نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 6 : امام ابو حنیفہؒ علم نحو میں کمزور تھے۔


 اعتراض 6 : 
امام ابو حنیفہؒ علم نحو میں کمزور تھے۔

أخبرنا العتيقي، حدثنا محمد بن العباس، حدثنا أبو أيوب سليمان بن إسحاق الجلاب قال: سمعت إبراهيم الحربي يقول: كان أبو حنيفة طلب النحو في أول أمره، فذهب يقيس فلم يجئ، وأراد أن يكون فيه أستاذا، فقال: قلب وقلوب، وكلب وكلوب. فقيل له: كلب وكلاب. فتركه ووقع في الفقه فكان يقيس، ولم يكن له علم بالنحو. فسأله رجل بمكة فقال له رجل شج رجلا بحجر، فقال هذا خطأ ليس عليه شئ، لو أنه حتى يرميه بأبا قبيس لم يكن عليه شئ.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس روایت کے مرکزی راوی ابراہیم بن اسحاق کی وفات 285ھ ہے تو اس کے اور امام ابو حنیفہؒ کے درمیان تو بیابان ہیں (یعنی ایسے راوی ہیں جن کا سر پاؤں معلوم نہیں تو یہ خبر مقطوع ہے اور خبر مقطوع تو ان (خطیب کے ہم مذہب شوافع حضرات کے نزدیک مردود ہے (تو خطیب کیسے اس کو پیش کر رہا ہے) پھر اس کی سند میں جو محمد بن العباس ہے، وہ ابن حیویہ الحزاز ہے اور خود ج 3 ص 22 میں خطیب نے ازہری سے اس کا یہ ترجمہ ذکر کیا ہے کہ اس میں تسامح تھا۔ بعض دفعہ کچھ پڑھنے کا ارادہ کرتا تو اس کلام کا اصل اس کے پڑھے ہوئے کلام کے قریب بھی نہ ہوتا تھا . پھر وہ اس کو ابو الحسن بن الرزاز کی کتاب سے پڑھتا کیونکہ اس کو اس کتاب پر اعتماد تھا اگرچہ اس میں اس کو سماع نہیں تھا لیکن ایسا آدمی ثقہ کیسے ہو سکتا ہے جو اس حدیث کو بیان کرے جس میں اس کو سماع نہیں ہے؟ اور ہو سکتا ہے کہ کتاب میں کمی بیشی یا تبدیلی یا اس جیسی کوئی اور خرابی ہو گئی ہو اور اس جیسا ان (شوافع کے نزدیک مردود التحدیث ہے (کہ اس کی بات کو رد کر دیا جاتا ہے علاوہ اس کے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ابو الحسن بن الرزاز جس کی کتاب پر وہ اعتماد کرتا تھا وہ علی بن احمد ہے جو ابن طیب الرزاز کی کنیت سے مشہور تھا اور یہ معمر آدمی تھا اور اس کی وفات خزاز سے بعد میں ہوئی۔ اور خود خطیب نے ج 1 ص 331 میں صراحت سے لکھا ہے کہ اس کا ایک بیٹا تھا جس نے اس کی اصل کتابوں میں نرم قسم کی سنی سنائی باتیں شامل کر دی تھیں تو کیا قیمت ہو سکتی ہے اس شخص کی بات کی جو اس پر اعتماد کرکے اس کے اصول میں سے بیان کرتا ہے اور کتنے ہی اہل علم گزرے ہیں جن کا مسودہ اگر ایک رات بھی غائب ہو جاتا تو وہ اپنے مشورہ سے روایت کا انکار کر دیتے تھے چہ جائیکہ اس کے مسودہ کے علاوہ سے روایت کی جائے اور ان (شوافع) کا اپنے اصول و قواعد میں انتہائی حریص ہونا خود خطیب نے اپنی کتاب الکفایہ میں لکھا ہے (مگر یہاں کچھ پاسداری نہیں). اور مسائل کا درجہ قبول سے ساقط ہوتا تو ان کے ہاں متفقہ بات ہے۔ اور یہ تو اس میں سند کے لحاظ سے بحث تھی۔ اور رہی بات متن کے لحاظ سے تو خبر میں انتہائی کمزوری ہے اور یہ خلاف ہے اس کے جو تواتر سے امام ابو حنیفہؒ سے ثابت ہے اس لیے کہ مثقل (بوجھل بھاری) چیز کے ساتھ قتل تو خیمہ کی لکڑیوں کے ساتھ قتل کی طرح ہے جیسا کہ حدیث میں ثابت ہے. اور یہ صورت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک شبہ عمد ہے جس کی وجہ سے قاتل پر کفارہ اور اس کی عاقلہ برادری یا ہم پیشہ لوگ پر دیت مغلظہ واجب ہوتی ہے اور اسی طرح ایسے پتھر کے ساتھ قتل کرنا جو شیشہ کی طرح تیز کناروں والا نہ ہو۔ اور خطیب شج (زخمی کرنا) کے متعلق بحث کر رہا ہے اور اس کی نسبت امام ابو حنیفہؒ کی طرف کر رہا ہے کہ بیشک منتقل چیز کے ساتھ قتل ان کے نزدیک قتل خطا ہے حالانکہ تواتر سے ان کا جو مذہب ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ خطا نہیں بلکہ خطا عمد ہے اور اسی کو شبہ عمد کہتے ہیں۔ (تواتر سے امام صاحب کا جو مذہب ثابت ہے، اس سے یہ شبہ عمد بنتا ہے جبکہ خطیب کی روایت اس کو قتل خطا مثلیت کرتی ہے تو یہ روایت متواتر روایت کے خلاف ہے) اور اسی طرح خطیب نے امام ابو حنیفہؒ کی جانب نسبت کی ہے کہ بیشک مثقل چیز کے ساتھ قتل کی صورت میں قاتل پر کوئی چیز لازم نہیں حالانکہ ان کے مذہب میں تو اس پر کفارہ اور اس کی عاقلہ پر دیت مغلظہ واجب ہوتی ہے۔ اور خطیب نے امام ابو حنیفہؒ کی طرف یہ نسبت بھی کی ہے کہ ان کا کلام

تیز کنارے والے اور غیر تیز کنارے والے میں فرق کیے بغیر مطلقا پتھر کے بارہ میں ہے حالانکہ ان کے مذہب میں تو تیز کنارے والے پتھر کے ساتھ قتل اور جو تیز کنارے والا نہ ہو اس کے ساتھ قتل میں فرق ہے۔ پھر خطیب نے لکھا کہ سائل نے یہ سوال ان سے مکہ میں کیا تھا جبکہ دیگر روایات میں ہے کہ یہ سوال حجاز میں نہیں بلکہ عراق میں ہوا اور اسی طرح یہ سوال کرنے والا نہ تو مجہول آدمی تھا اور نہ ہی حجازی تھا بلکہ معروف تھا اور عراقی تھا اور وہ امام ابو عمرو بن العلاء البصری ہی تھے جیسا کہ خطیب سے اس خبر سے متعلق پہلے کے حوالہ جات میں مذکور ہے۔ اور مثقل چیز کے ساتھ قتل کرنے کے متعلق سوال تو فقہاء کے درمیان معروف ہے نہ کہ مطلقا پتھر کے ساتھ قتل کرنے کے بارے میں۔ اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو ابراہیم الحربی جیسے آدمی سے مخفی نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ فقہ اور حدیث میں امام تھا تو اس روایت کا بوجھ یقینا اس سے نچلے کسی راوی نے اٹھایا ہے اور لو انه حتى يرميه کے الفاظ خطیب کی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں، میں نے  نہیں دیکھے اور وہ ان کو نقل کرنے میں منفرد ہے اور مجھے معلوم نہیں یہ کس لغت کے الفاظ ہیں۔ عبرانی زبان کے ہیں یا سریانی زبان کے (کیونکہ عربی لحاظ سے یہ کلام درست نہیں ہے) اور جو الجاحظ کی کتاب البيان والتبيين اور ابن عبد ربہ کی کتاب العقد الفرید وغیرہ ادب کی کتابوں میں سوال اور جواب کے صیغہ سے مذکور ہے تو اس میں اس جیسا خلط ملط نہیں ہے. بلکہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف جو یہ نسبت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا 《لَا وَلَوْ رَمَاهُ بِأَبا قبيس》 تو یہ الفاظ مطلقاً کسی کتاب میں وارد نہیں ہوئے کسی ایک ایسی سند کے ساتھ جس میں اس سند جیسی خرابیاں ہوں۔ اور ادب کی کتابیں ایسے طریقہ پر لکھی گئی ہیں جو گہری سوچ و بچار کا طریقہ نہیں ہے اور پہلی وہ کتاب جس میں ہم نے یہ واقعہ دیکھا وہ الجاحظ البصری کی کتاب ہے اور شاید اس نے یہ واقعہ ابو عمرو بن العلاء البصری کے کسی ساتھی سے سنا ہو اور اس کے الفاظ دوسروں کے الفاظ سے علیحدہ ہوں پھر اس کلمہ کی وجہ سے مخالفین بہت خوش ہوئے تا کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی لغت میں کمزوری پر دلیل بنا سکیں اور عربی شاعر کا قول شواہد عربیہ میں معروف ہے (یعنی کسی کلام کے مطابق عربی شاعر کا ہو تو اس کلام کا عربی میں صحیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو یہاں بھی شاعر کا کلام ثابت ہے اس لیے اس کلام کو غلط قرار دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے) ان اباها و ابا اباها 

قد بلغا في المجد غايتاها 

بے شک اس عورت کا باپ اور دادا دونوں بزرگی میں درجہ کو پہنچے۔


اگراعتراض ہے کہ امام ابو حنیفہ نے باء جارہ داخل ہونے کے باوجود 《ابا قیس 》 پڑھا ہے تو اس شعر میں بھی 《وابا اباها 》 میں پہلا 《 ابا 》مضاف ہے اور آگے 《ابیھا》 ہونا چاہیے۔ مگر شاعر 《اباها》 ہی کہہ رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ《 اب》 پر اگر جارہ داخل ہو تو اس کو الف کے ساتھ《 ابا 》پڑھا جا سکتا ہے اور 《اب》 اگر یا متکلم کے علاوہ کسی اور اسم کی طرف مضاف ہو تو اضافت کے وقت اس کو تمام حالتوں (رفعتی نصبی اور جری) میں الف کے ساتھ اس کا استعمال عرب کے کئی قبائل کی لغت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ حسنین بن نزار   قیس عیلان اور بني الحارث بن کعب اور یہی لغت ہے اہل کوفہ کی۔ اور امام ابو حنیفہ بھی کوفی ہیں۔ (تو اگر انہوں نے اپنی لغت کے مطابق کلام کیا ہے تو اعتراض کیسا؟) بلکہ یہ لغت تو حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بھی ہے کیونکہ انہوں نے فرمایا 《انت ابا جهل》 (حالانکہ مشہور قاعدہ کے مطابق ابو جاہل ہونا چاہیے تھا جیسا کہ ان کی یہ کلام صحیح بخاری میں ہے۔ اور امام کسائی نے یہ لغت بني الحارث اور زبید اور ختم اور ہمدان کی طرف منسوب کی ہے اور ابوالخطاب نے اس لغت کی نسبت بنو کنانہ کی طرف کی ہے اور ان میں سے بعض نے بنو العنبر اور بنو النجم اور ربیعہ کے بعض خاندانوں کی طرف اس لغت کی نسبت کی ہے نیز کسائی، ابو زید ابوالخطاب اور ابوالحسن الاخفش جیسے ائمہ عربیت سے یہ لغت منقول ہے تو اس کے بعد انکار کے حیلے بہانے کرنا یقینا مردود ہے۔ اگر آپ اس بارہ میں تفصیل دیکھنا چاہتے ہیں تو امام بدر الدین العینی کی الشواهد الكبرى کى طرف مراجعت کریں تو جو کلام عرب کے اتنے قبائل کی لغت کے موافق ہو تو اس کو صرف وہی آدمی غلطی شمار کرے گا جو علم نحو کی چند مختصر کتابوں کے علاوہ باقی کتابوں سے ناواقف ہو۔ پھر یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ امام صاحب کی کلام میں 《 ابی قبیس 》سے مراد وہ بلند پہاڑ نہیں جو مکہ میں ہے اس لیے کہ مسعود بن شبیہ نے اپنی کتاب التعلیم میں روایت کی ہے کہ ابن الجھم نے فراء کے واسطہ سے قاسم بن معن کا قول نقل کیا ہے کہ ابا قبیس اس لکڑی کا نام ہے جس پر گوشت لٹکایا جاتا ہے (یعنی قصاب جس پر عام طور پر گوشت

لٹکاتے ہیں اس لکڑی کو ابا قبیس کہتے ہیں) اور ابو سعید السیرانی نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے اپنی کلام میں اباقیس سے یہی لکڑی مراد لی ہے۔ الخ (التعلیم کا حوالہ مکمل ہوا)

تو ابو قبیس خیمے اور چھت کے ستونوں والی لکڑی کے قبیل سے ہے۔ اور شاید کہ اس جیسی لکڑی کو ابو قبیس نام دینے کی وجہ یہ ہو کہ وہ لکڑی کے ستونوں کی قسم سے ہے  جن کی، حالت تو یہ ہونی چاہیے کہ ان کو آگ سینکنے کے لیے جلانا چاہیے اور اس واقعہ میں مکہ کا ذکر نہیں ہے اور پختہ بات ہے کہ اس کا اضافہ اس آدمی نے کیا ہے جو وہم پیدا کرنا چاہتا ہے کہ بے شک اس سے مراد ابو قیس پہاڑ ہے تا کہ مثقل چیز کے ساتھ قتل کے

بارہ میں امام ابو حنیفہ پر بہت زیادہ عیب لگایا جا سکے۔ حالانکہ یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ پہاڑ تو آلہ ضرب بن ہی نہیں سکتا اور امام ابو حنیفہ کی رائے مثقل چیز کے ساتھ قتل کے بارہ میں وہی ہے جو امام محمد نے کتاب الاثار میں نقل کی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے حماد کے واسطہ سے حضرت ابراہیم نخعی کا یہ قول ہمیں نقل کیا کہ قتل کی تین صورتیں ہیں۔ 

قتل خطاء 

قتل عمد  

قتل شبہ عمد۔ 

پس قتل خطاء یہ ہے کہ تو اسلحہ یا کسی اور (تیز دھار) چیز کے ساتھ کسی چیز کو مارنا چاہے اور وہ (یعنی جو مرا ہے اس کو مارنے کا ارادہ نہ تھا) تیسرے صاحب (یعنی کسی آدمی کو لگ جائے اور وہ مر جائے تو اس میں دیت ہے جس میں پانچ قسم کے اونٹ ہوں گے۔ (بیس اونٹ ایسے جن کی عمریں چار اور پانچ کے درمیان ہوں اور بیس اونٹ تین اور چار سال کی درمیانی عمر والے اور بیس اونٹ دو اور تین سال کی درمیانی عمر والے اور بیس اونٹنیاں دو اور تین سال کی درمیانی عمر والی اور بیس اونٹنیاں ایک اور دو سال کی درمیانی عمر والی) اور قتل عمد یہ ہے کہ جو مرا ہے، اس کو مارنا مقصود تھا۔ پھر اس کو اسلحہ کے ساتھ مارا تو اس میں قصاص ہے (یعنی اس کو بدلہ میں قتل کیا جائے گا) مگر یہ کہ مقتول کے ورثاء صلح کرلیں یا معاف کر دیں۔ اور قتل شبہ عمد یہ ہے کہ تو کسی کو اسلحہ کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ مارنے کا ارادہ کرے تو اس میں قاتل کی عاقلہ (برادری یا ہم پیشہ لوگ) پر دیت مغلظه ہوگی جبکہ اس صورت میں وہ آدمی مر جائے جس کو ضرب لگی ہے۔ امام محمد نے فرمایا کہ اس نظریہ پر ہمارا عمل ہے۔ مگر ایک بات میں اختلاف ہے۔ وہ یہ کہ اگر ایسی چیز کے ساتھ مارا کہ وہ اسلحہ تو نہیں مگر اسلحہ کے قائم مقام یا اس سے سخت ہو سکتی ہے تو اس میں بھی قصاص ہوگا۔ اور امام ابو حنیفہ کا پہلا قول یہی تھا۔ اور ان کا آخری قول یہ ہے کہ صرف اسلحہ سے مارنے کی صورت میں قصاص ہے۔ الخ۔ (کتاب الآثار کا حوالہ مکمل ہوا) 

اور اس سے واضح ہو گیا کہ امام ابو حنیفہ نے بالاخر اس مسئلہ میں امام ابراہیم نخعی کے قول کی اتباع کی ہے۔ اور اسلحہ کے ساتھ قتل جس میں عمد کا معنی کامل پایا جاتا ہے اس میں اور اسلحہ کے بغیر کسی اور چیز سے قتل کرنے میں فرق کیا ہے تا کہ ناحق کسی کو قتل کرنے کے بارے میں جو تشدید وارد ہوئی اس سے بچ جائیں اور مثقل چیز کے ساتھ قتل کے حکم میں امام ابو حنیفہ کے دلائل ان کے مذہب پر لکھی گئی کتابوں میں اور ان کتابوں میں موجود ہیں جن مسائل کے بارہ میں پیش کی گئی احادیث تخریج کی گئی ہے ۔ خصوصا نصب الرایہ 4/330 اور ابوبکر الرازی کی احکام القرآن 2/228 میں تفصیل سے موجود ہے۔اور پھر اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ائمہ سلف میں سے ابراہیم النخعی، امام شعبی، حماد بن ابی سلیمان ، الحکم بن عقبہ ، امام ثوری ، الحسن بن صالح وغیرہم جیسے بہت سے حضرات ہیں جس کی تفصیل مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں مذکور ہے۔ اور بے شک نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، مسند احمد، مسند ابن راہویہ اور ابن ابی شیبہ وغیرہ میں اس مذہب کی تائید کرنے والی صحیح احادیث اور موجود ہیں۔ اور بہر حال وہ روایت جس میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے اس یہودی کا سر پتھر کے ساتھ کچل دیا تھا جس نے ایک لڑکی کا سر پتھر کے ساتھ کچلا تھا۔ تو امام ابو حنیفہ نے اس روایت کی کمزوریوں کو واضح کیا ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔ پس اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ پر طعن و تشنیع کرنے کی وجہ سے ان ائمہ پر بھی طعن و تشنیع ہوگی جو اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ہیں اور ان احادیث پر بھی طعن و تشنیع ہوگی جن کو انہوں نے دلیل بنایا ہے۔ اگرچہ اس بارہ میں حنفی مذہب میں فتویٰ تو امامین (امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے کے مطابق ہے کہ مثقل چیز کے ساتھ جان بوجھ قتل کرنے کی صورت میں قصاص واجب ہوتا ہے۔ اور مسائل اجتہادیہ میں (دلائل سے کسی پہلو کو رائج قرار دیتا تو درست ہے مگر طعن و تشنیع درست نہیں ہے۔ پس جو شخص اس واقعہ کے سیاق و سباق کے ساتھ خبر کا احاطہ کرے گا تو وہ یقینا جان لے گا کہ اس مذکورہ خبر کا بالفرض ثبوت بھی ہو جائے تب بھی امام ابو حنیفہ پر طعن و تشنیع کرنا ان مخالفین کو فائدہ نہیں دیتا۔ نہ مثقل چیز کے ساتھ قتل کرنے کے بارہ میں ان کی کے لحاظ سے اور نہ ان کو عربیت میں کمزور ثابت کرنے کی دلیل کے لحاظ جیسا بہت سے مالکیہ اور شوافع نے کیا ہے۔ بلکہ عربیت میں ضعیف وہ ہے جس نے علوم عربیہ کی گود کے علاوہ کسی اور گود میں تربیت پائی اور عرب کے قبائل کے محاورات اور ان کے استعمال کے وجوہ سے متعلق ائمہ کی لکھی ہوئی چیزوں سے ناواقف ہے۔ اور واضح عربی زبان کی وسعت پر اس کی معلومات حاوی نہیں ہیں تو ایسا آدمی جب طعن و تشنیع کرتا ہے تو انتہائی  سخت قسم کی طعن و تشنیع خود اسی کی طرف لوٹتی ہے اور اس قسم کی ایک اور عبارت ہے جو الاصمعی سے نقل کی گئی ہے۔ بعض اوقات وہ بھی ان (مخالفین) میں سے بعض کے ہاں امام صاحب کی لغت میں کمزوری پر دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے جو صاحب قاموس مجد الدین الفيروز آبادی نے عقل کے مادہ کے بارے میں کہی ہے جہاں اس نے کہا اور شعبی کا قول《 لا تعقل العاقلة عمدا ولا عبدا》 قتل عمد کی اور غلام کی دیت عاقلہ نہیں دیتی) اور یہ حدیث نہیں ہے جیسا کہ جوہری نے وہم کیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی آزاد غلام پر جنایت کرے (تو عاقلہ پر اس کی دیت نہ ہوگی) نہ یہ کہ غلام آزاد آدمی پر جنایت کرے کہ کوئی غلام آزاد آدمی کو مار ڈالے تو غلام کی عاقلہ پر دیت نہیں ہے) جیسا کہ امام ابو حنیفہ نے وہم کیا ہے اس لیے کہ اگر معنی وہ ہوتا جو وہ (ابو حنیفہ) کرتے ہیں تو کلام اس طرح ہوتی 《 لا تعقل العاقلة عن عبد 》 حالانکہ کلام اس طرح نہیں ہے بلکہ کلام ہے 《ولا تعقل عبدا 》 اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے اس بارہ میں ابو یوسف سے رشید کی موجودگی میں پوچھا تو وہ عقلته اور عقلت عنه کے درمیان ایسا فرق نہ کر سکے کہ میں اس کو سمجھ سکتا پس مجد الدین کا قول 《 كما توهم ابو حنيفة 》 یہ امام اعظم کی شان میں بے ادبی ہے جیسا کہ البدر القرائی نے القول المانوس میں کہا ہے۔ اور الاکمل نے العنایہ میں کہا ہے کہ عقلتہ کا جملہ عقلت عنہ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور حدیث کا سیاق《 لا تعقل العاقلة عمدا 》 اور اس کا سیاق 《ولا صلحا ولا اعترافا》 یہ دونوں اس پر دلالت کرتے ہیں اس لیے کہ بے شک اس کا معنی یہ ہے کہ عاقلہ اس کی طرف سے بھی برداشت نہیں کرتی جس نے جان بوجھ کر قتل کیا۔ اور جس نے صلح کی اور جس نے قتل کا اعتراف کیا۔ الخ

 اور اس کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو امام ابو یوسف نے کتاب الاثار میں نقل کی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے حماد کے واسطہ سے امام ابراہیم سے نقل کیا کہ بے شک انہوں نے فرمايا 《 لا تعقل العاقلة العبد اذا قتل خطأ 》 غلام کی عاقلہ دیت برداشت نہیں کرتی جبکہ اس نے خطا سے قتل کیا ہو۔ 

اور وہ روایت بھی تائید کرتی ہے جو امام محمد بن الحسن نے الموطا میں اس سند کے ساتھ نقل کی ہے عن عبد الرحمن بن ابي الزناد عن ابيه عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال 《لا تعقل العاقلة عمدا ولا صلحا ولا اعترافا ولا ما جنى المملوک عاقلہ》 اس کی دیت نہیں برداشت کرتی جس نے جان بوجھ کر قتل کیا اور نہ اس کی جس نے صلح کر کے مال اپنے ذمہ لیا اور نہ ہی اس کی  جو قتل کا اعتراف کرتا ہے اور نہ اس کی جو مملوک نے جنایت کی۔

امام محمد نے فرمایا اور اسی کو ہم لیتے ہیں اور یہی قول ہے امام ابو حنیفہ اور ہمارے اکثر فقہاء کا الخ۔ 

اس میں 《ولا ما جنى المملوك》 نص ہے اس بات پر کہ ان کے قول 《ولا تعقل العاقلة عبدا》 سے مراد یہ ہے کہ عاقلہ اس غلام کی طرف سے دیت نہیں دیتی جس نے جنایت کی ہے اور یہ غلط بات منسوب کرنے والے کے لیے رسوائی ہے۔ اور امام بیہقی نے شعبی کے طریق سے حضرت عمر سے روایت کی ہے 《 العمد والعبد والصلح والاعتراف لا تعقله العاقلة》 قتل عمد اور غلام کی جنایت اور صلح اور قتل کے اعتراف کی صورت میں عاقلہ دیت برداشت نہیں کرتی۔ اور پھر فرمایا کہ یہ روایت منقطع ہے اور محفوظ یہ ہے کہ یہ امام شعبی کا قول ہے الخ۔ 

اور امام بیہقی کے قول پر مدار رکھ کر ہی مجد الدین نے اس کے حدیث ہونے کی نفی کی ہے اور غلطی کا مرتکب ہوا جیسا کہ وہ امام ابو حنیفہ کے متعلق غلطی کا مرتکب ہوا۔ اور یہ بات جو مجد الدین نے الاصمعی سے ذکر کی ہے یہ مختار الصحاح اور المصباح اور النہایہ اور العباب اور التہذیب میں مذکور ہے لیکن ہم نے کسی کتاب میں نہیں دیکھا کہ اس کی سند اس تک (مجد الدین سے الا صمعی تک) نقل کی گئی ہو۔ 

اور امام ابو عبید القاسم بن سلام نے اپنی کتاب غریب الحدیث کے آخر میں کہا جیسا کہ نصب الرایہ میں ہے کہ حضرات نے العبد کی تاویل میں اختلاف کیا ہے پس امام محمد بن الحسن نے کہا جو کہ ابو عبید کے مشائخ میں سے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ غلام کسی آزاد آدمی کو قتل کرے تو اس کی جنایت (جرم) کی وجہ سے غلام کے مالک کی عاقلہ پر کوئی چیز لازم نہیں ہوتی۔ اور پختہ بات ہے کہ یہ تلافی اس غلام کے رقبہ ہی سے کی جائے گی اور اس کے لیے امام محمد بن الحسن نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا 

حدثنی عبد الرحمن بن ابی الزناد عن ابيه عن عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس قال لا تعقل العاقلة عمدا ولا صلحا ولا اعترافا ولا ما جنى المملوک 

که حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قتل عمد اور جو رقم صلح کی . صورت میں قاتل ذمہ لے اور قتل کا اعتراف کرے اور جو جنایت مملوک کرتا ہے، ان میں عاقلہ دیت برداشت نہیں کرتی (بلکہ قاتل خود برداشت کرے گا) ۔

امام محمد نے فرمایا اور یہی قول ہے امام ابو حنیفہ کل اور ابن ابی لیلی نے کہا کہ پختہ بات ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ غلام پر جنایت کی جائے یعنی اس کو کوئی آزاد آدمی قتل کر دے یا اس کو  زخمی کر دے تو جنایت کرنے والے کی عاقلہ پر کوئی چیز لازم نہیں آتی بلکہ اس غلام کی قیمت جنایت کرنے والے کے مال ہی سے ادا کرنا ہوگی۔ 

ابو عبید نے کہا کہ میں نے الاصمعی سے اس بارہ میں تکرار کیا تو اس نے کہا کہ میرے نزدیک بات وہ صحیح ہے جو ابن ابی لیلی نے کہی ہے اور اسی پر کلام عرب شاہد ہے اور اگر معنی وہ لیا جائے جو امام ابو حنیفہ نے لیا ہے تو عبارت اس طرح ہوتی لا تعقل العاقلة عن عبد حالانکہ اس طرح نہیں ہے بلکہ عبارت ہے ولا تعقل عبدا الخ۔ 

اور جو بات ابو عبید نے الاصمعی سے نقل کی ہے، اس میں صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے ابن ابی لیلی کی رائے کی تائید کی ہے بخلاف اس کے جو صاحب قاموس اور اس کے ساتھیوں نے ذکر کی ہے پس بیشک اس میں تو جہالت کے ساتھ اجتہاد کے مقام پر جرات سے جاپڑنا لازم آتا ہے۔ (یعنی جہالت کا شکار آدمی جرات کرتے ہوئے اجتہاد کے مقام پر فائز شخصیت پر حملہ آور ہوتا ہے)

اور ہم نے جو وضاحت سے الآثار کے حوالہ سے لکھا ہے اس سے اسی مفہوم کا درست ہونا ظاہر ہوتا ہے جو امام ابو حنیفہ نے سمجھا ہے اور جو آدمی تدبر سے کام لیتا ہے اس کے لیے محمد بن الحسن کی وہ دلیل بہت ہی مناسب ہے جو پہلے گزری ہے اور اس مفہوم اور کلام عرب میں جو عقل عنه ودی عنہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ان کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔ بلکہ اس باب میں عقله مطلقاً عقل عنہ کے معنی میں ہے خواہ عن کو حذف کریں یا اس کو ذکر کریں اس لیے کہ بیشک اصل کلام یہ ہے عقل فلان قوائم الجمال ليدفعها دية عن فلان کہ فلاں آدمی نے اونٹوں کے پاؤں باندھ دیے ہیں تا کہ وہ فلان کی دیت میں دے دے۔ تو مفعول صریح سے بے نیاز ہوئے اور عن کو حذف کر کے اس کلام کو مدفوع عنہ سے ملا دیا اور اس کو عقلہ پڑھنے لگے اور معنی یہ ہے کہ اس آدمی نے اس کی جانب سے دیت دی۔

 اور یہ عربی زبان کے اسرار میں سے ہے جن کو سمجھنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو لغت عربی میں ماہر ہے اور عربیت میں لوگوں کے مقام کا درجہ جمانے میں رائے رکھتا ہے اور جو آثار حضرت عمر حضرت ابن عباس ابراہیم نخعی اور شعبی کے روایت کیے گئے ہیں، ان تمام کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے سمجھا ہے۔

 اور الاصمعی ایسا نہیں ہے کہ ابو یوسف کے سامنے اس طرح کی کم عقلی کا مظاہرہ کر  سکے بلکہ وہ تو ان کے ساتھ انتہائی ادب سے پیش آتا تھا۔ پس نوادر الا صمعی میں ہے کہ اسمعی نے کہا کہ ہم آپس میں اپنی دلی آرزوؤں کا اظہار کر رہے تھے تو میں نے ابو یوسف" سے پوچھا کہ بیشک اللہ تعالی نے تجھے جس مقام تک پہنچا دیا ہے، کیا تو نے کبھی اس سے زائد کی تمنا بھی کی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں چاہتا ہوں کہ جمال میں ابن ابی لیلی جیسا اور زہد (پرہیز گاری) میں مسعربن کدام جیسا اور فقہ میں ابو حنیفہ جیسا ہو جاؤں۔ اصمعی نے کہا کہ میں نے اس کا ذکر امیر المومنین یعنی الرشید کے سامنے کیا تو اس نے کہا کہ ابو یوسف نے جو آرزو کی ہے، وہ تو خلافت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور اگر ہم فرض کریں کہ بیشک الاصمعی ان لوگوں میں سے تھا جو امام صاحب کے ساتھیوں اور ساتھیوں کے ساتھیوں کے سامنے تو ایسی باتیں کہتا تھا مگر دوسرے لوگوں سے کرتا تھا اور سامنے خوشی ظاہر کرتا اور پس پشت طعن و تشنیع کیا کرتا تھا اور ہم اس سے اس چیز کو بعید نہیں سمجھتے تو اس جیسے آدمی کی بات کا کوئی وزن نہیں رہتا۔ پس اگر آپ اس تفصیل کو کافی نہیں سمجھتے جو ضعفاء کے بارہ میں لکھی گئی کتابوں میں ابو زید الانصاری جیسے آدمی کا اس کے متعلق قول ہے تو آپ ابو القاسم علی بن حمزة البصری کی کتاب التنبيهات على اغاليط الروايات کا مطالعہ ضرور کریں تا کہ آپ اس حلق سے بزور بات نکالنے والے کی غلطیوں پر اور لوگوں کا کلام نقل کرنے میں اس کی امانت داری پر مطلع ہو جائیں۔ اور جو الاصمعی سے روایت کی گئی ہے اس کے رد کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ پس واضح ہو گیا کہ لغت میں ابو حنیفہ کو کمزور ثابت کرنے کے باب میں ابو قبیس والے افسانہ کو اور《 فلم يفرق بين عقلته وعقلت عنه حتى فهمته 》 والی بناوٹی بات کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے اس لیے کہ ائمہ (اربعہ) میں امام ابو حنیفہ ہی وہ ہیں جنہوں نے علوم عربیہ کے گہوارہ میں نشوونما پائی اور عربی گھرانے میں پرورش پائی اور اسرار عربیہ میں راسخ ہیں  یہاں تک کہ بیشک ابو سعید السیرافی اور ابو علی الفارسی اور ابن جنی جیسے عربیت کے ستونوں نے باب الایمان میں پائے جانے والے ان کے الفاظ کی شرح میں کتابیں لکھی ہیں اور ان کے لغت عربیہ میں اطلاع کا دائرہ وسیع ہونے پر وہ انتہائی متعجب ہیں اور بیشک اللہ تعالٰی نے اہل بصرہ اور اہل کوفہ کو عرب کے دیگر شہروں میں فصیح قبائل کی لغت نقل کرنے اور اس کو مدون کرنے اور اس کو علم اور فن بنانے میں امتیازی حیثیت عطا فرمائی ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی کی کتاب الزہرج میں ہے اور اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ غیر عربی جماعتوں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور ان کا مصر، شام، یمن اور بحرین کے مختلف عجمیوں اور حجاز اور طائف کے شہریوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ان میں سے کس سے لغت کی جا سکتی ہے اور کس سے نہیں لی جا سکتی۔ اور اس کا اور اس کا کچھ حصہ فارابی کی کتاب الالفاظ سے نقل کیا گیا ہے اور اس مقام میں اس کی صراحت نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اور امام سیوطی نے اپنی کتاب المزہر میں یہ بھی کہا ہے کہ ابو الطیب لغوی نے اپنی کتاب مراتب النحویین میں کہا ہے کہ عربیت کا علم صرف ان دو شہروں کوفہ اور بصرہ میں ہے۔ پس رہا مدینہ الرسول علم تو ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں عربیت کا

کوئی امام ہو۔ اور الاصمعی نے کہا کہ میں مدینہ میں کافی عرصہ ٹھہرا رہا۔ میں نے وہاں ایک بھی قصیدہ صحیحہ نہیں دیکھا (جو اغلاط سے پاک ہو) یا تو مصحفة تھا (کہ اس میں لفظی غلطیاں تھیں) یا مصنوعہ (بناوٹی) تھا الخ

اور بدیہی بات ہے کہ امام ابو حنیفہ کے زمانہ میں کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ فقہ میں بڑے بڑے فقہاء کو اپنے پیچھے چلائے جب تک کہ اجتہاد کے تمام اطراف میں اس کا علم وسیع نہ ہو چہ جائیکہ وہ لغت عربیہ میں کمزور ہو اور علم بیان پہلی چیز ہے جس کی جانب ایک عالم دعوت دینے میں محتاج ہوتا ہے بلکہ ہر زمانہ میں معاملہ اسی طرح رہا ہے۔ پس کم عقلی اور کمزور دینی ہے کہ ابو حنیفہ کی عربیت میں کمزوری کی طرف نسبت کی جائے اور اس کے لیے صرف دو افسانوں کو دلیل میں پیش کیا جائے۔ اور بنو امیہ کے آخر زمانہ میں حجاز میں کافی عرصہ ٹہرنے نے بھی ان کی لغت کو برباد نہیں کیا اگرچہ حرمین کے شیوخ میں بہت سے ایسے تھے جو بہت سی غلطیاں کرنے والے تھے ان لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جو عجم سے آتے رہے تو ان سے میل جول کی وجہ سے زبان صاف نہ رہی اور یہ سلسلہ تابعین کے آخر زمانہ تک رہا اور وہاں ایسے ائمہ بھی نہ پائے جاتے تھے جو لغت میں غلطی کو درست کرنے کے لیے فارغ ہوتے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پس آپ نافع کو جو حضرت ابن عمر کے آزاد کردہ غلام تھے اور ربیعہ اور ان کے اصحاب ہی کو لے لیں کہ کتابوں میں کس قدر ان کی اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے اور لغت میں امام شافعی کی حالت ظاہر ہونا تو ابن فارس کے ان کے مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف منتقل ہونے کا سبب بنا تھا اور ابن درید اور الازہری کا ان کلمات معروفہ کو درست کرنے کی کوشش کرنا واضح ہے اور امام شافعی کی لغت کے بارے میں امام الحرمین کا قول البرہان میں واضح ہے۔ رہے امام احمد تو آپ مسائل ابی داؤد اور اسحاق بن منصور الکوسج اور عبد اللہ بن احمد کو لے لیں تو آپ ایک صفحہ بھی قواعد کی صحت کے مطابق نہ پڑھ سکیں گے بلکہ لغت اور نحو میں غلطیوں کی کثرت آپ کا سر جھکا دے گی اور اگر فرض کر لیا جائے کہ امام ابو حنیفہ کی طرف جو روایات منسوب کی گئی ہیں، وہ ثابت ہیں اور یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ الفاظ غلط ہیں تو کیا ان سے زندگی بھر میں ان کے سوا کوئی اور غلطی شمار کی گئی ہے۔ اور باقی ائمہ سے چشم پوشی اور امام ابو حنیفہ سے جو روایت کی گئی ہے اس کی تشہیر کرنے میں بد ترین تعصب کے سوا آخر کیا راز ہے؟ اور کون ہے جو کلام کرتے وقت ذرا بھی غلطی نہ کرے۔ اور ابو عمرو بن العلاء سے حکایت کی گئی ہے کہ بیشک وہ جب اپنے گھر والوں سے کلام کرتا تو اعراب کے لحاظ سے درست کلام نہ کرتا پھر جب وہ جامع مسجد پہنچتا تو اعراب کو خلط ملط کرتا پھر جب وہ المرید جو کہ بصرہ میں ادب کا بازار تھا وہاں پہنچتا تو اس پر ایک حرف کا مواخذہ نہ کیا جاتا اور جب اس بارہ میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ جب ہم ان سے ان کی طبیعتوں کے خلاف کلام کرتے ہیں تو ہم ان کے نفوس پر بوجھ ڈالتے ہیں (اس لیے لحاظ رکھ کر بات کرنا پڑتی ہے)

اور فراء کے بارے میں حکایت کی گئی ہے کہ بیشک وہ رشید کے پاس گیا اور کلام میں غلطی کی پھر اس نے کہا اے امیر المومنین بیشک دیہاتیوں کی طبیعت اعراب کا لحاظ رکھنا ہے اور شہریوں کی طبیعتیں غلطی کر جاتی ہیں۔ پس جب میں بہت سوچ بچار سے بات کروں تو غلطی نہیں کرتا اور جب طبیعت کی جانب لوٹتا ہوں تو غلطی کرتا ہوں تو رشید نے اس بات کو بہت پسند کیا اور مبرد نے اپنی کتاب الحنہ میں ذکر کیا ہے کہ محمد بن القاسم التمائی نے الاصمعی سے روایت کی ہے کہ الاصمعی نے کہا کہ میں مدینہ میں حضرت مالک بن انس کے پاس گیا تو میں کبھی کسی سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوا جتنا ان سے ہوا تو جب انہوں نے کلام کیا تو غلطی کرنے لگے پس کہا مطرنا البارحة مطرا اى مطرا تو اس کے بعد ان کا مقام میری نظر میں گر گیا تو میں نے کہا اے ابو عبد اللہ ! بیشک آپ علم کے اس مقام کو پہنچ گئے ہیں پس کاش کہ آپ اپنی زبان بھی درست کر لیں تو انہوں نے کہا پس کیسے ہوتا اگر تم نے ربیعہ کو دیکھا ہوتا ہم اس کو کہا کرتے تھے کہ آپ نے صبح کس حال میں کی تو وہ کہتے بِخَيْرًا بِخَيرًا اصمعی نے کہا کہ اس وقت انہوں نے اپنے لیے غلطی میں اس کو پیشوا اور عذر بنا لیا۔ اور احمد بن فارس نے اپنی کتاب الصاحبی ص 31 میں کہا جبکہ وہ برا کہنے والا تھا اس کو جو امام مالک پر اپنی عام گو گفتگو میں غلطی کرنے کا عیب لگانے والا تھا کہ انہوں نے کہا 《 مطرنا البارحة مطرا ای مطرا 》ابن فارس نے کہا کہ لوگ ہمیشہ غلطی کر جاتے ہیں اور امام مالک بھی باہمی گفتگو میں غلطی کر جاتے تا کہ ظاہر کریں کہ وہ بھی عوام کی عادت پر ہیں تو جو آدمی خواص سے انصاف کرتا ہے وہ اس کا عیب ان پر نہیں لگاتا اور پختہ بات ہے کہ عیب اس پر ہے جو لغت کے لحاظ سے ایسی غلطی کرتا ہے کہ جس سے شریعت کا حکم ہی بدل جاتا ہو والله المستعان الخ.

 کیا مخالفین میں کوئی ایک بھی رجل رشید نہیں جو اس طرح کا مستحسن عذر امام ابو حنیفہ کی طرف سے پیش کر دیتا (جس طرح کا عذر ابن فارس نے تمام مالک کی طرف سے پیش کیا ہے بجائے اس کے کہ وہ سارے تعصب اور پروپیگنڈہ کے بگل میں پھونکیں مارتے جاتے۔ اگر زندگی بھر میں ان سے ایک آدھ غلطی فرض کر بھی لی جائے تو باقی عمر کا کلام تو درست ہے لیکن لوگ سرچشمہ ہیں (جو ان کے اندر ہوتا ہے، وہی باہر لگتا ہے) اور ابن فارس لغت کا مشہور امام ہے اور وہ ایسی شخصیت ہے جس کے بارے میں المیدانی نے کہا کہ بیشک اس نے جب امام شافعی کے غلط الفاظ کو درست کرنا شروع کیا تو اس سے اس بارہ میں پوچھا گیا تو اس نے کہا هذا اصلاح الفاسد یہ برباد کی اصلاح ہے (یعنی مشکل کام ہے) اور جب اس پر ان اغلاط کی بہتات ہو گئی تو وہ ان کے مذہب سے نفرت کرنے لگا اور امام مالک کے مذہب کی طرف منتقل ہو گیا تو اس کو کہا گیا کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کی طرف کیوں نقل نہیں ہوا تو اس نے کہا کہ اس بات کا خوف کھاتے ہوئے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ مال و دولت یا عمدہ کے لالچ میں ان کے مذہب کی طرف منتقل ہوا ہے (اس لیے کہ اس وقت خنفی حکمرانوں کا دور دورہ تھا) جیسا کہ مسعود بن

شیبہ کی کتاب التعلیم میں ہے۔ اور امام شافعی کے کلام میں سے جس پر گرفت کی گئی ہے، یہ بھی ہے جو نے 《ان لا تعولوا 》 کی تفسیر لا یکثر عیالكم سے کی ہے (کہ تمہارے عیال زیادہ نہ ہو جائیں حالانکہ اس کا معنی الفراء الکسائی، الاخفش، الزجاجي الرمانی اور ابو علی الفارسی وغیر ہم جیسے ائمہ جمہور کے نزدیک ان لا تمیلوا ہے (یعنی اگر تمہیں ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں لانے کی صورت میں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو ایک ہی عورت پر اکتفا کرو یہ بات زیادہ قریب ہے کہ تم ایک کی طرف نہ جھک پڑو گے) ۔

اور انہوں نے 《نار مٶصدة 》 میں موصدة کی تفسیر حارہ سے کی ہے حلانکہ اس کا معنی محیطة احاطہ کرنے والی ہے اور اس میں علماء کا اتفاق ہے۔ 

اور (وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِح) مُكَلِبينَ کی تفسیر انہوں نے معلمى الكلاب سے کی ہے (سکھائے ہوئے کتے) حالانکہ اس کا معنی مُرْسَلِي الكِلاب چھوڑے ہوئے

کتے) ہے۔

 اور حضرت عمرؓ کا قول ہے لا شفعة في البئر ولا في الفحل کہ کنویں اور محل میں شفعہ نہیں ہے تو امام شافعی نے محل کا معنی نر اونٹ اور بیل کیا ہے حالانکہ یہاں الفحل سے مراد فحل النخل ہے (یعنی کھجوروں کے درخت کہ زمین کے بغیر صرف درختوں میں شفعہ نہیں ہے)

اور تصریہ کے بارے میں ان کا قول ہے کہ یہ ربط سے ہے (یعنی باندھنا) حالانکہ بیشک یہ جمع الماء فی الحوض سے ہے (یعنی حوض میں پانی جمع کرنا) یہاں تک کہ ابو عبید نے کہا کہ اگر مصراہ اس کے مطابق ہوتا جو انہوں نے خیال کیا ہے تو یہ لفظ مصراة نہ ہوتا بلکہ مصرورہ ہوتا۔

اور حضرت عمرؓ کا قول كانهم اليهود قد خرجوا من فهرهم (گویا که یهود بیشک نکلے اپنے عبادت خانوں سے) تو امام شافعی نے فہر کا معنی کیا کہ ایسا گھر جو بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہو حالانکہ اس کا معنی ان کی عبادت گاہ یا ان کے اجتماع گاہ اور ان کی درس گاہیں ہیں خواہ عمارت میں ہوں یا صحراء میں۔

اور وہ پانی کی صفت المالح کے ساتھ کرتے ہیں حلانکہ بیشک اس کے ساتھ اس کی وصف نہیں کی جاتی اور قرآن کریم میں ملح اجاج ہے۔ اور بہر حال المالح تو اس کے ساتھ مچھلی وغیرہ کی وصف کی جاتی ہے۔ اور ان کا یہ کلام بھی ہے ثوب نسوی لفظة عامية اور ان کا یہ قول بھی ہے کہ العفریت عین کے فتحہ کے ساتھ ہے حالانکہ ایسا کسی نے نہیں کہا۔

اور ان کا کلام ہے کہ اشلیت الکلب میں اشلیت زجرت کے معنی میں ہے  حالانکہ یہ معنی درست نہیں۔ درست یہ ہے کہ یہ اغریت کے معنی میں ہے جیسا کہ ثعلب وغیرہ نے کہا ہے۔ اور زجر اور اغراء کے معنی میں فرق بالکل واضح ہے کہ زجر ڈانٹنے کو کہتے ہیں اور اغراء ابھارنے اور برا نگیختہ کرنے کے معنی میں ہے) اور ان کا قول مختصر المزنی من وليست الاذنان من الوجه فيغسلان ہے حالانکہ یہ فیغسلا ہونا چاہئے اور امام شافعی کے اس کلام میں فیغسلان کے آخر میں نون ہے مگر کتاب کے طبع کرنے والے نے اپنے ہیر پھیر سے اس کو حذف کر دیا ہے اور اس طابع کی علم میں امانت اسی طرح ہے جیسا کہ اس کی امانت مرحوم مصطفی باشا کے واقعہ میں ہے جو کہ علمی مجالس اور کچہریوں بلکہ بہت چلنے والی خبروں میں بھی مشہور ہے۔ 

اور امام شافعی کا قول کہ واؤ ترتیب کے لیے اور باء تبعیض کے ہے، یہ ایسی بات ہے کہ ائمہ لسان میں سے اس کو کوئی بھی نہیں جانتا بلکہ واو مطلقاً جمع کے لیے اور باء الصاق کے لیے آتی ہے۔ اور ان (امام شافعی) کی اس جیسی اور بھی مثالیں ہیں جن سے چشم پوشی کی جاتی ہے جیسا کہ زمخشری نے اپنی تفسیر میں چشم پوشی سے کام لیا ہے اور الاتقانی جیسے حضرات نے اصول میں لکھی گئی اپنی کتابوں میں اس پر سختی کا برتاؤ کیا ہے بلکہ محمد بن یحیی نے جاحظ سے نقل کیا ہے کہ بیشک اس نے کہا کہ میں نے امام شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا وہ آواز دے رہے تھے یا مُعْشَرَ المَلاحُونَ تو میں نے ان سے کہا تیرا گھر تباہ ہو تو نے کلام میں غلطی کی ہے تو وہ کہنے لگے کہ یہ اہل سیف الحجاز (حجاز کے ساحل والوں) کی زبان ہے تو میں نے کہا کہ اسناد میں غلطی کرنا تو پہلی غلطی سے بھی بڑی ہے جیسا کہ یہ واقعہ کتاب التعلیم میں ہے۔ اور ہم لغت کے لحاظ سے امام اعظم کے مقام پر دیدہ دلیری سے حملہ آوروں کو روکنے کے لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں ان کو وہ چیزیں یاد دلا کر جو ان کے ائمہ کے بارے میں لوگوں نے تحریر کی ہیں۔ اور حق بات یہ ہے کہ ائمہ متبوعین عظمت میں اس حد سے بہت بلند ہیں کہ کوئی ان پر لغت میں ضعف کا عیب لگائے اس لیے کہ ان میں اجتہاد کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اور ان شرائط میں لغت کو اس طرح جاننا شرط ہے جس طرح جانے کا حق ہے اور بیشک امت کسی اور کی نہیں بلکہ ان ہی کی اتباع پر متفق ہے۔ اور زمانہ در زمانہ امت محمدیہ کمی بیشی کے ساتھ ان کے حصہ میں آتی رہی۔ اور اگر اس میں اللہ تعالی کا کوئی مخفی راز نہ ہوتا تو اس طرح زمانہ در زمانہ امت ان کی پیروی نہ کرتی۔ ذلیل ہوں حیلے کرنے والے جو  بہت کم ہیں مگر بیشک بات سے بات نکلتی ہے (اس لیے یہ بحث طویل ہو گئی) لکھنے میں قلم جو حد اعتدال سے تجاوز کر گیا، اس میں اللہ تعالٰی ہم سے بھی اور ان سے بھی چشم پوشی کا معاملہ فرمائے اور وہ ہمیں بھی اور ان کو بھی تمام احوال میں معاف فرمائے۔ اور ان چیزوں کے ذکر سے مقصد صرف حق کو اس کے نصاب کی طرف لوٹانا ہے اور ا الملک المعظم کی کتاب  میں الجامع الکبیر وغیرہ کے حوالے سے بہت صراحت کے ساتھ اس بارہ میں تفصیلی بحث ہے جو امام صاحب کی لغت عربیہ میں براعت (فوقیت) اور اسرار عربیہ میں ان کی مہارت پر دلالت کرتی ہے اور یہ پر کھے ہوئے دلائل ہیں جن کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو بیمار حس والا ہو اور ذاتی کمینہ ہو۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...