنا صحیح نہیں ۔
( توضیح الکلام : 894)
3۔حدیث علماء امتی۔۔۔۔ موضوع ہے۔ جناب اثری صاحب رقمطراز ہیں:
یہ امر قابل غور ہے کہ خواب کا مدار حدیث علماء امتی الخ پر ہے، مگر جب وہی صحیح نہیں بلکہ موضوع اور بے اصل ہے تو پھر اس خواب کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟ چنانچہ اس حدیث کے بارے میں آئمہ فن کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں! علامہ سخاوی لکھتے ہیں: "قال شيخنا ومن قبله الدميرى والزركشى أنه لا أصل له، وزاد بعضهم ولا يعرف فی کتاب معتبر “ یعنی
”ہمارے شیخ حافظ ابن حجر اور ان سے قبل علامہ دمیری اور علامہ زرکشی نے کہا ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس روایت کا کسی معتبر کتاب میں ذکر نہیں "۔ [ المقاصد الحسنة: ۲۸۹]
ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں: " لا اصل له كما قال الدميرى والزرکشی والعسقلانی “ کہ اس کی کوئی اصل نہیں جیسا کہ علامہ دمیری ، زرکشی اور عسقلانی نے کہا ہے ۔ " [المصنوع في معرفة الحديث الموضوع : ۹۳، اسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة : ۲۴۷] اس کے علاوہ ملاحظہ فرمائیں الفوائد المجموعة: ۲۸۲، تمييز الطيب من الخبيث رقم ۱۸۷۱، اسنى المطالب ص ۱۴۰، الدرر المنتشرة للسيوطي : ١١٣]
عہد حاضر کے نامور محقق علامہ البانی لکھتے ہیں : " لا اصل له باتفاق العلماء علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث بے اصل ہے۔ [الضعيفة نمبر : ۴۶۶]
اندازہ فرمائیے ! جس روایت کو محدثین نے واشگاف الفاظ میں بے اصل اور بے ثبوت کہا ہے اسے یہ حضرات بڑی دیدہ دلیری سے نقل کرتے ہیں۔ ملاعلی قاری حنفی کے متعلق اسی صفحے کے حاشیے پر لکھا: مگر یہ بات باعث تعجب ہے کہ ملاعلی قاری ہی مرقاة [۱۷/۶] میں ایک اسی موضوع اور بے اصل روایت کو بطور استشہاد پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ويؤيده حـديـث علماء أمتى كانبياء بني اسرائيل وإن تكلم في اسناده حالانکہ سند میں کلام کیا ، سرے سے یہ سند اور موضوع ہے۔ [ مقالات اثری : ج 1ص 298،299]
تصویر کا دوسرا رخ
اور دوسری طرف اثری صاحب نے خود یہ لکھا: اب نیکیوں کے حکم اور برائیوں سے روکنے کا سارا بوجھ امت کے علماء کے سر ڈال دیا گیا۔ اور کام کی اسی نوعیت کی بنا پر انہیں بنی اسرائیل کے انبیاء ہی کی سی حیثیت دی گئی ۔
[ مقالات اثری : 2/28]
4۔ جرح و تعدیل میں اتحاد زمانہ شرط نہیں :
جناب اثری صاحب رقمطراز ہیں: حالانکہ جرح و تعدیل میں اتحاد زمانہ شرط نہیں۔
[ توضیح الکلام :251]
تصویر کا دوسرا رخ
محمد ابن اسحاق کا دفاع کرتے ہوئے اثری صاحب نے لکھا:
محدث فریابی کا نام جعفر بن محمد بن اسحاق ۱۵۰ ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ پچاس سال سے زائد عرصہ پہلے فوت ہونے والے کے بارے میں بے دینی کا فیصلہ عجیب سی بات ہے ۔ تنقیح الکلام : 219]
5۔ امام مالک مدنی رواۃ کے متعلق جج ہیں:
اثری صاحب نے اپنے مطلب کے ایک راوی کی توثیق ثابت کرتے ہوئے لکھا: امام مالک کے بارے میں امام حاکم نے فرمایا: و الحکم في شيوخ أهل المدينة “ كه مدنى شيوخ کے بارے میں وہی حکم اور حج ہیں۔ تہذیب : ۲۶۴/۴] اور علاء مدنی شیوخ میں سے ہیں اور امام مالک کے استاد ہیں ۔
[ توضیح الکلام : 167]
بوقت ضرورت ” جج صاحب کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار :
محمد بن اسحاق پر امام مالک کی جرح کا جواب دیتے ہوئے اثری صاحب لکھتے ہیں: امام مالک کے متعلق بھی اہل علم کو شکوہ ہے کہ وہ بعض اوقات ناروا ائمہ ثقات ومعروفین پر کلام کرتے ہیں اور ان سے روایت نہیں لیتے ۔ [ توضیح الکلام : 251]
(ب) یعنی میں نے امام ابن مدینی سے ابن اسحاق کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ”میرے نزدیک اس کی حدیث صحیح ہے، میں نے کہا: امام مالک نے جو اس پر کلام کیا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے۔ کہا: وہ نہ اس کے ساتھ بیٹھے ہیں اور نہ ان کی قدر پہنچاتے ہیں۔ [ توضیح الکلام : 226]
6۔ امام احمد کی جرح منکر الحدیث مفسر ہے:
جناب اثری صاحب لکھتے ہیں: ورنہ وہ امام احمد اور ابن معین کی جرح کو مبہم قرار نہ دیتے جب کہ امام بخاری نے اس کے بارے میں فیه نظر اور امام احمد نے ہی نہیں بلکہ امام ابو حاتم نے بھی منکر الحدیث اور امام ابن معین نے متروک
کہا ہے ۔ [ مولانا سرفراز خان صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں : 95]
تصویر کا دوسرا رخ
اور اسی کتاب کے صفحہ نمبر 39 پر اثری صاحب یہ بھی لکھ رہے ہیں:
اسی طرح امام احمد کے الفاظ " له مناکیر کو منکر الحدیث قرار دینا اور اس جرح کو مفسر کہا بہر حال غلط ہے اور اصول سے بے خبری کی علامت ہے۔ بالفرض امام احمد نے اگر منکر الحدیث کہا بھی ہے تو ان کی یہ جرح بھی مفسر نہیں بلکہ اس سے مراد تفرد اور غرابت ہوتی ہے۔ آئینہ میں 39]
7۔ آئمہ کرام صفات باری تعالیٰ میں قطعا تاویل نہیں کرتے :
جناب اثری صاحب لکھتے ہیں:
بات دراصل یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے مسئلہ میں علامہ کوثری خالصہ جہمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت علو، ید، استواء وغیرہ کی وہ تاویل کرتے ہیں۔ قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے میں بھی وہ تاویل کے قائل ہیں ۔ مگر صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ محدثین، حتی کہ امام ابو حنیفہ ان مسائل میں قطعا تاویل کے قائل نہیں۔ [ مقالات: 184/۱]
تصویر کا دوسرا رخ دوسری طرف اثری صاحب لکھتے ہیں:
قرآن پاک کے متشابہات کی تاویل حضرات مفسرین اور دیگر ائمہ کرام رحیم اللہ خداداد صلاحیتوں کے مطابق کرتے ہیں ۔ یہی معاملہ احادیث متشابہات یا احادیث مشکلہ کا ہے۔ جن کی تاویل و توضیح حضرات علماء کرام نے بیان کر دی ۔ [ پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ: 185]
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں