اعتراض نمبر 11. امام ابو حنیفہ نے کہا کہ ہم یہاں بھی مومن ہیں اور اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں اور وکیع نے اس قول کو پسند نہیں کیا۔
امام ابو حنیفہ نے کہا کہ ہم یہاں بھی مومن ہیں اور اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں اور وکیع نے اس قول کو پسند نہیں کیا۔
أخبرنا الحسين بن محمد بن الحسن أخو الخلال، أخبرنا جبريل بن محمد المعدل - بهمذان - حدثنا محمد بن حيويه النخاس، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع قال: سمعت الثوري يقول: نحن المؤمنون، وأهل القبلة عندنا مؤمنون، في المناكحة، والمواريث، والصلاة، والإقرار، ولنا ذنوب ولا ندري ما حالنا عند الله؟ قال وكيع، وقال أبو حنيفة: من قال بقول سفيان هذا فهو عندنا شاك، نحن المؤمنون هنا وعند الله حقا، قال وكيع: ونحن نقول بقول سفيان، وقول أبي حنيفة عندنا جرأة.
الجواب نمبر 1: امام محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں راوی کا نام حیویہ لکھا ہوا ہے اور یہ تصحیف ہے کیونکہ صحیح نام جبویہ جیم کے فتحہ کے ساتھ اور باء کی تشدید کےساتھ اور محمد بن العباس الخزاز جو ابن حیویہ کے ساتھ مشہور ہے وہ تو بہت بعد زمانہ کا ہے اس نے بالکل محمود بن غیلان کو نہیں پایا پس دوسری طبع کے حاشیہ میں جو یہ تعلیل کی گئی ہے کہ خبر اس کے ذریعہ سے ہے تو یہ محض وہم ہے اور درست بات کہی ہے کہ اس سند میں جو محمد ہے وہ ابن جبویہ النحاس الہمزانی ہے اور تلخیص المستدرک میں امام ذہبی نے اس کو جھوٹا کہا ہے۔ کیونکہ انہوں نے میناء کی حدیث میں کہا کہ ابن جبوبه متهم بالكذب کیا پس مولف (یعنی امام حاکم کو شرم نہیں آتی کہ ان افسانوں کو ان احادیث کے ضمن میں پیش کر رہا ہے جن میں اس نے شیخین کی شرائط کے مطابق ان سے چھوٹ جانے والی روایات ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ الخ۔
تو اس جیسی سند کے ساتھ وکیع سے یہ خبر صحیح نہیں ہو سکتی۔ اور ان سے جو صحیح طور پر مذکور ہے وہ روایت ہے جو "الحافظ ابو القاسم بن ابی العوام" نے جو کہ نسائی اور طحاوی کا ساتھی ہے، اس نے اپنی کتاب "فضائل ابی حنیفة واصحابہ" میں پیش کی ہے جو کتاب دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے اور اس پر بہت سے بڑے بڑے اکابر علماء کی تحریرات اور ان کی سماعت (کہ انہوں نے صراحت کی ہے کہ یہ فلاں سے سنی ہے) اور وہ کتاب السلفی کی مرویات میں سے ہے۔ اس نے محمد بن احمد بن حماد ابراہیم بن جنید، عبید بن يعيش وکیع کی سند نقل کر کے کہا کہ وکیع نے کہا کہ سفیان ثوری سے جب پوچھا جاتا "مومن انت" کیا آپ مومن ہیں؟" کہتے نعم "ہاں" تو جب ان سے پوچھا جاتا "عند الله" کیا آپ اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں؟" تو وہ کہتے ہیں ارجو ”مجھے امید ہے کہ اللہ کے ہاں بھی مومن ہوں گا۔ " اور ابو حنیفہ کہا کرتے تھے انا مومن ههنا وعند الله میں یہاں بھی اور اللہ کے ہاں بھی مومن ہوں۔" وکیع نے کہا کہ سفیان کا قول ہمیں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ الخ اس قول کی اس (خطیب کے ذکر کردہ قول) سے کیا نسبت ہے؟ اس سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے) تو اس سے ظاہر ہو گیا کہ خطیب نے ابن جبویہ کذاب کی سند سے جو نقل کیا ہے اس میں ہیر پھیر ہے۔
روایت کی حالت تو بالکل واضح ہے مگر خطیب کے ہاں محفوظ روایت اس جیسی ہوتی ہے۔ نسال الله العافية ”ہم اللہ تعالٰی سے عافیت مانگتے ہیں۔"
اور اس مقام کے مناسب ہے وہ جو " الحافظ شرف الدین الدمياطی " نے اپنی کتاب میں لکھا ہے جس کا نام "العقد المثمن فيمن يسمى بعبد المومن" ہے۔ جیسا کہ اس کو اس سے الحافظ عبد القادر القرشی نے اپنی طبقات میں روایت کیا ہے۔ جہاں اس نے ذکر کیا ہے کہ مجھے الحافظ عبد المومن الدمیاطی" نے بتلایا اور میں اس کو اس کی تحریر سے نقل کر رہا ہوں جو اس نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھی ہے کہ۔
كتبت إلينا عجيبة بنت محمد بن أبي غالب عن أبي أحمد معمر بن عبد الواحد بن الفاخر أخبرنا أبو المحاسن عبد الواحد بن إسماعيل الروياني أنا الحافظ أبو نصر عبد الكريم بن محمد الشيرازي ابن بنت شر الحافي أبو القاسم الحسين بن أحمد بن محمد بن فضلويه الدامغاني القاضي أنا أبو حنيفة عبد المؤمن التيمي حدثنا عبد الرحمن بن يزيد الفقيه حدثنا أبو الحسن على بن نصر حدثنا محمد ابن نوكود الروياني حدثنا محمد بن سماعة حدثنا أبو يوسف القاضي عن أبي حنيفة الإمام عن موسى بن أبي كثير قال أخرج علينا ابن عمر رضي الله عنهما شاء له فقال لرجل الذبحها فأخذ الشقرة ليذعها فقال مؤمن أنت فقال أنا مؤمن إن شاء الله تعالى فقال ابن عمر ناولني الشفرة وامض حيث شاء الله أن تكون مؤمناً قال فمر رجل آخر فقال له اذبح لنا هذه الشاة فأعد الشفرة ليذبحها فقال أمؤمن است قال أنا مؤمن إن شاء الله تعالى قال فأخذ الشفرة وقال امض ثمة رجل آخر اذبح لنا هذه الشاة فأول الشفرة ليذبحها فقال له أمؤمن أنت قال نعم أنام في السر في العلانية فقال له اذبح الذبح قال الحمد لله الذى ما ذبح لنا رجل شك في إيمانه. قلت. موسى بن كثير مجهول رحمه الله تعالى
موسیٰ بن ابی کثیر کی سند کے ساتھ لکھ کر بھیجا کہ موسیٰ بن ابی کثیر نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہمارے سامنے اپنی بکری نکالی تو ایک آدمی سے کہا کہ اس کو ذبح کر تو اس سے چھری پکڑی تا کہ اس کو ذبح کرے تو حضرت ابن عمر نے اس سے پوچھا امومن انت؟
کیا تو مومن ہے؟
تو اس نے کہا انا مومن انشاء اللہ میں انشاء اللہ مومن ہوں۔
تو حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ چھری مجھے دے دے اور جہاں اللہ نے تیرا مومن ہونا چاہا ہے وہاں چلا جا۔
کہتے ہیں کہ پھر ایک اور آدمی گزرا تو اس سے فرمایا کہ تو ہماری یہ بکری ذبح کر دے تو اس نے چھری پکڑی تا کہ اس کو ذبح کرے تو اس سے پوچھا امومن انت؟
کیا تو مومن ہے؟
تو اس نے کہا انا مؤمن انشاء الله تعالى
میں انشاء اللہ تعالٰی مومن ہوں۔
موسیٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے اس سے بھی چھری لے لی اور کہا جا چلا جا۔
پھر ایک اور آدمی سے کہا کہ تو ہماری یہ بکری ذبح کر دے تو اس نے چھری پکڑی تا کہ اس کو ذبح کرے تو اس سے پوچھا امؤمن انت؟ کیا تو مومن ہے؟
تو اس نے کہا ہاں انا مؤمن في السر ومؤمن في العلانیہ میں اندر سے بھی مومن ہوں اور علانیہ بھی مومن ہوں۔
تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ تو ذبح کر دے۔ پھر فرمایا
الحمد لله الذي ما ذبح لنا رجل شك في ایمانه
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ ذات جس نے ہماری بکری ایسے آدمی سے ذبح نہیں کروائی جو اپنے ایمان میں شک کرتا ہے۔ الخ ۔
توجب انا مومن کے ساتھ انشاء اللہ کہنا حضرت ابن عمر نے پسند نہیں فرمایا تو اگر امام ابوحنیفہ بھی اس کو پسند نہیں کرتے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ قرشی نے کہا، میں کہتا ہوں کہ موسیٰ بن ابی کثیر مجہول ہے۔
علامہ کوثری اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ راوی مجہول نہیں ہے بلکہ وہ الانصاری ہے جو ابن المسیب سے روایت کرتا ہے۔ اگرچہ اس کی روایت ابن المسیب سے صحاح ستہ میں نہیں ہے لیکن اس کا ہم زمانہ ہونا اس کی عمر اور اس کے طبقہ کو ظاہر کرتا ہے اور سلف صالحین میں سے جنہوں نے ایمان میں (انشاء اللہ کی) استثناء کا قول کیا ہے تو انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ خاتمہ کا علم کسی کو نہیں (نہ جانے خاتمہ کسی حالت پر ہوتا ہے) ورنہ تو یہ استثناء یقین کے منافی ہے۔
(اور ایمان یقین محکم کا نام ہے) واللہ اعلم۔
---------------------------------------------------
چونکہ تاریخ بغداد کے نسخوں میں کافی اختلاف ہے ، اغلاط بھی ہیں ، بعض رواہ کے ناموں میں بھی اختلاف ہے ۔ اس وجہ سے محققین اس روایت کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔
تاریخ بغداد کے نسخوں میں اور پہلے ایڈیشنز میں اس سند کے ایک راوی کا نام " محمد بن حیویہ " ہی درج ہے۔ جبکہ امام کوثری رحمہ اللہ اور دکتور بشار عواد حنفی کی تحقیق کے مطابق راوی کا نام محمد بن جبویہ ہے جبکہ دکتور طحان حنفی رحمہ اللہ نے راوی کو محمد بن حیویہ ہی برقرار رکھا ہے۔
مقلدین خصوصا احناف سے بہت زیادہ تعصب رکھنے والے غالی سلفی شیخ مقبل بن هادي الوادعی نے بھی اپنی کتاب " نشر الصحيفة في ذكر الصحيح من أقوال أئمة الجرح والتعديل في أبي حنيفة " صفحہ 385 میں راوی کا نام ابن حیویہ ہی لکھا ہے۔
وليد بن أحمد الحسين الزبيري نے اپنی تصنیف " الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة " صفحہ 2783 میں نام محمد بن حیویہ ہی لکھا ہے۔
الجواب نمبر 2 :
دکتور طحان حنفی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں اپنی کتاب میں بحث کی ہے۔ جس کا نچوڑ کچھ ایسا ہے کہ :
راوی محمد بن حیویہ (ابن العباس الخزاز) کا سماع محمود بن غیلان سے ثابت نہیں ، اور دوسرا یہ کہ راوی محمد بن حیویہ خود متساہل تھا جیسا کہ خطیب نے خود اس کے ترجمہ (رقم 1139) میں ذکر کیا ہے ۔ خود امام سفیاں ثوری رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر امام صاحب کی طرف رجوع کر دیا تھا جسے جامع المسانید میں امام خوارزمی نے ذکر کیا ہے۔
[ الحافظ الخطيب البغدادي وأثره في علوم الحديث : دکتور طحان صفحہ 313]
لہذا امام وکیع رحمہ اللہ کے حوالے سے امام صاحب پر اعتراض کرنا فضول ہے
نیز وليد بن أحمد الحسين الزبيري کا موقف بھی یہی ہے ۔
----------------------------------------------------
مسئلہ استثناء فی الایمان .
عن أبي حنيفة قال: كنا مع علقمة بن مرثد عند عطاء بن أبي رباح، فسأله علقمة ابن مرثد، فقال له: يا أبا محمد! إن ببلادنا أقواماً لا يثبتون لأنفسهم الإيمان، ويكرهون أن يقولوا: إنا مؤمنون، فقال: وما لهم لا يقولون ذلك، قال: يقولون: إنا إذا أثبتنا لأنفسنا الإيمان جعلنا أنفسنا من أهل الجنة، قال: سبحان الله! هذا من خدع الشيطان وحبائله وحيله، ألجأهم إلى أن دفعوا أعظم منة لله عليهم، وهو الإسلام، وخالفوا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، رأيت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ورضي عنهم يثبتون الإيمان لأنفسهم، ويذكرون ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لهم: يقولون: إنا مؤمنون، ولا يقولون: إنا من أهل الجنة، فإن الله تعالى لو عذب أهل سماواته، وأهل أرضه لعذبهم وهو غير ظالم لهم، فقال له علقمة: يا أبا محمد! إن الله لو عذب الملائكة الذين لم يعصوه طرفة عين عذبهم وهو غير ظالم لهم، قال: نعم، فقال له: هذا عندنا عظيم، فكيف نعرف هذا، فقال له: يا ابن أخي! من هذا أضل أهل القدر، فإياك أن تقول بقولهم، فإنهم أعداء الله، والرادون على الله، أليس يقول الله تبارك وتعالى لنبيه صلى الله عليه وسلم: {قل فلله الحجة البالغة فلو شاء لهداكم أجمعين} فقال له علقمة: اشرح لنا يا أبا محمد شرحاً يذهب عن قلوبنا هذه الشبهة، فقال: أليس الله تبارك وتعالى دل الملائكة على تلك الطاعة، وألهمهم إياها، وعزم لهم عليها، وصبرهم على ذلك، قال: نعم، فقال: وهذه نعم أنعم الله بها عليهم، قال: نعم، قال: فلو طالبهم بشكر هذه النعم ما قدروا على ذلك وقصروا، وكان له أن يعذبهم بتقصير الشكر وهو غير ظالم لهم.
مسند ابی حنیفہ للحارثی صفحہ ، 209، 210۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
[ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ ، جلد 4
.صفحہ 190 ، باب قول الرجل : انا مومن حقا
باب الاستثناء فی الایمان : صفحہ 209
دار الکتب العلمیہ بیروت]
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں