اعتراض نمبر 13:
کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر گواہ جھوٹی گواہی دے کر قاضی سے میاں بیوی کے درمیان تفریق ڈلواتے ہیں اور پھر گواہوں میں سے کوئی اس عورت سے نکاح کر لیتا ہے تو امام ابو حنیفہ نے کہا کہ یہ نکاح جائز ہے اور اگر قاضی کو اس واقعہ کی حقیقت حال معلوم بھی ہو جائے تو ان میں تفریق نہ ڈالے۔
أخبرني الحسن بن محمد الخلال، حدثنا محمد بن العباس الخزاز.وأخبرنا محمد بن أحمد بن محمد بن حسنون النرسي، أخبرنا موسى بن عيسى بن عبد الله السراج قالا: حدثنا محمد بن محمد الباغندي، حدثنا أبي قال: كنت عند عبد الله بن الزبير، فأتاه كتاب أحمد بن حنبل: اكتب إلى بأشنع مسألة عن أبي حنيفة. فكتب إليه: حدثني الحارث بن عمير۔۔۔۔
قال الحارث بن عمير، وسمعته يقول: لو أن شاهدين شهدا عند قاض أن فلان بن فلان طلق امرأته، وعلما جميعا أنهما شهدا بالزور، ففرق القاضي بينهما، ثم لقيها أحد الشاهدين فله أن يتزوج بها؟ قال: نعم! قال: ثم علم القاضي بعد، أله أن يفرق بينهما؟ قال: لا.
الجواب:
میں کہتا ہوں کہ الحمیدی کا انتہائی متعصبانہ حال پہلے بیان ہو چکا ہے [اعتراض نمبر 12] جو اس کی اس خبر کے رد کرنے تک پہنچاتا ہے جسمیں اس کا تعصب بھڑکا ہوا ہے۔
اور الحارث بن عمیر الکذاب کا حال بھی پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور بہر حال محمد بن محمد الباغندی جو اس سند میں ہے تو خطیب نے اس کے متعلق میں کہا ہے کہ دارقطنی نے کہا کہ یہ بہت تدلیس سے کام لیتا تھا جو روایت اس نے کسی راوی سے سنی نہ ہوتی اس کو بھی ایسے طریقہ سے بیان کرتا کہ ظاہر یہی ہوتا کہ اس نے اس راوی سے یہ روایت سنی ہے۔ اور بعض اوقات چوری کرتا تھا۔ الخ۔
اور الباغندی کے بارہ میں گفتگو لمبی ہے اور ابراہیم بن الاصبہانی اس کو جھوٹا کہتے تھے اور باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو جھوٹا کہتا تھا ۔ اور اہل نقد میں سے بہت سے حضرات نے ان کے آپس میں ایک دوسرے کو جھوٹا کہنے میں دونوں کی تصدیق کی ہے۔
(روایت کا حال تو یہ ہے) مگر خطیب کے ہاں یہ خبر محفوظ شمار کیے جانے کی حقدار ہے۔
پھر یہ مسئلہ کہ قاضی کا فیصلہ ظاہرا و باطنا دونوں طرح نافذ ہوتا ہے تو دلائل سے یہی ہے۔ اگرچہ جھوٹے گواہ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہیں مگر یہ قاضی کا فیصلہ ظاہر و باطنا نافذ ہونے کے درمیان حائل نہیں ہو سکتے۔ ورنہ تو لازم آئے کہ اس عورت کے پہلے خاوند کے لیے اپنے اور اللہ کے درمیان معاملہ کا مدار رکھتے ہوئے پوشیدہ طور پر اس عورت سے وطی کرنا جائز ہے (اس لیے کہ اس عورت کا نکاح عند اللہ پہلے خاوند سے قائم ہے) اور نئے خاوند کو قاضی کے حکم پر مدار رکھتے ہوئے وطی کرنا جائز ہے۔ اور اس سے زیادہ برا قول اور کون سا ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کے بیک وقت دو خاوند ہوں۔ ان میں سے ایک پوشیدہ طور پر اس سے جماع کا حق رکھتا ہو اور دوسرا اس سے جماع کرنے کا علانیہ حق رکھتا ہو۔ اور ہم اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک امام ابو حنیفہ سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس جیسی رائے اختیار کریں۔ خواہ ان کو کتنا ہی برا کیوں نہ کہا جائے۔ بلکہ یہ قباحت اس کے مخالفین اور اس کو ملامت کرنے والوں کی طرف لوٹتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس کی صورت واضح کر دی ہے۔
اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ احکام میں فضول بات کہنے سے باقی تمام لوگوں سے زیادہ بری الذمہ ہیں۔ اور رہا مسئلہ یہ کہ قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق نہ ڈالے باوجود یہ کہ اس نے گواہوں کا حال معلوم کر لیا ہو تو یہ امام ابو حنیفہ کے مسائل میں سے ہی نہیں (بلکہ ان کی طرف غلط نسبت ہے) پختہ بات ہے کہ ان کا مذہب مطلقا حکم میں سوچ بچار کرتا ہے۔ اور شاید کہ قارئین کرام ابھی وہ کلام نہ بھولے ہوں جو ہم نے ایمان اور ایمان تفصیلی کے بارہ میں ابن حزم سے نقل کیا ہے۔
اور عمرو بن ابی عثمان الشمزی کی خبر مقالات الاسلامیین میں جو ان کی طرف منسوب کی گئی ہے کہ بے شک انہوں نے بھی اس جیسی روایت امام ابو حنیفہ سے کی ہے تو اس کی سند ہی کوئی نہیں۔ اور یہ شمزی تو معتزلی ہے اس نے اعتزالی نظریہ واصل اور عمرو بن عبید سے لیا ہے اور ان کا مذہب ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ اور ان کی جانب سے اپنے مذہب کے مختلف کو ملامت کرنا تو ان کی نوک زبان پر ہے۔ پس اگر یہ خبر ایسی سند سے لائی جاتی کہ ان مذکورہ راویوں میں سے کوئی ایک راوی اس میں ہوتا تو وہ روایت قابل قبول نہ ہوتی تو اس کی طرف کیسے توجہ کی جاسکتی ہے جبکہ اس کو ان میں سے کوئی بغیر لگام اور مہار کے ذکر کرتا ہے۔
اور ابو حنیفہ جو ایمان اجمالی اور ایمان تفصیلی میں فرق کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تشریح کر دی ہے۔ اور ابن حزم نے اپنی کلام میں اس کا ارادہ کیا ہے۔
واللہ سبحانہ اعلم
اور اس خبر کے باطل ہونے کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ بے شک الحمیدی ہے جو نہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب کے پاس بیٹھا اور نہ ان سے فقہ حاصل کی۔ اور امام احمد عراقی ہیں انہوں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھیوں سے فقہ حاصل کی تو امام احمد جیسا آدمی جو عراقی ہے وہ الحمیدی المکی سے دریافت نہیں کر سکتا ایسے مسئلہ کے بارہ میں جو امام صاحب کے مسائل میں سے بہت قبیح مسئلہ ہو اور سوال اس کے الٹ ہوتا تو بات معقول ہوتی۔ (یعنی حمیدی امام احمد سے پوچھتے) لیکن کذاب نے اپنے جھوٹ میں غور ہی نہ کیا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے ذریعہ سے اس کو رسوا کرنے کا ارادہ فرمالیا تھا۔ اور اس کے بعد جو خطیب نے واقعہ نقل کیا ہے اس کا بھی یہی حال ہے اس لیے کہ وہ بھی الحارث مذکور کی سند کے ساتھ ہے۔
![]() |
امام ابو حنیفہ اور جھوٹی گواہی . |
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں