جناب فرماتے ہیں ہیں کہ مقلدین تقلید کی تعریف ایک نہیں کرتے کبھی کہتے ہیں علماء سے مسئلہ پوچھنا تقلید ہے کبھی کہتے ہیں مجتہد کا اجتہاد تقلید ہے علماء طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں مگر صحیح تعریف نہیں کرتے لیکن میں آج آپکو صحیح تعریف بتاتا ہوں اور پھر یہ لغت کی کتاب سے دکھاتے ہیں کے تقلید کہتے ہیں پیروی کو ۔۔۔
جواب۔
جی یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کے " تقلید پیروی یعنی اتباع کو کہا جاتا ہے اور اتباع کس کی کی جاتی ہے ؟ ظاہر ہے مجتہدین کی کی جاتی ہے لیکن مجتہدین سے کیا عامی براہ راست استفادہ کر سکتا ہے ؟ نہیں اس لیے حاضر کے علماء سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے تو یہ تمام معنی ایک ہی ہوئے ناکہ ایک دوسرے کے مخالف اور ویسے بھی لغوی تعریف اور اصطلاحی تعریف میں فرق ہوتا ہے جو ان جناب کو معلوم نہیں۔
مزید یہ کہ ان جہلاء نے اگر اپنے ہی اکابر علماء کو پڑھا ہوتا تو ایسی باتیں نہیں کرتے۔ جیسا کہ انہوں نے کہا کے گمراہ مبلغین کہتے ہیں کہ علماء سے مسئلہ پوچھنا تقلید ہے اور کبھی کہتے مجتہد کا قول لینا۔۔
تو عرض کرتا جاؤں کے یہی بات آپکے بزرگ محمد حسین بٹالوی نے بھی لکھی ہے۔
لکھتے ہیں: "علماء وقت کی طرف رجوع کرنا بعینہ ان مجتہدین کی طرف رجوع کرنا ہے جن کے پیرو و مقلد وہ علماء ہیں علماء تو صرف ایک واسطہ ہیں"۔۔
اشاعہ السنہ ج 10 ص 321
لو جی عین وہی بات آپکے اکابر بٹالوی نے بھی کر دی تقلید کو پیروی بھئ لکھ دیا اور عوام سے پوچھنا بھی مجتہد سے پوچھنا قرار دے دیا۔۔ اب ان پر بھی گمراہی کا فتوی لگا دیں ۔۔
مزید یہ جناب تعریف کر کے فرماتے ہیں کے ان تعریفات سے ثابت ہوتا ہے کہ تقلید جائز نہیں ۔۔ واہ کیا اصول ہے ۔ قرآن و حدیث کے دعوے دار نے اپنے دعوے پر نہ قرآن کی آیت پڑھی نہ حدیث پڑھی اور صرف لغت سے ثابت کرنے جا رہے ہیں کہ یہ جائز نہیں ۔۔ اور آخر میں ایک موقوف روایت بیان کی تو اس میں بھی اپنے خائن علماء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تخریف کر ڈالی۔۔ جناب سے اپنی عوام دلیل کا مطالبہ نہیں کرتی آنکھ بند کر کے مان لیتے ہیں مگر ہم ان کی عوام کو پوری روایت ضرور دکھاتے جائیں تاکہ انکو اپنے ان خائن علماء کی خیانت کا علم ہو سکے۔۔
اصل میں یہ روایت تقلید کے رد پر نہیں اثبات پر ہے۔ جناب نے پہلا حصہ پیش کیا دوسرے کو ہضم کر گئے ۔۔
ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں دین میں کسی کی تقلید نہ کرو کہ وہ ایمان لائے تو تم بھی ایمان لاو وہ کفر کرے تو تم بھی کفر کرو اگر کوئی تقلید کرنا چاہے تو مردوں کی تقلید کرو اور زندوں کو چھوڑ دو کیونکہ یہ فتنے سے محفوظ نہیں۔
بعض لوگ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓکا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں:حضرت ابنّٗ مسعودؓ فرماتے ہیں،
لا یقلدن رجل رجلاً دینہ :کوئی شخص اپنے دین میں کسی دوسرے کی تقلید نہ کرے۔حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں، اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو۔
مکمل جملہ اس طرح ہے:
وعن عبدالله بن مسعود قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح (مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔
قال معاذ بن جبل یا معشر العرب کیف تصنعوں بثلاث دنیا تقطع اعناقکم وزلۃ عالم و جدال منافق بالقرآن فسکتوا فقال اما العالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم و ان افتتن فلا تقطعوا منہ اناتکم فان المومن یفتتن ثم یتوب۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ج:۲،ص ۱۱۱)
حضرت معاذ نے تین امور کے متعلق لوگوں سے پوچھا جن میں ایک عالم کی غلطی کے متعلق تھا۔
حضرت معاذؓ فرماتے ہیں عالم کی پھلسن سے اپنے آپ کو بچانے کا یہ طریقہ ہے کہ تم بس دینیات کے اندر اس کی تقلید نہ کرو چاہئے وہ ہدایت یافتہ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگر وہ خود کسی فتنے میں پڑھ جاتا ہے تو بعد میں توبہ بھی کر سکتا ہے۔
جواب نمبر1:۔
دینیات اور ایمانیات میں تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں اہلسنت والجماعت میں سے، نہ اس کے کرنے کا کوئی کہتا ہے سوائے ضروریات ِ احکام شرعیہ معلوم کرنے کیلئے صرف فوت شدہ افراد کے۔ چنانچہ جیسا خود امام الائمہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔(مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
جواب نمبر2:۔
تقلید اجتہاد میں ہوتی ہے اور ائمہ اربعہؒ میں سے کوئی ایک بھی دینیات و ایمانیات میں اجتہاد کا قائل نہیں، یہ سب ضروریات ِاحکام شرعیہ معلوم کر نے کیلئے مسائل میں استنباط کے اہل ہیں، وہ بھی سب سے پہلے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع و اجتہاد صحابہ کے بعد پھر اپنا اجتہاد، لہذا ائمہ اربعہؒ کے مدون مذہب سے ایمان کو کسی قسم کا خطرہ نہیں البتہ ان کے علاوہ اوروں سےجو بعد والے ہیں ایمان محفوظ نہیں۔
روایت کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کے زندوں کی تقلید میں خطرہ ہے اس لیے اگر کی جائے تو فوت شدگان کی جبکہ ہم تو فوت شدہ مجتہدین کی ہی تقلید کرتے ہیں ہاں غیر مقلدین کی عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے زندہ علماء کی تقلید کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آپ نے دیکھا کے کیسے ان صاحب نے خیانت سے کام لیا ۔۔ اسی لیے تو اس فرقے کے اپنے عالم عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں کہ آج ہمارا کردار یہود والا ہو گیا ہے جو دین کی بعض باتوں کو مانتے اور بعض کو چھوڑ دیتے تھے۔۔۔۔۔۔ رسائل بہاولپوری 569۔۔۔۔۔
لہذا ان نام نہاد محققین کے وسوسوں میں مت آئیں اہل حق علماء سے تعلق قائم رکھیں ۔۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں