نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 14:جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا وہ مومن ہے



 اعتراض نمبر 14:

کہ امام ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کعبہ حق ہے اور وہ اللہ کا گھر ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مکہ میں ہے یا خراسان میں تو کیا ایسا شخص مومن ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ مومن ہے۔ اسی طرح پوچھا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ وہی تھے جو قریش خاندان سے تعلق رکھنے والے مدینہ میں گزرے ہیں یا کوئی اور محمد ہے۔ کیا ایسا شخص مومن ہے ؟ تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہاں وہ مومن ہے۔ سفیان نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ ایسا شخص شک میں مبتلا ہے، اس لیے وہ کافر ہے۔

أخبرنا ابن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخلدي، حدثنا أبو جعفر محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي - في صفر سنة سبع وتسعين ومائتين - حدثنا عامر بن إسماعيل، حدثنا مؤمل عن سفيان الثوري قال: حدثنا عباد بن كثير قال: قلت لأبي حنيفة: رجل قال أنا أعلم أن الكعبة حق، وأنها بيت الله، ولكن لا أدري هي التي بمكة، أو هي بخراسان، أمؤمن هو؟ قال: نعم مؤمن. قلت له:فما تقول في رجل قال: أنا أعلم أن محمدا رسول الله، ولكن لا أدريهو الذي كان بالمدينة من قريش أو محمد آخر، أمؤمن هو؟ قال: نعم. قال مؤمل: قال سفيان: وأنا أقول: من شك في هذا فهو كافر.

الجواب: 

میں کہتا ہوں کہ اس کا ایک راوی مطین ہے۔ اس کے بارے میں محمد بن ابی شیبہ نے کلام کیا ہے اور عامر بن اسماعیل وہ ہے جو ابو معاذ البغدادی ہے اور مجہول الحال ہے اور صحاح ستہ والوں سے کسی نے بھی اس کی روایت نقل نہیں کی اور اس کا راوی مومل وہ ہے ابن اسماعیل ہے۔ اس کے بارے میں امام بخاری نے کہا کہ بیشک وہ منکر الحدیث ہے۔ اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ اس کی حدیث میں بہت غلطیاں ہوتی ہیں اور عباد بن کثیر التثقفی البصری ہے۔ سفیان ثوری اس کو جھوٹا کہتے تھے اور لوگوں کو اس سے روایت لینے سے بچنے کی تلقین کرتے تھے تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس جیسے آدمی سے خود سفیان ثوری نے روایت کی ہو تو ظاہر ہو گیا کہ بیشک یہ من گھڑت افسانہ بھی رسوا کن جھوٹ ہے (روایت کا حال یہ ہے مگر) خطیب کے ہاں اس جیسی روایت محفوظ ہوتی ہے۔

اعتراض نمبر 14:جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا وہ مومن ہے


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...