نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نجاست کا بیان


 نجس چیزوں کا بیان 

نجاستِ حقیقی کی دو قسمیں ہیں 

1. غلیظہ یعنی جس کی نجاست سخت ہے۔ 

2. خفیفہ جو ذرا ہلکی ہو

نجاست غلیظہ کا حکم

نجاست غلیظہ بقدر درہم معاف ہے اور اگر درہم سے زیادہ ہو تو نماز جائز نہ ہو گی اگر وہ نجاست جسم دار ہو جیسے پاخانہ گوبر وغیرہ تو درہم کے وزن کا اعتبار ہو گا اور وہ ساڑھے تین ماشہ ہے اور اگر پتلی ہو جیسے شراب، پیشاب وغیرہ تو ایک درہم کے پھیلاؤ کے برابر معاف ہے۔ معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتنی نجاست کپڑے یا بدن پر لگی ہو اور نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی اور قصداً اتنی نجاست بھی لگی رکھنا مناسب نہیں ہے۔ اگر قدر درہم سے زیادہ نجاستِ غلیظہ کپڑے،بدن یا قوت نماز پڑھنے کیو جگہ پر لگی ہو تو نماز جائز نہیں ہو گی۔ اور اگر درہم کے برابر ہے تو اس کا دھونا واجب ہے اگر اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھی تو مکروہِ تحریمی ہے اور اس کا لوٹانا واجب ہے اور قضداً پڑھے تو گناہگار بھی ہو گا، اگر نجاست درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے بغیر پاک کئے نماز پڑھی تو نماز مکروہ تنزیہی ہو گی۔ نجاست غلیظہ یہ چیزیں ہیں

  1.  آدمی کا پیشاب،
  2. -پاخانہ
  3. تمام جانوروں کا فضلہ-
  4. حرام جانور کا پیشاب،
  5. آدمی اور تمام حیوانات کا بہتا ہوا خون
  6. - شراب 
  7. مرغی، بطخ، مرغابی اور کونج کی بیٹ،
  8. - منی، مذی، ودی،
  9. - کچا خون، پیپ 
  10. -قے جو منہ بھر کر آئے،
  11.  -حیض و نفاس و استحاضہ کا خون وغیرہ

نجاست خفیفہ 

یہ چوتھائی کپڑے یا چوتھائی عضو سے کم معاف ہے۔ نجاست غلیظہ کے علاوہ باقی تمام نجاستیں خفیفہ ہیں مثلاً گھوڑے اور حلال جانور کا پیشاب اور حرام پرندوں کی بیٹ نجاست خفیفہ ہیں جو پرندہ ہوا میں اچھی طرح اڑ نہیں سکتا مثلاً بطخ مرغی وغیرہ ان کی بیٹ نجاست غلیظہ ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور جو پرندے بخوبی اڑتے ہیں اگر وہ حلال ہیں تو ان کی بیٹ پاک ہے(کیونکہ فضلات کے ناپاک ہونے کی وجہ ان کا پیٹ کے اندر بگڑ کر بری شکل اختیار کر لینا ہے اور حلال پرندوں کی بیٹ کوئی بری شکل اور بدبو اختیار نہیں کرتی ہدایہ جلد 1) اور اگر حرام ہیں تو ان کی بیٹ نجاستِ غلیظہ ہیں نجاست کا غلیظہ یا خفیفہ ہونا کپڑے اور بدن کی حد تک ہے پانی یا دیگر پتلی چیزوں میں چاہے نجاست خفیفہ گرے یا غلیظہ گرے چاہے تھوڑی مقدار میں گرے یا زیادہ وہ کل چیز ناپاک ہو جاتی ہے۔ پس بہنے والی چیزوں میں درہم اور چوتھائی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا البتہ اگر وہ پانی یا دیگر مائع جس میں نجاست واقع ہوئی ہو کپڑے یا بدن کو لگ جائے تو اب درہم و چوتھائی کا اعتبار ہو گا، نجاستوں سے جو عرق کھینچا جائے یا ان کا جوہر اڑایا جائے وہ نجس ہے


نجاستوں کے پاک کرنے کا طریقہ جو چیزیں خود ناپاک نہیں ہیں لیکن کوئی ناپاکی لگنے سے ناپاک ہو گئی ہیں ان کے پاک کرنے کے دس طریقہ ہیں ، 

1. دھونا پانی اور ہر بہنے والی پاک چیز سے جیسے سرکہ، گلاب، زعفران کا پانی، عرقِ لوبیا، درختوں ، پھلوں اور تربوز کا پانی وغیرہ مائعات جن سے کپڑا بھگو کر نچوڑا جا سکے ، لیکن جس میں چکنائی ہو اور بھگو کر کپڑا نچوڑا نہ جا سکے اس سے نجاست دور نہیں ہوتی بلکہ کپڑے میں ہی رہ جاتی ہے جیسے تیل، گھی، شوربا، شہد، شیرہ وغیرہ اگر نجاست خشک ہونے کے بعد نظر آنے والی ہو تو نجاست کا وجود دور کیا جائے اور اس میں دھونے کی تعداد کا اعتبار نہیں اگر ایک ہی مرتبہ کے دھونے میں نجاست اور اس کا رنگ و بو ختم ہو جائے تو وہی کافی ہے لیکن تین بار دھونا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ میں بھی اثر ختم نہ ہو تو مزید دھوئے یہاں تک کہ نجاست اور اس کا اثر ختم ہو جائے۔ اثر زائل کرنے کے لئے صابن وغیرہ ضروری نہیں اگر صاف پانی آنے لگے اور نجاست کا جسم تو دور ہو جائے پر رنگ باقی رہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور رنگدار نجاست بذات خود نجس نہیں تو تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گا خواہ رنگدار پانی نکلتا رہے مثلاً رنگنے کے لئے رنگ گھولا اور اس میں کسی بچہ نے پیشاب کر دیا یا کوئی اور نجاست پڑ گئی اور اس سے کپڑا رنگ لیا تو تین بار دھو ڈالیں پاک ہو جائے گا اگرچہ پھر بھی رنگ نکلتا رہے۔ اگر نجاست خشک ہونے پر نظر آنے والی نہ ہو تو اس کو تین بار دھوئے ، اور جو چیز نچوڑی جا سکتی ہے اس کو ہر مرتبہ نچوڑنا شرط ہے اور تیسری مرتبہ خوب اچھی طرح نچوڑے۔ جو چیز نچوڑی نہیں جا سکتی جیسے چٹائی، بھاری کپڑا، دری، کمبل وغیرہ تو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ اس کو لٹکا کر اتنی دیر چھوڑ دے کہ اس سے پانی ٹپکنا بند ہو جائے بالکل سوکھنا شرط نہیں اگر وہ بھاری چیز ایسی ہو کہ نجاست کے جذب نہیں کرتی جیسے چٹائی وغیرہ تو صرف تین بار دھو لینے سے پاک ہو جائے گی۔ 

جذب کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے چیزیں تین قسم کی ہیں اول جو نجاست کو بالکل جذب نہیں کرتی ہیں جیسے لوہا تانبا پیتل وغیرہ یہ چیزیں دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں اور پونچھنے سے بھی پاک ہو جاتی ہیں۔(جس کی تفصیل اس بحث کے مکمل ہونے کے بعد مذکور ہے)۔دوم جو نجاست کو بہت زیادہ جذب نہ کرے لیکن کچھ نہ کچھ جذب کرے جیسے چٹائی وغیرہ یہ بھی نجاست دور ہو جانے پر پاک ہو جاتی ہیں سوم جو بالکل جذب کر لیتی ہیں جیسے کپڑا وغیرہ ایسی چیزوں کو پاک کرنے کے لئے تین بار دھونا اور ہر بار نچوڑنا چاہیئے۔اور اگر وہ چیز نچوڑی نہ جا سکے تو ہر بار لٹکا کر اسقدر چھوڑنا چاہئے چاہئے کہ پانی ٹپکنابند ہو جائے

2. پونچھنا تلوار، چھری، چاقو، آئینہ وغیرہ (ہر وہ چیز جو ٹھوس ہو ناپاکی کو جذب نہ کرے ہموار ہو اور پلین ہو کہیں سے اونچی کہیں سے نیچی نہ ہو ) ، یہ چیزیں جس طرح دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں اسی طرح اگر کپڑے یا پتے یا مٹی وغیرہ سے اس قدر پونچھ لی جائیں کہ نجاست کا اثر بالکل جاتا رہے تو پاک ہو جاتی ہیں خواہ نجاست تر ہو یا خشک اور جسم دار ہو یا بے جسم، لیکن اگر وہ چیز کھردری یا ابھرے ہوئے نقش والی یا زنگ والی ہو تو پونچھنے سے پاک نہیں ہو گی بلکہ اسے دھونا فرض ہے 

3. کھرچنا منی اگر کپڑے پر لگ جائے اور تر ہو تو دھونا واجب ہے اور اگر خشک ہو گئی ہے تو کھرچ دینا بھی کافی ہےیہی اصح ہے(البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ منی اتنی گاڑھی ہو کہ اسے کھرچا جا سکے اگر پتلی ہو اور کھرچنے سے کھرچی نہ جائے تو اس کو دھونا ہی پڑے گا ) مرد و عورت سب کی منی کا یہی حکم ہے ، دیگر جانوروں کی منی دھونے سے ہی پاک ہوں گی یہی صحیح ہے۔ اگر منی بدن کو لگ جائے تو بغیر دھوئے بدن پاک نہ ہو گا خواہ تر ہو یا۔خشک، اسی پر فتویٰ ہے 

4. چھیلنا اور رگڑنا اگر موزہ، جوتی، بستر بند وغیرہ پر جسم دار نجاست لگ جائے جیسے پاخانہ، گوبر وغیرہ اگر نجاست خشک ہو جائے تو چھیلنے یا رگڑنے سے پاک ہو جائے گا بشرطیکہ نجاست کا جسم اور اثر جاتا رہے۔ رگڑنا خواہ زمین پر ہو یا ناخن، لکڑی، پتھر وغیرہ سے ہو اور اگر نجاست تر ہے تو بغیر دھوئے وہ موزہ وغیرہ پاک نہ ہو گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک اگر اچھی طرح پونچھ دیا جائے کہ اس نجاست کا کچھ اثر رنگ و بو باقی نہ رہے تو پاک ہو جائے گا اسی پر فتویٰ ہے ، اگر وہ نجاست جسم دار نہ ہو جیسے شراب، پیشاب وغیرہ تو اگر اس میں مٹی مل جائے یا اس پر مٹی یا ریت یا راکھ وغیرہ ڈال کر رگڑ ڈالیں اور اچھی طرح سے پونچھ دیں تو پاک ہو جائے گا یہی صحیح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ کپڑا اور بدن چھیلنے یا رگڑنے سے پاک نہیں ہوتا، سوائے کپڑے پر۔منی لگنے کے کہ وہ رگڑنے سے پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا 

5. خشک ہو جانا اور ناپاکی کا اثر دور ہو جانا، زمیں خشک ہونے اور نجاست کا اثر ( رنگ و بو) دور ہونے سے نماز کے واسطے پاک ہو جاتی ہے۔ البتہ یمو مجھ سے نہیں کر سکتے دھوپ یا آگ یا ہوا سے خشک ہونے یا سایہ میں خشک ہونے کا یکساں حکم ہے ، جو چیزیں زمین پر قائم ہیں جیسے دیواریں ، درخت گھاس وغیرہ جب تک وہ زمین پر کھڑے ہیں ان سب کا یہی حکم ہے جو زمین کے پاک ہونے کا ہے۔ جس کنواں میں ناپاک پانی ہو اگر وہ کنواں بالکل خشک ہو جائے تو پاک ہو جائے گا 

6. آگ سے جل جانا گوبر، پاخانہ وغیرہ کوئی نجاست اگر جل کر راکھ ہو جائے تو اس کی طہارت کا حکم ہو گا اسی پر فتویٰ ہے ، ان کا دھواں بھی پاک ہے اگر راکھ یا دھواں روٹی میں لگ جائے تو کچھ حرج نہیں روٹی پاک ہے۔ نجس مٹی سے برتن بنائے جائیں پھر وہ آؤے ( آگ) میں پک جائیں تو پاک ہو جائیں گے۔ نجس چاقو چھری یا مٹی تانبہ وغیرہ کے برتن اگر دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دئے جائیں۔تو پاک ہو جاتے ہیں 

7. حالت کا بدل جانا جیسے کوئی ناپاک چیز مٹی ہو جائے تو ایسی مٹی پاک ہوگی۔

8. چمڑے کو دباغت سے پاک کرنا۔خنزیر کے سوا ہر جاندار کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے۔ آدمی کی کھال اگر کوئی پاک کر بھی لے تب بھی اسے استعمال کرنا حرام ہے۔دباغت کی دو قسمیں ہیں اول حقیقی جو دوائی اور چونے ، پھٹکڑی، ببول کے پتے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ دوم حکمی جو مٹی لگا کر یا دھوپ یا ہوا میں سکھا کر۔کے کی جاتی ہے دونوں قسم کی دباغت سے چمڑا پاک ہو جاتا ہے

۹. جانوروں کے گوشت پوست کو ذبح کر کے پاک کرنا حلال جانوروں کا گوشت پوست ذبح کرنے سے پاک ہو جاتا ہے اسی طرح خون کے سوا اس کے تمام اجزا ذبح سے پاک ہو جاتے ہیں۔ یہی صحیح ہے بشرطیکہ کہ ذبح کرنے والا شخص شرعاً اس کا اہل ہو۔ 

10. کنوئیں کا پانی نکال کر پاک کرنا اس کی تفصیل الگ بیان کی گئی ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...