سجدوں کے رفع یدین کا ثبوت رئیس محمد ندوی غیرمقلدکی زبانی
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثیں
پہلی حدیث
رئیس محمد ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب نے کہا کہ میرے باپ ابن
عمر نماز میں جب سجدہ کرکے سر اٹھاتے تھے اور قیام کا ارادہ کرتے تھے تو موصوف ابن
عمر رفع الیدین کرتے تھے۔ (جز رفع الیدین حدیث نمبر ۱۳ صفحہ ۵۱،۵۲) مذکور بالا
روایت کی سند صحیح ہے ابن عمر سے اسے روایت کرنے والے ان کے صاحب زادے سالم مشہور
و معروف ثقہ ہیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ ۳۶۰)
حدیث مذکور کی سند کے راوی علاء بن عبد الرحمن
ندوی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’سالم سے اس کے ناقل علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب حرقی
مدنی متوفی ۱۳۹ھ ثقہ و حجت ہیں۔ ان کے پاس احادیث پر مشتمل ان کا تیار کردہ ایک
نسخہ ٔ کتاب تھا جس کی بابت ابن سعد نے کہا:’’ صحیفۃ العلاء بالمدینۃ مشھورۃ
وکان ثقۃ کثیر الحدیث یعنی موصوف علاء کا تحریر کردہ صحیفہ حدیث مدینہ میں مشہور
ہے اور وہ کثیر الحدیث ثقہ راوی ہیں۔ ابن عدی نے کہا : ’’ وللعلاء نسخ یرویھا عنہ الثقات، یعنی علاء
کا تیار کردہ نسخہ احادیث تھا جسے ثقہ رواۃ روایت کرتے ہیں۔ عام اہلِ علم نے موصوف
کو ثقہ و حجت قرار دیا ہے اور ان کی حدیث کے بقیہ رجال ثقہ ہیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ۳۶۱)
اس حدیث معتبر کا واضح مفاد
ندوی صاحب جز رفع یدین والی
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ مذکور کا مفاد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس حدیث معتبر کا واضح مفاد یہ ہے کہ پہلی یا دوسری،
تیسری یا چوتھی رکعت کی کسی قید کے بغیر علی الاطلاق ابن عمر سجدہ سے سر اُٹھاتے
تو رفع الیدین کرتے تھے۔نیز اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ہر سجدہ سے اٹھتے وقت
موصوف ابن عمر رفع الیدین کرتے تھے۔ نیز اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ہر رکعت
کے دوسرے والے سجدہ سے اُٹھتے وقت بھی موصوف ابن عمر رفع الیدین کرتے تھے۔پہلی اور
تیسری رکعت کے آخری سجدہ سے سر اُٹھتے ہی فورًا نمازی تیسری رکعت کے قیام کے لیے
کھڑا ہونے لگتا ہے اور دوسری اور چوتھی رکعت کے سجدہ ٔ اخیرہ سے اُٹھنے کے بعد
قعدہ میں بیٹھتا ہے۔ اس کا لازمی مطلب ہے کہ ابن عمر سجدہ کے وقت رفع الیدین کرتے
تھے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کا کوئی دوسرا معنی و مطلب بتانا خلاف ظاہر ہے اور ظاہر
سے عدول بلا دلیل جائز نہیں۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح طریقہ ٔنماز صفحہ
۳۶۱)
شیخ بدیع الدین راشدی کی غیر مناسب حرکت
ندوی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’جزء رفع الیدین کے تعلیق نگار شیخ ابو محمد بدیع الدین
راشدی نے اس کے ظاہری معنٰی سے عدول کیا
ہے جو مناسب نہیں خصوصا اس صورت میں کہ دوسری روایات سے اس کے ظاہری معنیٰ ہی کی
تائید و تعیین ہوتی ہے ۔کما سیاتی ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح طریقہ ٔنماز صفحہ
۳۶۱)
سجدوں کی رفع یدین کے اثبات اور نفی والی حدیثوں کے
درمیان تطبیق
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ابن عمر سے جو بعض روایات میں
منقول ہے کہ وہ خود اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت سجدہ رفع الیدین
نہیں کرتے تھے تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ
کبھی کبھی بعض مرتبہ سجدہ کے وقت ابن عمر رفع الیدین نہیں بھی کرتے تھے کیوں کہ
سجدہ کے وقت والا رفع الیدین واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ بھی نہیں صرف مستحب و غیر
مؤکدہ سنت ہے جس کا کبھی کبھی بلکہ بسا اوقات چھوڑ دینا جائز ہے۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ ۳۶۱)
حدیث ابن عمر معنوی طور پر مرفوع ہے
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے یعنی صرف فعل ابن عمر ہے مگر
معنوی طور پرمرفوع حدیث نبوی کے حکم میں ہے کیوں کہ ابن عم ہی سے اس معنیٰ و مفہوم
کی مرفوع حدیث بھی منقول ہے جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔ ہم مذکورہ بالا حدیث کو
معنوی طور پر ابن زبیر والی حدیث کی متابع و شاہد سمجھتے ہیں اور آنے والی تفصیل
سے ہماری یہ بات واضح ہو کر منقح ہو جائے گی۔ ناظرین کرام صبر کے ساتھ مطالعہ جاری
رکھیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ ۳۶۰)
دوسری حدیث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’امام ابن ابی شیبہ نے کہاکہ: محارب بن دثار نے کہا کہ میں
نے حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب کو دیکھا کہ موصوف رکوع و سجود کے وقت رفع الیدین
کرتے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جس کے جواب میں ابن عمر نے
فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد اُٹھتے تھے توتکبیر کہتے اور
رفع الیدین کرتے تھے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ :۱؍۲۳۵،۲۳۶) ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ۳۶۲)
مصنف ابن ابی شیبہ والی حدیث کی صحت پر بحث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا حدیث کے سبھی رواہ ثقہ ہیں۔ عاصم بن کلیب پر
صرف اتنا کلام ہے کہ جس روایت کی نقل
میں منفرد ہیں وہ حجت نہیں کیوں
کہ آخری عمر میں موصوف مختلط ہو گئے تھے جن احادیث کی بابت معلوم ہو سکے کہ اختلاط
سے پہلے کی بیان کردہ ہیں وہ حجت ہیں مگر اس بحث میں پڑے بغیر عرض ہے کہ عاصم کی
متابعت اوّلاً اس کے پہلے والی منقول حدیث سے ہوتی ہے جو موصوف کے صاحب زادے سالم
جیسے ثقہ سے مروی ہے وہ موقوف ہونے کے باوصف معنوی طور پر مرفوع ہے جیسا کہ آنے
والی تفصیل سے بات واضح ہوجائے گی۔ ثانیا زیر نظر محارب والی یہ حدیث بذات خود
سالم والی موقوف حدیث کی معنوی متابع ہے اور معنوی متابعت کے ساتھ اس بات پر دلالت
کرتی ہے کہ سالم والی روایت مرفوع کے حکم میں ہے کیوں کہ محارب والی اس روایت میں
صراحت ہے کہ ابن عمر رکوع کے وقت رفع الیدین کی طرح سجدہ کے وقت جو رفع الیدین
کرتے تھے اسے موصوف سنت نبویہ بتلاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ زیر نظر روایت محارب ایک
سالم والی روایت کی متابع ہے تو سالم والی روایت زیر نظر محارب کی متابع ہے اور ان
دونوں کی متابعت کرنے والی ایک تیسری روایت ہم سنن دارقطنی سے ذیل میں درج کر رہے
ہیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز
صفحہ ۳۶۲)
تیسری حدیث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’نافع نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اگر کسی آدمی کو
نماز پڑھتے دیکھتے کہ وہ ہر جھکنے اور اُٹھنے کے وقت رفع الیدین نہیں کر رہا ہے تو
موصوف اس آدمی کو کنکریوں سے مار کر ہر جھکنے اور اُٹھنے کے وقت رفع الیدین کرنے
کا حکم دیتے تھے۔‘‘ ( سنن دار قطنی ج ۱ ص ۲۰۹)مذکورہ بالا حدیث کے رواۃ ثقہ ہیں
صرف اس کے یک راوی عیسی بن عمر ابی عمر ان رملی مجروح ہیں عیسیٰ موصوف کا ترجمہ
لسان المیزان میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موصوف ثقہ نہیں مگر ان سے مذکورہ بالا
روایات کی تائید و متابعت بہرحال ہوتی ہے۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح طریقہ ٔنماز صفحہ
۳۶۳)
چوتھی حدیث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بوقت رکوع رفع الیدین کرتے تھے اور سجدہ کے لیے جھکتے وقت بھی رفع الیدین کرتے
تھے۔ ( رواہ
الطبرانی فی الاوسط وقال ھیثمی فی مجمع الزوائد اسنادہ صحیحص ۱۰۲)امام الھیثمی کی صحیح
قرار دی ہوئی یہ روایت بھی اپنی ہم معنی سابقہ روایات کی متابع ہے اور یہ روایات
سابقہ اس کی متابع ہیں ۔ اس سلسلے میں مزید بحث آگے آ رہی ہے ۔ ‘‘( رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز صفحہ۳ ۳۶)
پانچویں حدیث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مشکل الآثار للطحاوی میں بروایت نصربن علی بن عبد الاعلی
عن عبد اللہ عن نافع مروی ہے کہ ابن عمر نماز میں جھکنے ، اُٹھنے اور رکوع و سجدہ
و قیام کرنے کے وقت نیز دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے اور کہتے تھے
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ ( مشکل الآثار للطحاوی و
المعتصر من المختصر من مشکل الآثار باب رفع الیدین ج ۱ ص۳۷نیز ملاحظہ ہو فتح
الباری باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین حدیث نمبر۳۹ کے تحت ج ۲ ص ۲۲۳)مذکورہ
بالا حدیث صحیح ہے اور اس بات پر بالصراحت دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نماز میں ہر تکبیر و تسمیع پر رفع الیدین کرتے تھے اسے حافظ ابن حجر نے اس
بنا پر شاذ قرار دیا کہ عام مشائخ حفاظ نے نصر بن علی عبد الاعلیٰ عن عبید اللہ عن
نافع کی سند یہی حدیث نقل کی ہے جس میں صرف تحریمہ و رکوع جاتے،رکوع سے اُٹھتے اور
قعدہ ٔ اولیٰ سے تیسری رکعت کے لئے اُٹھتے وقت رفع الیدین کا ذِکر ہے اور ان چار
مواقع کے علاوہ باقی خفض و رفع و سجود و قیام یعنی تکبیر پر رفع الیدین
کا ذِکر نہیں ہے لہٰذا روایت طحاوی میں ان مواقع کے علاوہ ہر تکبیر پر رفع الیدین
کا ذِکر شاذ ہوا ۔مگر ہم کہتے ہیں کہ ان دونوں احادیث کا صرف ایک ہی نماز کے بارے
میں مروی ہونا اگر متحقق طور پر ثابت ہو تو روایت طحاوی پر شاذ ہونے کا حکم لگایا
جا سکتا ہے ورنہ دونوں مختلف مضمون والی روایات کو اگر مختلف اوقات والی نمازوں کے
سلسلے میں مانا جائے اور یہی بات اس بنا پر متحقق اور صحیح ہے کہ دونوں میں سے ہر
صحیح الاسناد روایت میں سے کسی کا رد لازم نہ آئے تو روایت طحاوی پر شاذ کا حکم
لگانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ اس توجیہ کے مطابق دونوں احادیث میں حقیقی اور
معنوی اختلاف ہے ہی نہیں کیوں کہ دونوں دو مختلف وقت نمازوں کے بارے میں وارد ہوئی
ہیں اس لیے دونوں میں سے ہر حدیث کا صحیح ہونا اپنی جگہ پر برقرار ہے۔‘‘( رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ ٔنماز صفحہ ۳۶۳،۳۶۴)
چھٹی حدیث
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا حدیث کو معنوی طور پر حافظ ابن حزم نے اپنی
کتاب المحلی ج ۴ ص ۱۲۸،۱۲۹) میں نقل کیا جس کے الفاظ یہ ہیں : ابن عمر نماز میں
رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت اور سجدہ کے وقت اور ہر دو رکعت کے
درمیان رفع الیدین کرتے تھے ان کا رفع الیدین سینے تک ہوتا تھا۔ ہم عرض کر چکے ہیں
کہ سینے تک رفع الیدین منکبین یعنی مونڈھوں تک رفع الیدین کے تقریبا ہم معنیٰ
ہے۔مذکورہ بالا حدیث کو حافظ ابن حزم نے صحیح قرار دیا ہے اور ان کی کتاب المحلی
کے حاشیہ نگار علامہ شاکر نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے بلکہ ’’اصح الاسناد
‘‘کہا ہے نیز ہم یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ یہ روایت شاذ نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی
علت قادحہ سے یہ محفوظ ہے اور قطعی طور پر قابل حجت و لائق استدلال ہے اور یہ
محفوظ اور صحیح حدیث اپنی ہم معنی ان تمام احادیث موقوفہ و مرفوعہ کی زبر دست قوی
متابع ہے جن کا ذکر ہم کر آئے ہیں اور آگے کرنے والے ہیں۔نیز یہ حدیث تنہا متابع
کے بغیر بذات خود بھی حجت ہے البتہ اپنے متابع کی بدولت اس کی قوت میں غیر معمولی
اضافہ ہوگیا ہے ۔ ‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
رئیس محمد
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’اب ہم مذکورہ بالا احادیث کی ایک اور متابع کا
ذِکر کر رہے ہیں جو حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعاً مروی ہے اور اس کے مطابق حضرت
ابوہریرہ کا عمل بھی تھا ۔نیز اُن سے استفادہ کرنے والے عام تابعین بھی اس کے
مقتضی پر عمل پیرا تھے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ۵ ۳۶)
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ فی الصلوٰۃ
حذو منکبیہ حین یفتح الصلوٰۃ و حین یرکع و حین یسجد یعنی میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز میں بوقت تحریمہ و رکوع اور بوقت سجدہ رفع الیدین
کرتے تھے۔ ( رواہ ابن ماجۃ ،شرح معانی الآثار للطحاوی :۱؍۶۳۱) اس حدیث کے سبھی
رواۃ ثقہ ہیں البتہ اس کے ایک راوی اسماعیل بن عیاش جب غیر شامی رواۃ سے روایت
کرتے ہیں تو وہ بلا متابع قابل استدلال نہیں ہوتی مگر اس کے معنوی متابع و شواہد
بکثرت موجود ہیں جیساکہ متعدد متابع و شواہد کا ذِکر ہوا اور متعدد کاذِکر آگے آ
رہا ہے ۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ۵ ۳۶)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’امام ابو داود نے کہا: نضر بن کثیر سعدی نے
کہا کہ میری بغل میں عبد اللہ بن طاؤس نے مسجد خیف (مسجد منی ) میں نماز پڑھی تو
موصوف پہلے سجدہ سے سر اُٹھانے پر رفع الیدین کرتے تھے۔میں نے اسے منکر چیز سمجھ
کر اس کا ذکر وہیب بن خالد سے کیا تو وہیب نے عبد اللہ بن طاؤس سے اس کاذکر کیا
عبد اللہ بن طاؤس نے کہا کہ میں نے اپنے
باپ طاؤس کو ایسا ہی کرتے دیکھا اور میرے باپ کاکہنا ہے کہ ابن عباس کو میں نے
ایسا ہی کرتے دیکھا اورمیرا خیال ہے کہ ابن عباس نے کہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ ( سنن ابی داود مع عون المعبود ج ۱ ص ۲۶۹، الکنی للدولابی ج
۱۹۸۱ و المحلی لابن حزم ج ۴ ص ۱۹۸) اس روایت کے بنیادی راوی نضر بن کثیر سعدی ازدی
کی بابت امام ابن حبان کہا: یروی
الموضوعات عن الثقات لا یجوز الاحتجاج بہ بحال یعنی موصوف نضر ثقہ رواۃ کے
حوالہ سے موضوعات نقل کرتا تھا اس سے استدلال کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ (تہذیب
التہذیب ج۱ص ۳۶۶) البتہ نصر بن کثیر سے روایت کرنے والوں میں امام احمد بن حنبل
بھی ہیں جو صر ف اپنے نزدیک ثقہ سے روایت کرتے ہیں اس لیے موصوف متروک نہیں۔اس کا
مطلب یہ ہے کہ روایت مذکورہ غلط طور پر ذاتِ نبوی و ابن عباس و عبد اللہ بن طاؤس
کی طرف منسوب ہوگئی ہے مگر اس کے بنیادی راوی نضر بالکل ہی غیر ثقہ نہیں بلکہ
متابع ملنے پر قابلِ اعتبار ہیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ ۳۶۶)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’اوپر حضرت انس کی مرفوع حدیث اس معنیٰ و مفہوم
کی گذر چکی ہے اب ذیل میں مرقوم موصوف کی موقوف حدیث ملاحظہ ہو جو اس بات پر دلالت
کرتی ہے کہ اپنی روایت کردہ مرفوع حدیث کے متقضی پر موصوف
عمل پیرا تھے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ حدیث مذکور مرفوعاً ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو:
امام بخاری فرماتے ہیں کہ: حدثنا
موسیٰ بن اسماعیل ثنا حماد بن سلمۃ عن یحیٰ بن ابی اسحاق قال رأیت انس بن مالک
یرفع یدیہ بین السجدتینیعنی حضرت انس بن مالک دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے
تھے۔ ( جزء رفع الیدین للبخاری مع جلاء العینین حدیث نمبر ۱۰۵ ص ۱۸۰ و مصنف ابن
ابی شیبہ ج ۱ص ۲۷۱) امام بخاری نے مذکورہ بالا حدیث کے سلسلے میں کہا کہ وحدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولٰی ‘‘ یعنی حدیث
نبوی فعل انس کے بالمقابل زیادہ لائق عمل ہے۔ (جزء رفع الیدین ص۱۸۰) یعنی کہ امام
بخاری کو انس والی اس موقوف حدیث کی سند پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں ہے اور از
روئے تحقیق اس پر کلام ہے بھی نہیں۔ اس کی سند معتبر ہے اور اپنے معنوی متابع سے
مل کر زیادہ معتبرو قوی ہوجاتی ہے اورجہاں تک اس فرمانِ بخاری کامعاملہ ہے کہ
ارشاد نبوی فعل انس کے بالمقابل زیادہ لائق عمل ہے تو حضرت انس سے نیز متعدد صحابہ
سے اس حدیث کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہوتا متحقق ہے۔ہم حضرت انس سے مفہوم
کی مرفوع حدیث نبوی کا مروی ہونانقل کر آئے ہیں جو اپنے معنوی متابع سے مل کر صحیح
ہے ۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ ۳۶۷)
سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’عبید اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن
خطاب نے نافع سے نافع نے ابن عمر سے روایت کیا کہ موصوف ابن عمر نماز میں بوقت
تحریمہ ورکوع رفع الیدین کرتے تھے ،اسی طرح عبید اللہ مذکور نے زہری از سالم بن
عبد اللہ بن عمر سے بھی روایت کیا اور امام وکیع نے عبیداللہ مذکور از نافع از ابن
عمر اس حدیث کی نقل میں اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے وقت رفع
الیدین کے ساتھ سجدہ کے وقت بھی رفع الیدین کرتے تھے ۔ ( جزء رفع الیدین للبخاری
مع جلاء العینین حدیث نمبر ۸۰ ،۸۱ ص ۱۵۴،۱۵۵ ... والمحلی لابن حزم ج ۴ ص ۱۲۸،۱۲۹)مذکورہ
بالا حدیث کی سند صحیح ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر بن خطاب نے
سجدہ کے وقت بھی تحریمہ و رکوع کے وقت طرح رفع الیدین والی حدیث نبوی کی روایت کر
رکھی ہے اور موصوف ابن عمر اس پر عامل بھی تھے۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ۸ ۳۶)
ایک اشکال
اور اس کا جواب
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بوقت سجدہ رفع الیدین
والی حدیث ابن عمر سے بواسطہ نافع روایت کرنے والے عمری عبید اللہ بن عمر بن عمر
بن حفص عمری نہیں بلکہ ان کے بھائی عبد اللہ بن عمر بن حفص عمری ہیں جو عبیدا للہ
عمری کے بالمقابل ثقاہت میں کمتر ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ اوّلاً ہمارے نزدیک از
روئے تحقیق اس سند میں واقع عمری عبیداللہ ( بالتصغیر ای بالیاء ) ہی ہیں جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابن ابی شیبہ نے
کہاکہ: ....یعنی عبید اللہ ( ابن عمر بن حفص بن عاصم عمری ) نے نافع سے روایت کی
کہ ابن عمر پہلے سجدہ سے سراُٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج
۲۷۱۱)اس روایت کی سند میں عمری سے مراد عبید اللہ ( بالتصغیر ) ہونا واضح کر دیا
گیا ہے اور اس کی سند عبید اللہ تک صحیح ہے کیوں کہ عبید اللہ وابن ابی شیبہ کے
درمیان صرف ابو اسامہ کا واسطہ ہے جو ثقہ وحجت ہیں ا س لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں
کہ روایت جز ورفع الیدین میں واقع عمری سے مراد یہی عبید اللہ عمری ہیں اور جزو
رفع الیدین والی اور ابن ابی شیبہ والی روایت میں کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ ثانیا
جزو رفع الیدین والی اس زیر نظر روایت میں واقع عمری اگر عبد اللہ ( بغیر الیاء )
بن عمر بن حفص بن عاصم ہی ہوں جو عبید اللہ کے بھائی ہیں تو موصوف اگرچہ عبید اللہ
( بالیاء) کے بالمقابل ثقاہت میں کم ترہیں پھر بھی کلی طور پر ساقط الاعتبار نہیں
ہیں بلکہ عبید اللہ سے ثقاہت میں کم تر قرار دیتے ہوئے عام اہلِ علم نے ان کی
توثیق کی ہے ۔ بعض نے ایسے الفاظ میں تجریح کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ متابع ملنے
کی صورت میں موصوف کی روایت کردہ حدیث معتبر ہو جاتی ہے اور موصوف عبد اللہ بغیر
الیاء کی روایت کے معنوی متابع موجود ہیں۔ مزیز برآں یہ کہ حافظ ابن حزم کی روایت
میں بالصراحت عمری کی تعیین عبید اللہ بالیاء سے کردی گئی ہے۔ اسی بنا پر حافظ ابن
حزم نے اسے نقل کرنے کے بعد کہا کہ: ھذہ
الاسناد لا داخلۃ فیہ الخ یعنی اس سند میں کوئی بھی علت نہیں ہے ۔ (المحلی ج ۴ ص
۱۲۹) المحلی کے محشی علامہ شاکر نے اس موقعہ پر جو تعلیق کی ہے اس کا حاصل یہ ہے
کہ روایت مذکورہ کو عبید اللہ بالیاء کا روایت کرنا متحقق ہے اور یہ سند اصح
الاسناد ہے اور اس کی تائید مزید عبید اللہ بالیاء کے بھائی عبد اللہ بغیر الیاء
والی روایت سے بھی ہوتی ہے ۔
( تعلیق شاکر بر المحلی ج ۴ص ۱۲۹)‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ ۳۶۹)
امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت پر
تبصرہ اور زیادتِ ثقہ کی مقبولیت
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ امام بخاری کی اس بات کا حاصل یہ ہے کہ بہت
سارے رواۃ کی روایت کردہ یہ حدیث ابن عمر ہی محفوظ ہے کہ موصوف بوقت رکوع رفع
الیدین کرتے تھے یعنی کہ بوقت سجدہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے لیکن اگر عمری والی
روایت صحیح ہو تو حقیقی طور پر وہ ان سارے رواۃ کے خلاف نہیں ہے اور عمری والی
روایت مذکورہ ثابت ہونے کی صورت میں ہم دونوں ہی پر عمل کریں گے کیوں کہ کسی حدیث
میں صحیح طورپر ثابت شدہ اضافہ مقبول ہوتا ہے یعنی کہ عمری والے اس اضافہ کے مطابق
ہم سجدہ کے وقت بھی رفع الیدین کے قائل ہو جائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری مذکورہ
بالا تحقیق سے عمری والے اضافہ کا متحقق طور پر ثابت و صحیح ہونا واضح ہے جس کے
معنوی متابع بھی بہت ہیں۔ نیز بوقت سجدہ رفع الیدین کا ذِکر جس روایت کو امام
بخاری محفوظ کہہ رہے ہیں اس کے بنیادی رواۃ میں سے نافع، طاؤس، ایوب سختیانی،
مجاہد، عطاء، سالم، عبد اللہ بن دینار، قیس بن سعد، حسن بن مسلم، حسن بصری وغیرہ
بھی ہیں اور یہ سارے کے سارے حضرات بوقت سجدہ بھی تحریمہ و رکوع کے وقت کی طرح رفع
الیدین کرتے تھے ... ظاہر ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اگر بوقت سجدہ رفع الیدین والی
حدیث محفوظ نہ ہوتی تو یہ لوگ اساطین علم و دین ہوتے ہوئے بوقت سجدہ رفع الیدین نہ
کرتے۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز صفحہ ۳۶)
ابن عمر سے بسند معتبر سجدوں کا
رفع یدین مرفوعا وموقوفا مروی ہے
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’امام ایوب
سختیانی سے مروی ہے کہ رأیت طاؤسا و
نافعا یرفعان ایدیھما بین السجود قال حماد بن سلمۃ وکان ایوب یفعلہ یعنی طاؤس و
نافع نیز ایوب سختیانی سجدہ کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے۔ (المحلی لابن حزم ج ۴
ص ۱۳۰)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ابن عمر سے بسند معتبر مرفوعااور موقوفا دونوں طرح
سے بوقت سجدہ رفع الیدین والی حدیث مروی ہے اور موقوف روایت مرفوع کی اور مرفوع
موقوف کی متابع ہے اور اس مرفوع و موقوف روایت کی متعدد متابع و شواہد ہیں کمالایخفٰی۔ حافظ ابن حبان نے ثقات ج۴ ص ۱ ، و حافظ بیہقی نے کتاب
القراء ۃ ص ۹۴،۹۵ و حافظ ابن حجر نے النکت ص ۲۵۴ میں نیز عام اہلِ علم نے متابع و
شاہد کے لئے جو شرائط بیان کی ہیں وہ ابن زبیر سے میمون مکی کی روایت کردہ حدیث کے
لئے موجود ہیں ۔‘‘
رئیس محمد
ندوی غیرمقلد نے نماز میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی متعدد حدیثیں درج کی
ہیں۔ جب بقول اُن کے ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنا حدیثوں سے ثابت ہے تو یقینا
سجدوں کی تکبیروں کے ساتھ بھی رفع یدین کرنا ثابت ہوا ۔ مزید یہ کہ خود ندوی صاحب
نے بھی ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین میں سجدوں کے رفع یدین کو بھی شامل مانا ہے جیسا
کہ آگے آئے گا، ان شاء اللہ ۔
سیدنا ابن
عباس رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث
ندوی صاحب ’’ نماز کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع
الیدین کے متعلق حدیث ابن عباس‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں :
’’امام ابن ماجہ نے کہاکہ حدثنا ایوب
بن محمد الھاشمی ثنا عمر بن ریاح عن عبد اللہ بن طاؤس عن ابیہ عن ابن عباس ان رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ مع کل تکبیرۃ یعنی ابن عباس نے کہا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکبیر انتقال کے ساتھ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے ۔
(سنن ابن ماجہ ج ۱ص ۲۸۴) اس سند کے بنیادی راوی عمر بن ریاح عبدی بصری ضریر مجروح
و غیر ثقہ ہیں۔( میزان الاعتدال و تہذیب التہذیب و الکامل لابن عدی و الضعفاء
للعقیلی و المجروحین لابن حبان) اس سے اس روایت کے ناقل ایوب بن محمد ہاشمی ثقہ
ہیں ۔(عام کتب رجال ) لیکن ظاہر ہے کہ سند مذکور کے ساتھ اس روایت کے ساقط
الاعتبار ہونے سے اس مضمون کے صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ اس روایت
کا مضمون معتبر سندوں کے ساتھ ثابت ہے لہٰذا یہ روایت بھی بطور تائید اس مضمون کے
لیے مفید ہی ہے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقۂ
نماز صفحہ ۳۷۱)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
ندوی صاحب ’’ نماز کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کے متعلق
حدیث جابر بن عبد اللہ‘‘ عنوان کے تحت
لکھتے ہیں :
’’زیال بن حنظلہ نے کہا کہ میں
نے جابر عبد اللہ سے رضوانی صحابہ کی تعداد پوچھی تو موصوف نے چودہ سو بتلائی اور
یہ بھی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین
کرتے تھے ۔ ( مسند احمد ج ۳ ص ۳۱۰و مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۰۱ و تاریخ ِکبیر للبخاری
ج ۴ ق ۲ ص ۱۰۵)اس روایت کی سند کے راوی نصر بن باب بن سہل خراسانی مروزی متوفی
۱۹۳ھ متروک و غیر ثقہ ہیں۔ (لسان المیزان ج ۶ ص ۱۵۰، ۱۵۱ وعام کتب رجال ) نصر نے
یہ روایت حجاج بن ارطاۃ سے نقل کی جو مختلف فیہ مدلس ہیں اور موصوف نے اس کی نقل
میں تدلیس کی ہے ۔ بایں ہمہ اس کا مضمون معتبر اسانید سے ثابت ہے اس لیے اس سے اصل
مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ ۳۷۲)
ندوی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’امام ابن
ماجہ نے کہا: عمر بن قتادہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ہر
تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے ۔ ‘‘ ( سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۲۸۳والضعفاء للعقیلی ج ۱
ص ۶۴ والمجروحین ج ۱ ص ۳۰۴ و معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ج ۲ ص ۲۱۸ و خطیب بغدادی ج
۱۱ ص ۴۰۰) اس روایت کی سند کے بنیادی راوی رفدہ بن قضاعہ غسانی متروک و غیر ثقہ
ہیں اور ان سے اوپر والی سند میں عبید اللہ اور ان کے باپ دادا کے درمیان انقطاع
ہے۔ ( تہذیب التہذیب ج ۳ ص ۲۴۵،۲۴۶ترجمہ رفدہ بن قضاعہ ) اس کے باوجود اس روایت کا
مضمون معتبر سندوں کے ساتھ ثابت ہے۔ اس لیے یہ روایت مضمون مذکور کی مؤید ہے ،اسی
وجہ سے امام عقیلی نے اسے نقل کرکے اور اسے ساقط الاعتبار قرار دے کر کہا کہ ’’ الروایۃ فی
ھذا الباب ثابتۃ عن جماعۃ من اصحاب النبی علیہ السلام فاماھذا الاسناد فلا یعرف
الا من حدیث رفدۃ ھذا‘‘: یعنی اس مضمون کی روایت کئی صحابہ کی جماعت سے ثابت ہے
مگر اس کی یہ سند صرف رفدہ مذکور سے معروف ہے ۔ ( الضعفا للعقیلی ج ۲ ص ۶۵) امام
عقیلی کے اس بیان سے واضح ہے کہ سجدہ کے وقت رفع الیدین والی حدیث نبوی کو نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے معتبر سندوں کے ساتھ کئی صحابہ نے روایت کر رکھا ہے اور ہماری
پیش کردہ تفصیل سے ناظرین کرام پر واضح ہو گیا ہے کہ فی الواقع حدیث مذکور کو نبی
صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی صحابہ کا روایت کرنا معتبر سندوں کے ساتھ متحقق ہے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقۂ
نماز صفحہ۳۷۲)
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ ساری روایات ہم نے عبد اللہ بن زبیر سے مروی شدہ اس
حدیث کے متابع و شواہد کے طور پر پیش کی ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ ابن زبیر
تعلیم صدیقی و تعلیم نبوی کے مطابق تحریمہ و رکوع اور سجدہ کے وقت رفع الیدین کرتے
تھے البتہ یہ بھی ثابت ہے کہ سجدہ کے وقت والا رفع الیدین آپ ؐ اور صحابہ بعض
اوقات ترک کر دیا کرتے تھے کیوں کہ وہ مؤکد نہیں بلکہ غیر مؤکد سنت ہے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ۳۷۳)
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ واضح رہے کہ بوقت سجدہ رفع
الیدین کے اثبات میں جو روایات ہم نے پیش کی ہیں وہ اپنی معلومات کی حد تک ہیں
ورنہ ہم کویقین ہے کہ ذخائر احادیث اور کتب احادیث میں تلاش و تتبع سے اس سے زیادہ
روایات حاصل ہو سکتی ہیں۔ قلت فرصت اور
دوسرے امور کے ساتھ کثرت اشتغال و شدت انہماک کے باعث ہم تلاش و تتبع کی طرف زیادہ
توجہ نہیں دے سکے۔ جتنی روایات ہم نے بوقت سجدہ رفع الیدین کے ثبوت میں پیش کی ہیں
جن میں کچھ ضعیف و کچھ صحیح ہیں وہ سب کی سب بوقت رکوع رفع الیدین پر بھی صراحت کے
ساتھ دلالت کرتی ہیں...حافظ ابن حزم و شیخ اکبر ابن عربی بھی تکبیرات انتقال پر
رفع الیدین کو مستحب مانتے ہیں۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقۂ
نماز صفحہ۳۷۳)
قبلہ اسلام مسجد حرام کے امام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ
رئیس محمد ندوی غیرمقلد ’’ قبلہ اسلام
مسجد حرام کے امام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ‘‘عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ میمون مکی نے کہا موصوف نے عبد
اللہ بن زبیر کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو نماز کے دَوران ابن
زبیر اپنی دونوں ہتھیلیوں کے ذریعہ بوقت تحریمہ و بوقت رکوع و بوقت سجدہ و سجدہ سے
فارغ ہو کر دوسری رکعت کے لیے اُٹھتے وقت اشارہ کرتے تھے یعنی ان تمام مواقع ِ
نماز میں موصوف ابن زبیر رفع الیدین کرتے تھے۔ ابن زبیر کو اس وصف والی نماز پڑھتا
دیکھ کر میں حضرت عبد اللہ بن عباس کے پاس گیا اور میں ان سے بولا کہ میں نے اس
وصف والی نماز کسی کو بھی پڑھتے نہیں دیکھا۔ میں نے ابن عباس سے ابن زبیر کی
پڑھائی ہوئی نماز کا وصف بیان کر دیا۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا کہ اگر تم نماز
ِنبوی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو اور مشاہدہ کرکے نماز پڑھنا چاہتے ہو توابن زبیر کی
نماز کا مشاہدہ کرکے اسی طرح کی نماز تم بھی پڑھا کرو۔ وصف مذکور والی نماز ابن
زبیر طریقِ نمازِ نبوی کے مطابق ہے۔ ( سنن ابی داود مع عون المعبود ج ۱ ص ۲۶۹و
معجم کبیر للطبرانی ج ۱۱ ص ۱۳۳) یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر
نے طریق ِ نماز کی تعلیم حضرت ابو بکر صدیق سے حاصل کی تھی اور حضرت ابو بکر نے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ مذکورہ بالا اس روایت میں تحریمہ و رکوع کے وقت رفع
الیدین کے ساتھ سجدہ جاتے اور سجدہ سے سر اُٹھاتے وقت بھی ابن زبیر کا رفع الیدین
کرنا مذکور ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ طریق نمازِ نبوی و طریق نماز صدیقی میں یہ
بات بھی شامل ہے کہ سجدہ جاتے او ر سجدہ سے سر اُٹھاتے وقت بھی رفع الیدین کیا
جائے۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ ۳۴۹)
ندوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ ناظرین کرام دیکھ رہے ہیں کہ اس
روایت کے مطابق وصف مذکور والی نماز کو ابن عباس نے بھی طریقِ نماز نبوی قرار دیا
ہے ۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ ۳۵۰)
تنبیہ: ندوی صاحب نے مذکورہ حدیث کی سند کو ضعیف قرار دے کر
اس کا قوی متابع تسلیم کیا چنانچہ وہ ایک روایت درج کرکے لکھتے ہیں:
’’ یہ روایت
ِ صحیحہ میمون مکی والی روایت کی قوی متابع ہے ۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ ۳۵۱)
اکابر تابعین
کا رفع یدین
ندوی
صاحب’’اکابر تابعین کا رفع یدین ‘‘عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت عطاء
بن ابی رباح نے طریقِ نماز کی تعلیم عبد اللہ بن زبیر سے اور ابن زبیر نے صدیق
اکبر سے اور صدیق اکبر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پائی ہے اور ابن جریج سے بسند
صحیح منقول ہے کہ... میں نے عطاء سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ تحریمہ کے وقت
اور رکوع جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت اور قعدہ اُولیٰ کے بعد تیسری رکعت کے
لیے اُٹھتے وقت رفع الیدین کرتے ہیں کیا آپ کو اس کے لیے کوئی شرعی دلیل ملی ہے؟
موصوف عطاء نے کہاکہ ہاں۔ (مصنف عبد الرزاق ج ۲ ص ۷۰ و المحلی لابن حزم ج ۴ ص ۹۵)
اس روایت ِ صحیحہ سے معلوم ہو تا ہے
کہ عطاء تحریمہ و رکوع کے علاوہ مواقع مذکورہ پر بھی رفع الیدین کرتے تھے اور وہ
یہ رفع الیدین بتصریح خویش اپنے پاس پہنچی ہوئی دلیل کے مطابق کرتے تھے اور اس
دلیل سے مراد وہی تعلیم ابن زبیر والی دلیل ہی ہو سکتی ہے ۔ا س لئے یہ روایت صحیحہ
میمون مکی والی روایت کی قوی متابع ہے ۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا صحیح طریقۂ نماز صفحہ۳۵۱)
ندوی صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’امام بخاری نے فرمایا کہ قال وکیع عن
الربیع قال رأیت الحسن و مجاھدا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں