اعتراض نمبر10:
بڑے بڑے محدثین نے امام ابو حنیفہ کی تردید کی ہے۔
أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا أبو بكر أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي قال: أملى علينا أبو العباس أحمد بن علي بن مسلم الأبار - في شهر جمادى الآخرة من سنة ثمان وثمانين ومائتين - قال: ذكر القوم الذين ردوا على أبي حنيفة: أيوب السختياني، وجرير بن حازم، وهمام بن يحيى، وحماد بن سلمة، وحماد بن زيد، وأبو عوانة، وعبد الوارث، وسوار العنبري القاضي، ويزيد بن زريع، وعلي بن عاصم، ومالك بن أنس، وجعفر بن محمد، وعمر بن قيس، وأبو عبد الرحمن المقرئ، وسعيد بن عبد العزيز، والأوزاعي، وعبد الله بن المبارك، وأبو إسحاق الفزاري، ويوسف بن أسباط، ومحمد بن جابر، وسفيان الثوري، وسفيان ابن عيينة، وحماد بن أبي سليمان، وابن أبي ليلى، وحفص بن غياث، وأبو بكر بن عياش، وشريك بن عبد الله، ووكيع بن الجراح، ورقبة بن مصقلة، والفضل بن موسى، وعيسى بن يونس، والحجاج بن أرطاة، ومالك بن مغول، والقاسم بن حبيب، وابن شبرمة.
الجواب :
میں (محمد زاہد کوثری) کہتا ہوں کہ اگر مقصد یہ ہے کہ دلیل کو دلیل کے مقابلہ میں پیش کرنا تو اس بارہ میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میں اہل علم کے لیے میدان بہت وسیع رہا ہے ، اس لیے کہ بیشک اللہ تعالی کا دین ، مجہتدین میں سے کسی ایک پر موقوف نہیں ہے ۔ اور فقہاء میں سے ہر ایک کے کلام میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے اور رد کیا جا سکتا ہے (جس کی کسی بات پر نہ مواخذہ ہو سکے اور نہ اس کو رد کیا جا سکے) یہ مقام تو صرف اس شخصیت کو حاصل ہے جو مدینہ منورہ میں خوشبو دار مزار میں تشریف فرما ہے ۔
اور اگر اس سے مراد بہتان تراشی کے ساتھ عیب لگتا ہے اور اس میں ایسے سلف کی طرف نسبت کر کے وشنام طرازی کرنا ہے جن کی زبانیں اس تہمت سے پاک ہیں ۔ جیسا کہ خطیب کا "الابار" کی سند سے نقل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے ۔ تو دنیا اور آخرت میں اس کا دکھ وہی برداشت کرتا ہے جو جھوٹ گھڑنے والا بہتان تراش ہو۔ اور خطیب کا اس روایت کو ناقلین کے ہاں محفوظ روایات کے زمرہ میں ذکر کرنا گہری نظر رکھنے والے حضرات پر ظاہر کر دے گا کہ وہ ان شرائط کا کس قدر لحاظ رکھنے والا ہے جو اس نے اپنے لیے لازم کی تھیں۔ بھلا ابن رزق عن ابن سلم عن الانبار کی سند سے مروی روایت بھی محفوظ ہو سکتی ہے؟
پس "ابن رزق" جو ہے وہ ابو الحسن بن رزقویہ ہے اور پختہ بات ہے کہ خطیب نے اس کے پاس آنا جاتا اس کے بوڑھا ہو جانے اور نابینا ہو جانے کے بعد شروع کیا تھا اور نابینا آدمی سے وہی چیز لی جا سکتی ہے جو اس کو ازبر یاد ہو یعنی قرآن کریم یا حدیث اس لیے کہ اس جیسے آدمی سے ان ہی چیزوں کو یاد کرنا عادۃً جاری ہے حالانکہ اس میں بھی ممکن ہے کہ اس کو یاد رکھنے اس کے ہاں اس چیز کے ثابت ہونے میں اس سے خطا ہو۔ بہر حال تاریخی کتابیں اور قصے کہانیاں اور لمبے چوڑے واقعات تو ان کو یاد رکھنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا جس کی بینائی درست نہ ہو اور علماء میں سے وہ جو اپنی آنکھ اور اعضاء میں کچھ نقص نہیں پاتا وہ بھی طاقت نہیں رکھتا کہ ان چیزوں کو ان کی سندوں کے ساتھ درست بیان کر سکے چہ جائیکہ ایسا آدمی کے اعضاء جواب دے چکے ہوں اور بوڑھا ہو گیا ہو اور آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی ہو نظر جیسی نعمت سے محروم ہو تو وہ کیسے ان کو سندوں کے ساتھ صحیح بیان کر سکے گا اور اس قسم کے نابینا آدمی سے کثرت سے صرف وہی آدمی روایات کرے گا جو اپنی کسی ذاتی غرض کی وجہ سے روایت میں تساہل سے کام لینے والا ہو اور اس کو اپنے شیوخ کے اندھا پن کے بدلے میں اس کی خواہشات نے اندھا کر دیا ہو۔
آگاہ رہو کہ بیشک خطیب کی کتاب اس نابینا کی روایات سے بھری پڑی ہے اور بہت ہلکے الفاظ جو اس کے "شیخ ابن سلم" کے بارے میں کہے گئے ہیں یہ ہیں کہ بیشک وہ بصیرت سے اندھا متعصب تھا۔
اور اس روایت کے راوی " الآبار " کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ حشوی تھا بہتان تراش تھا اور اس کا قلم اجرتی تھا (یعنی جو بھی رقم دے کر اپنی مرضی کا لکھوانا چاہتا یہ لکھ دیتا تھا) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم ج 2 میں کہا کہ جن محدثین کرام نے امام ابو حنیفہ سے روایات کی ہیں اور ان کی تعریف کی ہے ان کی تعداد زیادہ ہے ان سے جنہوں نے ان پر جرح کی ہے۔ اور محدثین کرام میں سے جن حضرات نے ان پر کلام کیا ہے تو انہوں نے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف ان کے رائے اور قیاس میں مبالغہ کرنے اور ان کو مرجئہ قرار دینے کی وجہ سے کلام کیا ہے اور جو ان کے بارے میں لوگوں کی آراء تعریف وطعن میں مختلف ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے تو اس طریق کار کو تو گزرے ہوئے زمانہ سے آدمی کی عظمت پر دلیل بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ حضرت علی بن ابی طالب کی طرف نہیں دیکھتے کہ ان کے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ ایک حد سے زیادہ محبت کرنے والے (کہ انہوں نے ان میں خدائی صفات بھی مان لیں) اور ان سے بہت بغض رکھنے والے (کہ معاذ اللہ وہ ان کو خلیفہ راشد بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں) اور بیشک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم علیم نے فرمایا کہ اس (حضرت علی) کے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، بہت زیادہ محبت کے دعویدار اور افتراء باندھنے والے بغض رکھنے والے اور عظمت والے لوگوں کی اور ان کی جو دین اور فضل میں انتہائی درجہ کو پہنچے ہوئے ہوں، ان کی یہی حالت ہوتی ہے کہ لوگ یا تو ان کے ساتھ ناجائز حد تک عقیدت رکھتے ہیں یا دشمنی کرتے ہوئے ان کے عیوب بیان کرتے ہیں۔ واللہ اعلم الخ ۔
اور قیاسوں میں غالب ہوتا تو محدثین کے معلومات پر بلند ہوتا ہے (یعنی ایسے شخص کا علم محدثین کی معلومات سے زیادہ ہو گا) اور جس ارجاء کی نسبت امام صاحب کی طرف کی گئی ہے اس کی تحقیق آگے آرہی ہے۔ ابن عبد البر کا کلام کہاں (جو امام صاحب کی تعریف میں ہے) اور خطیب کا طریق کار کہاں؟
اور اگر خطیب حقیقتاً اس بارہ میں محفوظ روایت کو ذکر کرنے کا ارادہ کرتا تو ضرور وہ روایت ذکر کرتا جو صاحب العقیلی نے ذکر کی ہے اور اس کی روایت "ابو یعقوب یوسف بن احمد الصيدلانی المکی الحافظ" نے کی ہے جو ابن الدخیل المصری کے نام سے مشہور ہے جس کی روایت اس نے اپنی اس کتاب میں ذکر کی ہے جو اس نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں العقیلی کے خلاف لکھی ہے جبکہ اس نے امام صاحب کے خلاف دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا جیسا کہ ابن عبد البر نے اپنی کتاب الانتقاء میں نقل کیا ہے جو اس نے اپنے "شیخ الحکم بن المنذر عن ابن الدخیل" کی سند سے روایت بیان کی ہے اور مختلف سندوں کے ساتھ اس نے اہل علم کے اقوال ان کے مناقب میں نقل کیے ہیں۔
اور پختہ بات ہے کہ ابن الدخیل نے اس کتاب کے لکھنے اور اس کو مشہور کرنے کی مشقت اس شخص کی وجہ سے اٹھائی جو اپنے علم اور پرہیزگاری کی وجہ سے اس چیز کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو العقیلی نے کتاب الضعفاء میں ابو حنیفہ کے ترجمہ میں لکھی ہے۔ وہ کتاب جس کی عقیلی سے روایت کرنے میں ابن الدخیل منفرد تھا اور ابن الدخیل متہم نہیں ہے اس چیز کو نقل کرنے میں جو اس نے مناقب ابی حنیفہ میں بیان کیا ہے اور نہ ہی وہ ان کا ہم مذہب ہے تا کہ گمان کیا جائے کہ اس نے ان کی طرفداری کی ہے ۔
اور بیشک اس نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں ان لوگوں کے زمرہ میں جنہوں نے امام ابو حنیفہ کی تعریف کی ہے، ان میں
1 امام ابو جعفر محمد الباقر ،
2 امام حماد بن ابی سلیمان ،
3 امام مسعر بن کدام،
4 امام ایوب السختياني،
5 امام الا عمش،
6 امام شعبه،
7 امام سفیان الثورى،
8 امام سفیان ابن عیینه،
9 امام مغیرہ بن مقسم،
10 امام الحسن بن الصالح بن حی،
11 امام سعید بن ابی عروبہ،
12 امام حماد بن زید،
13 امام شریک القاضی،
14 امام ابن شبرمہ،
15 امام یحیی بن سعید القطان،
16 عبد الله بن المبارک،
17 قاسم بن معن،
18حجر بن عبد الجبار،
19 زہیر بن معاویہ ،
20 ابن جریج ،
21 عبد الرزاق،
22 امام شافعی،
23 وکیع ،
24 خالد الواسطی ،
25 فضل بن موسیٰ السینانی،
26 عیسی بن یونس،
27 عبد الحمید الحمانی،
28 معمر بن راشد ،
29 النضر بن محمد ،
30 یونس بن ابی اسحاق ،
31 اسرائیل بن یونس ،
32 زفر بن الہزيل،
33 عثمان البتی،
34 جریر بن عبد الحمید
35 ابو مقاتل حفص بن سلم،
36 ابو یوسف القاضی،
37 سلم بن سالم البلخی،
38 یحییٰ بن آدم ،
39 یزید بن ہارون
40 ابن الي رذمة
41 سعيد بن سالم القداح،
42 شداد بن حکیم ،
43 خارجہ بن مصعب ،
44 خلف بن ایوب
45 ابو عبدالرحمن المقری
46 محمد بن سائب،
47 حسن بن عمارہ،
48 ابو نعیم الفضل بن دکین،
49 حکم بن ہشام
50 یزید بن زريع
51 عبد الله بن داود الخريبي،
52 محمد بن فضیل،
53 زکریا بن ابی زائدہ اور اس کا بیٹا
54 یحییٰ زائدہ بن قدامہ،
55 یحیی بن معین ،
56 مالک بن مغول،
57 ابو بکر بن عیاش،
58 ابو خالد الاحمر،
59 قیس بن الربيع
60 ابو عاصم النبيل
61 عبید اللہ بن موسیٰ
62 محمد بن جابر
63 الاصمعی،
64 شفیق البلخی،
65 علی بن عاصم
66 اور یحییٰ بن نضر
جیسے حضرات کا ذکر بھی کیا ہے۔
![]() |
محدثین اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ |
ان تمام حضرات نے اس (امام ابو حنیفہ) کی تعریف کی ہے اور مختلف الفاظ میں ان کی مدح بیان کی ہے ۔ ابن عبد البر نے الانتقاء میں امام ابو حنیفہ کے بارہ میں ان کے اکثر تعریفی الفاظ نقل کرنے کے بعد کہا کہ یہ اس کے "شیخ الحکم بن المنذر المقرطبی" نے ابن الدخيل المکی سے روایت کیے ہیں۔اور ان سب الفاظ کو "ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی" نے اپنی اس کتاب میں ذکر کیا ہے جو اس نے امام ابو حنیفہ کے فضائل اور ان کی اخبار کے بارہ میں تالیف کی ہے اور ابو یعقوب ابن الدخیل کے لقب سے مشہور ہے اور العقیلی کی مرویات کا راوی ہے۔ اور ابن عبد البر نے اپنی سند یوں بیان کی "حدثنا الحكم بن المنذر عنه الخ اور ابن عبدالبر اور الحکم بن المنذر" اور ابن الدخیل ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو امام ابو حنیفہ کے مناقب میں کسی بھی ذریعہ سے غیر محفوظ روایت کرنے کے ساتھ مہتم ہوں اور امانت اور حفظ میں ان کے حالات معروف ہیں۔ اور نہ ہی یہ حضرات ان کے ہم مذہب ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے بارہ میں ان کی طرفداری کا وہم کیا جائے۔ اور ابن الدخیل الصیدلانی تو العتیقی کے اساتذہ میں سے ہے جو کہ خطیب کا شیخ ہے۔ اور ابن عبد البر المالکی کے طریق کار اور خطیب الشافعی کے عمل میں عبرت کا مقام ہے۔ بے شک پہلے (ابن عبد البر) نے مناقب ابی حنیفہ میں الانتقاء میں وہ کچھ ذکر کیا ہے جو اس نے ثقہ اور امین راوی ابن الدخیل سے لیا ہے۔ اور دوسرے (خطیب) نے ان چیزوں کو نقل کرنا کافی سمجھا جس کو الابار نے لکھا جو کہ مہتم بھی ہے اور امام صاحب پر طعن کرنے کے بارہ میں بدظنی کی وجہ سے ناپسندیدہ بھی ہے۔ اور اسی سے دین اور امانت میں ان دونوں ابن عبد البر اور خطیب کے درمیان فرق معلوم ہو جاتا ہے۔ وہ ابن عبدالبر اندلسی ہے جو کہ خبروں کو صاف ستھرے مصادر سے نقل کرتا ہے اور یہ (خطیب) مشرقی ہے جو انتہائی تاریک چشمہ سے پانی نکالتا ہے (یعنی گپیں نقل کرتا ہے) جو نا تجربہ کار کا مقصود ہوتا ہے۔
اور بے شک " الحافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی " نے اپنی کتاب "عقود الجمان" میں کہا :
آپ خوب جان لیں کہ اللہ تعالی مجھ پر بھی اور آپ پر بھی رحم فرمائے۔ بے شک امام ابو حنیفہ کے بارہ میں خطیب نے جو طعن کی روایات نقل کی ہیں ان میں سے اکثر روایات کی سندیں یا تو متکلم فیہ راویوں سے خالی نہیں یا ان میں مجہول راوی ہیں اور کسی ایسے آدمی کے لیے جائز نہیں ہے جو اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے کہ وہ اس جیسی روایات کے ساتھ کسی مسلمان کی عزت کو داغ دار کرے۔ تو مسلمانوں کے اماموں کے امام کی عزت کو ان روایات کے ساتھ داغدار کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ جس کا قول نقل کیا گیا ہے اس سے وہ قول ثابت ہے تو اگر وہ قائل امام ابو حنیفہ کا ہم زمانہ نہیں تو اس نے نہ ان کو دیکھا اور نہ ان کے احوال کا مشاہدہ کیا بلکہ اس نے مخالفین کی جانب سے لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کر کے ان کی تقلید کی۔ تو ایسے آدمی کی بات کی طرف بالکل توجہ نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ قائل امام ابو حنیفہ کا ہم زمانہ ہے، اور ان سے حسد کرنے والا ہے تو اس کی بات کی طرف بھی توجہ نہیں کی جا سکتی۔ اور بے شک ان میں سے بہت سے حضرات نے انتہائی کوشش کی کہ ابو حنیفہ کو نام کے مرتبہ سے گرا دیں اور ان کے ہم زمانہ لوگوں کے دلوں کو ان کی محبت سے پھیر دیں۔ مگر وہ اس پر قادر نہ ہو سکے اور امام صاحب کے بارہ میں ان کا کلام موثر نہ ہوں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے کہا پس ہم نے معلوم کر لیا کہ بے شک یہ امام صاحب کا عزت و وقار آسمانی فیصلہ ہے اس میں کسی کا کوئی حیلہ نہیں ہے اور جس کو اللہ تعالٰی بلند کرے مخلوق اس کو ذلیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے ابن حجر نے بھی اللسان میں کہا کہ ہمسر لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے بارہ میں جو کلام کی اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ بالخصوص جبکہ یہ آشکارا ہو جائے کہ بے شک وہ کلام (جس کے بارہ میں کی گئی ہے) اس کی یا اس کے مذہب کی عداوت کی وجہ سے ہے۔ الخ
اور جو بات کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں تو خطیب کیسے اس کی طرف دعوت دیتا ہے؟ اور اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک خطیب امام صاحب کے مذہب والوں کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر ابو حامد فرائینی کے زمانہ میں قاضی کی طرف سے آزمائش پہنچی جس کے رونما ہونے کا ذکر المقریزی کی تحریرات سے نقل کرتے ہوئے پہلے ہو چکا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ اس قسم کی بے تکی باتیں نہ کرتا اور اس قدر پستی میں نہ جاتا اور یہی نتیجہ ہوتا ہے دنیاوی لالچ رکھنے والے کا جبکہ پرہیزگاری درمیان میں رکاوٹ نہ ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں