نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیرمقلدین کے دین کا محورچنداختلافی مسائل

اہلحدیث کا کردار یہود جیسا


غیرمقلدین کے دین کا محورچنداختلافی مسائل 

 مفتی رب نواز حفظہ اللہ 

 یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت  سے لیا گیا ہے ۔ مجلہ  حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں

Whatsapp.  +92 342 8970409

شکریہ طاہر گل دیوبندی مدیر مجلہ راہ ہدایت


نواب صدیق حسن خان کی گواہی

 نواب صدیق حسن خان غیر مقلد نے مدعیان اہلِ حدیث کے متعلق لکھا: 

 ترجمہ:’’ رہے یہ جاہل تو ان کا حدیث کے ساتھ بڑے سے بڑا سلوک فقط یہ ہے کہ یہ لوگ چند ایسے مسائل کو اختیار کر لیتے ہیں جو عبادات کے اندر مجتہدین اور محدثین کے مابین اختلافی ہیں معاملات کے متعلق مسائل جو کہ روزمرہ پیش آتے ہیں ان سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔‘‘

 (الحطۃ صفحہ۵۳ بحوالہ حدیث اور اہلِ حدیث صفحہ۱۰۰) 

علامہ وحید الزمان کی گواہیاں 

امام آلِ غیرمقلدیت وحیدالزمان لکھتے ہیں:

 ’’ مجھ کو یہ گمان تھا کہ بنگلور میں اہلِ حدیث کی جماعت پابند سنت ہوگی مگر خودغلط بود انچہ ما پنداشتیم یہاں آ کر دیکھاتو بعضے اہلِ حدیث نے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر تو اختیار کر لیا ہے لیکن دوسرے تمام ضروریات اسلام اور اخلاق اور اوامر نبوی کو پس پشت ڈال دیا، غیبت، جھوٹ وعدہ خلافی سے مطلق باک نہیں۔امامت کے لیے عالموں کو چھوڑ کر ایک ناقابل بے بصیرت شخص کو امام بنا رکھا ہے جس کو صرف ایک خطبہ یاد ہے اُسی کو رٹتا رہتا ہے کیا یہ عمل سنت کے موافق ہے۔ ‘‘ 

(لغات الحدیث :۲؍۱۱۲،س)

وحید الزمان صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

  ’’ بعضے عوام اہلِ حدیث کا یہ حال ہے کہ انہوں نے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر کو اہلِ حدیث ہونے کے لیے کافی سمجھا ہے،باقی اور آداب اور سنن اور اخلاق نبوی سے کچھ مطلب نہیں، غیبت جھوٹ افتراسے باک نہیں کرتے ۔‘‘ ( لغات الحدیث :۲؍۹۱ش)

مولانا عبد الاحد خان پوری کی گواہی

مولانا عبد الاحد خان پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ان جہال کاذب اہلِ حدیثوں میں کوئی ایک دفعہ رفع یدین کرے اور تقلید کا رد کرے اور سلف کو ہتک کرے مثل امام ابو حنیفہ کی جن کی امامت فی الفقہ اجماع ِ امت کے ساتھ ثابت ہے اور پھر جس قدر کفر، بد اعتقادی اور الحاد اور زندقہ ان میں پھیلاوے بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں اور ایک ذرہ چیں بچیں بھی نہیں ہوتے۔‘‘ (کتاب التوحید و السنۃ فی رد اھل الحاد و البدعۃ صفحہ۲۶۲)

 مولانامسعود عالم ندوی کی گواہی

مولانا مسعود عالم ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان ہی جیسے بعض علماء اہلِ حدیث کی روش کا یہ نتیجہ ہوا کہ موجودہ اہلِ حدیث کا عام رجحان فروعی مسئلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔موجودہ جماعت اہلِ حدیث آمین و رفع یدین اور اس قسم کے دوچار فروعی مسئلوں پر قانع ہو کر رہ گئی ہے بلکہ اس کی حیثیت جماعت سے زیادہ ’’ فرقہ ‘‘ کی ہوگئی ہے ، اہلِ حدیث سے تخرب اور گروہ بندی کو بُو آتی ہے۔ ‘‘ ( ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک صفحہ ۲۹ مطبوعہ مکتبہ ملیہ اردو بازار راولپنڈی بحوالہ تجلیاتِ صفدر :۵؍۵۳۲) 

شیخ بدیع الدین راشدی کی گواہی 

 شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد ’’ ہماری اہلِ حدیثیت مسجد میں ٹوپی کی طرح ہے ‘‘ عنوان کے تحت کہتے ہیں:

 ’’ اصل بات یہ ہے کہ ہماری اہلِ حدیثیت مسجد میں محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کئی مسجدوں میں ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں ... مسجد میں آئے ٹوپی پہن کر نماز پڑھ لی، نماز سے فارغ ہوئے تو اُتارکر ٹوپی رکھ لی۔ اہلِ حدیثو! تمہارا مذہب اب ٹوپی بن گیا ہے۔ مسجد میں آئے تو اونچی آمین (کہہ )دی، رفع الیدین کر لیا۔ سارے مسائل پر عمل کیا۔مسجد سے باہر نکلے تو کوئی پابندی نہیں۔ ‘‘ 

( اصلاح اہلِ حدیث صفحہ ۱۳ ناشر جمعیت اہلِ حدیث سندھ )

مولانا محمد اسحاق بھٹی کی گواہی

محمد اسحاق بھٹی غیرمقلدرفع یدین اور آمین بالجہر کا تذکرہ کرکے لکھتے ہیں:

 ’’ ہماری آج کل کی اہلِ حدیثیت اسی قسم کے چار پانچ مسائل تک محدود ہے ‘‘ (بز مِ ارجمنداں صفحہ ۴۹،مکتبہ قدوسیہ)

 بھٹی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں: 

 ’’ یہاں ہم اہلِ حدیث حضرات سے بھی یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آمین،رفع یدین وغیرہ مسائل میں تو اُن کا قلم خوب جولانیاں دکھاتا ہے لیکن اپنے اکابر علمائے کرام کے حالات اور تذکرے کے سلسلے میں بالکل ٹھنڈا پڑجاتاہے۔‘‘ (حرف چند’’ احناف کی تاریخی کی غلطیاں ‘‘صفحہ ۱۰، تالیف احسن اللہ ڈیانوی اور تنزیل صدیقی ... امام شمس الحق ڈیانوی اکیڈمی کراچی، طبع اول جنوری ؍۱۹۹۹ء) 

مولانا محمد حنیف ندوی کی گواہی

 مولانامحمد حنیف ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بہت بحث ومناظرہ کی وجہ سے مسائل کی ان چند گنی چنی دیواروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جن کو گروہی عصبیت اور تنگ نظری نے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آج اہلِ حدیث کے معنیٰ ایسے گروہ کے نہیں کہ جن کی نظر اسلام کے پورے حکیمانہ نظام پر ہو، جن کے عمل سے اسلام کی تمام اخلاقی، اجتماعی اور روحانی قدروں کا خصوصیت سے اظہار ہوتا ہو اور جو روز مرہ کی زندگی میں ہر ہر قدم پر کتاب و سنت کی تصریحات کے متلاشی ہوں۔آج اہلِ حدیث کے معنیٰ اس کے برعکس ایک ایسے شخص یا جماعت کے ہیں جن کی دلچسپیوں کامحور عموما صرف چند مسائل، چند بحثیں اور چند فرسودہ مناظرانہ کاوشیں ہیں۔ ‘‘(سوانح مولانا دادو غزنوی صفحہ۴۳)

شیخ حمید اللہ اعوان کی گواہی

  مذکورہ بات ندوی صاحب نے مولانا داود غزنوی صاحب کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھی ہے۔ حمیدا للہ اعوان غیرمقلد (قلعہ میاں سنگھ) نے اسی عبارت کو برضا و رغبت نقل کیا اس کے آخر میں درج ذیل جملہ بھی تحریر کر دیا:

 ’’ جماعت اہلِ حدیث کے مزاج [ چند مسائل پر اکتفا کر لینے (ناقل )]کی موجودہ کیفیت سے بھی مولانا سید رحمہ اللہ کافی پریشان تھے ۔‘‘(مقدمہ علمائے اہلِ حدیث کا ذوق ِ تصوف صفحہ۵)

مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی کی گواہی

مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ہم نے صرف رفع یدین کو مسئلہ بنایا ہوا ہے اگرچہ ہمیں خود کرنا نہ آتا ہو۔ ‘‘( مقدمہ علمائے اہلِ حدیث کا ذوق ِ تصوف صفحہ۱۱)

ڈاکٹر محمد عثمان مبشر سلفی کی گواہی

 ڈاکٹر محمد عثمان مبشر سلفی (جامع مسجد مینار والی اہل حدیث شرق پور شریف ضلع شیخو پورہ ) لکھتے ہیں:

 ’’جامعہ عزیزیہ ساہیوال کے قاری محمد بلال عزیزی صاحب ایک دن نہایت غم سے فرمانے لگے کہ عثمان بھائی! آپ کو پتہ ہے؟ ہمارے اہلِ حدیثوں میں اب تلاوت قرآن بھی ختم ہو گئی ہے۔ ہمارے اسلاف علماء کا دیوبندی علماء سے بہت زیادہ محبت والا رشتہ ہوا کرتا تھا...اہلِ حدیث مدارس میں دیوبندی حضرات تجوید و قرا ء ت پڑھایا کرتے تھے۔اب کہاں گئیں وہ رفاقتیں...؟ کہاں گئیں وہ الفتیں...؟اب تو منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اختلافی مسائل کی حدتک مقید کر دیا گیا ہے ۔‘ ‘ (مقدمہ علمائے اہلِ حدیث کا ذوق ِ تصوف صفحہ۱۳۰)

 پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری کی گواہیاں 

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد کہتے ہیں:

 ’’اللہ کی صرف مسجدمیں چلے گی۔ آمین، رفع الیدین کرنے تک۔اللہ کی مسجد میں چلتی ہے۔باہر اللہ کی نہیں چلتی۔‘‘( خطبات بہاول پوری:۱؍۲۵۳)

 پروفیسر صاحب ہی کہتے ہیں:

 ’’فرق ہے تو صرف دو چار چیزوں کا کہ وہ آمین، رفع الیدین نہیں کرتے،اہلِ حدیث رفع الیدین کر لیتے ہیں۔ یہ مزاروں پہ نہیں جاتے وہ دوسرے مزاروں پہ چلے جاتے ہیں۔‘‘( خطبات بہاول پوری:۱؍۲۷۱)

 پروفیسر صاحب کی اعترافی عبارتیں پڑھتے جائیں :

 ’’ میرے بھائیو! میں اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ہم نے اسلام کو چکھا تک نہیں۔‘‘(خطبات بہاول پوری:۲؍۱۳۳)

  ’’ آج ہمارے پاس مصیبت یہ ہے کہ ہم نام کے اہلِ حدیث ہیں یا رفع الیدین یا آمین کے اہلِ حدیث ہیں۔اس سے آگے بات بالکل ختم ‘‘( خطبات بہاول پوری:۳؍۷۳)

  ’’نماز میں تو ہم پہچان لیتے ہیں کہ یہ اہلِ حدیث ہے لیکن دکان پر بیٹھے کبھی اہلِ حدیث نظر نہیں آتا، بیاہ شادی میں کبھی اہلِ حدیث نظر نہیں آتا، معاملات کاروبار میں کبھی اہلِ حدیث نظر نہیں آتا...اب ہم اہلِ حدیثوں کو نہیں دیکھتے۔ بوڑھا ہے، مرنے کے قریب ہے، اپنی آخرت کو برباد کرنے میں یہ تدبیریں کرتا ہے۔ یہ زندگی میں ہی زمین اپنے لڑکوں کے نام کرتا ہے تاکہ لڑکیاں محروم رہ جائیں، یہ اہلِ حدیث ہے!‘‘(خطبات بہاول پوری:۳؍۷۶)

 ’’ اب ہمارا کیا حال ہے؟ اب ہم آمین، رفع الیدین مسجد کی حد تک، رسمی حد تک ہم مسلمان ہیں۔ باقی ہماری معیشت ، ہماری معاشرت، ہماری سیاست سب کافرانہ ہے ۔ ‘‘( خطبات بہاول پوری:۳؍۹۲)

 ’’ ہمیں اسلام کا کوئی پتہ نہیں۔جب ہم نے اسلام کی درگت بنادی کہ اسلام کا کوئی پتہ نہیں ...‘‘( خطبات بہاول پوری : ۳؍۲۹۰)

 ’’اہلِ حدیث ان کا کیا حال ہے ؟ آمین اور رفع الیدین ...اس کے علاوہ کچھ پتہ نہیں۔‘‘

(خطبات بہاول پوری:۳؍ ۳۰۷)

  ’’آپ نے دریاؤں کو دیکھا ہے۔ دریا جو کاٹ کرتا ہیں ۔دریا آتا ہے۔ زمین کے پورے ٹکڑے کو گرا کر ، اپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔ اسی طرح سے دنیا میں لہریں اُٹھتی ہیں، واقعات پیدا ہوتے ہیں اور ان میں جو گندہ عنصر ہوتا ہے وہ نکھرتا، وہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہم اہلِ حدیث نہیں ہیں۔ مسلمان نہیں ۔ دل ہمارا کافر تھا ، کفر چھپا ہوتا تھا ۔ اللہ ان کو ننگا کر دیتا ہے ۔یہ دیکھ لو کل حساب ہوگا ۔ یہ کہیں یا تم کہو کہ یا اللہ ! میں تو آمین ، رفع الیدین کیا کرتا تھا خدا عین ننگا کر کے دیکھا دے گا کہ اگر تو اہلِ حدیث ہوتا تو پھر یہ ہوتا؟‘‘( خطبات بہاول پوری:۳؍۴۳۷ ، مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد ) 

 ’’ اہلِ حدیث کو [شیطان] دانہ کیا ڈالتا ہے رفع الیدین کرلیاکر باقی سب باتیں ٹھیک ہیں باقی اپنا کام کر جیسا تیرا دل چاہتا ہے۔چنانچہ آمین اور رفع الیدین کرنے والا اہلِ حدیث لیکن دنیا دار ایسا پکا کہ شاید انگریز بھی اتنا دنیا دار نہ ہو۔ہوگا اہلِ حدیث ‘‘ ( خطبات بہاول پوری : ۴ ؍ ۷۹)

 ’’ صرف رفع الیدین ہی یاد رکھی ہے آج کل اہلِ حدیث کی نشانی کیا ہے؟ رفع الیدین ...اور بس ... قصہ ختم ... آمین کہہ دی، رفع الیدین کر لیا ۔ بس اہلِ حدیث اورباقی تالے توڑ جو مرضی کرتے رہے ۔ سب ٹھیک چلتا رہتا ہے۔ پرواہ ہی کچھ نہیں ۔‘‘( خطبات بہاول پوری:۴؍۱۶۵)

 ’’ ہم مسجد کی حد تک تو اہلِ حدیث ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ زندگی کے دوسرے معاملات میں یعنی سیاست میں ہمارا کیا حال ہے ؟ الحاد ہو، کچھ بھی ہو ، بالکل ٹھیک ہے، چلتے رہو۔ ‘‘ ( خطبات بہاول پوری:۴؍۲۳۸)

 ’’اہلِ حدیث کا اسلام کیا ہے ؟آمین، رفع الیدین، تین چار باتیں،باقی سب ختم ... چھٹی...‘‘(خطبات بہاول پوری : ۴ ؍ ۲۴۳)

 ’’ ہم نے اسلام کو بالکل ہلکا سا، سطحی سا سمجھ کر قبول کیا ہے اور اس کا تعلق صرف مسجد سے ہے۔‘‘(خطبات بہاول پوری : ۴ ؍۲۴۵)

 ’’ اہلِ حدیث آمین ، رفع الیدین کے سوا جانتے کچھ بھی نہیں ‘‘ ( خطبات بہاول پوری:۴؍۳۲۵)

 ’’ اہلِ حدیث صرف مسجد میں اہلِ حدیث ہے ‘‘( خطبات بہاول پوری:۴؍۴۸۰)

حافظ صلاح الدین یوسف کی گواہی

حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد نے پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری کے بارے میں لکھا:

 ’’ وہ دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتے تھے کہ اہلِ حدیث کی اہلحدیثیت اب صرف مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ‘‘( خطبات بہاول پوری:۱؍۱۵)

 ابوالمیزان کی گواہی

شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد کی کتاب’’انوار البدر‘‘ کی تقریظ نگار ابو المیزان نے تحریر کیا: 

 ’’مختلف فیہ مسائل کا تنازعہ دُور کرنا بلاشبہ تبلیغ دین کا ایک حصہ ہے مگر ساری فوج دیگر محاذ چھوڑ کر یہیں ڈٹ جائے تو باقی محاذوں کی کیا درگت بنے گی اس کا اندازہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے آج کی دنیا دیکھ لیجئے کمانڈر نہ ہو یا ہو مگر کمزور ہو تو فوج ایسی ہی من مانی کرتی ہے جیسی آج کل ہورہی ہے۔ساری اہلِ حدیثیت ایک’ مختلف فیہ مسائل ‘کے نام ہو گئی ہے۔ ‘‘ (انوار البدر صفحہ ۴۵، ناشر اسلامک انفارمیشن ممبئی ) 

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی گواہیاں 

  ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلدنے ’’مدرک رکوع،مدرک رکعت ‘‘کے عنوان پربات کرتے ہوئے کہا: 

 ’’اس نوجوان کا یہ بھی اصرار تھا کہ یہ بات کہ اس مسئلہ میں اہلِ حدیث علماء میں اختلاف ہے ، ابھی بیان نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب اس جذباتیت اور جہالت کا کوئی علاج نہیں ہے۔اب یہ شدت پسندی ایک ہی مسلک اورفرقے میں زیادہ دیکھنے میں مل رہی ہے اور ایک ہی مسلک اور فرقے سے تعلق رکھنے والے اپنے ہی مسلک اور فرقے کے لوگوں کوچھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر مسلک اور فرقے سے اندر باہر کرنے کی عظیم خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ اس بدترین فرقہ واریت کا حل یہی ہے کہ ایک مسلک سے وابستہ علماء کو دوسرے مسلک کے اہلِ علم کے لیے بھی اختلاف کی گنجائش باقی رکھنی چاہیے۔ ورنہ تو فرقہ واریت ایک مزاج ہے، یہ صرف دوسرے فرقے سے نہیں الجھتا بلکہ اپنے فرقے میں بھی موجود ہر دوسرے شخص سے الجھ پڑتا ہے۔ ‘‘ ( صالح اور مصلح صفحہ ۳۶۷)

 حافظ زبیرصاحب نے مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا:

 ’’ معاملہ یہیں پر ختم نہ ہوا بلکہ اگلے دن وہ نوجوان چار مناظر اپنے ساتھ لے آئے۔ چار رکعات تراویح کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا اور سمجھانا شروع کر دیا۔ ایک صاحب کی تو داڑھی بھی نہ تھی، مزدور پیشہ لگتے تھے لیکن بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ اسی طرح علمی مناظرہ میں جو سب سے پیش پیش تھے، انہیں ترجمہ قرآن بھی نہ آتا تھا، بس حدیث کی چند ترجمہ شدہ کتابوں کو لے کر بعض ابواب کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار سمجھایا کہ میں مناظرے کے میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے کچھ غلط بیان نہیں کیا ہے۔ زیادہ حساسیت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بات ان کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ اس دَوران تراویح کی نماز ہوتی رہی اور ہم مسجد کے صحن میں صف کے آخر میں بیٹھے گفتگو کرتے رہے۔ اس طرح تقریبا ً بیس منٹ کا قیام اللیل انہوں نے خود بھی ضائع کیا اور میرا بھی ضائع کروایا۔ اور یہ اصحاب تقریباً ۱۵ کلو میٹر کا سفر کرکے یہاں آئے تھے، مجھے سمجھانے کے لیے۔ بہرحال میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ ہمیں اس وقت نماز کا قیام کرنا چاہیے کہ جس پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ وہ نیکی کا کام ہے لیکن وہ وفد اِس بات پربضد تھا کہ قیام اللیل کی بجائے یہ وقت اُن سے مناظرہ میں گزاروں کہ یہ بات ان کے نزدیک قیام اللیل سے بڑھ کر نیکی کا کام تھا۔ میں معذرت کرکے قیام اللیل میں شامل ہوگیا جب کہ یہ مناظر حضرات آدھ گھنٹہ پیچھے بیٹھ کر آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ لیکن انہیں قیام لیل جیسی نیکی میں شامل ہونے کی توفیق نہ ہوئی۔ ‘‘ ( صالح اور مصلح صفحہ ۳۶۸) 

آگے لکھا:

 ’’ اب اس نوجوان کا کوئی قصور نہیں ہے کیوں کہ اسے اہلِ حدیث کرنے والوں کے نزدیک اہلِ حدیث ہونا آٹھ سے دس مسائل کا نام ہے اور اسے جب پوری اہلِ حدیثیت انہی مسائل کے گرد گھومتی نظر آئے گی تو اس کی زندگی کا مقصد انہی فروعی مسائل کے لیے جینا مرنا ہی قرار پائے گا۔ ‘‘ ( صالح اور مصلح صفحہ ۳۶۹)

آگے لکھتے ہیں: 

 ’’ فرقہ واریت اورجماعتی تعصب کی بنیاد ہی یہ رویہ ہے کہ ہمارا مسلک اور جماعت تو سو فی صد درست ہے اور دوسرا سو فی صد غلط ہے۔ ‘‘ ( صالح اورمصلح صفحہ ۳۷۲)

زبیر صاحب کی اس عبارت پڑھنے کے بعد ایک اور زبیر یعنی زبیر علی زئی کی عبارت پڑھئے :

 ’’ میں اور میرے تمام ساتھی علی الاعلان اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مذہب اہلِ حدیث ہی حق ہے ، اس کے علاوہ تمام مذاہب باطل ہیں۔ ‘‘ ( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۶۵)

مولانا عبد المنان راسخ کی گواہیاں 

مولانا عبد المنان راسخ غیرمقلد کہتے ہیں:

 ’’بعض خطبائے کرام نور و بشر، آمین، فاتحہ خلف الامام اور رفع الیدین جیسے مسائل پر ہی گفتگو کرنا اپنے مسلک کی خدمت سمجھتے ہیں۔بلکہ ہمیں اس دن بہت حیرت ہوئی کہ ایک خطیب صاحب کے سامنے مشہور و معروف مبلغ اسلام کا ذِکر کیا گیا تو وہ جواب میں فرمانے لگے: ہاں ان کی آواز تو بہت پُر تاثیر ہے ،لیکن ان پر حرام ہے کہ انہوں نے کبھی مسلک پر تقریر کی ہو۔ ‘‘ ہمیں ان کی یہ بات سن کر بہت حیرت ہوئی۔‘‘( اصلاح کی راہیں صفحہ ۱۱۷مکتبہ اسلامیہ ) 

 راسخ صاحب کہتے ہیں:

 ’’جن خطباء کو نعرہ بازی اور مجمع سازی کا نشہ ہوتا ہے وہ صرف اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہیں اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے امن و امان کی صورتِ حال کو فتنہ و فساد میں تبدیل کر کے اپنی راہ لیتے ہیں ۔بعد میں مقامی جماعت ان کی (تبلیغ) کے نتائج بھگتتی ہے۔ہمیں یاد آیا کہ ایک ذمہ دار ساتھی نے بتایا کہ میں نے ایک معروف خطیب صاحب وعدہ لیا،بعد میں قریب جا کر عرض کیا : مولانا! صبر کے موضوع پر تقریر کرنا۔حضرت صاحب فرمانے لگے :مجھ سے تقریر کروانی ہے تو مسلک پر کروائیں، ورنہ میں نہیں حاضرہو سکتا۔‘‘ ( اصلاح کی راہیں صفحہ۱۱۹مکتبہ اسلامیہ ) 

راسخ صاحب’’ایک تلخ حقیقت ‘‘ عنوان کے تحت کہتے ہیں:

 ’’یہ بات سب کے مشاہدہ میں آئی ہے کہ صرف اختلافی مسائل پر زیادہ زور دینے والے ،نعرہ بازی اور مجمع سازی کرنے والے خطیب حضرات میں سے کچھ افراد بدعہد، بد خلق یا کم از کم متکبر ضرور ہوتے ہیں۔ جاہل عوام کے نعرے ان کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں، ان کی طبیعت میں عجیب سا عُجب پیدا ہوجاتا ہے اور ان کو گھمنڈ کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔ ‘‘ ( اصلاح کی راہیں صفحہ ۱۱۹مکتبہ اسلامیہ ) 

راسخ صاحب کہتے ہیں:

 ’’اسی طرح ایک خطیب صاحب فرمانے لگے : بتاؤ میرے علاوہ مسلک کون بیان کر رہا ہے ؟ میں ہی ہوں جو ہروقت مسلک کے لیے لگا رہتا ہوں۔مقام غور ہے ! کیادیگر خطبا ،علماء اورمشائخ حضرات مسلک کا کوئی کام نہیں کررہے ؟‘‘ ( اصلاح کی راہیں صفحہ ۱۲۰مکتبہ اسلامیہ ) 

 محمد ضیاء الحق نعمانی کی عبارت پر ایک نظر 

  حکیم محمد صادق سیالکوٹی غیرمقلد کی کتاب ’’ صلوۃ الرسول ‘‘ میں غیرمقلدین کی تخریج اور حواشی کے مطابق بیسیوں حدیثیں ضعیف ہیں۔ جب یہ تاثر پھیلا کہ اس کتاب میں ضعیف حدیثوں کی بھرمار ہے۔ تب محمد ضیاء الحق نعمانی غیرمقلد( مدیر نعمانی کتب خانہ لاہو ر) نے نئے ایڈیشن میں اس کابزعم خود یوں جواب دیا: 

 ’’یاد رہے کہ اعتراض کرنے والوں کی بیان کردہ ’’ ضعیف احادیث ‘‘ میں سے ایک بھی ایسی نہیں کہ جس پر مسلک کتاب و سنت کی بنیادی سند کا مدار ہو ۔ مثلاً : فاتحہ ... رفع الیدین ...آمین بالجہر ... سینہ پر ہاتھ ... تراویح ۔‘‘ ( سخن ناشر تسہیل الوصول الی تخریج و تعلیق صلوۃ الرسول صفحہ ۱۷) 

 ضیاء الحق صاحب نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ مسائل کے دلائل صحیح حدیثیں ہیں۔ اس پر اگرچہ بحث کی گنجائش موجود ہے مگر ہم دوسری بات بتانا چاہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک مسلک کتاب و سنت کے بنیادی مسائل فاتحہ، رفع یدین، آمین بالجہر، سینہ پر ہاتھ باندھنااورتراویح ہیں لہٰذا اُن کے علاوہ باقی مقامات پر ضعیف حدیثیں ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔انہیں بس مذکورہ مسائل کی فکر ہے ،اس لئے کہ یہ اُن کے نزدیک بنیادی مسائل ہیں۔ جناب!جب آپ لوگ ضعیف حدیث سے کلی اجتناب کے دعوے دار ہیں تو اس سے کلی طور پرہیز کریں خواہ مذکورہ بالا مسائل ہوں یا ان کے علاوہ دیگر مسائل۔ 

 مزید یہ کہ یہاں بجا طور پر سوال ہوتا ہے کہ کیا کتاب و سنت کے بنیادی مسائل یہی چند فروعی مسائل ہیں؟اس کی بجائے یوں کیوں نہیں کہا کہ غیرمقلدیت کے بنیادی مسائل یہی ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...