نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

 اعتراض نمبر  7 :  امام ابو حنیفہ نے تُرزقَانِهٖ کی بجائے ترزقَانَهٗ کی قراءة کو صحیح کہا ہے۔


 اعتراض نمبر  7 : 

امام ابو حنیفہ نے تُرزقَانِهٖ کی بجائے ترزقَانَهٗ کی قراءة کو صحیح کہا ہے۔

أخبرني البرقاني، أخبرنا محمد بن العباس الخزاز، حدثنا عمر بن سعد، حدثنا عبد الله بن محمد، حدثني مالك بن أبي بهز البجلي عن عبد الله بن صالح عن أبي يوسف قال: قال لي أبو حنيفة: إنهم يقرؤن حرفا في يوسف يلحنون فيه؟ قلت: ما هو؟ قال:قوله: 《 (لا يأتيكما طعام ترزقانه) 》 يوسف [37] فقلت فكيف هو؟ قال: ترزقانه.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ عام قراءة میں ترزقانہ ہاء کے کسرہ کے ساتھ ہے اور امام ابو حنیفہ نے جو قراءة بتائ اس میں ہاء کے ضمہ کے ساتھ ہے اور  اس روایت کی سند میں (محمد بن العباس ) الخزاز ہے اور اس کا حال پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور اس میں جو عمر ابن سعد ہے، وہ القراطیسی ہے اور عبد اللہ بن محمد وہ ہے جو ابن ابی الدنیا کے نام سے مشہور ہے اور ابو مالک جو ہے وہ محمد بن الصقر بن عبد الرحمن بن بنت مالک بن مغول ہے جو ابن مالک بن مغول کے ساتھ مشہور ہے۔ پس الصقر اور عبد الرحمن دونوں کذاب مشہور ہیں اور عبداللہ بن صالح یہ لیث کا کاتب تھا اور اختلاط کے عارضہ میں مبتلا تھا۔

 اور امام ابو حنیفہ نے جو قراءة بتائی ہے، اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور پختہ بات ہے کہ امام ابو حنیفہ کی قراءة وہی ہے جو عاصم کی روایت ہے جس کو ابی عبد الرحمن السلمی اور زرین حیش نے روایت کیا ہے۔ پس ترزقانہ کی قراءة حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے اور دوسری ترزقانه کی قراءة حضرت ابن مسعود سے مروی ہے اور اس میں کسی قسم کے اعتراض والی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ جو قراءة خطيب نے امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کی ہے، وہ قراءة ان سے (ان کے مذہب میں لکھی گئی) شاذ کتابوں میں بھی نہیں اور نہ اس کتاب میں مذکور ہے جو ابو الفضل محمد بن جعفر الخزاعی نے امام ابو حنیفہ سے منقول قراءة کے بارے میں لکھی ہے۔ اور اس قراءة کی طرف زمخشری اور نسفی نے بھی کان نہیں لگائے حالانکہ انہوں نے ہر اس روایت کی توجیہ کرنے کی اپنے آپ پر ذمہ داری لی جو امام ابو حنیفہ سے مروی ہیں۔ ان دونوں نے یہ خیال کیا کہ الخزاعی نے امام ابو حنیفہ کی قراءۃ کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس نے سچ کہا ہے حالانکہ بیشک آئمہ نے اس کو اس نسبت کرنے میں جھوٹا قرار دیا ہے جو اس نے قراءة کے بارے میں امام صاحب کی طرف نسبت کی ہے۔ پس اس قراءۃ کی توجیہ جو الملک المعظم نے کی ہے اس کی طرف جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

 اعتراض نمبر  7 : 

امام ابو حنیفہ نے تُرزقَانِهٖ کی بجائے ترزقَانَهٗ کی قراءة کو صحیح کہا ہے۔



تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...