فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع (جلددوم)
اعتراض:۱۳۲...﴿فھلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ کا معنی ’’ کوئی ہے حفظ کرنے والا ‘‘ کرنا قرآن کی تحریف ہے۔
مفتی رب نواز ،مدیر اعلیٰ مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ قسط: ۲(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
قرآن کریم کی آیت﴿ ولقدْ یسَّرْنا الْقُرْآن لِلذّکْرِ فھلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾کا ترجمہ فضائل اعمال میں یوں
درج ہے کہ ہم نے قرآن کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا، کیاہے کوئی حفظ کرنے والا؟
جناب محمد طارق خان( غیرمقلد)
نے’’ کیا ہے کوئی حفظ کرنے والا‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا:
’’
معنی ’’حفظ ‘‘ کرنا غلط ہے اور تحریف فی القرآن ہے۔ اس کے بعد الفاظ آئے﴿فھلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ اور مدکر
کا اصل متذکر ہے جس کے معنی ہیں نصیحت حاصل کرنے والا۔ اس لحاظ سے اس پوری آیت میں
لفظ ’’حفظ ‘‘ کا کوئی تذکرہ ہے ہی نہیں۔ پس اس آیت کریمہ کا صحیح ترجمہ وہی ہے جو
دیگر مفسرین نے کیا کہ ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کرنے کے لیے آسان کردیا ہے پس ہے
کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ۔ ‘‘( تبلیغی جماعت عقائد و افکار و نظریات اور مقاصد
کے آئینے میں صفحہ ۵۰)
طارق خان کے اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ ذِکر کا معنٰی’’ حفظ ‘‘ اور ﴿فھلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ کا معنیٰ ’’ کیا ہے کوئی حفظ
کرنے والا ‘‘ کرنا قرآن کی تحریف ہے۔
الجواب:
تفسیر قرطبی میں ہے:
’’
ایْ
سھَّلْنَاہُ لِلْحِفْظِ واعَنَّا عَلَیْہِ منْ ارَاد حِفْظَہ فھلْ مِنْ طالِبٍ
لِحفْظہ فَیُعَانُ علَیْہِ ۔( تفسیر
قرطبی :۱۷؍ ۱۳۴)
ترجمہ
:ہم نے اس کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا اور جو شخص اس کو حفظ کرنا چاہے اس کی
اعانت کریں گے۔ پس کیاکوئی اس کو حفظ کرنے کا طالب ہے کہ اس کی اعانت کی جائے؟
’’ فَھَلْ
مِنْ طَالِبٍ لِحفظِہٖ، کیاکوئی اس
کو حفظ کرنے کا طالب ہے‘‘ پہ نگاہ رہے۔
روح المعانی میں اس
آیت کی تفسیر نصیحت اور حفظ دونوں طرح کی گئی ہے۔ دوسرے معنٰی ’’ حفظ ‘‘ والی تفسیر کی عبارت ملاحظہ ہو :
’’ اَلْمَعْنٰی سَھَّلْنَا
الْقُرْآنَ لِلْحِفْظِ ...فَھَلْ مِنْ طَالِبٍ لِحِفْظِہٖ لِیُعَانَ عَلَیْہِ‘‘( تفسیر
روحانی المعانی :۲۷؍۱۱۸،سورۃالقمر : ۱۷ طبع رشیدیہ کوئٹہ )
ترجمہ:آیت کا معنیٰ
یہ ہے کہ ہم نے قرآن کوحفظ کرنے کے لیے آسان کردیا ہے ...پس کوئی ہے اس کے حفظ کا
طلب گار تاکہ اس کی اعانت کی جائے۔
’’ فَھَلْ مِنْ طَالِبٍ لِحِفْظِہٖ ، پس کوئی ہے اس کے حفظ کا طلب
گار ‘‘جملہ مدنظر رہے۔
تفسیر کبیر میں ہے :
’’ وَقَوْلُہُ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ اَیْ ھَلْ مَنْ
یَّحْفَظُہُ وَیَتْلُوْہ۔ (تفسیر کبیرللرازی :۱۰؍۳۰۰طبع مکتبہ علوم ِ اسلامیہ
اردو بازار لاہور )
ترجمہ:ارشادباری تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ ہے کوئی جواسے حفظ
کرے اور اس کی تلاوت کرے ۔
جملہ ’’ ھَلْ مَنْ یَّحْفَظُہُ وَیَتْلُوْہُ، ہے کوئی
جواسے حفظ کرے اور اس کی تلاوت کرے ‘‘پہ توجہ رہے ۔
تفسیر کشاف میں زیربحث آیت کی
ایک تفسیر اس طرح مذکورہے :
’’ وَلَقَدْ سَھَّلْنَاہُ
لِلْحِفْظِ وَاَعَنَّا عَلَیْہِ مَنْ اَرَادَ حِفْظَہٗ فَھَلْ مِنْ طَالِبٍ
لِحفْظٍ لِیُعَانَ عَلَیْہِ ‘‘
( کشاف: ۴؍۴۳۵)
ترجمہ:آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ہم
نے قرآن کوحفظ کرنے کے لیے آسان کردیا ہے اور جو اِسے حفظ کرنا چاہے اس کی اعانت
ہم نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ پس کوئی ہے اس کے حفظ کا طلب گار تاکہ اس کی اعانت کی
جائے۔
مذکورہ
عبارت میں سے ’’ فَھَلْ مِنْ طَالِبٍ لِحفْظٍ
،پس کوئی ہے
اس کے حفظ کا طلب گار ‘‘ جملہ پھر سے دیکھئے ۔
شیخ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے
ہیں:
’’﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ﴾ اَیْ سَھَّلْنَاہُ
لِلذِّکْرِ اَیْ لِلْحِفْظِ وَالْقِرَاءَ ۃِ ﴿ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ اَیْ مِنْ
ذَاکِرٍ یَّذْکُرُہٗ وَیَقْرَأُ ہٗ وَالْمَعْنٰی ھُوَ الْحَثُّ عَلٰی قِرَاءَ تِہٖ
وَتَعَلُّمِہٖ۔ ( زاد المسیر :۸؍۹۴)
ترجمہ:اور ہم نے آسان کر دیا ہے قرآن کو ذکر کے لیے یعنی
حفظ و قراء ت کے لیے۔ پس کیاہے کوئی جو اس کو یاد کرے اور پڑھے اور مقصود قرآن
کریم کی قراء ت اور اس کے سیکھنے کی ترغیب دلانا ہے ۔
اس جگہ’’ کیا ہے کوئی جو اِس کو یاد کرے ‘‘ پیش نظر رہے۔
حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی
رحمہ اللہ نے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا حوالہ نقل کرکے لکھاہے :
’’ امام ابن جوزی نے صرف اسی مفہوم کا اعتبار کیا ہے جو
حضرت شیخ [ مولانا محمد زکریا ( ناقل ) ] نور اللہ مرقدہ نے ’’ فضائل قرآن ‘‘ میں
ذکر کیا فرمایا ہے۔ ‘‘( آپ کے مسائل اور ان کا حل :۸؍۲۱۰تخریج شدہ ایڈیشن )
تنبیہ : بندہ نے مذکورہ بالا عربی
تفاسیر کی عبارتیں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب’’ آپ کے
مسائل اور ان کے حل ‘‘ آٹھویں جلد سے نقل کی ہیں۔
تفسیر جلالین میں ہے:
’’﴿
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ ﴾ سَھَّلْنَاہُ لِلْحِفْظِ اَوْ
ھَیَّأْنَاہُ لِلتَّذَّکُرِ﴿فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ﴾ مُتَّعِظٍ بِہٖ وَحَافِظٍ
لَّہٗ ‘‘
( جلالین :۲؍۱۴۴سورہ قمر ، آیت : ۱۷)
ترجمہ :﴿اور ہم نے آسان کر دیاقرآن کو ذِکر کے لئے﴾ہم نے اس
کو آسان کر دیا ہے حفظ کے لیے، یا اسے مہیا کر رکھا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے ۔ ﴿
فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ﴾ ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا
اور اسے حفظ کرنے والا‘‘
یہاں ’’حَافِظ لَّہُ،ہے کوئی اسے حفظ کرنے والا‘‘ پہ غور رہے ۔
جب ماضی کے مستند مفسرین ﴿ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِر ﴾ کا معنی ’’ کیا ہے کوئی حفظ
کرنے والا ‘‘ کر رہے ہیں تو طارق خان کی طرف سے اسے تحریف کہنا نہ صرف غلط بلکہ
سینہ زوری ہے۔
طارق خان کی عربی دانی
جلالین کی مذکورہ بالا عبارت
طارق خان نے بھی نقل کی ۔اور اس کا ترجمہ یوں کیا:
’’ آسان کر دیا ہم نے اس کو یاد کرنے اور یاد دہانی کے لیے،
اس کے ذریعہ سے نصیحت حاصل کرنے اور اس کی محافظت کرنے پر ‘‘ ( تبلیغی جماعت عقائد
و افکار و نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۴۹)
حَافِظ لَہُ کا ترجمہ’’اسے حفظ کرنے والا ‘‘ہے مگر طارق صاحب
نے ایک تو اسم فاعل مُتَّعِظ اور حَافِظ کا ترجمہ مصدر والا کیا، پھر
حَافِظ کا ترجمہ مُحَافَظَتْ کیا۔حالاں کہ
حَافظ مجرد کے باب میں سے ہے اورمُحَافَظَتْ باب مفاعلہ
ہے۔ نیز یہ ’’ مُحَافَظَتْ‘‘ عربی زبان
کا لفظ ہے اس کی اردو میں وضاحت ہونی چاہیے۔ اور یقینا طارق صاحب کو اس کی وضاحت
ایسی کرنی ہو گی جس کے معنی میں حفظ کرنا شامل نہ ہو کیوں کہ یہ ترجمہ تو ان کے
نزدیک تحریف ہے۔
مزید عرض ہے کہ طارق صاحب کو اصرار ہے کہ آیت:﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ
لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾میں ’’ نصیحت حاصل کرنے والا ‘‘ ترجمہ ہی درست ہے۔ مگر
خود اس کی وضاحت ’’ مُحَافَظَتْ ‘‘سے کر رہے
ہیں سوال ہے کیا ’’مُحَافَظَتْ‘‘کا معنی
نصیحت حاصل کرنا ہے ؟
طارق صاحب کی عربی دانی مزید
ملاحظہ ہو۔ وہ جلالین کی عبارت نقل کرتے ہیں:
’’ والاستفہام بمعنی الامر ای احفظوہ و اتعظوبہ ‘‘ اس کا
ترجمہ یوں کیا:
’’ یہاں پر استفہام حکم کے معنی
میں ہے، کوئی بھی اس کو یاد کر سکتا ہے اور اس سے نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔ ‘‘
( تبلیغی جماعت عقائد و افکار و نظریات اور مقاصد کے
آئینے میں صفحہ ۴۹)
جب﴿ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِر ﴾میں استفہام اَمر کے معنی میں
ہے تو اگلی عبارت میں احفظوہ و اتعظوبہ بھی اَمر کے صیغے ہی ہونے
چاہئیں اور ہیں بھی اَمر کے۔ لہذا ترجمہ یوں ہونا چاہیے:
’’ اس(قرآن)
کو حفظ کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔ ‘‘
طارق خان نے ایک تو ترجمہ اپنا من پسند کیا۔
دوسری بات بھی قابل غور ہے کہ جلالین والے کے بقول﴿ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِر ﴾ میں قرآن حفظ کرنے کا حکم ہے
مگر طارق صاحب پوچھ رہے ہیں کہ اس میں ’’ ہے کوئی حفظ کرنے والا ‘‘ جملہ کہاں ہے؟
چنانچہ طارق صاحب نے جلالین کی عبارت کا من پسند ترجمہ کرکے سوال کیا:
’’ اب پوری اس عبارت میں کہاں ہے ایسی کوئی بات جس کا ترجمہ
یہ ہو سکے کہ ’’ ہم نے اس قرآن کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا پس ہے کوئی حفظ
کرنے والا ‘‘ ( تبلیغی جماعت عقائد و افکار و نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ
۴۹)
جلالین سے آپ نے خود ’’احفظوہ ‘‘ نقل کیاہے جس کا ترجمہ ’’اسے حفظ کرو ‘‘ ہے۔اگر آپ
کو اس کا معنی نہ آئے یا تجاہل عارفانہ سے کام لیں تو اس میں کسی کا کیا قصور ہے ؟
﴿ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِر ﴾کا معنی
غیرمقلدین سے
ہم نے اعتراض : ۱۳۱ کے جواب میں قاضی شوکانی کی تفسیر فتح
القدیر :۵؍۱۲۳ سے عبارت نقل کر دی ہے۔ انہوں نے ذِکر کا معنیٰ حفظ کیا ہے اورپھر
کہا کہ اس آیت میں قرآن پڑھنے اور اس کی بہت زیادہ تلاوت کرنے کی ترغیب ہے ۔
ڈاکٹر یحیٰ بن عبد الرزاق غوثانی نے سورۃ قمر
،آیت: ۱۷ ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ
لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ درج کرکے لکھا:
’’ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ
ہم نے قرآن کو حفظ کے لیے آسان بنا دیا ہے اور جو اس کو حفظ کرنا چاہتا ہے، ہم اس
کی اعانت کریں گے، سو کیا کوئی حفظ قرآن کا طالب ہے تاکہ اس سلسلے میں اس کی اعانت
کی جائے۔ ‘‘ ( حفظ قرآن کے ۲۵ آسان طریقے صفحہ ۳۷، ترجمہ حافظ فیض اللہ ناصر ،
پسند فرمودہ
استاذ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی، کلیۃ
القرآن الکریم والتربیۃ الاسلامیۃ )
غیرمقلدین کی مذکورہ کتاب کانام ’’ حفظ قرآن کے ۲۵ آسان
طریقے ‘‘ ہے۔ انہوں نے آیت میں ذِکْرسے مراد حفظ اور مُّدَّکِرسے حفظ کرنے والا
معنیٰ مراد لیا ہے۔ دوسرا ترجمہ ’’ نصیحت... اور ...نصیحت حاصل کرنے والا ‘‘ سرے
سے کیا ہی نہیں ۔ طارق صاحب کے بقول ’’ تحریف قرآن ‘‘ کا ارتکاب کیا ہے !!!
ایک ضمنی اعتراض کا جواب
طارق صاحب نے
اعتراض کیا ہے کہ ﴿ فَھَلْ
مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ میں چوں کہ استفہام امر کے
معنی میں ہے اور امر فرض کے لیے آتا ہے۔ اس لیے شیخ زکریا رحمہ اللہ کے ترجمہ کی
رُو سے حفظ قرآن ہر کسی پر فرض ہونا چاہیے۔ ( تبلیغی جماعت عقائد و افکار و نظریات
اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۵۰)
یہاں جواب میں چندباتیں عرض ہیں:
۱۔ مفسرین ذِکْر کا معنی’’ حفظ ‘‘اور مُّدَّکِر کا معنی’’ حفظ کرنے والا ‘‘کر
رہے ہیں جیسا کہ اوپر باحوالہ مذکور ہوا تو کیا ان پر بھی مذکورہ اعتراض کرو گے کہ
ان کے نزدیک حفظ قرآن ہر کسی پر فرض ہونا چاہیے ۔
۲۔ غیرمقلدین نے بھی اس آیت کی
تفسیر میں حفظ کرنا شامل مانا ہے، شوکانی نے فتح القدیر میں حفظ کرنے والی تفسیر
کو اختیار کیا ہے۔ اور ’’ حفظ قرآن کے ۲۵ آسان طریقے صفحہ ۳۷‘‘ میں تو صرف ایک ہی
معنیٰ ’’حفظ کرنے والا‘‘ کیا گیا ہے جیسا کہ باحوالہ مذکور ہوا۔تو ذرا انہیں بھی
فرما دیں کہ آپ کے اس ترجمہ کی وجہ سے ہر مسلمان پر قرآن حفظ کرنا فرض بنتا ہے۔
۳۔خود طارق خان نے جلالین کی عبارت نقل کی :
’’ والاستفہام بمعنی الامر ای احفظوہ و اتعظوبہ ‘‘ اس کا ترجمہ یوں کیا:
’’ یہاں پر استفہام حکم کے معنی میں ہے ، کوئی بھی اس کو
یاد کر سکتا ہے اور اس سے نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔ ‘‘
( تبلیغی جماعت عقائد و افکار و نظریات اور مقاصد کے
آئینے میں صفحہ ۴۹)
طارق خان کو اعتراف ہے کہ استفہام اَمرکے معنی میں ہے،یہ
اظہار بھی کہ یہاں امر فرض کے معنی میں ہے اور انہیں یہ اصرار بھی کہ ذِکْر کا
معنی نصیحت ہے۔ جس سے یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا فرض ہے۔ جب
کہ طارق صاحب نے جلالین کی عبارت کا ترجمہ’’ کوئی بھی اس سے نصیحت حاصل کر سکتا
ہے‘‘کیا ۔’’ کر سکتا ہے ‘‘ سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہاں امر اِباحَت یا اِسْتِحْبَاب کے لیے ہے۔
جب کہ ان کے دعوے کے مطابق ترجمہ یوں ہونا چاہیے تھا کہ نصیحت حاصل کرنا فرض ہے۔
۴۔چوتھی بات یہ ہے کہ ہر جگہ َامرفرض کے لیے
نہیں آتا۔ اَمر متعدد معانی میں استعمال ہوتاہے۔ ( اصطلاحات صفحہ ۱۱۸ ، الشیخ محمد
عظیم حاصل پوری غیرمقلد ... مکتبہ اسلامیہ )
اگر
اَمر کوفرض کے لیے مان لیں تو فرض کفایہ مراد ہوگا کیوں کہ قرآن کا حفظ کرنا فرض
کفایہ کے درجہ میں ہے،جیسا کہ حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے لکھا:
’’ تمام کلام
پاک کا حفظ کرنا فرض کفایہ ہے ‘‘
( فضائل قرآن صفحہ ۱۱،فضائل اعمال ۲۱۱ فیضی کتب خانہ )
یہ بات غیرمقلدین کو بھی تسلیم
ہے چنانچہ ان کے’’ امام العصر ‘‘شیخ البانی لکھتے ہیں:
’’ قرآن کریم حفظ کرنا فرض کفایہ ہے کہ جب اس کو کچھ [ لوگ
(ناقل )] ادا کر دیں تو دوسروں سے اس کی ادائیگی ساقط ہو جاتی ہے۔ ہر مسلمان کے
لیے قرآن کریم حفظ کرنا واجب نہیں ہے کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ البانیہ صفحہ ۱۱۸)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں