نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ۔ اعتراض:133... فہم قرآن سے دُور رکھنے کے لیے آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے



 فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع (جلددوم)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ اَلْفَتْحِیَّہ احمد پور شرقیہ(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

 اعتراض:133... فہم قرآن سے دُور رکھنے کے لیے آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے۔

              شیح الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا  رحمہ اللہ   نے قرآنی آیت﴿ ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر کا ترجمہ اس طرح کیا:

ہم نے قرآن پاک کو سہل کر رکھا ہے کوئی ہے حفظ کرنے والا ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ ۶۷ ، فضائل اعمال صفحہ ۲۶۷)

محمد طارق خان غیرمقلد نے اس ترجمہ کو غلط قرار دے کر لکھا:

            ’’ اس ترجمہ پر اٹل رہنے کی ضرورت زکریا صاحب کو اس لیے محسوس ہوئی تاکہ کوئی شخص قرآن کو سمجھنے کے لیے زکریا صاحب کے بیان کردہ پندرہ علوم پر اعتراض کرتے ہوئے قرآن کی اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش نہ کردے اور تبلیغی جماعت کے اکابرین جو امت کو محض قرآن رٹنے رٹانے پر لگا کر قرآن کے علوم سے ناواقف رکھنا چاہتے ہیں اپنے اس مقصد میں ناکام ہو جائیں کیوں کہ تبلیغی جماعت کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ علم ہے ۔ ‘‘

( تبلیغی جماعت عقائد و افکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں صفحہ ۵۰، ۵۱)

الجواب:

            اس عبارت میں تین باتیں بیان ہوئیں: پندرہ علوم کی بات، تبلیغی جماعت کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ علم ہے اور آیت کا ترجمہ فہم قرآن سے دُور رکھنے کے لیے ہے ۔

ان تین باتوں میں پہلی بات پر بحث ’’فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول میں ہو چکی ، دوسری بات کا تعلق فضائل اعمال کی بجائے تبلیغی جماعت سے ہے اس حوالہ سے ہم الگ سے کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔ہمیں یاد رہا اور اللہ

 نے چاہا تو اس کا جواب اس کتاب میں عرض کریں گے ۔ تیسری بات کا جواب حاضر ہے ۔

 (۱)قرآن کی آیت ﴿ ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر ﴾میں مذکورذکر کا معنی مفسرین اور خود غیرمقلدین نے نصیحت بھی کیا اور حفظ بھی جیسا کہ اعتراض : ۱۳۱،۱۳۲کے جواب میں باحوالہ مذکورہوا ۔لہذا ’’حفظ ‘‘ والے ترجمہ پر اعتراض کرنا غلط ہے اور پھر اس سے زیادہ غلط یوں تبصرہ کرنا ہے کہ حفظ والا ترجمہ فہم قرآن سے دُور رکھنے کے لیے کیا ہے۔یہاں خود طارق صاحب پر سوال اٹھتا ہے کہ جن مفسرین اور غیرمقلدین نے ذِکر کا معنیٰ حفظ کیا ہے کیا وہ امت کو فہم قرآن سے دُور رکھنے پہ تلے ہوئے ہیں ؟

(۲)محمدطارق خان صاحب نے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی جس عبارت پر مذکورہ اعتراض اُٹھایا وہ ’’ فضائل ِ قرآن ‘‘ کی ہے۔ ہم اسی رسالہ ’’فضائل قرآن‘‘ ہی کو دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں قرآن کو سمجھنے کی ترغیب و تاکید کس قدر ہے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کس طرح اُبھارا گیا ہے ۔

شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ کلام پاک چوں کہ اصل ِدین ہے اس کی بقاء و اشاعت پر ہی دین کا مدار ہے۔ اس لئے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا ظاہر ہے، کسی توضیح کا محتاج نہیں۔البتہ اس کی انواع مختلف ہیں۔کمال اس کا یہ ہے کہ مطالب و مقصد سمیت سیکھے اور ادنیٰ درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے۔‘‘

( فضائل قرآن صفحہ ۱۲ فضائل اعمال صفحہ۲۱۲)

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے قرآن کے مطالب ومقصد سیکھنے کو کمال بتایا ہے ۔

شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ایک حدیثِ قدسی کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ یعنی جس شخص کو قرآن پاک کے یاد کرنے یا جاننے اور سمجھنے میں اس درجہ مشغولی ہے کہ کسی دوسری دُعا وغیرہ کے مانگنے کا وقت نہیں ملتا،میں دعا مانگنے والوں کے مانگنے سے بھی افضل چیز عطا کروں گا۔ ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ ۱۳)

اس عبارت میں ’’جاننے اور سمجھنے ‘‘ الفاظ پہ توجہ رہے ۔

            ’’ قرآن شریف کا ماہر وہ کہلاتا ہے جس کو یاد بھی خوب ہو اورپڑھتا بھی خوب ہو اور اگر معانی و مراد پر قادر ہو تو پھر کیاکہنا ۔‘‘

( فضائل قرآن صفحہ ۱۵)

شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے الفاظ ’’اگر معانی و مراد پر قادر ہو تو پھر کیاکہنا ۔‘‘پر نظر رہے ۔

            ’’ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اگر علم چاہتے ہو تو قرآن پاک کے معانی میں غور و فکر کرو کہ اس میں اولین و آخرین کا علم ہے ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ ۲۰)

            ’’ اسی کی طرف حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے اشارہ فرمایا جب کہ اُن سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کچھ خاص علوم عطاء فرمائے ہیں یا خاص وصایا جو عام لوگوں کے علاوہ آپ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ا ُنہوں نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے جنت بنائی اور جان پیدا کی، اس فہم کے علاوہ کچھ نہیں جس کو اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنے کلام ِ پاک سمجھنے کے لیے کسی کو عطا فرما دیں۔ ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ ۲۲)

’’ یعنی قرآن پاک کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہے کہ اس پڑھنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بہت زیادہ ہو ۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۶ ۲)

اس عبارت کے الفاظ ’’اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہے کہ‘‘ پہ توجہ رہے ۔

 ’’ حاکم ؒ نے بُریدہ ؓ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن شریف پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کو ایک تاج پہنایا جائے گا جو نور سے بنا ہوا ہوگا ۔ ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ۲۷)

            ’’ حضرت علی ؓ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے قرآن پڑھا، پھر اس کو حفظ یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام ، حق تعالیٰ شانہ اس کو جنت میں داخل فرماویں گے اور اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرماویں گے جن کے لیے جہنم واجب ہو چکی ہو۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۲۹)

شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی نقل کردہ حدیث بالا میں ’’اس کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام ‘‘ پہ نگاہ رہے ۔

             ’’امام نوَوی ؒ نے اس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ فضیلت آدمیوں کے لحاظ سے مختلف ہے۔ بعض کے لیے دیکھ کر( قرآن کو پڑھنا) افضل ہے جس کو اُس میں تدبر و تفکر زیادہ حاصل ہوتا ہو اور جس کو حفظ میں تدبر زیادہ حاصل ہوتا ہو اس کے لیے حفظ پڑھنا افضل ہے ۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۳۳)

            ’’امت کے لیے ذریعہ افتخار کلام اللہ شریف ہے کہ اس کے پڑھنے سے، اس کے یاد کرنے سے، اس کے پڑھانے سے، اس پر عمل کرنے سے غرض اس کی ہر چیز قابل افتخار ہے اور کیوں نہ ہو کہ محبوب کا کلام ہے۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۳۵)

یہاں عبارت میں قرآن پر عمل کرنے کو باعث فخر بتایا ہے ۔

’’ سمجھ کر پڑھے یا بلا سمجھے پڑھے دونوں طرح موجبِ تقرب ہے ۔‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۴۱)

شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے قرآن کے متعلق حدیث کے الفاظ درج کئے ہیں:

’’ اُس کے معانی میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح کو پہنچو ۔ ‘‘

 ( فضائل قرآن صفحہ۶ ۴)

’’ حدیث بالا میں چند اُمور ارشاد فرمائے ہیں ....(۵)اس کے معنیٰ میں غورکرو۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۴۷)

            ’’ تدبر اور غور کرنے کے متعلق کچھ مقدمہ میں اور کچھ حدیث نمبر:۸ کے ذیل میں مذکور ہو چکا ہے ۔‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۴۸)

            ’’ جو شخص اس (قرآن)کو اپنے آگے رکھ لے یعنی اس کا اتباع اور اس کی پیروی اپنا دستور العمل بنالے اس کو جنت میں پہنچا دیتا ہے ۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۵۲)

’’ کتاب اللہ پر عمل بھی فتنوں سے بچنے کا کفیل ہے ۔ ‘‘

( فضائل قرآن صفحہ۵۹)

            قارئین کرام ! شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی عبارتیں ملاحظہ فرماکر فیصلہ کریں جو مصنف قرآن سمجھنے ، تدبر ، غور وفکر اور مطالب و مقاصد جاننے اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے امت کو یوں اُبھار رہے ہوں اُن پر یہ الزام لگانا کہ وہ امت کو قرآن کی تعلیم سے دُور رکھنا چاہتے ہیں کتنی بڑی زیادتی ہے ؟

(۳)محمدطارق خان صاحب اپنے غیرمقلدین کے بارے میں کچھ غور کر لیتے کہ انہوں نے قرآن سے لوگوں کو کیسے اور کس قدر دُور کیاہے ۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے تفسیر لکھی تو خود غیرمقلدین نے اس تفسیر کو غلط باورکرانے کے لیے ’’الاربعین ‘‘کتاب لکھی جو رسائل اہلِ حدیث جلد اول میں شامل ہے۔ اس تفسیر کو حافظ عبد اللہ روپڑی غیرمقلد نے بھی غلط قرار دیا۔ مریم مدنی کے مقالہ ’’ محدث روپڑی اور تفسیری درایت کے اصول ‘‘ دیکھ لیں۔ روپڑی صاحب نے معارف قرآنی لکھے تو مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے انہیں ’’ کوک شاستر ‘‘ کہا ۔ ( مظالم روپڑی صفحہ۵۵ مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول )

            اس حوالے سے ہمارے پاس غیرمقلدین کی کتابوں سے کافی حوالہ جات ڈائری میں درج ہیں جب کبھی اس عنوان پر لکھنے کی اللہ نے توفیق دی تو سب حوالے تب قارئین کے سامنے پیش کریں گے ۔ اس وقت میرے کمپیوٹر میں درج ذیل حوالہ جات کمپوز ہیں انہیں یہاں پیش کر تا ہوں۔

 مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے زمانے کے بعض مفسرین کی ہے ۔ دیکھئے مصر کے علامہ محمد عبدہ اور ان کے شاگرد علامہ رشید رضا کہ مصر میں اُن کی اصلاحی اور سیاسی مساعی بڑی قابل قدر ہیں اور آخر الذکر تو سلفیت کے بھی شیدا معلوم ہوتے ہیں لیکن فلسفہ جدیدہ اور اس کے شاگردوں ( مستشرقین وغیرہم ) سے شدید طور پر متاثر ہیں اور افسوس کہ اُن کی تفسیر ’’ المنار ‘‘ کافی حد تک مفید ہونے کے باوجود صحابہ و تابعین و ائمہ سلف کے مسلک سے نا آشنا ؤں کے لئے مضر بھی ہے۔ مسئلہ حیات ِ مسیح ، احادیثِ دجال پر تنقید،سود کی بحث، طیراً ابابیل کی تفسیر وغیرہ ان امور میں فلسفۂ حاضرہ سے شعوری یا غیر شعوری تاثر کی وجہ سے ان کے قلم سے حق کے خلاف سرزد ہوگیا ہے۔ عفا اللہ عنا و عنہم اور یہ بات واقعہ کے سراسر خلاف ہے کہ تفسیر منار امام ابن جریر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے طرز ِتفسیر پر ہے ۔ ‘‘

( حاشیہ اصول تفسیرامام ابن تیمیہ صفحہ ۲۲)

بھوجیانی صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ’’اسی قسم کے خدشہ کا اظہار مصر ہی کے ایک اہلِ حدیث عالم علامہ محمد منیر دمشقی ؒ نے بھی فرمایا ہے جو علامہ محمد عبدہ کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ( استاد، شاگرد) کے مداح بھی ہیں۔ تفسیر مذکور کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : فتح لغیرہ بابا واسعا من ملحدی زماننا فی ذلک وھذا السنن الغیر المشروعۃ۔( انموذج من الاعمال الخیریۃ ص ۳۰۲)ہمارے زمانے کے ملحدین کے لیے اس تفسیر نے (تاویل و تحریف کا ) دروازہ کھول دیا ہے اور یہ نامناسب طریقہ ہے۔ پھر اس کی چند مثالیں ذکرکرکے لکھتے ہیں کہ یہاں استقصاء مقصود نہیں اس کے لیے کئی جلدوں کی ضرورت ہے ۔ بلکہ مقصد اُن چند باتوں کی نشان دہی ہے جو کئی سال سے غلط ہونے کی وجہ سے کھٹک رہے تھے ، باوجود یہ کہ لوگ اس پر گرے پڑتے ہیں اور غلط صحیح میں کچھ امتیاز نہیں کرتے ۔‘‘                                                           

(صفحہ۲۳)

بھوجیانی صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ اور یہ صورت کچھ اب ہی سامنے نہیں آ رہی ہے بلکہ نویں صدی میں بعض زیدی معتزلہ نے جب حدیث اور اہلِ حدیث کے خلاف طوفان بپا کیا تو یہی طریقہ انہوں نے بھی اختیار کیا ۔ چنانچہ اس کے جواب میں اُس وقت کے ایک محقق اہلِ حدیث بزرگ علامہ محمد بن ابراہیم الوزیر (متوفی ۸۴۰) کو لکھنا پڑا کہ تاویلات کا یہ پلندا جو بعض اہلِ حدیث میں بھی پایا جاتا ہے : فمن فیض علومکم ھذہ التی افتخرتم بممارستھا،یہ سب تمہارے (معتزلہ ) ہی علوم کے ’’ فیض ‘‘کا اثر ہے جن پر تم پھولے نہیں سماتے ۔‘‘

 ( حاشیہ اصول تفسیر امام ابن تیمیہ اردو صفحہ۲۳)

 مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے حافظ عنایت اللہ اثری غیرمقلد کے متعلق لکھا:

            ’’ ممتاز عالم دین اور طلوع اسلام کی طرح سر سید احمد کے افکار سے بہت متاثر ہیں جیسا کہ اثری کے لاحقہ سے بھی معلوم ہوتا ہے آپ خود کو اہلِ حدیث کہلوانا پسند فرماتے تھے ... آپ بھی سر سید اور دوسرے تمام منکرین حدیث کی طرح معجزات انبیاء کے منکر ہیں۔ آپ نے تمام امت مسلمہ کے مسلّمہ عقیدہ کے علی الرغم ’’ عیون زمزم فی ولادتِ عیسی بن مریم ‘‘ نامی کتاب لکھ کر حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش کی تردید فرمائی۔ علاوہ ازیں دو کتابیں بیان المختار اور قول المختار لکھ کر تمام انبیاء کے معجزات سے انکار فرمایا ہے۔ حافظ اور دوسرے منکرین حدیث میں مابہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ تمام منکرین حدیث کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے احادیث کا انکار کرتے ہیں پھر بعد میں قرآن کی من مانی تاویلات کرکے قرآن پر ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔ جب کہ حافظ تاویلات کے ذریعہ پہلے قرآن پر ہاتھ صاف کرتے ہیں، بعدہ حدیث پر ۔گویا آپ کا کام عام منکرین حدیث سے دو گنا بڑھ گیا۔ اورحقیقت یہ ہے کہ تاویل قرآنی کے دھندے میں حافظ صاحب موصوف نے منکرین حدیث کے کان کتر ڈالے ہیں... حافظ صاحب نے جب واقعہ اسراء کی تاول پیش فرماتے ہوئے مسجد اقصیٰ سے مراد دُور کی مسجد اور مدینہ منورہ نیز واقعہ اسراء سے مراد ہجرت نبوی کا تصور پیش کیا تو پرویز صاحب نے انہیں درج ذیل الفاظ میں ہدیہ تبریک پیش فرمایا تھا: ’’ اگلے دنوں ایک صاحب کی وساطت سے مجھے عنایت اللہ اثری ( وزیر آبادی ثم گجراتی ) کی کتاب ’’ حصول تیسیر البیان علی اصول تفسیر القرآن ‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت اور خوشی ہوئی کہ انہوں نے بھی مسجد اقصی کا وہی مفہوم لیا ہے جسے میں نے مفہوم القرآن میں لکھا تھا، ایک اہلِ حدیث عالم کی طرف سے اس آیت کا وہ مفہوم جو روایتی مفہوم سے ہٹا ہوا ہو۔ واقعی باعث تعجب ( اور چوں کہ وہ مفہوم میرے نزدیک قرآن کے منشاء کے مطابق ہے اس لیے وجہ حیرت ) ہے ۔ مولانا صاحب اگر بقید حیات ہوں ( خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا ان کی عمر دراز کرے ) تو وہ میری طرف سے اس تحقیق اور حق گوئی کی جرأت پر ہدیہ تبریک قبول فرمائیں ۔ طلوع اسلام جنوری ۷۵ ء ص ۴۱‘‘

( آئینہ پرویزیت صفحہ ۱۳۰)

            عنایت اللہ اثری کی غیرمقلدیت پرخود غیرمقلدین کے حوالہ جات بندہ نے اپنی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں نقل کر دئیے ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...