نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلد اہلحدیث ارشاد الحق اثری صاحب علماء کی گرفت میں

 

مشہور غیر مقلد اہلحدیث عالم ارشاد الحق اثری صاحب اپنی کتاب اعلاءالسنن فی المیزان کے ص 32 پر لکھتے ہیں۔

"امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر شاہ اسماعیل شہید تک اکابر نے مقلدین کے بارے میں جو تاثرات دیے ہیں وہ وسیع الذیل ہیں" 

 الجواب باسم ملھم الصواب۔

چونکہ اس وقت غیر مقلدین تھے ہی نہیں اسی لیے غیر مقلدین کے بارے میں ان اکابر رحمہ اللہ نے کوئی تاثر نہیں دیا۔البتہ مقلدین کے اندر جو کمی کوتاہی دیکھی اس پر تاثر دے دیا۔لیکن یہ سلسلہ آپ کے اپنے بقول شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ پہ ختم ہو جاتا ہے۔ 

اس کے بعد ترک تقلید کے اثرات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جب نظر اتے ہیں تو اکابر نے ترک تقلید کے بارے میں کیا تاثر دیا ہے وہ پہلے اپنے بزرگوں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں 

غیر مقلد اہلحدیثوں کیلئے ان کے گھر سے حوالہ 

مشہور غیر مقلد اہلحدیث محمد حسین بٹالوی رقمطراز ہیں کہ

"پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید مطلق کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں"

۔(اشاعۃ السنۃ،صفحہ 88، جلد 11)


غیر مقلد وہابیوں کے امام و محدث ناصر البانی لکھتے ہیں

 : تقلید کی حرمت کی دلیل مجھے معلوم نہیں بلکہ جس کے پاس علم نہیں اس کا تقلید کے بغیر چارہ نہیں ہے 

۔ (فتاویٰ البانیہ جلد اوّل صفحہ 124 مترجم غیر مقلد وہابی علماء)

"اب باقی اکابرامت کی آراء سنیں"

ارشاد الحق اثری کو امام رازی اشعری شافعی رحمہ اللہ سے منہ توڑ جواب

امام فخرالدین ابوعبداﷲمحمد بن عمرالرازیؒ (المتوفی: ۶۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَنَّهُ هَلْ يَجُوزُ لِلْمُجْتَهِدِ تَقْلِيدُ الْمُجْتَهِدِ؟ مِنْهُمْ مَنْ حَكَمَ بِالْجَوَازِ/ وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ فَقَالَ: لَمَّا لَمْ يَكُنْ أَحَدُ الْمُجْتَهِدِينَ عَالِمًا وَجَبَ عَلَيْهِ الرُّجُوعُ إِلَى الْمُجْتَهِدِ الْآخَرِ الَّذِي يكون عالما لقوله تعالى: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ فَإِنْ لَمْ يَجِبْ فَلَا أَقَلَّ مِنَ الْجَوَازِ‘‘۔ ’

’بلاشبہ بعض لوگوں نے مجتہد کے لئےاس آیت کریمہ سےتقلید کاجوازثابت کیاہے۔ وہ یوں کہ جب مجتہدین میں سے کوئی کسی چیز کونہیں جانتاتواس پرمجتہدعالم کی طرف رجوع کرناواجب ہے، کیونکہ اﷲتعالیٰ کاارشادہےکہ: {پس سوال کرو اہل علم سے اگر تم کو علم نہیں}۔ اگررجوع کرناواجب نہ ہوتوجواز سے کیاکم ہوگا‘‘۔ (تفسیر الفخرالرازی: ج۲۰، سورۃ النحل۴۳، ص۳۷)

فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ


﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ [ النساء : 59]

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ، رسول اور اپنے میں سے "اولو الامر" کی اطاعت کرو۔

علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں "اولو الامر" سے علمائے مجتہدین مراد لینا زیادہ بہتر ہے۔

"وخامسها: أن أعمال الأمراء والسلاطين موقوفة على فتاوي العلماء، والعلماء في الحقيقة أمراء الأمراء، فكان حمل لفظ أولي الأمر عليهم أولى".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 117)




﴿وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ [النساء: 83]

ترجمہ: جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں ، اگر پیغمبرِ خدا اور اپنے میں سے "اولی الامر" کے پاس اسے لے جاتے تو ان میں جو اہلِ استنباط (یعنی مجتہدین) ہیں اسے اچھی طرح جان لیتے۔

علامہ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کریں۔

"إذا ثبت هذا، فنقول: الآية دالة على أمور. أحدها: أن في أحكام الحوادث ما لا يعرف بالنص بل بالاستنباط. وثانيها: أن الاستنباط حجة. وثالثها: أن العامي يجب عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 159)

حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک سوال نقل کرتے ہیں اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:


 ’’اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمه الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقلید كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو ائمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے؟

اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرامؓ اور تابعين عظامؒ كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس سےیہ تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے۔ لہٰذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمه الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريباً امام احمد رحمه الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام کیاجارہا ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے کچھ سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوىٰ كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے‘‘

۔ (الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: ص ۳۵-۳۶)

حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات میں اختلاف نہیں کہ عام لوگوں کے ذمہ اپنے علماء کی تقلید کرنا واجب ہے، اور اللہ رب العزت کے ارشاد سے یہی لوگ مراد ہیں، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اندھے کو جب قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس شخص کی تقلید اور پیروی کرے جس کی تمییز پر اسے بھروسہ ہو، اسی طرح وہ لوگ جن کے پاس دینی علم نہیں اور وہ دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے ذمہ اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔

"ولم تختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها، وأنهم المرادون بقول الله عز وجل: ﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل: 43] وأجمعوا على أن الأعمى لا بد له من تقليد غيره ممن يثق بميزه بالقبلة إذا أشكلت عليه، فكذلك من لا علم له ولا بصر بمعنى ما يدين به لا بد من تقليد عالمه".

جامع بيان العلم وفضله - مؤسسة الريان - (2 / 230)


حضرت شاہ اسماعیل شہید حنفی رحمہ اللہ کی حنفیت کیلئے قارئیں مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی یہ کتاب پڑھیں ، جس میں امام اہل السنہ نے شاہ صاحب کے حوالے سے غیر مقلدیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

  طائفہ منصورہ صفحہ 23 تا 27

شاہ اسماعیل شہید حنفی اور تقلید

تقلید کی حقیقت جاننے کیلئے درج ذیل مدلل مضامین پڑھیں

مسئلہ تقلید پر مفصل بحث


لفظ "اہلِ حدیث" قدیم اور جدید اصطلاح میں


تقلید مجتہد کے متعلق اسلاف کی مزید شہادتیں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...