اعتراض نمبر 5 جن لوگوں نے امام ابو حنیفہؒ کی ولادت 61ھ بتائی ہے، اس قول کا کوئی متابع نہیں۔
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ تاریخ بغداد کے تینوں : ایک ہندی اور دو مصری مطبوعہ نسخوں میں داود بن علیہ درج ہے حالانکہ درست ذواد بن علبہ ہے۔ پہلے اسم (ذواد) میں ذال کا فتحہ اور واؤ مشدد ہے اور دوسرے اسم (علبہ) میں پہلے عین پر ضمہ اور اس کے بعد لام ساکن اور اس کے بعد باء ہے۔ پس اس روایت کے مطابق امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش 61ھ میں ہے۔ اور قدماء کی ایک جماعت نے امام ابو حنیفہؒ کی بالمشافہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی جماعت سے احادیث کی روایت میں تحریرات لکھی ہیں۔ ان قدماء میں ابو حامد محمد بن ہارون الحضرمی ، ابو الحسین علی بن احمد بن عيسى النهفقى ، ابو معشر عبد الكريم الطبري المقرئ اور ابوبکر عبد الرحمن بن محمد بن احمد السرخسی وغیرہم جیسی شخصیات ہیں۔ اور امام ابو حنیفہؒ کی ولادت کے بارے میں ان حضرات کا میلان اسی روایت کی طرف ہے ورنہ تو ان کے لیے جائز نہ ہوتا کہ ان احادیث میں سے بعض کو بالمشافہ ان صحابہ کرام میں سے کسی سے مسموعات کے زمرہ میں بیان کرتے۔ پہلی تین قسم کی روایات ، معجم المفہرس میں ابن حجر کی مرویات میں سے ہیں۔
جیسا کہ وہ الفہرست الاوسط میں ابن طولون کی مرویات میں سے ہیں۔ اور آخری الانتصار والترجیح میں سبط ابن الجوزی کی مرویات میں سے ہیں۔ اور ابن حبان نے کتاب الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے جو کہ مکتبہ الازہر میں موجود ہے کہ بیشک ابو حنیفہؒ کی پیدائش 70ھ میں ہے اگر چہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والوں میں سے کسی نے حاشیہ میں نئی لکھائی کے ساتھ 80ھ لکھ کر اس کو درست کیا ہے۔ اور مادة الخزاز جو کہ ابن السمعانی کی کتاب انساب سے متعلق ہے جو الزنكغراف میں شائع کی گئی ہے اس میں بھی ان کی ولادت 70ھ ذکر کی گئی ہے اگرچہ کتاب میں کئی جگہ ان کی ولادت 80ھ ذکر کی گئی ہے۔ پس ہو سکتا ہے کہ کتاب کی کئی جگہوں میں روایات مختلف نقل کی گئی ہوں اور ابن الاثیر کی کتاب اللباب میں صراحتاً مادۃ الخزاز سے 80ھ کا حوالہ دیا گیا ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ آیا یہ نسخہ صحیحہ اسی طرح ہے یا اس نے مشہور قول پر اعتماد کرتے ہوئے اس عدد کو درست کیا ہے اور خطیب کے ہم عصر ابو القاسم السمنائی نے روضہ القضاة میں ذکر کیا ہے کہ ابو حنیفہؒ کی ولادت کے بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں 70ھ ہے اور دوسرے میں 80ھ ہے۔ اور عبد القادر القرشی الحافظ نے الجواہر المضیٸہ میں امام ابو حنیفہؒ کی ولادت کے بارے میں تین روایات ذکر کی ہیں۔ 61ھ ، 63ھ اور 80ھ اور بدر الدین العینی نے اپنی تاریخ الکبیر میں ان کی ولادت کے بارے میں تین روایات نقل کی ہیں۔ 61ھ اور 70ھ اور 80ھ اور پہلے زمانے کے لوگوں کی سن ولادت کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں کیونکہ ان کا زمانہ اس دور سے پہلے کا ہے جس دور سے لوگوں کی تاریخ ولادت لکھی جاتی ہے اور یہی صورت صحابہ کی وفات کے بارے میں پائی جاتی ہے چہ جائیکہ ان کی ولادت کے معاملہ کو لیا جائے۔
اور ابن عبد البر کا قول اپنی کتاب الانتقاء میں کہ امام ابو حنیفہؒ کی سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں۔ بیشک وہ 80ھ میں پیدا ہوئے اور 15 شوال کی رات کو وفات پائی۔ یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے ان روایات پر اطلاع نہیں پائی۔ اور یہ روایات اس کو معلوم نہ ہو سکنے کا عذر یہ ہے کہ یقینی بات ہے کہ اس نے مشرق کی طرف سفر ہی نہیں کیا تو اس کا سفر نہ کرنا مشرقی روایات کو معلوم کرنے میں رکاوٹ بن گیا اور اکثر حضرات اس کے قائل ہیں کہ بیشک امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی وجہ ان روایات کو ترجیح دیتا ہے جو ولادتوں کے بارے میں نئی ہیں (یعنی بعد کا سال ثابت کرنے والی ہیں) اور وفات
کے بارے میں ان روایات کو لینا جو پرانی ہیں (یعنی جن سے وفات پہلے ثابت ہوتی ہے) اور یہ اتصال یا انقطاع کے کلی حکم میں زیادہ احتیاطی پہلو اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ ایسی چیز نہ پائی جائے جو کہ ان روایات میں سے کسی ایک کی موید ہو اور یہاں کئی قرائن ایسے ہیں جو اس قول کو مجروح کر دیتے ہیں جو جمہور کا ہے۔ پہلا قرینہ میں سے یہ ہے کہ حافظ ابو عبد اللہ محمد بن مخلد العطار المتوفی 331ھ نے اپنی کتاب ما رواه الاكابر عن مالک (یعنی امام مالک سے عمر میں بڑے ہونے کے باوجود جن حضرات نے امام مالک سے روایات کی ہیں ان راویوں کا ذکر) میں حماد بن ابی حنیفہ کو بھی ان اکابر میں شمار کیا ہے۔ پھر حماد بن ابی حنیفہ" عن مالک کی سند سے حدیث بیان کی ہے اور حماد کی وفات اگرچہ امام مالک کی وفات سے تین سال پہلے ہے لیکن ان کو اکابر میں شمار کرنا صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ ان کی ولادت بھی امام مالک سے پہلے ہو تو ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی ولادت 80 ھ سے کم از کم دس سال پہلے ہو تا کہ ان کے بیٹے حماد کی ولادت امام مالکؒ کی ولادت سے پہلے ثابت ہو سکے (امام مالکؒ کی ولادت 93ھ ہے تو ان کی ولادت کے وقت جمہور کے قول کے مطابق امام ابو حنیفہؒ کی عمر 13 سال بنتی ہے۔ اور اگر امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے حماد کی ولادت امام مالکؒ سے پہلے کی ہے تو اس وقت امام ابو حنیفہؒ کی عمر اتنی نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے زیادہ ہوگی تو ابو عبد اللہ محمد بن مخلد کا حماد کو امام مالک سے اکابر میں شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ کی ولادت 80ھ سے پہلے کی ہے) اور ابن مخلد کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ بلند مرتبہ حفاظ اور دار قطنی کے شیوخ میں سے ہے تو یہ جو لکھا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی ولادت 80ھ سے پہلے کی ہے تو یہ قول تحقیق سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ اور ابن مخلد کی یہ مذکورہ جزء دمشق کے کتب خانہ ظاہریہ میں موجود ہے جس کا رجسٹر میں اندراج ہے۔ اور اس پر روایات اٹھانے والوں کے بہت سے
نشانات اور تسمیعات ہیں۔ دوسرا قرینہ ان میں سے یہ ہے کہ بیشک العقیلی نے حماد بن ابی سلیمان کے ترجمہ میں روایت نقل کی ہے کہ ابراہیم بن یزید النخعی جب فوت ہوئے تو اہل کوفہ میں سے پانچ آدمی جمع ہوئے ان میں عمر بن قیس الماصر اور ابو حنیفہ بھی تھے تو انہوں نے چالیس ہزار درہم کے قریب جمع کر کے حماد بن ابی سلیمان کو دیے تا کہ وہ ان سے اپنی گزر اوقات کرنے اور علم میں اعلیٰ مقام کے لیے وقف رہے۔ اور ابراہیم نخعی کی وفات 95ھ میں ہے اور اگر امام ابو حنیفہ کی ولادت 80ھ ہو تو امام نخعی کی وفات کے وقت ان کی عمر پندرہ سال بنتی ہے اور اتنی چھوٹی عمر کے آدمی سے نہیں تصور کیا جا سکتا کہ وہ امام نخعی کے خلیفہ بننے والے کی طرف اتنی توجہ دے بلکہ ضروری ہے کہ اس جیسے معاملہ کے لیے امام نخعی کے بڑے بڑے شاگرد ہی اٹھ کھڑے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ اس چیز میں امام ابو حنیفہ کا حصہ ڈالنے کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ان کی عمر اس سے زیادہ ہو۔ (آگے علامہ کوثری ایک اشکال کا جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی یوں کہے کہ پندرہ سال کی عمر میں امام شافعی درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے تھے تو امام ابو حنیفہ سے اتنی عمر میں امام نخعی کے خلیفہ کے لیے یہ اہتمام کیوں نہیں ہو سکتا) اور جو کہا جاتا ہے کہ بیشک امام شافعی اتنی (پندرہ سال عمر میں اجتہاد کے درجہ کو پہنچ گئے تھے تو یہ مناقب کے باب سے ہے جس پر تساہل برتتے ہوئے خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے ورنہ حقیقت کو دیکھا جائے تو اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پھر امام شافعی" اس کے بعد طلب علم میں امام مالک کو لازم نہ پکڑتے اور نہ ہی امام محمد بن الحسن کو لازم پکڑتے جن سے انہوں نے چونتیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد علم حاصل کیا (یعنی جب امام شافعی اجتہاد کے درجہ کو پہنچ گئے تھے تو پھر کسی دوسرے سے علم حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟)
تیرا قرینہ ان میں سے یہ ہے کہ بیشک روایات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس بات کو مضبوط کرتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ فقہ کی جانب لوٹنے سے پہلے مناظر تھے اور علم کلام کے ساتھ مشغول تھے یہاں تک کہ وہ بیس کے قریب مرتبہ ، بصرہ میں آئے تا کہ قدریہ فرقہ وغیرہ کے لوگوں سے مناظرہ کریں پھر وہ اس سے علیحدہ ہو کر فقہ کی جانب مشغول ہو گئے اور جس آدمی کی عمر امام نخعی کی وفات کے وقت اتنی (پندرہ سال) ہو جو ہم نے ذکر کی ہے تو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ فقہ کی جانب لوٹنے سے پہلے کافی عرصہ فن مناظرہ کے ساتھ مشغول رہا ہو تو ان اسباب کی وجہ سے ترجیح دی جا سکتی ہے کہ بیشک ان کی ولادت 80ھ سے پہلے کی ہے اور شاید کہ رائج یہ بات ہو کہ ان کی ولادت 70ھ ہے۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں