نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلد اہلحدیثوں کی کتاب لغات الحدیث میں صحابہ کرام کی گستاخیاں

وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا۔

 

"لغات الحدیث"میں صحابہ کرام کی گستاخیاں

مفتی رب نواز حفظہ اللہ 

 یہ مضمون مجلہ راہ ہدایت  سے لیا گیا ہے ۔ مجلہ  حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں

Whatsapp.  +92 342 8970409

شکریہ : طاہر گل دیوبندی صاحب مدیر مجلہ راہ ہدایت

 غیرمقلد ین میں صف اول کے مصنف سمجھے والے لوگوں میں ایک نمایاں نام علامہ وحید الزمان صاحب کاہے۔ رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے انہیں ‘‘امام اہلِ حدیث ’’کا لقب دیا ہے ۔ (سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۹۴۵، رئیس محمد ندوی)

 وحید الزمان صاحب کی غیرمقلدیت پر غیرمقلد علماء کی گواہیاں بندہ نے اپنی کتاب ‘‘ زبیر علی زئی کا تعاقب ’’ حاشیہ ۹۹، ۱۰۱ وغیرہ میں نقل کر دی ہیں۔ 


وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا

وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا

وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا

وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا

وحید الزمان اہلحدیث غیر مقلد تھا


کچھ" لغات الحدیث "کے بارے میں 

 وحید الزمان صاحب کی کتابوں میں سے ایک کتاب ‘‘ لغات الحدیث ’’ہے اس کتاب کے متعلق بقلم ِ خود لکھتے ہیں: 

 "یہ کتاب " لغات الحدیث ’"مدینہ طیبہ حرم ِنبوی میں مکمل ہوئی، روضۂ اقدس کے سامنے۔ یا اللہ اس کو میرے لئے آخرت میں ذخیرہ کر " (حاشیہ لغات الحدیث ۱؍۱۰ ، ذ ) 

علامہ صاحب نے ‘‘ لغات الحدیث ’’ کی تصنیف کے دَوران لکھا:

 " اگر احیاناً حیات مستعار نے وفا نہ کی اور سفرِ آخرت در پیش آیا تو میری وصیت اہلِ حدیث بھائیوں کو یہ ہے کہ وہ ان کتابوں کو پورا کردیں۔ "(حیات وحید الزمان صفحہ ۲۰۷) 

اسی کتاب میں اپنے آپ کو "اہلِ حدیث " کہتے ہوئے لکھتے ہیں: 

 " ہم اہلِ حدیث حضرات اس حدیث کے بموجب بھی اور اُس حدیث کے تحت بھی جس میں آنحضرت ؐ نے فرمایا...." ( لغات الحدیث ۲؍۳۴ ر) 

مولانا عمر فاروق قدوسی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: 

 "علامہ وحید الزمان کے متعلق معلومات کا اہم مرجع ان کی اپنی کتب بالخصوص لغات الحدیث ہے ۔’"(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۶۶) 

قدوسی صاحب مزید لکھتے ہیں: 

 " علامہ وحید الزمان کی یہ تحریر تقریبا ۱۳۳۴ھ کی ہے جب انہوں نے لغات الحدیث نظر ثانی کے بعد شائع کی۔ اس کے چار سال بعد ان کی وفات ہوگئی۔ یعنی عمر کے تقریبا آخری حصے کی یہ تحریر ہے ۔’"(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۶۹) 

مذکورہ بالا عبارتوں سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں!

 (۱)وحید الزمان کو ناز ہے کہ لغات الحدیث مدینہ میں روضہ نبوی کے سامنے لکھی گئی۔

(۲) مصنف نے اپنے اہل حدیثو ں کو اِسی کتاب کی تکمیل کی وصیت فرمائی ہے۔

(۳) مصنف نے اس کتاب میں اپنے آپ کو ‘‘ اہلِ حدیث ’’ لکھا۔

(۴) لغات الحدیث وحید الزمان صاحب کے متعلق معلومات کا اہم مرجع ہے ۔

(۵) لغات الحدیث کے مندرجات مصنف کی زندگی کے آخری حصے میں لکھے گئے۔ 

لغات الحدیث میں ناروا باتوں کا اعتراف 

 "لغات الحدیث "کے متعلق مذکورہ بالا اقتباسات پڑھنے کے بعد ہم قارئین کو بتا نا چاہتے ہیں کہ لغات الحدیث اگرچہ خوش کن عنوان ہے مگر اس پُرکشش لیبل کی آڑ میں بہت سی گمراہیاں اس کتاب کے پیٹ میں داخل کی گئیں۔ اُن میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں صحابہ کرام کے متعلق گستاخانہ باتیں درج ہیں جیسا کہ اس کا اعتراف خود غیرمقلدین نے بھی کیا ہے مثلاً 

مولانا عمر فاروق قدوسی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: 

 "ہدیۃ المہدی کی تالیف کے دَوران ہی علامہ وحید الزمان نے لغات الحدیث کی تدوین و ترتیب بھی شروع کر دی تھی۔ اس میں بھی انہوں نے بعض صحابہ کرام کے متعلق ناروا باتیں درج کیں۔"(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۷۷ ) 

 اگر قدوسی صاحب اُن ناروا باتوں کو یکجا کر دیتے،تو دو فائدے ہوتے۔ ایک تو ہمارا وقت بچ جاتا،دوسرا چوں کہ قدوسی صاحب غیرمقلد ہیں اس لیے وحید الزمان صاحب کے بارے میں اُن کی گواہیاں غیرمقلدین میں زیادہ وزنی سمجھی جاتیں۔بہرحال اُن کی طرف سے ناروا باتوں کا صرف اعتراف کر لینا بھی غنیمت ہے۔ اب ہم ‘‘ لغات الحدیث’’ سے صحابہ کرام کے متعلق درج شدہ ناروا باتوں میں سے کچھ نقل کر تے ہیں ۔ 

 یاد رہے کہ ہمارے سامنے میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی کی مطبوعہ لغات الحدیث ہے۔آئندہ صفحات میں پیش کئے گئے لغات الحدیث کے حوالے اسی طبع کے ہوں گے۔

خطبہ  میں صحابہ اور خلفائے راشدین کا نام لینا بدعت اور مکروہ ہے 

علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "ہر فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا،خطبہ میں صحابہ اور خلفاء اور بادشاہِ وقت کا ذِکر کرنا، دونوں خطبوں کے درمیان ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا ....یہ سب کام ایسے ہیں کہ بعضے ان میں سے بدعت اورمکروہ ہیں بعضے جائز ،بعضے مختلف فیہ ۔اب ان کو لازمی اور ضروری قرار دینا اور نہ کرنے والے والے پر ملامت کرنا شیطانی اغواء ہے حفظنا اللہ منہ "(لغات الحدیث ۱؍۴۸،ج)

 وحید الزمان نے ہدیۃ المہدی ۱؍۱۱۰میں لکھا کہ خطبہ میں خلفاء کے ذِکر کا اہتمام بدعت ہے ۔نزل الابرار ۱؍۱۵۲ میں تحریر کیا :خطبہ میں خلفائے راشدین کا تذکرہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ 

ظلم اور بیدادیاں

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "مغیرہ نے اس سے بڑھ کر سخت سخت ظلم اور بیدادیاں کی ہیں اور معاویہ کی حکومت میں صدہا آدمیوں کو ستایا اور ایذائیں دی ہیں "(لغات الحدیث ۱ ؍ ۷۵ ، ج)

وطی فی الدبرکی نسبت 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 "سنیوں کا یہ اعتراض شیعوں پر کہ اُن کے نزدیک وطی فی الدبر(پاخانہ کی جگہ ہم بستری کرنا) جائز ہے محض لغو ہے اس لیے کہ بعض اکابر اہلِ سنت اور صحابہ سے بھی اس کا جواز منقول ہے ۔"(لغات الحدیث۱؍۲۶،خ)

 حدیث کے جواب میں گالیوں کا الزام 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "معاویہ تھے پولیٹیکل آدمی۔انہوں نے کیا تدبیر نکالی کہ مغیرہ کو زیاد کے پاس بھیجا اور بڑی مہربانی اور محبت آمیز باتیں کہلائیں آخر مغیرہ زیادہ کو لے کر معاویہ کے پاس آگئے اُ س وقت معاویہ نے زیاد سے کہا تو تو میرا بھائی ہے۔ زیاد نہ مانا تب معاویہ نے اپنی بہن جویریہ بنت ابی سفیان کو زیاد کے پاس بھیج دیا وہ اُس کے سامنے بے پردہ ہوگئی اور اپنے بال کھول ڈالے اور کہنے لگی تو تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا تھا۔ آخر زیاد ابو سفیان کا بیٹا بننے پر راضی ہوگیا تب معاویہ زیاد کو لے کر جامع مسجد میں آئے اور زیاد چار گواہ بنا کر لایا اُنہوں نے یہ گواہی دی کہ ابو سفیان نے اُس کی ماں سمیہ سے زنا کیا تھا اور زیادسفیان ہی کا نطفہ ہے ۔اُس وقت معاویہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ زیاد ابو سفیان کا بیٹا ہے اور میرا بھائی ہے اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا اور کہا معاویہ تم نے یہ حدیث نہیں سنی کہ بچہ کا نسب ماں کے شوہر یا مالک سے لگتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں معاویہ نے اُس کو بُرا بھلا کہا گالیاں دیں اور گواہی کے موافق یہ حکم نافذ کر دیا کہ زیاد ابو سفیان کا بیٹا ہے ۔...اسی زیاد کا بیٹا عبید اللہ تھا ...عبید اللہ کے کرتوت سے تو یہ یقین ہوتا ہے کہ اُس کا باپ حرام زادہ تھا "(لغات الحدیث ۱؍۴۲،د)

ظاہر شرع کی رو سے غلط 

 وحید الزمان صاحب اس سے آگے لکھتے ہیں:

 "اور معاویہ کی کاروائی بباطن صحیح تھی گو ظاہر شرع کی رو سے غلط اور خلاف قانون تھی "(لغات الحدیث ۱؍۴۲،د)

 معاویہ کس قسم کے آدمی تھے 

 وحید الزمان صاحب نے اس کے بعد لکھا:

 " اس روایت سے انصاف پسند لوگ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ معاویہ کس قسم کے آدمی تھے ...اہلِ سنت کے عقائد کی کتابوں میں اس کی تصریح ہے کہ معاویہ دنیاوی بادشاہوں میں سے تھے "(لغات الحدیث ۱؍۴۲،د)

خلافت صحیح نہ تھی 

علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 " حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے جو لکھا ہے اما خلافۃ معاویۃ فصحیحۃ ثابتۃ بعد خلع الحسن بن علی[یعنی سیدنا معاویہ کی خلافت صحیح تھی(ناقل)]تو یہ حدیث ِ نبوی کے خلاف ہے الخلافۃ بعدی ثلثون سنۃ۔ اس وجہ سے ہم حضرت شیخ ؒکا قول قبول نہیں کر سکتے "

(لغات الحدیث ۱؍۴۲،د)

تنبیہ: حدیث میں جس خلافت کی مدت تیس سال بتائی گئی وہ خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوۃ ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت غلط اور غیر صحیح ہے ۔

 خواب کی بنیاد پر دشمنی کا الزام 

وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 "خواب : میں نے دیکھا کہ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ موجودہیں۔ حضرت علی ؓ معاویہ ؓ کی شکایت کرنے لگے۔ حضرت عثمان ؓ نے کہا: تم نے معاویہ کو شام کی حکومت سے معزول کرنا چاہا اس لیے وہ تمہارا دشمن بن گیا۔ "(لغات الحدیث ۱ ؍ ۳۶،ذ)

باغی سرکش و شریر 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "اس میں کچھ شک نہیں کہ معاویہؓ اور عمرو بن عاص دونوں باغی اور سرکش اور شریر تھے اور دونوں صاحبوں کے مناقب یا فضائل بیان کرنا ہرگز روا نہیں " (لغات الحدیث ۲؍۳۶،ر)

 حکومت سے معزولی پربڑبڑانے لگے 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 " معاویہ نے عمرو بن عاص کو مصر کی حکومت سے معزول کیا تو وہ لگے بڑبڑانے ۔معاویہ کو سخت سست کہنے لگے کیونکہ عمرو بن عاص کا معاویہ پر بڑا احسان تھا ’"(لغات الحدیث ۲؍۶، ز )

دنیاوی بادشاہ تھے 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "معاویہ وغیرہ بنی امیہ کے لوگ خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے جیسے اور دنیاوی بادشاہ ہوتے ہیں ’"(لغات الحدیث ۲؍۱۹۲،س)

 اسی طرح کی بات اوپر ‘‘ معاویہ کس قسم کے آدمی تھے’’عنوان کے تحت بھی منقول ہے ۔

بیعت توڑدی 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 "حضرت علی سے بہت لوگ جیسے معاویہ اور ان کے ہمراہی مخالف ہو گئے اور طلحہ اور زبیر بھی بیعت کر لینے کے بعد بیعت توڑ کر جنگ پر مستعد ہو گئے۔ "(لغات الحدیث ۲؍۳ ۴ ۱،ش)

لعنت کرانے کاالزام 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 " معاویہ کے عامل مغیرہ بن شعبہ نے حجر بن عدی کو حضرت علی پرلعنت کرنے کا حکم دیا، انہوں نے کہا ایھاالناس ان امیرکم امرنی ان العن علی بن ابی طالب فالعنوہ لعنہ اللہ تعالی اور مراد یہ رکھی کہ اس عامل پر لعنت کرو ، اللہ اس پر لعنت کرے ’"(لغات الحدیث ۲؍ ۱۵۴،ش)

شرعاً مذموم کام 

  وحید الزمان صاحب ،حدیث ‘‘اصحابی کالنجوم ’’ کو موضوع ؍ من گھڑت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ‘‘اس کے موضوع ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ نے ایسے کام بھی کئے ہیں جو شرعاً اور عقلاً ہر طرح مذموم ہیں ’’ (لغات الحدیث ۲؍۱۹،ص)

بد خُلقی اور بخیلی کا برتاؤ

وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 " عبد اللہ بن زبیر ؓ گو بزرگ اور بزرگ زادے تھے مگر انہوں نے بنی ہاشم سے بد خُلقی اور عام لوگوں سے بخیلی کا برتاؤ کرکے آخر اپنی حکومت گنوا دی اور مارے گئے " (لغات الحدیث۳؍۱۹،ع)

جھوٹی گواہی دلوانے کا الزام 

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 " معاویہ نے شام والوں سے یہ بیان کیا کہ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ ہی نے قتل کرایا اور جھوٹی گواہی لوگوں سے اس بات کی دلوائی اور شام والوں کو حضرت علیؓ سے لڑنے اور حضرت عثمان ؓ کا قصاص لینے پر مستعدکیا۔ حالاں کہ معاویہ کو یہ خوب معلوم تھا کہ حضرت علی ؓ سب لوگوں سے زیادہ حضرت عثمان ؓ کو بچانا چاہتے تھے "(لغات الحدیث ۳؍۱۹۹،ع)

تقلید کو مذموم کہہ کر اسے صحابہ کی طرف منسوب کرنا 

 وحیدالزمان صاحب کے نزدیک تقلید کرنا بُرا فعل ہے مگر اس کے باوجود وہ صحابہ کرام کی طرف تقلید کو منسوب کرتے ہیں۔ 

چنانچہ وہ حجِ تمتع کی بحث میں لکھتے ہیں: 

 " معاویہ نے بہ تقلید عثمان منع کیا تھا اور عثمان نے حضرت عمرؓ کی تقلید کی تھی جیسے اوپر گذر چکا "(لغات الحدیث ۳؍۶۵،ع)

حکومت کے حصول کے لیے لڑائی 

وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 " عمرو بن عاصؓ نے ایسا ہی کیا برابر معاویہ کے ساتھ ہو کر حضرت علی ؓ سے لڑتے رہے اور اس صلہ میں معاویہ ؓ سے مصر کی حکومت حاصل کی "(لغات الحدیث ۳ ؍۲۷،ق)

دنیا کی خواہش کو آخرت کی بھلائی پر مقدم 

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 " عمرو بن عاص نے دنیا کی خواہش کو آخرت کی بھلائی پر مقدم رکھا، معاویہ کی رفاقت اختیار کی اور مصر کی حکومت حاصل کی "(لغات الحدیث ۳؍۳۳،ق)

 نہ حاکم کی رعایت کرتے ،نہ امیر کی 

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 "ابو ذر ؓ کی عادت تھی جو منہ میں آتا سخت سست کہہ ڈالتے ۔نہ حاکم کی رعایت کرتے نہ امیر کی "

(لغات الحدیث ۴؍۵۴،ک) 

عام لوگ صحابہ سے افضل ہو سکتے ہیں

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں: 

 "صحابہ ؓ کے بعد بھی بعضے لوگ اُن سے افضل ہو سکتے ہیں"(لغات الحدیث ۴؍۵۴،و)



تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...