ایک صحیح العقیدہ یعنی اہل حدیث بادشاہ کے عظیم الشان قصہ کا تحقیقی جائزہ ۔
محترم قارئین کرام .
اللہ تعالی نے آئمہ اربعہ اور دیگر فقہاء مجتہدین میں سے یہ شرف صرف اور صرف امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کو بخشا ہے کہ ان کے مقلد ہزار سال سے بھی زیادہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں اور تعداد میں سب سے زیادہ ہیں.
مسلمانوں کی اکثر سلطنتوں نے امام صاحب ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے ہی فقہ کو اپنایا ۔
چنانچہ پوری مسلم دنیا پر پھیلی بغداد کی عباسی خلافت ہو یا پھر دنیا کے تین براعظم پر پھیلی خلافت عثمانیہ ، وسطی ایشیا کی پہلی مسلم قاراخانی سلطنت ہو یا بلاد ہند میں تقریبا 800 سال تک حکومت کرنے والیں غزنوی ، غوری ، تغلق ، خلجی ، مغل سلطنتیں ۔ اناطولیہ یعنی موجودہ ترکیہ کی سلطنت سلاجقہ روم ہوں یا قفقاز ،گرجستان سے چین کی سرحدوں تک پھیلی عظیم الشان سلجوقی سلطنت ، ماضی کی طاقتور خوارزمی و تیموری حکومتیں ہوں یا موجودہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت ،سب کی سب سلطنتیں اہل سنت والجماعت احناف کی تھی الحمداللہ ۔
اس حقیقت نے غیر مقلد اہلحدیثوں کا جینا حرام کر کے رکھا ہوا تھا کہ 1400 سال میں ایک بھی غیر مقلد اہلحدیث مجاہد ، فاتح یا حکمران نہیں بن سکا چونکہ اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ غیر مقلد اہلحدیثوں کا ظہور ہی انگریز دور میں ہوا تھا لیکن سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی خاطر ،خائن اہلحدیث ملاؤوں نے خیانت ،جھوٹ اور دھوکے بازی سے کام لیتے ہوئے ایک شیعی سلطنت (سلطنت موحدین کے بانی محمد بن تومرت نے مہدی موعود کا دعوی کیا تھا۔ تاریخ اسلام جلد 3 صفحہ 173 ) کے ظاہری المذہب بادشاہ کو اہل حدیث بادشاہ بنا کر پیش کیا ۔لیکن باقی تمام محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی غیر مقلد اہلحدیثوں کو ذلت اٹھانی پڑی ۔
سب سے پہلے قارئین زبیر علی زئی کذاب و خائن کی اس تحریر کو پڑھیں۔
افریقہ میں ایک بادشاہ گزرے ہیں جن کا نام ابو یوسف یعقوب بن یوسف الظاہری المراکشی من الموحدین رحمہ اللہ تھا۔
یہ بادشاہ 595 ہجری میں فوت ہوئے ہیں۔ آج پندرہویں صدی ہے۔ یعنی آج سے نو سو سال پہلے یہ خلیفہ گزرے ہیں۔
مراکش افریقہ اور یورپ کے کچھ حصے پر اس کی خلافت تھی۔
اس کے حالات تاریخ ابن خلکان، حافظ ذہبی کی سیر اعلام النبلاء، حافظ ذہبی کی تاریخ الاسلام، اسی طرح اُس کے دور کے جو مورخین تھے مثلاً المُغرِب۔ اُن سب کتابوں میں اس بادشاہ کے حالات موجود ہیں۔
اس نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جہاد کا جھنڈا بلند کیا۔ کفار پر حملے شروع کئے۔ حملوں کے دوران یہ فرانس تک پہنچ گیا تھا۔
یہ بادشاہ خود پانچ نمازیں پڑھاتا تھا اور اس کی تحقیق تھی کہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہے۔ اس لئے بے نمازیوں کا تلوار سے سر قلم کروا دیتا تھا۔
اس نے اپنے رشتہ داروں پر بھی شرعی حدود کا نفاذ کیا۔
اگر کسی راستے سے گزرتا تھا اور کوئی عورت کھڑی ہو جاتی تھی کہ میں مظلوم ہوں یا کوئی بچہ کھڑا ہو جاتا تھا تو یہ وہاں رُک جاتا تھا۔ اُس کا حق ادا کراتا تھا۔
یہ تو عام باتیں تھیں۔
اس کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ جب یہ خلیفہ بنا تو اس دن اس نے یہ قانون جاری کیا کہ میری خلافت میں، میری سلطنت میں ’’لایقلدوا أحد‘‘ علماء کسی کی تقلید نہیں کریں گے۔ تقلید ختم۔ میری پوری بادشاہی میں تقلید نہیں ہوگی۔
اور اس نے کہا کہ فقہ کی ساری کتابیں جلا دو۔ ان دنوں فقہ مالکی کا زور تھا۔ اُس نے فقہ مالکی کی ساری کتابیں جلوا دیں۔
جلانے سے پہلے وہ کہتا تھا کہ اس میں سے قرآن کی آیات اور حدیثیں نکال لو۔ کاغذ سے کاٹ کر نکالو اور باقی سب کچھ جلا دو۔
مورخ کہتا ہے کہ میں دیکھتا تھا کہ وزنی بھار جانوروں پر لدے ہوئے آتے تھے اور کتابیں جلائی جاتی تھیں۔
اس نے مدوّنہ اور اس طرز کی فقہ کی جتنی کتابیں تھی ساری جلا دیں۔ اُس نے اپنے دَور میں فقہ مالکی کو ختم کیا۔
اُس نے کہا کہ چار چیزوں کے مطابق فتوے دو گے: قرآن، حدیث، اجماع اور اجتہاد۔
اُس نے ایک اور کام بھی کیا۔ وہ اپنے تخت سے نیچے بیٹھتا تھا۔ تخت پر اُس نے تین چیزیں رکھی تھیں۔ کہتا تھا یہ قرآن ہے، یہ حدیث ہے اور یہ تلوار ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چوتھی چیز نہیں ہے۔ قرآن و حدیث مانو یا میری تلوار حاضر ہے۔
جو کہتے ہیں کہ اہل حدیث انگریزوں کے دَور میں پیدا ہوئے ہیں، اگر اہل حدیث انگریزوں کے دَور میں پیدا ہوئے ہیں تو پھر یہ کون تھا؟ یہ تو ہمارا بزرگ تھا۔ یا اللہ! ہمیں اِس کے ساتھ اٹھانا۔
سلطان ابو یوسف یعقوب بن یوسف التوحیدی رحمہ اللہ موحدین تھے۔
ان کے جو پردادے تھے، ابن تُومرت، اُن میں کچھ بدعات تھیں۔
ابن تُومرت نے افریقہ پر قبضہ کر لیا تھا اور مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا۔
اِس اہل حدیث بادشاہ نے ابن تُومرت کا نام و نشان تک ختم کیا۔
حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ خلیفہ بنتے ہی یہ اہل حدیث کو اپنی سلطنت میں لے آیا۔ اعلان کیا کہ آؤ سارے اہل حدیث آجاؤ۔ ان سے دعائیں کرواتا تھا۔ اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے فتح دے۔
اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ مجھے ایک راستے کے قریب دفن کرنا۔ تاکہ لوگ میرے لئے استغفار کرتے رہیں۔ کیسا مجاہد انسان تھا۔
ماہنامہ الحدیث شمارہ 75 صفحہ 45 تا 47
___________________________
زبیر علی زئی کے اس تحریر کے مطابق یہ بادشاہ اہل حدیث تھا ۔قارئین کرام حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
زبیر علی زئی نے اپنی تحریر میں جن مورخ عبدالواحد بن علی کا حوالہ دیا ہم اسی کی کتاب آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
لیکن اس سے پہلے مورخ عبدالواحد بن علی کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے ۔
مورخ عبدالواحد بن علی (1185ء تا 1250ء عیسوی) اسی بادشاہ (1160ء تا 1199ء عیسوی) کے زمانے کے مورخ تھے جنہوں نے اپنی کتاب 《 المعجب في تلخيص أخبار المغرب》 میں اس بادشاہ کے تفصیلی حالات لکھیں ہیں ۔ بعد کے تمام مورخین نے اسی کتاب کی بنیاد پر اس بادشاہ کے حالات اور واقعات کو بیان کیا ہے ۔ان مورخین میں
1۔ ابن خلکان (1211ء تا 1281ء عیسوی) ،
2۔ مورخ صفدی شافعی (1296ء تا 1363ء) اور
3۔آئمہ میں سے امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ (1274ء تا 1348ء) شامل ہیں۔
عبدالواحد بن علی التمیمی کی المعجب میں لکھا ہے:
وفي أيامه – يعقوب – انقطع علم الفروع، وخافه الفقهاء، وأمر بإحراق كتب المذهب بعد أن يجرد ما فيها من حديث رسول الله – صلى الله عليه وسلم – والقرآن، ففعل ذلك، فأحرق منها جملة في سائر البلاد، كمدونة سحنون، وكتاب ابن يونس ونوادر ابن أبي زيد ومختصره وكتاب التهذيب للبراذعي وواضحة ابن حبيب وما جانس هذه الكتب ونحا نحوها. لقد شاهدت منها وأنا يومئذ بمدينة فاس يؤتى منها بالأحمال فتوضع ويطلق فيها النار. وتقدم إلى الناس في ترك الاشتغال بعلم الرأي والخوض في شيء منه وتوعد على ذلك بالعقوبة الشديدة، وأمر جماعة ممن كان عنده من العلماء المحدثين يجمع أحاديث من المصنفات العشرة؛ الصحيحين والترمذي والموطأ وسنن أبي داود وسنن النسائي وسنن البزار ومسند ابن أبي شيبة وسنن الدارقطني وسنن البيهقي؛ في الصلاة وما يتعلق بها على نحو الأحاديث التي جمعها محمد بن تومرت في الطهارة. فأجابوه إلى ذلك وجمعوا ما أمرهم بجمعه؛ فكان يمليه بنفسه على الناس ويأخذهم بحفظه. وانتشر هذا المجموع في جميع المغرب وحفظه الناس من العامة والخاصة، فكان يجعل لمن حفظه الجعل السني من الكسا والأموال. وكان قصده في الجملة محو مذهب مالك وإزالته من المغرب مرة واحدة وحمل الناس على الظاهر من القرآن والحديث. وهذا المقصد بعينه كان مقصد أبيه وجده، إلا أنهما لم يظهراه وأظهره يعقوب هذا. يشهد لذلك عندي ما أخبرني به غير واحد ممن لقي الحافظ أبا بكر بن الجد أنه أخبرهم قال: «لما دخلت على أمير المؤمنين أبي يعقوب أول دخلة دخلتها عليه، وجدت بين يديه كتاب ابن يونس فقال لي يا أبا بكر أنا أنظر في هذه الآراء المتشعبة التي أحدثت في دين الله. أرأيت يا أبا بكر؟ المسألة فيها أربعة أقوال أو خمسة أقوال أو أكثر من هذا؛ فأي هذه الأقوال هو الحق وأبها يجب أن يأخذ به المقلد؟ فافتتحت أبين له ما أشكل عليه من ذلك فقال لي وقطع كلامي: يا أبا بكر ليس إلا هذا؛ وأشار إلى المصحف، أو هذا، وأشار إلى كتاب سنن أبي داود، وكان عن يمينه، أو السيف!
(المعجب ، صفحہ 279)
اس میں سب سے اہم باتیں یہ ہیکہ۔
1۔ مورخ عبدالواحد بن علی رحمہ اللہ کے مطابق یہ بادشاہ تو ظاہری المذہب تھے اہل حدیث نہیں تھے ۔انکا مقصد مالکی مذہب کو ختم کر کے ظاہری مذہب لاگو کرنا تھا جس میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا گیا۔ (شاید اسکی ایک وجہ یہ تھی ک سلطنت موحدین نے سلطنت مرابطین سے حکومت چھینی جو فروع میں مالکی تھے )۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زبیر علی زئی نے اس بادشاہ کو اہل حدیث کہا ہے تو کیا ظاہری المذہب اور اہل حدیث ایک ہی ہیں؟
ایسا ہر گز نہیں ہے۔
غیر مقلد اہلحدیث جدید اور ظاہریوں میں فرق :
اہل ظواہر قیاس کے منکر ہیں۔
1۔ابن حزم ظاہری "الاحکام" میں لکھتے ہیں:
"ذهب أهل الظاهر إلى إبطال القول بالقياس جملة، وهو قولنا الذي ندين الله به، والقول بالعلل باطل"۔
(ارشادالفحول،الفصل الثانی فی حجیۃ القیاس،مدخل۲/۹۴۔ احکام فی اصول الاحکام لابن حزم/:۷/۳۷۰،۸/۵۴۶)
یعنی اصحابِ ظواہر کا مذہب قیاس اور علل واسباب کے بطلان کا ہے، ہماری اپنی رائے بھی یہی ہے۔
2۔محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ لکھتے ہیں :
سب سے پہلے جس نے ابطالِ قیاس وابطالِ اجماع کے لیے کمر باندھی‘ وہ ابواسحاق ابراہیم بن سیار نام نظام لقب معتزلی متوفی تقریباً ۲۲۶ھ۔ (التبصیر فی الدین‘‘ لابی المظفر الاسفرائینی، ص: ۴۷پر ان کا ترجمہ ملاحظہ ہو، للشیخ محمد زاہد الکوثری۔ ) ان کے بعد داؤد بن علی الاصبہانی المتوفی ۲۷۰ھ آئے، جو داؤد ظاہری کے نام سے مشہور ہیں۔ ابتداء میں امام خراسان شیخ اسحاق بن راہویہ اور امام ابوثور سے فقہ حاصل کیا، بعد میں قیاس سے منکر ہوئے، واسع الاطلاع محدث ہیں، لیکن اصول وفروع دونوں میں ان کے ایسے تفردات بھی ہیں جو انتہائی مضحکہ انگیز ہیں۔ حافظِ حدیث شیخ اسماعیل القاضی المالکی اور ابوبکر رازی الحنفی المتوفی ۳۱۵ھ، شیخ ابواسحاق اسفرائینی، امام ابوالمعالی، امام الحرمین شافعی، قاضی ابوبکر ابن عربی مالکی ان کے انتہائی مخالف ہیں۔
(ملاحظہ ہو: النبذ لابن حزم کا مقدمہ)
بہرحال داؤد ظاہری کے اتباع کا ایک مستقل مذہب تیار ہوگیا، جس کی بنیاد ابطالِ قیاس ورائے پر رکھی گئی۔ ابراہیم بن جابر بغدادی، عبداللہ بن احمد المغنس، ابوالحسین محمد بصری، ابوالقاسم عبیداللہ کوفی، ابوبکر محمد نہروانی، محمد بن اسحاق کاشانی وغیرہ وغیرہ اس مذہب کے مشہور علمبردار ہیں اور آخر میں اندلس میں ابن حزم ۴۵۶ھ سب سے بڑے علمبردار ہوئے۔ گواندلس میں ا س مذہب کے لیے زمین بقی مخلد وابن وضاح وقاسم بن اصبغ وغیرہ نے تیار کی تھی، تاہم باقاعدہ مذہب بنانے میں ابن حزم کو بہت کچھ دخل ہے۔ اصولِ فقہ میں ’’کتاب الأحکام‘‘ اور ’’النبذ‘‘ لکھی۔ فروعِ دین اور اصولِ دین میں مشہور کتاب ’’المحلی‘‘ لکھی اور خوب زوروشور سے ابطالِ قیاس کیا، سارے فقہاء امت خصوصاً مالکیہ وحنفیہ کے خلاف پورا زور صرف کیا اور سچ تو یہ ہے کہ ظاہری مذہب میں اگر کچھ روح ہے تو وہ ابن حزم ہی کے طفیل سے ہے۔
(’’فقہ‘‘ حدیث کی نظر میں اور مذہبِ ’’ظاہریّہ‘‘ پر ایک نظر)۔
3۔ غیر مقلد اسماعیل سلفی کے مطابق بھی ظواہر قیاس کے منکر ہیں۔
( تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی صفحہ 90.مصنف محمد اسمعٰیل صاحب سلفی)
جبکہ غیر مقلد اہلحدیث قیاس کو حجت مانتے ہیں اور اہل ظاہر سے الگ ہیں۔
حوالہ نمبر 1۔
اہل حدیث اور اہل ظاہر دو مختلف فکر ہیں ۔۔۔۔ اہل حدیث مکتب فکر اہل الرائے اور اہل ظاہر کے علاوہ ہے۔
( تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی صفحہ 170.مصنف محمد اسمعٰیل صاحب سلفی)
حوالہ نمبر 2۔
خود زبیر علی زئی لکھتا ہے
اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت و قیاس شرعی سے انکار ہے۔ کیونکہ جب یہ دونوں کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو کتاب و سنت کے ماننے میں ان کا ماننا آگیا۔"
(ابراء اہل حدیث والقرآن باب اہل حدیث کے اصول و عقائد ص32/
فتاوی علمیہ جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ653)
تو قارئین کرام معلوم ہوا ظاہری مذہب اور اہل حدیث مذہب دو الگ الگ مکتب فکر ہیں اور بادشاہ ظاہری تھا نہ کہ غیر مقلد جدید اہلحدیث ۔
۔زبیر علی زئی کی خیانت
زبیر علی زئی نے جہاں اس بادشاہ کے ترجمے میں دیگر باتوں کو بتایا وہیں اس نے بادشاہ کے ظاہری المذہب ہونے کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف نام میں ظاہری لکھا اور نیچے مضمون میں دھوم دھام سے اسکو اہل حدیث کہہ دیا.
سبحان اللہ ، تضادات کے مجموعے سے اور کیا امید ہو سکتی تھی۔؟
یہ اس کی خیانت ہے اور بالکل واضح خیانت ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اہل حدیث عوام کو بیوقوف بنانا تھا اور دیگر مقلد عوام کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے تھے جس کی خاطر زبیر علی زئی نے حق چھپایا اور یہ جھوٹ بولا ، اللہ تعالی کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۔
اس کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی ان بادشاہ کو ظاہری المذہب کہا ہے لیکن علی زئی نے ان عبارات کو بھی چھپایا ۔
1۔ مثلا امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ نے بادشاہ ابو یوسف یعقوب بن یوسف کو ظاہری لکھا ہے۔(سیر اعلام النبلاء جلد 21 صفحہ 313،314)
《 ومال إلى الظاهر، وأعرض عن المالكية، وأحرق ما لا يحصى من كتب الفروع. 》
2۔مورخ صفدی شافعی رحمہ اللہ نے انکو ظاہری لکھا ہے۔
《 وكان قد أمر أن لا يفتى بفروع الفقه، وأن لا يفتى إلا بالكتاب والسنة، وأن يجتهد الفقهاء على طريقة أهل الظاهر 》
(الوافي بالوفيات ، صلاح الدين خليل بن أيبك الصفدي : جلد 29 صفحہ 5)
3. مورخ امام تاج الدين ابن حمويه رحمہ اللہ بھی بادشاہ کو ظاہری کہتے ہیں
《 وينسبونه إلى مذهب الظاهر ۔》
(سیر جلد 21 صفحہ 316)
چیلنج
ہمارا غیر مقلد اہلحدیثوں کو یہ چیلنج ہے کہ 1400 سال کی تاریخ میں ایک بھی ایسا غیر مقلد اہل حدیث سلفی فاتح دکھا دیں جس نے ایک انچ زمین بھی عیسائیوں نصرانیوں ہندوؤں وغیرہ سے فتح کی ہو۔
ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کو فتح کرنے والے سلطان محمود غزنوی متوفی 1030ء حنفی المذہب ہے
سلطان محمود غزنوی حنفی تھے ۔یہاں کلک کریں
1071 ء میں اناطولیہ کو فتح کرنے والے سلطان محمد الپ ارسلان سلجوقی حنفی ہیں۔
۔
بیت المقدس کو 1187ء میں عیسائیوں اور صلیبیوں (کروسیڈر) سے فتح کرنے والے سلطان صلاح الدین ایوبی شافعی المذہب ہیں۔
1260ء میں عین جالوت کی لڑائی میں منگولوں کو شکست دینے والے مملوک سلطان رکن الدین بیبرس شافعی ہیں ۔
قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم 《 رواه الإمام أحمد في المسند وغيره، وفيه يقول صلى الله عليه وسلم: لتفتحن القسطنطينية، فلنعم الأمير أميرها، ولنعم الجيش ذلك الجيش. 》 کی بشارت پانے والے سلطان محمد فاتح دوم حنفی ماتریدی ہیں۔
اگر غیر مقلد اہلحدیث 1400 سال سے موجود تھے تو ان فاتحین میں ان کا نام کیوں نہیں ہے ؟
بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اپنے فرقہ کے ظہور میں آنے کے بعد بجائے فتوحات کے ان لوگوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹے اور ملکہ وکٹوریہ کی شان میں قصیدے لکھے ۔
حتی کہ پاکستان کی پہلی پرچم کشائی بھی اللہ تعالی نے اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کے دو فرزنداں مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کےہاتھوں کروائی۔
ہم پوچھتے ہیں کہ غیر مقلد اہل حدیث کدھر تھے؟
ہمارے اس جائزے پر فیسبک کے ایک غیر مقلد اہل حدیث ابوحمزہ نے کہانیاں لکھ کر اپنے تئیں جواب دینے کی ایک کوشس کی جسکا جواب الجواب ہم یہاں لکھ رہے ہی ۔
ابو حمزہ ردحنفیت کے جواب میں ۔
پہلی بات : مورخین میں اس دور کا قریب ترین مورخ المعجب کا مصنف ہے عبدالواحد بن علی متوفی 1250 عیسوی ، جس نے واشگاف الفاظ میں یہ لکھا ہیکہ بادشاہ ظاہری تھا انتھی ۔ مالکیہ کا دشمن اس لئے تھا کہ مرابطین مالکی تھے ، جبکہ موحدین شیعہ ابن تومرت بدعتی نے مرابطین سے حکومت چھینی تھی۔ اس سلطنت (موحدین) کا بانی ہی بقول علی زئی بدعتی تھا ۔ نیز جس دس کتب حدیث کا تم کہہ رہے ہو اسکو مخصوص فقہی طرز پر جمع بھی ابن تومرت بدعتی نے کیا تھا (المعجب صفحہ 289) اور مورخ عبدالواحد کہتے ہیں اسکا مقصد اسکے باپ دادا کا مقصد ایک ہی تھا لیکن وہ اسکو ظاہر نہ کر سکے [ہم بھی کہتے ہیں کچھ کا بعض الناس کا دعوی تو قرآن و حدیث ہے البتہ انکا عمل روافض جیسا ہے ]🙂۔ بدعتی نے کس کس طرح احادیث کا انتخاب کیا ہو گا یہ تم جیسے انسان سے بہتر کون جانتا ہے ؟😎۔
دوم :قیاس کا قائل ابن خلکان شافعی نے لکھا ہے جو اس بعد کا مورخ ہے ، البتہ ظاہری المسلک شیخ ابن عربی کا تذکرہ بھی اسی ابن خلکان نے ضرور کیا ہے ، وہی شیخ ابن عربی جسکو نام نہاد سلفی مسلمان نہیں مانتے اگرچہ انکے اکابر اس کو شیخ الاکبر کہتے ہیں (نعمان نوشہری صاحب کا اس موضوع پر مختصر رسالہ پڑھ لیجیئے)
تیسری بات شوافع (مقلدین ) کی گواہی تم غیر مقلد لوگ کب سے لینے لگ گئے ؟ جبکہ وہ مقلد تمہارے ہاں کافر ہیں بدعتی ہیں۔ نیز ابن خلکان ، صفدی بھی شافعی ہیں اور ذہبی بھی ،تقلیدی شوافع سے حوالہ جات دینا غیر مقلدوں کیلئے بیگانی شادی میں عبدااللہ دیوانہ جیسا ہیں ۔
چہارم : ظاہری بادشاہ نے اشارہ مصحف اور سنن ابی داود کی طرف کیا ۔۔سنن ابی داود میں کتنی ضعیف احادیث ہیں یہ تو آپ البانی صاحب سے پوچھیں 😁 ؟
یہاں بھی جدید اہلحدیث اور ظاہری بادشاہ الگ تھلگ۔
پنجم :ابو حمزہ نے ظاہری بادشاہ کو اہلحدیث ثابت کرنے کیلئے کہا کہ اہل ظواہر کے ہاں شرابی کو قتل نہیں کیا جاتا جبکہ ظاہری بادشاہ شراب پینے والوں کو قتل کرتا تھا تاریخ میں یہ صراحت نہیں کہ پہلی بار یا چوتھی بار ، البتہ قتل کرتا تھا جو ابن حزم ظاہری کا مذہب ہے جسکو غیر مقلدین نے تسلیم کیا ہے (شرابی کو چوتھی بار شراب پینے پر قتل کرنے کا مسلک ابن حزم ظاہری کا ہے جمہور قتل کو منسوخ کہتے ہیں ، یعنی یہاں سے بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ظاہری تھا ورنہ جمہور قتل کے قائل نہیں حتی کی غیر مقلد اہلحدیث بھی قائل نہیں )۔ معلوم ہوا، ابوحمزہ نے کمال مہارت سے جھوٹ بولا تا کہ ایک شیعہ سلطنت کے ظاہری بادشاہ کو اہلحدیث بنا سکے استغفراللہ۔۔ غیر مقلد اہلحدیثوں نے لکھا ہیکہ:
حوالہ نمبر 1:
البتہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ چوتھی مرتبہ شراب پینے پر اسے قتل کر دیا جائے، لیکن جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قتل کا حکم منسوخ ہے۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:3، صفحہ نمبر:494.
حوالہ نمبر 2:
جو شراب پیے،اسے کوڑے مارو؛پھر شراب نوشی کرے تو دوبارہ کوڑے لگاؤ؛اس کے بعد وہ شراب پیتا ہے تو اسے کوڑوں سے پیٹو؛اگر وہ چوتھی مرتبہ پھر شراب پیتا ہے تو اسے قتل کردو۔‘‘ اس حدیث کی بنیاد پر ابن حزم کا موقف یہ ہے کہ ایسے شرابی کو قتل کرنا واجب ہے کیوں کہ امر وجوب کا متقاضی ہے۔
[امام ابن حزم اور جمہور کا تصورِ اجتہاد۔ تقابلی جائزہ ،ڈاکٹر طاہر الاسلام عسکری ،صفحہ 280]
حوالہ نمبر 3۔
شرابی کے قتل سے متعلق احادیث محکم ہیں، منسوخ نہیں۔ امام ابن حزم اور ابن قیم کا یہی نظریہ ہے۔۔۔۔۔ امام ابن حزم کا موقف ہے کہ اسے چوتھی مرتبہ بطورِ حد قتل کیا جائے گا
[محدث شمارہ 365، اپریل 2014 منشیات کی حرمت اور شراب نوشی کی سزا]
ششم: ابو حمزہ نے لکھا ہیکہ "فقہاء کو طریقہ استنباط اہل ظواہر کے طریقے پر کام کرنے کا حکم دیا ۔
اسی بات سے تو وہ ظاہری ثابت ہوتا ہے ، ابو حمزہ کا تعصب اور ہٹ دھرم ہونا حقیقت کو تبدیل تو نہیں کر سکتا ۔مورخین نے واضح لکھا ہے "اس نے لوگوں کو ظاہریت پر ابھارا " (سیر اعلاء النبلا صفحہ 314 ) ، اس بات کو ہم پہلے بھی بیاں کر چکے ہیں لیکن متعصب ابو حمزہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔
سوال : اگر بادشاہ اہل حدیث تھا اس نے شرابی کو قتل کیوں کروایا ؟؟ کیا اہلحدیث شرابی کو قتل کرتے ہیں ؟ جبکہ غیر مقلد اہلحدیثوں نے لکھا ہے [ چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کا حکم منسوخ ہے ۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد:3، صفحہ نمبر:494]
ابو حمزہ نے اپنے پاوں پر خود کلہاڑا مارا 😅۔
سوال : کیا موجودہ غیر مقلد اہلحدیث بھی اہل ظواہر کے طرز پر فقہی مسائل اخذ کرتے ہیں؟ اگر جواب " ہاں "ہے تو اسماعیل سلفی اہلحدیث اور زبیر علی زئی غیر مقلد کذاب ہوئے جنہوں نے قیاس کا قائل کہا ہے اپنے فرقہ کو ، اگر" نہیں" تو ثابت ہوا کہ بادشاہ اور موجودوہ اہلحدیث ایک نہ تھے ، بلکہ بادشاہ ظاہری تھا ، جو بقول سلفی صاحب الگ مکتبہ فکر ہے۔
ہفتم : جن کتب مالکیہ کو جلانے پر سوشل میڈیائی غیر مقلد خوش ہو رہے ہیں ،غیر مقلدوں کے مفتیاں اسی سے استدلال بھی کرتے ہیں ، فتاوی میں حوالے بھی لگاتے ہیں (اگرچہ اپنے خلاف پانے پر اسکو امام مالک سے ثابت بھی نہیں مانتے میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو) ۔مثلا صرف ایک مثال کے طور پر
المدونة الکبریٰ کا حوالہ
[فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد4۔ صفحہ نمبر347]
نوٹ :
تلوار کے زور پر مسلط شدہ ظاہری مسلک بھی افریقہ میں پھیل نہ سکا ۔ الحمداللہ افریقہ آج بھی مالکیہ سے بھرا ہوا ہے ۔ اور غیر مقلد اہلحدیث کا تو وجود ہی محمد حسین بٹالوی کا انگریز کے تلوے چاٹنے سے ہوا (مورخہ 3 دسمبر 1884 عیسوی)
قارئین ہم نے 4 مورخین سے بادشاہ کا ظاہری المسلک ہونا ثابت کروایا ، لیکن موصوف ابو حمزہ نے اپنی پوسٹ میں اپنے فرقہ کہ شیخ زبیر علی زئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف کہانیاں کروائی اور حق کو چھپایا ، ہمین امید واثق ہیکہ موصوف اس جواب کو پڑھ کر اپنی قبیح عادت کے باعث دوبارہ عوام کو کہانیاں سنائیں گے لیکن حق قبول نہیں کرے گے لہذا یہ پوسٹ ہماری طرف سے اتمام حجت ہے ۔۔۔۔
اس قصے پر مزید بحث
غیر مقلدین عموما مقلدین کو مسلک کی خدمت کےطعنے دیا کرتے ہیں ہم آپ کے سامنے واضح کرتے ہیں کہ خود
غیر مقلدین مسلک کی خدمت کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں اس کے لیے زبیر علی زئی صاحب کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں
نوٹ: یہ بادشاہ غیر مقلد نہیں ظاہری تھا ہمیں بس صرف یہ دکھانا تھا کہ اگر کوئی غیر مقلد بادشاہ ہوتا اور اس طرح کرتا تو غیر مقلدین اس پر راضی تھے
اس قصے کے منفی پہلو
1-علمی ابحاث کو علمی طریقے سے حل کرنا چاہیے نہ کہ طاقت کے زور سے جبکہ یہاں تو طاقت حاصل ہی اسی کام کے لیے کی گئی تھی جیسا کہ واقعے کے اندر صراحتاً موجود ہے
2-ایک صاحب علم نے بادشاہ سے اس کے متعلق بات بھی کرنا چاہی پر افسوس اسے دھمکی دے کر بات کرنے سے روک دیا گیا۔
3-ناممکن ہے کہ ان کتابوں میں احادیث آیات قران کے علاوہ کوئی مقدس نام نہ ہو لیکن ان کو جلا ڈالا گیا
4-آپ کے اپنے اکابر کے بقول ائمہ اربعہ کے بہت سے اقوال درست ہیں تو ان درست اقوال کو جو دینی فتوے کی حیثیت رکھتے تھے جلانا کیسے صحیح ہو سکتا تھا
5-اس بادشاہ نے زندہ علماء کو اجتہاد کی اجازت دی اور فوت شدگان کی علمی تحقیقات کو جلا ڈالا
حالانکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بقول زندہ پر فتنے کا خطرہ ہوتا ہے اور جو ایمان عمل کی سلامتی کے ساتھ جا چکا ہو وہ خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔
ناظرین یہی وہ تنگ نظری اور تعصب ہے جس کی وجہ سے فقہ ظاہری نہیں چل سکی ہے جبکہ فقہ حنفی فقہ مالکی وغیرہ صدیوں سے چلی آ رہی ہیں ان کا اختلاف مجموعی حیثیت سے عند اللہ اس حد تک نہیں تھا جس حد تک ظاہریوں کا پہنچا ہوا تھا تبھی اتنی بڑی کوشش کے باوجود اللہ نے اس کو ختم فرما دیا اور ان مذاھب کو دشمنوں کے علی الرغم باقی رکھا ہوا۔
لیکن ان حضرات کی یہ حالت ہے کہ ناپسندیدہ ظاہریوں کے پیچھے چلنے اور انکے متعصبانہ واقعات کو فخریہ طور پر پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں