نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تدفین میت کے بعد قبر کے پاس سورۃ بقرۃ کا اول و آخر پڑھنا

یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت سے لیا گیا ہے۔

 خصوصی شکریہ مدیر مجلہ راہ ہدایت طاہر گل دیوبندی صاحب 
 

تدفین میت کے بعد قبر کے پاس سورۃ بقرۃ کا اول و آخر پڑھنا

مولانا الیاس علی شاہ صاحب

     جس عمل کا جواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام اور ائمہ متبوعین سے صراحت کیساتھ ثابت ہو اس کو بدعت نہیں کہا جاسکتا جیسے دفن کے بعد میت کے سرہانے سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات مفلحون تک اور   پاؤں کی طرف سورۃ بقرہ کی آخری آیات" آمن الرسول " سے ختم سورۃ تک پڑھنا یہ مستحب اور ثابت ہے۔

لیکن آج کل بعض لوگ " جن کا مقصد فتنہ پھیلانا ہے" ایسے موقع پر فساد شروع کر دیتے ہیں کہ یہ عمل خلاف سنت ہے، اور احادیث سے ثابت نہیں، اور قبرستان میں بحث شروع ہوجاتی ہے، فوتگی کے موقع پر اکثر دوریاں جو ختم ہوجایا کرتے ہیں  ان فسادیوں  کا فساد مزید دوریوں  کا پیش خیمہ ثابت ہوجاتا ہے۔ جمہور اہل سنت( احناف جیسے علامہ قاضی خان ؒ، علامہ ابن ہمامؒ، علامہ ابن نجیمؒ، علامہ ملا علی قاریؒ، علامہ شرنبلالیؒ اور علامہ شامیؒ۔ شوافع جیسے علامہ بیہقیؒ علامہ نوویؒ، علامہ ابن حجرؒ، علامہ سیوطیؒ، بلکہ صراحت کیساتھ امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبل امام خلال، امام ابن قدامہ الجوہری ، علامہ ابن قدامہ المقدسی وغیرھم) اس عمل کے جواز واستحباب کے قائل ہیں۔  ان کے پاس اس عمل کے ثبوت میں احادیث بھی ہیں۔  جن کا حکم صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں!

پہلی حدیث:

(۴۹۱) حدثنا ابو اسامۃ عبد اللہ بن محمد بن ابی اسامۃ الحلبی، حدثنا ابی(ح) 

وحدثنا ابراھیم بن دحیم الدمشقی، حدثنا ابی(ح) 

وحدثنا الحسین بن اسحاق التستری، حدثنا علی ابن حجر

 قالوا: حدثنا مبشر بن اسماعیل، حدثنی عبد الرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیہ قال : قال لی ابی: یا بنی! اذا مت فالحدنی فاذا وضعتنی فی لحدی فقل : بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، ثم سن علی التراب سنا، ثم اقرا عند راسی بفاتحۃ البقرۃ وخاتمتھا، فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ذلک۔

(المعجم الکبیر للطبرانی، الجز التاسع عشر،ص220۔۔221)

ترجمہ:عبد الرحمٰن بن العلاء اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں تو مجھے لحد میں رکھ دینا، اور جب مجھے لحد میں رکھو تو یہ دعا پڑھنا" بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ " اور میرے سرہانے سورۃ بقرہ کا اول اور آخر پڑھنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی فرماتے  سنا ہے۔

دوسری حدیث:

(۷۰۶۸) اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ، ثنا ابو العباس احمد بن یعقوب، ثنا العباس بن محمد، سالت یحیی بن معین عن القراء ۃ عند القبر، فقال: حدثنا مبشر بن اسماعیل الحلبی، عن عبد الرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیہ انہ قال لبنیہ: اذا ادخلتمونی قبری فضعونی فی اللحد وقولوا: بسم اللہ وعلی سنۃ رسول اللہ"، وسنوا علی التراب سنا، واقراؑو ا عند راسی اول البقرۃ وخاتمتھا ، فانی راؑیت ابن عمر یستحب ذالک۔

(السنن الکبری الجز الرابع، ص93، کتاب الجنائز، باب ما ورد فی قراۃ القرآن عند القبر/الدعوات الکبیر الجز الثانی، ص297)

ترجمہ:عبد الرحمٰن بن العلاء اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ علاء بن لجلاج نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ جب تم مجھے قبر میں داخل کرو تو مجھے لحد میں رکھ دینا اور یہ دعاپڑھنا" بسم اللہ وعلی سنۃ رسول اللہ"، اور مجھ پر مٹی ڈالو اور میرے سرہانے سورۃ بقرہ کا اول اور آخر پڑھنا کیونکہ میں نے ابن عمر کو دیکھا کہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔ 

نوٹ:

پہلی روایت میں صحابی رسول حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ذلک فرما رہے ہیں اور دوسری روایت میں صحابی کا بیٹا حضرت علا بن لجلاج تابعی اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے رایت ابن عمر یستحب ذلک بھی فرمارہے ہیں۔لہذا دونوں روایتوں میں کوئی تضاد وتعارض نہیں ۔

 گویا دونوں روایتوں میں   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،  دو صحابی حضرت لجلاج اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ایک تابعی علاء بن لجلاج سے  اس مسئلہ کا ثبوت مل رہا ہے۔

اعتراض:

   غیر مقلدین حضرات  یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دونوں روایتوں کا مرکزی راوی عبد الرحمٰن بن العلاء ہے ۔ جس کے متعلق علامہ البانی لکھتے ہیں کہ ابن حبانؒ کے سوا کسی نے اس کی توثیق نہیں کی اور وہ توثیق کرنے میں متساہل ہے۔

  جواب:

متقدمین میں سے  امام بخاریؒ نے التاریخ الکبیر میں، امام ترمذی نے امام ابو زرعہ رازی سے سنن ترمذی میں اور امام ابو حاتم رازی نے الجرح والتعدیل میں عبد الرحمٰن کا تذکرہ کیا ہے اور کسی قسم کی جرح نہیں کی ہے۔

امام  یحیی بن معینؒ نے اس روای کی ضمنی توثیق کر رکھی ہے کیونکہ ان کے شاگرد امام دوریؒ نے ان سے قبر کے پاس قرآن  کی تلاوت کے متعلق پوچھا، تو  اس نےجواز کے بارے میں  عبد الرحمٰن بن العلاء کی روایت بیان کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد الرحمن بن العلاء ان کے نزدیک قابل حجت ہیں۔ ملاحظہ ہو السنن الکبری  کی مذکورہ بالا روایت ۔

 اورامام خلال ؒ کے الفاظ یہ ہے:

 وسالت یحیی بن معین فحدثنی بھذا الحدیث۔۔۔ (الامر بالمعرف والنھی عن المنکر/ کتاب القراءۃ عند القبور ص87)

 امام احمد بن حنبلؒ  نے بھی اس راوی کی ضمنی توثیق کر رکھی ہے کیونکہ ان کے سامنے جب عبد الرحمن بن العلاء کی روایت امام محمد ابن قدامہ جوہری نے سنائی تو آپ نے رجوع کرکے اس کے موافق عمل کرنے کا حکم دیا۔ امام ابو بکر الخلال نے اس واقعہ کو دو سندو ں سے روایت کی ہے۔

 پہلی سند:

اخبرنی الحسن بن احمد الوراق، ثنی علی بن موسی الحداد۔ وکان صدوقا، وکان ابن حماد المقری یرشد الیہ۔ فاخبرنی قال: کنت مع احمد حنبل فی جنازۃ، فلما دفن المیت جلس رجل ضریر یقرا عند القبر۔۔۔ الخ۔۔۔

دوسری سند:

 واخبرنا ابو بکر بن صدقۃ قال: سمعت عثمان بن احمد بن ابراھیم الموصلی قال: کان ابو عبد اللہ  احمد بن حنبل فی الجنازۃ۔۔۔ الخ۔۔۔

 دوسری سند میں ابوبکر احمد بن عبد اللہ بن صدقۃ بغدادی ہیں، علامہ ذہبی نے ان کو الحافظ کے لقب سے یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ موصوف نے امام احمد ؒ سے مسائل حاصل کئے ہیں اور ان سے امام خلالؒ نے استفادہ کیا ہے ( تاریخ الاسلام) ان کا انتقال293ھ کو ہوا ہے۔( طبقات الحنابلۃ)

 اور عثمان بن احمد موصلیؒ کے متعلق قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں صحب امامنا وروی عنہ اشیاء۔ کہ وہ ہمارے امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ رہے ہیں اور ان سے بہت سے مسائل نقل کئے ہیں۔ اس کے بعد قاضی ابویعلی نے مذکورہ قصہ بھی ان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

 نیز پہلی سند میں موجود علی بن موسی الحداد نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔ پہلی سند میں حسن بن احمد الوراق کو قاضی ابو یعلی نے امام خلال کا استاد قرار دیا ہے  جس سے امام خلالؒ نے بہت استفادہ کیا امام حسن بن احمد الوراق کی اتنی شہرت اور تعریف کافی ہے جس سے دوسری سند کی متابعت ہوجاتی ہے۔ العرض یہ قصہ ثابت ہے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

ضمنی تو ثیق کے اصول کے خود البانی  اور غیر مقلدین کے دیگر شیوخ قائل ہیں۔

چنانچہ البانی مرحوم ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں:

وکذلک وثقہ کل من صحح حدیثہ اما باخراجہ ایاہ فی الصحیح کمسلم وابی عوانۃ او بنص علی صحتہ کالترمذی

( الاحادیث الصحیحۃ الجز السابع ص16)

 ترجمہ:۔ ہر اس محدث نے اس راوی کی توثیق کی ہے جس نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے یا تو صحیح کے اندر لانے سے امام مسلم اور امام ابو عوانہ کی طرح یا صحت کی تصریح کرنے سے امام ترمذی کی طرح۔

 اس اصول کے طور پر درجہ ذیل حضرات نے عبد الرحمن بن لعلاء کی ضمنی توثیق کر رکھی ہے۔

1۔ امام بیہقی ؒ نے  دعوات الکبیر میں عبد الرحمن بن العلاء کی روایت کو حسن کہا ہے۔

ھذا موقوف حسن  (الدعوات الکبیر الجز الثانی، ص297) 

2۔ امام نووی ؒ نے عبد الرحمن بن العلاء کی روایت کو حسن کہا ہے۔

وروینا فی سنن البھیقی باسناد حسن۔۔۔ (الاذکارا لنوویۃ ص 137)

3۔ علامہ ہیثمیؒ نے عبد الرحمن بن العلاء کو ثقہ قرار دیا ہے۔

اسی قرأءت والی روایت کے متعلق  فرماتے ہیں:

 رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون۔۔۔ ( مجمع الزوائد الجز الثالث ص124  رقم:4243)

اور دوسرے مقام پرعبد الرحمن بن العلاء  کی ایک طبرانی والی روایت کے متعلق فرماتے ہیں:

رواہ الطبرانی وفیہ المعلی بن الولید ولم اعرفہ ،و بقیۃ رجالہ ثقات۔۔ ( مجمع الزوائد الجز الخامس ص23 رقم7961)

4۔ علامہ منذریؒ نے بھی عبد الرحمن بن العلاء کی طبرانی والی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:

رواہ الطبرانی باسناد لا باس بہ۔۔۔ ( الترھیب والترغیب الجز الثالث ص101 رقم13)

5۔علامہ شمس الدین محمد بن مفلح المقدسیؒ نے بھی عبد الرحمن بن لعلاء والی روایت کی تصحیح کر رکھی ہے۔

و صح عن ابن عمر۔۔۔ ( کتاب الفروع  الجز الثالث ص420 کتاب الجنائز)

6۔ علامہ ابن حجر نے امام بیہقی کی سند کی تخریج کرتے ہوئے عبد الرحمن بن العلاء کی  روایت کو حسن کہا ہے۔

ھذا موقوف حسن۔۔۔ ( نتائج الافکار ،الجزء الرابع، ص426/ الفتوحات الربانیۃ لمحمد علی بن  محمد  علان الجز الرابع ص136)

اعتراض:

 البانی لکھتا ہے کہ علامہ ابن حجر کا اسے حسن قرار دینا غلط ہے کیونکہ اس نے عبد الرحمن بن العلاء کو تقریب التھذیب میں مقبول کہا ہے جس کی روایت تب حسن ہوگی جب اس کی متابعت کی گئی ہو ورنہ راوی لین الحدیث ہوگا۔

جواب:۔

حافظ ابن حجرؒ نے خود  اس راوی کو مقبول کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  خود اس نے اس راوی کے روایتوں کے جائزہ لیا ہے اور اس کو مقبول قرار دیا ہے۔ حافظ بن حجر کے اصول کے مطابق عبد الرحمن بن العلاء مقبول درجہ کا راوی ہے گویا ان کی  تحقیق میں  اس حدیث کی متابع موجود ہے۔ اس لئے اس نے   صراحت   کے ساتھ اس کی روایت کی تحسین کر دی ہے۔

      خود عملی طور پر جب ہم دیکھیں تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی فرموع روایت اس کے لئے متابع ہے، اصولی طورپر اگرچہ یہ شاہد بنے گی مگر ایک تو متابع پر شاہد  اور شاہد پر متابع کا اطلاق ہوتا اور دوم یہ  کہ متابع اور شاہد دونوں سے مقصود ایک ہے کہ اس کے ذریعے تقویت حاصل ہوتی۔

 چنانچہ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں:

  وقد تطلق المتابعۃ علی الشاھد، وبالعکس ولامر فیہ سھل ( نزھۃ النظر)

ترجمہ: کبھی متابعت پر شاہد اور کبھی اس برعکس اطلاق ہوتا، اور اس میں فیصلہ آسان ہے۔

 عبد اللہ بن عمر کی فرموع حدیث کو امام خلال ؒ، امام طبرانیؒ اور امام بیہقیؒ نے روایت کی ہے۔

 امام خلال ؒ فرماتے ہیں:

 واخبرنی العباس بن محمد بن احمد بن عبد الکریم، قال: حدثنی ابو شعیب عبد اللہ بن الحسین بن احمد بن شعیب الحرانی من کتابہ، قال: حدثنی یحیی بن عبد اللہ الضحاک البابلتی، حدثنا ایوب بن نھیک الحلبی الزھری مولی آل سعد بن ابی وقاص قال: سمعت عطاء بن ابی رباح المکی، قال سمعت ابن عمر، قال: سمعت  النبی صلی اللہ علیہ وسلم  یقول: اذا مات احدکم فلاتحبسوہ، واسرعوا بہ الی قبرہ ، ولیقراعند راسہ بفاتحۃ البقرۃ، وعند رجلیہ بخاتمتھا فی قبرہ۔۔

(الامر بالمعرواف والنھی عن المنکر ص88  وکتاب القراء ۃ عند القبورص2)

اس روایت کی سند  ضعیف ہے لیکن علامہ ابن حجر  نے پھر بھی اس کو حسن قرار دیا ہے۔ کیونکہ  اس کا متابع یعنی شاہد عبد الرحمن بن لعلاء کی روایت موجود  ہے۔

ویؤیدہ حدیث ابن عمر: سمعت رسول اللہ اذامات احدکم فلاتحبسوہ ، واسرعوا بہ الی قبرہ، اخرجہ الطبرانی باسناد حسن۔ 

(فتح الباری الجز الثالث ص184،باب السرعۃ بالجنازۃ)

     غیر مقلدین کے پاس قبرستان میں تلاوت کی حرمت پر کوئی صریح حدیث  نہیں وہ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں  جو محض احتمال کے درجے میں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لاتجعلوا بیوتکم مقابرا، فان الشیطان یفر من البیت الذی یقرا فیہ سورۃ البقرۃ:

یعنی تم اپنے گھروں سے قبرستان مت بناو کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس طرح میں سورۃ بقرہ کی تلاوت ہوتی ہے۔

 اس حدیث کا  صاف مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں  میں قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئے قبرستان مت بناو جو اموت کی رہنے کی جگہ ہے جہاں اموات کو تلاوت کا کوئی شرعی حکم ہے نہ وہ تکلیفی طور پر تلاوت کرتے ہیں۔

 ہاں اس میں جانب مخالف کا فقط احتمال ہے جو مراد  ہو بھی سکتا اور نہیں بھی یعنی قبرستان میں تلاوت نہ کرو، یہ منطوق کے درجے میں نہیں محض احتمال ہے اور اس احتمال کے مراد ہونے پر کوئی خارجی دلیل ہے نہیں البتہ جمہور اہل سنت کے دلائل سے  معلوم ہوا ہے یہ احتمال ہرگز  مراد نہیں ہوسکتا۔

 غیر مقلدین اس احتمال  کے مراد لینے کے لئے امام بخاری کے ایک استدلال پر قیاس کرتے ہیں جو نماز کے بارے میں ہے۔

چنانچہ امام بخاری ؒ نے کراھیۃ الصلواۃ فی المقابر باب قائم کرکے  اس پر حدیث صلوا فی بیوتکم، ولا تتخذوھا قبورا سے استدلال کیا ہے۔ لیکن غیر مقلدین کا یہ قیاس مع الفارق ہے۔

اولاََ: اس لئے کہ یہاں  بھی یہ احتمال ہے کہ قبرستان میں نماز کی ممانعت مراد ہو  یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد نہ ہو۔

ثانیاََ: یہاں اس حدیث میں ممانعت مراد لینے  کی تائید دوسری صریح  حدیث سے ہوتی ہے جو ترمذی اور ابوداود میں موجود ہے اور بقول علامہ ابن حجر امام بخاریؒ نے اس استدلال میں اس صریح حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے الارض کلھا مسجد الا مقبرۃ والحمام۔

    تو غیر مقلدین کا استدلال ممانعت تلاوت کے باب میں حدیث سے احتمال کے درجے میں ہے جو اہل سنت کے دلائل کیوجہ سے مراد نہیں ہوسکتا۔ اور امام بخاریؒ کا استدلال ممانعت صلاۃ کے باب حدیث سے احتمال کے درجے میں ہے مگر دوسری صریح دلیل سے یہ احتمال قوت پاتا  ہے۔ واللہ اعلم

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...